• 4 مئی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 14)

9۔ کونٹی کے ناظم اعلیٰ کے دفتر سے فون آیا کہ ناظم اعلیٰ صاحب ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں جس میں انہوں نے آپ کو بھی بلایا ہے۔ چنانچہ خاکسار دو دوستوں کو ساتھ لے کر ناظم اعلیٰ کے دفتر پہنچ گئے۔ پریس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو ہوشیار کیا جائے کہ علاقہ میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اور خصوصاً مذہبی تنظیموں اور لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔

اس پریس کانفرنس میں کونٹی کے ناظم اعلیٰ، چیف آف پولیس اور HATE CRIME کو آرڈینیٹر Mr Baker ایک یہودی مذہبی راہنما، ایک عیسائی اور خاکسار نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

خاکسار کا تعارف خود کونٹی کے ناظم اعلیٰ نے کرایا۔ اپنے بیان میں خاکسار نے یہ کہا کہ انسانیت سے پیار اور محبت کیا جائے۔

LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE

اسی ایک طریق سے ہم معاشرہ سے نفرت دور کر سکتے ہیں اور انسان کو انسان کے قریب لاسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مذہبی لیڈر اہم کردار ادا کریں اور اپنے اپنے لوگوں کو اس پر عمل کرانے کی تلقین کریں۔

پریس کے لوگوں کے بعض سوالات کے جواب بھی خاکسار نے دیئے۔ چیف آف پولیس اور HATE CRIME کے کوآرڈینیٹر مسٹر بیکر جماعت سے پہلے ہی سے کافی متعارف ہوچکے تھے اور مسجد بیت الرحمان تشریف لاچکے تھے اور جو پرابلم ہمیں 11؍ستمبر کے سانحہ کے بعد پیش آئے اُن سے وہ اچھی طرح متعارف تھے انہوں نے پریس کو اپنی بریفنگ میں ہماری مسجد کے حوالہ سے ذکر کیا۔

دو اخباروں نے ان کے حوالہ سے اپنے اخباروں میں لکھا اور ایک اخبار نے خاکسار کےحوالہ سے اپنے اخبار میں خبر دی۔

یہ پریس کانفرنس منٹگمری کونٹی کے لوکل چینل پر پوری کی پوری کئی مرتبہ دکھائی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر لوکلTVپر بھی مختصراً آچکی ہے۔

یہاں پر موجود ایک TVچینل والوں کو خاکسار نے کہا کہ آپ ہماری مسجد میں بھی تشریف لائیں چنانچہ کانفرنس کے ختم ہونے کے فوراً بعد ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہ مسجد آچکے تھے اور مسجد بیت الرحمان کے فوٹو اور پوز لیتے رہے۔ چنانچہ شام کی خبروں میں انہوں نے ہماری مسجد کے حوالہ سے خبر پڑھی۔ مسجد کے باہر جو بڑا بینر لگا ہوا ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کی تصویر بھی نمایاں طور پر دکھائی۔ غیر از جماعت دوستوں نے بھی اس خبر کو TVپر دیکھ کر ہمیں اطلاع دی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

10۔منٹگمری کونسل ممبرز کی ہر ماہ میٹنگ ہوتی ہے۔ جس میں مختلف مذاہب کے لیڈر آکر میٹنگ کے شروع میں دعا کراتے ہیں۔ چنانچہ خاکسار کو بھی اس کے لئے دعوت ملی۔ اس موقعہ پر چیف آف کونسل نے خاکسار کا جماعت احمدیہ اور مسجد بیت الرحمان کے حوالہ سے تعارف کرایا یہ پروگرام LIVE لوکل چینل پر دکھایا گیا۔ اس کے بعد بھی 2 مرتبہ TVپر دکھایا گیا۔

11۔ اوپر ایک پینل ڈسکشن کا ذکر کیا تھا جو TVپر دکھایا گیا اس میں ایک یہودی ربائی مائیکل فیش بیک بھی تھے۔ خاکسار نے انہیں مسجد دیکھنے کی دعوت دی۔ چنانچہ وہ مسجد آئے، انہیں نمائش بھی دکھائی گئی۔ تراجم قرآن اور اسلامی لٹریچر بھی، انہوں نے حضور انور کی عیسائیت کے بارے میں جو کتاب CHRISTIANITY A JOURNEY FROM FACT TO FICTION بڑے غور سے اور دلچسپی کے ساتھ دیکھی۔ اور لینے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ اس میں ضرور یہودیوں کا بھی ذکر ہوگا۔ چنانچہ اس کتاب کے ساتھ اور کتب بھی لے گئے۔

12۔ یہ واقعہ جو لکھنے لگا ہوں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ میں اچانک کسی کام کے سلسلہ میں مسجد کے دفتر سے باہر نکلا تو باہر پارکنگ لاٹ کے قریب کچھ لڑکیوں کو بھاگتے دیکھا۔ میں بھی قدرے تیز تیز چل کر پہنچا وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کے جانے ہی لگی تھیں میں نے راستہ روک لیا۔

اُن کا سانس پھولا ہوا تھا۔ رنگ زرد پڑگیا تھا۔ عجیب قسم کے سفیدلباس میں ملبوس تھیں اوپر سے لے کر پاؤں تک ڈھکا ہوا تھا۔ جس طرح خلا میں جانے والوں کا ہوتا ہے۔ میں نے انہیں روکا تو بڑی مشکل سے اُن کی آواز نکلی جو سمجھ بھی نہ آئی۔ خاکسار نے اُن سے کہا کہ آپ ڈرو نہیں، ہم مسلمان ایسے نہیں ہیں جو تم سمجھ رہی ہو۔ اپنی طرز اور سمجھ میں وہ پردہ کر کے آئی تھیں اور چوری چھپے اپنے سکول کے پراجیکٹ کے لئے مسجد کی تصویریں اور ویڈیو کیمرہ سے فلم بنا رہی تھیں۔ خاکسار نے انہیں کہا آپ مسجد کے اندر آئیں مسجد دیکھیں اپنی ویڈیو مکمل کر لیں۔ کوئی سوالات ہوں تو وہ بھی کرلیں۔

بڑی مشکل سے انہیں یقین آیا کہ انہیں قید نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی کوئی سزا دی جائے گی۔ چنانچہ وہ مسجد آئیں مسجد میں موجود دوستوں کو میں نے اُن کے اس واقعہ کے بارے میں بتایا سب دوست ہنسے، سب سے پہلے سوال و جواب کے سلسلہ میں میں نے پوچھا آپ لوگوں کے اس طرح کے لباس پہن کر آنے اور پھر اس طرف بھاگنے کی کیا وجہ تھی؟

وہ کہنے لگیں کہ ہم تو عیسائی ہیں۔ سکول کا پراجیکٹ تھا جو کہ تھا بھی بہت ضروری کہ مسجد میں جائیں اور فلم بنائیں اور پوری کلاس کو سمجھائیں۔

لیکن مسلمانوں نے جو عورتوں کے ساتھ سلوک کیا ہے یا کرتے ہیں (انہوں نے افغانستان اور سعودی عرب کی عورتوں کے بارے میں حوالہ دیا جو وہاں عورتوں سے سلوک کیا جاتا ہے) کے حوالہ سے بتایا کہ انہوں نے TV پر بہت سی خبریں دیکھی ہیں جس سے انہیں یہ احساس ہے کہ آپ لوگ عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہو۔ نیز سر سے لے کر پاؤں تک پردہ کراتے ہو اور جونہ کریں انہیں مارتے اور قید بھی کر دیتے ہو وغیرہ۔

یہ سن کر دل میں اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ سخت شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ مسلمانوں نے خود اسلام کو بدنام کرنے میں کسر نہیں چھوڑی بہرکیف ان پانچ طالبات کے سوالوں کے جواب دیئے گئے۔ تواضع کی گئی۔ لٹریچر بھی دیا گیا چنانچہ وہ خوش ہو کر واپس لوٹیں۔ الحمد للہ۔

13۔ یونی ٹیرین چرچ کی ایک پادری اپنے 90 لوگوں کو مسجد بیت الرحمان دکھانے کے لئے لائیں۔ اس کا پروگرام ہم نے پہلے سے بنایا ہوا تھا۔ ان سب کو ڈنر بھی پیش کیا گیا مسجد اور نمائش بھی دکھائی گئی۔ اس کے بعد تقاریر ہوئیں۔ پادری نے اپنے عقائد اور مذہبی رسومات کے بارے میں بتایا۔ خاکسار نے اسلام میں توحید کا نظریہ اور دیگر تعلیمات و عقائد کے بارے میں بیان کیا۔ بعد میں بڑے عمدہ رنگ میں سوال و جواب بھی ہوئے۔

14۔ کولمبیا یونین کالج کا پہلےبھی ذکر ہوا ہے۔ اس کے ایک اور پروفیسر اپنے 12 طلباء کو لے کر شام ½7 بجے آئے یہ ایک گھنٹہ کا پروگرام تھا مگر ½9 بجے واپس گئے۔ سوال و جواب دلچسپ رہے۔ 11؍ستمبر کے حوالہ سے جہاد کے بارے میں اسلامی نظریہ اور اس قسم کے متعلقہ سوالات ہوتے رہے۔ اس طرح ان طلباء کی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کے ازالہ کی توفیق ملی۔ لٹریچر بھی ساتھ لے کر گئے۔ الحمد للہ۔

15۔ منٹگمری کونٹی کے رفاہی ادارے کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا۔ چنانچہ خاکسار مکرم اقبال خان صاحب، امجد صاحب، اسلم پرویز اور چند دوستوں کے ساتھ اس میٹنگ میں شامل ہوا۔ یہاں پر جماعتی تعارف اور جماعت جن جن رفاہی کاموں میں حصہ لے رہی ہے بتانے کا موقع ملا۔ اس میٹنگ میں بھی علاقہ کے 10پادری صاحبان اور مذہبی لیڈر شامل تھے اُن سب کو جماعت امریکہ کا احمدیہ گزٹ، مسجد بروشر اور عائشہ میگزین دیا گیا (عائشہ میگزین لجنہ اماء اللہ یوایس اے کی پبلیکیشن ہے)

16۔ کمیونٹی کونسل کی طرف سے بھی ایک دعوت نامہ موصول ہوا خاکسار جماعت کے دوستوں کو ساتھ لے کر اس میں شریک ہوا۔ یہاں پر 30 کے قریب غیر مسلموں سے تعارف کا موقعہ ملا۔ اور لٹریچر بھی دیا گیا۔

17۔ 2001ء دسمبر میں کونٹی ایگزیکٹیو (کونٹی کے ناظم اعلیٰ) نے مسجد بیت الرحمان میں سالانہ دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اور اس میں مذہبی لیڈروں اور عوام کو دعوت نامہ بھی انہوں نے ہی بھجوایا تھا۔ ایک سکول کے 60 کے قریب طلباء بھی شامل ہوئے تھے۔

چنانچہ ان مذہبی لیڈروں اور سکول کے طلباء کی تصاویر بھی احمدیہ گزٹ میں رپورٹ کے ساتھ شائع کی گئی تھی۔ جب ناظم اعلیٰ کو یہ احمدیہ گزٹ بھجوایا گیا تو ان کے سیکرٹری کی طرف سے فون آیا کہ کونٹی کے ناظم اعلیٰ کی طرف سے ایک تو شکریہ قبول کریں نیز اس پبلیکیشن یعنی احمدیہ گزٹ کو باقاعدگی کے ساتھ ہمارے دفتر میں بھجوایا کریں اس سے اسلام کے بارے میں ہمیں اچھی انفارمیشن ملتی رہیں گی۔ اسی طرح سکول میں ایک کاپی ارسال کی گئی تھی انہوں نے مزید 8 کاپیاں احمدیہ گزٹ کی منگوائیں۔

18۔ مسٹر ٹیڈڈوور کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ انہوں نے 9؍جون کو اپنے چرچ میں ہمارے ساتھ ایک پروگرام رکھا تھا یہ اتوار کا دن تھا اور ان کی عبادت کا بھی۔ چنانچہ ان کی عبادت کے دو سیشن تھے ایک صبح 9بجے اور ایک 11بجے ہر دو میں شمولیت کا موقع ملا اور جماعت کے 6 افراد بھی ساتھ تشریف لے گئے تھے۔

پادری TED DURR نے اپنی تقریر میں 11؍ستمبر کے واقعہ کا ذکر کیا نیز مسجد بیت الرحمان میں آکر تقاریر سننے کا ذکر بھی کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے حاضرین کو سمجھایا کہ جب متشدد قسم کے مسلمانوں نے تہذیب یافتہ دنیا کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو ہم امید کر رہے تھے۔ کہ اس کے خلاف کون سے امن پسند مسلمان ہیں جو آواز اٹھائیں گے اور ان لوگوں کو چیلنج کریں گے جو قرآن کے معانی کو غلط جامہ پہنا کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ہمیں وہ مسلمان مل گئے ہیں، ہمارے ہمسایہ میں یہ کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے حال ہی میں ایک کتابچہ اس عنوان پر شائع کیا ہے کہ JIHAD AND WORLD PEACE
پادری محترم نے اس کتابچہ سے کئی اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ اس کتابچہ میں قرآن سے جو ریفرنس دیئے گئے ہیں انہوں نے وہ سارے خود چیک کئے ہیں جو کہ درست ثابت ہوئے ہیں انہوں نے سب حاضرین کو اس کتابچہ کے پڑھنے کی تلقین کی۔ (اُن کی تقریر کا یہ حصہ لف ہذا ہے) یہ کتابچہ اس وقت سب کو دستیاب کر دیا گیا تھا۔ ہم ایک بڑی تعداد میں ساتھ لے کر گئے تھے۔

ہر دو سیشن کی حاضری 350 کے قریب تھی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

19۔ یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔ انہوں نے بھی 9؍جون کو ہمیں اپنے چرچ میں دعوت دی تھی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں پر بھی اسلامی تعلیم بیان کرنے کی توفیق ملی نیز ہر دو مذکورہ چرچ کے احباب کو جلسہ سالانہ امریکہ میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی گئی جو کہ 28-29 اور 30؍جون کو مسجد بیت الرحمان میں ہونا تھا۔ اس چرچ میں بھی حاضری 100 کے قریب تھی۔ دونوں جگہ سوال و جواب بھی ہوئے تھے۔

20۔ مسٹررچرڈ کواسکی کا ذکر بھی پہلے ہوچکا ہے ان کو اور ان کےچرچ کے لوگوں کو جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت کا جب دعوت نامہ دیا گیا تو یہ مجھ سے ملنے آئے کہنے لگے کہ اصل بات یہ ہے کہ جب میں پہلی مرتبہ آپ کی مسجد میں آیا تو خوف محسوس کر رہا تھا۔ پھر دوسری مرتبہ آیا تو زیادہ اچھا لگا اور خوف کم ہوا۔ اب تیسری مرتبہ آیا ہوں تو بالکل دوستانہ ماحول میں ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ میرے یہ سب کچھ بتانے کا مقصدیہ ہے کہ جب میری یہ حالت ہے تو میرے چرچ کے لوگوں کی یا عام لوگوں کی کیا کیفیت ہوگی۔ لوگ مسجد آتے ہوئے خوف اور جھجک محسوس کرتے ہیں۔ میں نے کہا اس کا تو بڑا اچھا علاج ہمارے پاس ہے، وہ کہنے لگے کہ کیا میں نے کہا کہ جلسہ سے پہلے ہم آپ کے لوگوں کی مسجد میں دعوت کرتے ہیں چنانچہ 16؍جون کو یہ اپنے چرچ کے 110 لوگ لے کر ہماری مسجد بیت الرحمان میں تشریف لائے۔

ہم نے سب کو پہلے لنچ پیش کیا۔ جو سب نے بہت پسند کیا پھر ایک سوال و جواب کی مجلس منعقد کی گئی۔ خاکسار نے حاضرین کو مسجد بیت الرحمان کے بارے میں بتایانیز اسلام کی امن کے بارے میں تعلیم کو پیش کیا۔ مذہبی رواداری کے واقعات سنائے اور پھر سوالوں کے جواب دیئے۔ الحمدللہ کہ اس طرح ان لوگوں کے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی توفیق ملی۔ انہوں نے بھی شکریہ کا خط لکھا جو لف ہذا ہے۔

خاکسار یہاں پر دعا کی خاطر کچھ دوستوں کا ضروری طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیشہ ساتھ دیا بلکہ پورا پورا تعاون بھی کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب بھی کوئی تبلیغی موقعہ ہوا انہوں نے ضیافت کا حق بھی خوب ادا کیا۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء۔

ان کے نام درج ذیل ہیں۔

مکرم چوہدری امجدصاحب، مکرم چوہدری اسلم پرویز صاحب، مکرم چوہدری مشتاق صاحب ، مکرم سید آفتاب علی شاہ صاحب، مکرم اقبال خان صاحب، مکرم محمود احمد بھٹی صاحب، مکرم ملک رفیق صاحب، مکرم عثمان چوہدری صاحب، مکرم ناصر احمد صاحب، مکرم نسیم عارف صاحب، مکرم طارق بھٹی صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ آمین
خاکسار مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے لئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہے کہ جنہوں نے سانحہ 11؍ستمبر کے فوراً بعد خاکسار کو بلا کر راہنمائی کی اور پھر حوصلہ افزائی فرماتے رہے اور جب بھی بیماری کے دوران ان سے ملنے گیا انہوں نے ہمیشہ ہی ان رابطوں کے بارے میں پوچھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔

مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب جو اُس وقت امیر جماعت امریکہ تھے نے بھی مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی بیماری کے دوران اور بعد میں بھی راہنمائی فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین

خاکسار نے یہ رپورٹس مکرم ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب لندن کی خدمت میں بھی بھجوائی تھیں۔

اس سلسلہ میں ایک اور رپورٹ پریس کورج اور 11/9 کی ہر سال کی برسی کے موقعہ پر یہاں کی حکومت اور دیگر تنظیموں میں جو تقاریب ہوئیں ان میں شامل ہو کر کس طرح ہماری خبروں کو پریس میں کورج ملی اور کس طرح اسلام کی صحیح تعلیمات کا پرچار کیا گیا اور اسلام کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کا کس طرح ازالہ کیا گیا پیش ہے:
اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہر سال حکومتی سطح پر 11/9 منایا جاتا رہا اس وجہ سے دیگر مذہبی اور سیاسی تنظیمیں بھی نہ صرف اس میں شامل ہوئی ہیں بلکہ ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ خود بھی اس برسی کو منائیں۔ میں نے تو ایک دفعہ کہہ دیا تھا کہ جوں ہی 11/9 کا زخم مندمل ہونے لگتا ہے اگلے سال آپ پھر اس کو کھرچنے کی کوشش کرتے ہو اور زخم کو دوبارہ تازہ کر دیتے ہو۔ جس سے پھر مسلمانوں کے خلاف ابال پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور متشدد قسم کے لوگ پھر بے جا حرکتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے لئے اس طرح بہتر ہو جاتا تھا کہ تبلیغ کی راہیں کھل جاتی تھیں اور لوگوں میں جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کی ذات مقدس کے بارے میں شکوک و شبہات ہوتے تھے یا انہوں نے سنی سنائی باتوں پر یقین کیا ہوتا تھا کہ مسلمان د ہشت گرد ہوتے ہیں جیسا کہ ہائی سکول کی طالبات کا واقعہ خاکسار پہلے درج کر چکا ہے۔ ان کو دور کرنے کا موقع مل جاتا تھا اور یہی آگے ان چند سطور مین پیش کیا گیا ہے۔

1۔ 11ستمبر 2002ء کو واشنگٹن کی ایک یورنیورسٹی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے صدر ، نائب صدر، سیکرٹری اور دیگر ممبرز آف سٹاف نے یونیورسٹی کے سامنے ایک لان میں Inter Faith Prayer کا انتظام کیا۔ جس میں انہوں نے مختلف مذاہب کے مذہبی لیڈرز کو دعائیں کرنے کے لئے بلایا۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں انہوں نے ایک اخبار سے ہماری خبر پڑھی اور ہمیں بھی اس پروگرام میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اپنی بارے آنے پر خاکسار نے قرآنی آیات اور دعائیں پڑھیں نیز موقعہ کی مناسبت سے اسلام کی مذہبی رواداری اور پرامن مذہب ہونے کے بارے میں بیان کیا۔ میٹنگ کے اختتام پر صدر نے خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور پھر لوگوں کو مزید اسلام کے بارے میں متعارف کرانے کا موقع ملا۔ خاکسار لٹریچر بھی ساتھ لے کر گیا تھا جو یونیورسٹی کے صدر، نائب صدر اور پروفیسر صاحبان کو دیا گیا، عوام الناس نے اور طلباء نے بھی دلچسپی لی اور سوالات پوچھے انہیں بھی لٹریچر دیا گیا۔ اس موقعہ پر 300 سے زائد حاضری تھی۔

2۔ مسجد بیت الرحمن میں بھی 11 ستمبر 02ء کی شام کو ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔

اس سلسلہ میں 25 مذہبی تنظیموں سے رابطہ کیا گیا اور انہیں اس تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی چنانچہ 16 نے ہماری دعوت کو قبول کیا۔ دوسروں نے معذرت کی کہ اس دن خود ان کے ہاں دعائیہ تقریب ہے لیکن بعض مذہبی لیڈروں اور لوگوں نے ہماری تقریب میں بھی شرکت کی اور اپنے اپنے پروگراموں میں بھی شامل ہوئے اور کچھ لوگ ہمارے پروگرام میں بھی شامل ہوئے اور دیگر مذاہب کے پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ اس کے لئے ہم نے ایک پریس ریلیز بھی تیار کیا جسے اخبارات میں بھجوایا گیا۔ چنانچہ علاقہ کے 3 اخبارات (ایک نیشنل، ایک ریجنل اور ایک لوکل) نے 11 ستمبر سے قبل انٹرویوز لئے اور 10ستمبر کی اشاعت میں شامل کئے ایک لوکل اخبار «The Gazette» نے تو ایک ہی اشاعت میں 2 انٹرویوز شامل اشاعت کئے الحمد للہ۔ ایک اشتہار بھی اس دعائیہ تقریب کا انہوں نے خود ہماری طرف سے شائع کیا۔

اس دعائیہ تقریب کا ایک بہت بڑا بینر مکرم کلیم اللہ خان آف میری لینڈ نے بنایا جسے مسجد بیت الرحمن کے باہر Fence پر لگایا گیا اور 3 طرفہ ٹریفک جسے آسانی کےساتھ پڑھ سکتی تھی اس میں لوگوں کو اس تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ Working Day تھا پھر بھی لوگوں نے بہت دلچسپی لی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 225 غیرمسلم اس تقریب میں شامل ہوئے۔ الحمد للہ
اس موقعہ پر مختلف مذاہب کے 21 سپیکرز تھے جنہوں نے اپنےا پنے مذہبی کتب سے امن کے لئے دعائیں کیں ہر سپیکر کو 3 سے 4 منٹ دیئے گئے تھے۔

خاکسار نے تقریب کے آغاز میں تلاوت قرآن کریم کے بعد Welcome ایڈریس پیش کیا جس میں انسانیت سے پیار اور انسانیت کے نام پر متحد ہونے کی تلقین کی۔ نیز صاف دل اور پاک دل ہو کر بغیر کسی تعصب کے، دشمنی کے، دعائیں کرنے کی تلقین کی۔ نیز اس سلسلہ میں اسلامی تعلیم کی وضاحت کی گئی۔

تمام مہمانوں کو تقریب سے قبل ہی کھانا بھی پیش کیا گیا جسے سب نے بہت پسند کیا۔ زیادہ تر سپیکرز عیسائیوں کے مختلف چرچوں کے پادری تھے۔ اس کے علاوہ 2 یہودی رابائی، ایک بدھ مت اور ایک سکھ ازم نیز ہمارے علاوہ مسلمانوں کے بھی 2 سپیکرز تھے۔

منٹگمری کونٹی کے ناظم اعلیٰ کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی تھی انہوں نے اپنا نمائندہ اس کے لئے بھجوایا۔

کمیونٹی منسٹری آف راکولس اور کمیونٹی منسٹری آف منٹگمری کونٹی نے بھی اپنے اپنے نمائندے بھجوائے۔

2عیسائی پادری جو اپنے چرچوں میں تقاریب کی وجہ سے ہمارے ہاں شامل نہ ہو سکے لیکن معذرت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ای میل کے ذریعہ ہماری تقریب کا پروگرام اپنے لوگوں تک پہنچایا۔

تقریب کے اخر میں مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب صدر جماعت میری لینڈ نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

مذہبی لیڈروں نے اور انفرادی طور پر بعض لوگوں نے بذریعہ فون اور خطوط بھی جماعت کا شکریہ ادا کیا اور تقریب سے متعلق اپنے تاثرات بھجوائے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے یہ پروگرام ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا۔

مکرم امجد چوہدری صاحب، مکرم اقبال خان صاحب، مکرم اسلم پرویز صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ بہت محنت سے کام کیا اللہ تعالیٰ ان کو احسن جزا دے۔ آمین

ایک شخص Mr. Stephen D. Murphy نے شکریہ کا خط لکھا اور اپنے چرچ کے دوسرے لوگوں کو بذریعہ ای میل اپنے تاثرات بھی بھجوائے جس میں انہوں نے ہمارے متعلق لکھا:
’’کہ آپ لوگوں کی گرمجوشی، محبت اور مہمان نوازی آپ کے مذہب کی کھلی کھلی تعلیم کے نتیجہ میں تھی۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو مفید لٹریچر اس موقعہ پر آپ نے ہمیں مہیا کیا۔

اپنے لوگوں کو انہوں نے لکھا کہ اگر چہ 11 ستمبر کی شام کو میں نے چرچ میں جانے کا پروگرام بنایا تھا لیکن میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک مسجد بیت الرحمن میں جو جماعت احمدیہ کی مسجد ہے میں بھی دعائیہ تقریب ہے۔ اس سے قبل ہمیں کسی مسلمانوں کی مسجد میں جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اس لئے ہم نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور چرچ کی دعا میں شامل ہونے کی بجائے مسجد کی دعائیہ تقریب میں شامل ہوا۔ یہ بہت ہی متاثر کن اور دل پر اثر کرنے والی میٹنگ تھی۔ جماعت احمدیہ کے لوگوں نے ہمارا بڑا گرمجوشی کےساتھ استقبال کیا۔ یہ ہمارے لئے نہ صرف خوشی بلکہ اعزاز تھا کہ ہم اس تقریب میں شامل ہوئے۔‘‘

ایک عیسائی خاتون Mrs. Kathy نے شکریہ کے خط میں لکھا:
’’میں ذاتی طور پر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں اس قسم کی میٹنگ کا اہتمام بہت زیادہ محنت چاہتا ہے، مجھے اس سے قبل کبھی بھی کسی مسجد میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ہی اس سے قبل مختلف مذاہب کے لوگوں کو سننے کا موقع ملا سوائے اپنے کیتھولک پادریوں کے یہ موقعہ میرے لئے بہت اچھا تھا کہ میں آپ لوگوں سے ملی اور کمیونٹی کے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے آپ کی مہمان نوازی کا بہت شکریہ۔‘‘

ایک اور عیسائی خاتون نے لکھا: ’’میں اور میرا خاوند مسجد بیت الرحمٰن میں دعائیہ تقریب میں شامل ہوئے تھے اس اجتماع میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو دیکھ کر دل بہت متاثر ہوا۔ اور یہ احساس ہوا کہ ہم سب خدا کے بندے ہیں۔ خواہ کسی طریقے سے بھی ہم عبادت کریں۔ ہم آپ کی مہمان نوازی کے بھی شکر گزار ہیں۔‘‘

3۔ یونائیٹڈ میتھوڈسٹ چرچ والوں کے ساتھ بھی ہمارا رابطہ ہوا تھا۔ اس چرچ کی ایک فیملی مسجد بیت الرحمن کی ہمسائیگی میں ایک میل سے کم فاصلے پر رہتی ہے۔ یہ ہماری 11 ستمبر کی دعائیہ تقریب میں بھی شامل ہوئے تھے انہوں نے اپنے گھر چرچ کے 18 ممبرز بلائے ہوئے تھے ہمیں بھی اس میں بلایا گیا تھا۔ پروگرام ایک گھنٹہ کا تھا جس میں اسلام کا تعارف اور سوال و جواب ہونے تھے۔ پروگرام اس قدر دلچسپ رہا کہ ایک گھنٹہ کی بجائے 2 ½ گھنٹے صرف ہوئے۔ خاکسار نے اسلام کے تعارف پر 15 منٹ تقریر کی۔ پھر سوال و جواب ہوئے۔ انہوں نے Understanding Islam اور جہاد کے بارے میں بھی ہمارا لٹریچر لیا۔ سوال و جواب کی مجلس میں بھی جہاد کا موضوع زیر بحث آیا ۔ الحمد للہ اس طرح اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کے ازالے کی توفیق ملی۔

4 ۔ ایک یہودی مسٹر ڈیوڈ نے بذریعہ فون ہم سے رابطہ کیا۔ یہ بھی ہماری 11 ستمبر کی دعائیہ تقریب کی میٹنگ میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی عبادت گاہ میں بلایا۔ ہم 8 افراد پر مشتمل دوست وہاں گئے۔ قریبا 2 ½ گھنٹہ رہے۔ اسلام اور یہودیوں کے مذہہب میں جو چیزیں مشترک ہیں ان کے بارے میں زیادہ تر گفتگو رہی۔

5۔ 29 ستمبر کو ہم نے Open House کیا۔ جس کا مطلب تھا کہ مسجد بیت الرحمن سب کے لئے کھلی اور جو لوگ ہماری مسجد میں تشریف لائیں اور مسجد دیکھیں گے ان کےساتھ سوال و جواب کی مجلس بھی ہو گی۔ اس غرض کے لئے بھی ایک بڑا بینر بنوا کر باہر لگایا گیا اور لوگوں کو دعوت دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کےفضل سے 45 غیرمسلم اس پروگرام میں شامل ہوئے سب سے پہلے انہیں کھانا پیش کیا گیا پھر مسجد دکھائی گئی اور نمائش میں مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور دیگر معلومات بہم پہنچائی گئیں۔

اس کے بعد ان کے ساتھ سوال و جواب کی مجلس ہوئی جو بہت دلچسپ رہی۔ اس میں 5 عرب بھی شامل ہوئے تھے۔

6۔ ایک نائیجیرین مسلمان فیملی کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ انہوں نے خاکسار کو اپنے بچہ کے عقیقہ کی تقریب میں بلایا تھا۔ خاکسار ایک اور دوست مکرم امجد چوہدری صاحب کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ وہاں پر 15 اور نائیجیرین دوست تھے۔ ان میں سے کچھ تو احمدیت سے واقف تھے ان کے ساتھ ایک گھنٹہ تک احمدیت کے بارے میں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اختلافات کے بارے میں اور مسیح کی آمد ثانی کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ ان سب کو مسجد بیت الرحمن آنے کی دعوت دی گئی چنانچہ ان میں سے 9 احباب مسجد میں تشریف لائے اور ان کے ساتھ احمدیت پر مزید گفتگو ہوئی۔ لٹریچر بھی ساتھ لے کر گئے۔

7۔ یہاں پر دیگر مذہبی تنظیمیں خصوصاً عیسائی تنظیمیں مل کر کچھ رفاہی کام کرتی ہیں اس میں مختلف مذاہب کے لیڈر اور ان کے ممبرز شامل ہوتے ہیں۔ اس میں ایک پادری کے ذریعہ ہمیں بھی شامل ہونے کا دعوت نامہ ملا۔ خاکسار جماعت کے 5 دوستوں کے ساتھ اس میں شامل ہوا۔ یہاں پر قریباً 1200 (بارہ سو) کی حاضری تھی۔ وہاں پر لوگوں سے ملاقات اور جماعت کا تعارف کرانے کا موقع ملا۔ الحمد للہ۔

8۔ ایسٹ افریقہ کی ایک فیملی سے رابطہ ہوا۔ یہ یوگنڈاسے تھے پھر خاکسار ان کے ساتھ مسلسل فون پر رابطہ رکھا۔ا ن سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے ملک کے دیگر باشندوں کو جو ادھر رہتے ہیں کو ہماری طرف سے مسجد بیت الرحمن میں ڈنر کی دعوت دیں۔ چنانچہ ایک دن مقرر کر کے سب کی دعوت کی گئی۔ الحمد للہ کہ 17 لوگ شامل ہوئے۔ کھانے کے بعد سوال و جواب کی مجلس لگی۔ اس سے قبل انہوں نے مسجد بیت الرحمٰن میں نمائش بھی دیکھی۔ نمائش کے دوران بھی مسیح کی آمد ثانی اور دیگر موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

9۔ ایک عیسائی پادری جو مسجد سے 11 میل دور ایک چرچ St. Philip’s Episcopal Parish کے پادری ہیں، سے بھی رابطہ ہوا۔ خاکسار نے انہیں مسجد آنے کی دعوت دی ان کے ساتھ 1 ½ گھنٹہ تک اسلامی تعلیمات کے بارے میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ پادریوں سے گفتگو کرنے پر یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ اسلام کے بارے میں یا توان کو کچھ بھی علم نہیں ہے اگر ہے تو بہت سطحی قسم کا ۔ یا پھر جو کچھ انہوں نے بھی سن رکھا ہے اور وہ بھی ایسا جس سے یہ اسلام کے منفی پہلو ظاہر کرتے ہیں۔

10۔ ایک چرچ کے پادری جو کہ ہمارے ہمسایہ میں ہیں ایک دن مسجد تشریف لائے۔ اس وقت ہماری نماز ظہر کا وقت تھا، انہوں نے مسجد کے حصہ میں بیٹھ کر نماز دیکھی کہ کس طرح پڑھتے ہیں۔

پھر دفتر میں تشریف لائے اور گفتگو کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ آچکے ہیں۔ لیکن آج ان کا سوال تھا کہ ’’آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں؟‘‘ خاکسار نے نماز کا چارٹ انہیں دکھایا جس میں مکمل نماز باتصویر عربی اور انگریزی ترجمہ کےساتھ تھی دکھائی۔ انہوں نے بغور اسے پڑھا اور پھر کہنے لگے کہ کیا میں یہ چارٹ اپنے گھر لے جا سکتا ہوں۔ انہوں نے یہ چارٹ اب اپنے گھر لٹکایا ہوا ہے۔

11 ۔ یونائیٹڈ پلگرم چرچ کے پادری کی آنر میں ان کے چرچ نے ایک دعوت کی ہوئی تھی۔ جس میں خاکسار بھی مدعو تھا۔ چنانچہ خاکسار مکرم مختار احمد چیمہ صاحب، مکرم ظفر سرور صاحب، مکرم ارشاد ملہی صاحب کے ساتھ ان کی تقریب میں شامل ہوئے۔ تقریب کے بعد چرچ کے لوگوں کے ساتھ تعارف اور سوال و جواب کا موقع ملا۔

12۔ بالٹی مور کے ایک بہت بڑے چرچ میں رفاہی کام کرنے والی 2 آرگنائزیشز کی میٹنگ تھی جس میں لیفٹیننٹ گورنر آف میری لینڈ بھی شامل تھیں۔ اس میٹنگ میں شرکت کے لئے خاکسار کو بھی دعوت نامہ ملا تھا اور پروگرام میں خاکسار کا نام بھی تھا کہ Opening Prayer کرنی ہے۔ خاکسار نے دعا کرنے سے پہلے 5 منٹ تک انسانیت کے احترام اور انسانیت کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اس مختصر تقریر کے بعد ہال میں خوب تالیاں بجائی گئیں۔ خاکسار کے ساتھ جماعت کے 4 افراد بھی شامل ہوئے تھے۔ اس موقعہ پر ایک محتاط اندازے کے مطابق 3500 سے زائد حاضری تھی۔ ہم خود تو اتنے لوگوں کو بلا نہ سکتے تھے مگر ہمارے مولیٰ نے خود انتظام کر دیا اور پیغام حق پہنچانے کا موقع پیدا کر دیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

اس موقعہ پر سٹیٹ آف میری لینڈ کی اہم شخصیات اور مذہبی لیڈروں سے تعارف کا موقع بھی ملا۔

13 ۔ ورجینیا سے ایک یہودی ملنے آیا۔ وہ ایک کتاب لکھ رہا تھا اس نے جو سوالات کئے اور اسلامی نظریہ معلوم کرنا چاہا تو ان کے جواب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی 2 کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج تھے ۔ یعنی

1.Revelation, Rationality, Knowledge and Truth
2.Islam Response to Contemporary Issues.

جب انہیں حضور انور کی دونوں کتب سے یہ جوابات دکھائے گئے تو لینے کی خواہش کا اظہار کیا کہ میں ان سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ کتب لے کر گیا۔

14 ۔ سیرالیون مغربی افریقہ کے سفیر امریکہ میں Hon. John Leigh اپنا وقت پورا کر چکے ہیں۔ اس وجہ سے سیرالیون کے سفارتخانے نے ان کی آنر میں ایک عشائیہ دیا اس عشائیہ میں ہمیں بھی بلایا گیا تھا۔ چنانچہ خاکسار مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب اور میاں اسماعیل وسیم کو ساتھ لے کر ان کی اس تقریب میں شامل ہوا۔ اس موقعہ پر سینٹ کے ممبران، مغربی اور مشرقی افریقہ کے ممالک کے سفراء کرام اور دیگر اہم شخصیات سے تعارف کا موقع ملا۔ تقریب میں خاکسار کو بھی کچھ کہنے کا موقع ملا۔ اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے انہیں تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

مرسلہ: (مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘‘

اگلا پڑھیں

جماعت احمدیہ سُرینام کی مساعی اورخاص اعزاز