مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ (الہام حضرت مسیح موعود ؑ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا وفات مسیح ناصری ؑسے گہرا تعلق ہے
معاندین احمدیت ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعویٔ مسیحیت کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات ووفات سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے نزدیک اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت بھی ہوچکے ہوں تو ان کی وفات کا حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعویٰ سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ چنانچہ مشہور دیوبندی عالم مولانا مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:۔
’’حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات ووفات سے مرزا جی اور انکے دعوؤں کا کوئی تعلق نہیں‘‘
(علامات قیامت اور نزول مسیح صفحہ 12)
قارئین کرام! اصل بات یہ ہے کہ حیات ووفات مسیح کے مسئلہ سے ان علماء کا انتہائی واضح فرار اور صریح گریز صرف اورصرف اس بناء پر ہے کہ ان کو معلوم ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی حیات عیسٰی ثابت نہیں کرتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اس بھیانک خیال کودور سے دھکے دیتی ہیں۔جبکہ اس کے بر عکس قرآن کریم ا وراحادیث نبویہ و فات مسیح کاببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں۔ ان علماء کو معلوم ہے کہ متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ قطعیت سے وفات مسیح ثابت کر رہی ہیں۔اس لیے سوچا کہ اگر عوام الناس میں حیات مسیح ثابت کرنے کی کوشش کی تو سوائے شرمندگی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔بہتر یہی ہے کہ اس کھوکھلی بحث پرزور دیا جائے کہ مرزا صاحب کے دعوی کو حیات ووفات مسیح ناصری سے کوئی تعلق نہیں۔
حالانکہ بڑی واضح بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں مسیح کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس خبر کو سو فیصد سچا مانتی ہے۔اس عظیم الشان پیشگوئی کے دو ہی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہو گا کہ دو ہزار سال پہلے آنے والے مسیح ناصری اب دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ دوسرا مفہوم یہ ہو گا کہ آنے والے مسیح سے مراد مثیل مسیح ہے۔اور آنے والے موعود کی چونکہ مسیح ناصری سے بہت زیادہ مشابہتیں اور مماثلتیں ہونی تھیں اسلئے آنے والے موعود کو مسیح کا نام دے دیا گیا جیسے بہادر آدمی کو شیر کہہ دیتے ہیں اور سخی آدمی کو حاتم طائی۔
ان علماء کا یہ خیال ہے کہ مسیح ناصری اب تک آسمان پر زندہ ہیں اس لیے اس پیشگوئی کے مطابق اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے وہی آسمان سے تشریف لائیں گے۔ جبکہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ چونکہ از روئے قرآن کر یم واحادیث مبارکہ حضرت عیسی علیہ السلام باقی انبیاء کی طرح وفات پا چکے ہیں اور قرآن کریم اور احادیث نبوی کے مطابق مردے دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آتے اس لئے لازماً آنے والے مسیح موعودسے مراد مثیل مسیح موعود ہیں نہ کہ مسیح ناصری۔
معزز قارئین! مذکورہ بالا الفاظ پر غور کریں دو اور دو چار کی مانند یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ اگر حضرت عیسٰی علیہ السلام از روئے قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ثابت ہو جائیں تو حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ خود بخود جھوٹا ثابت ہو جائے گا کیونکہ آپ کے دعوے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور آپ کو ان کا مثیل بنا کر بھیجا گیا ہے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اور مسئلہ وفات مسیح
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰة والسلام کے دعویٰ کی بنیاد آپ کا یہ الہام ہے ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ402)
مذکورہ بالا الہام میں دو دعوے ہیں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا ہے اور اس پر بنیاد رکھتے ہوئے دوسرا دعویٰ حضرت مرزا صاحب کا مثیل مسیح ہونے کا ہے۔ ایک ادنیٰ شعور کے آدمی کو بھی یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ اگر مرزا صاحب کے الہام میں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا غلط ہے جو دوسرے دعویٰ کی بنیاد ہے تو لازماً دوسرا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا سو فیصدغلط ہو گا۔ اس لئے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے دعویٰ کا وفات مسیح کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا کہ اگر تم حیات مسیح ثابت کر دو تو اس صورت میں میری طرف سے ایک نشان کیا اگر ایک لاکھ نشانات بھی ہو ں تب بھی وہ قابل قبول نہیں ہو ں گے۔ میں توبہ کر لوں گا اور مسئلہ وفات مسیح سے متعلقہ اپنی تمام کتب کو نذر آتش کر دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے باے میں عام اطلاع دے دوں گا۔ چنانچہ ذیل میں چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کو وفات مسیح سے گہرا تعلق ہے۔
حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کو وفات مسیح سے گہرا تعلق ہے
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے اپنے زمانے کے بڑے اور نامور علماء سید مولوی محمد نذیر حسین دہلوی اور مولوی عبد الحق مؤلف تفسیر حقانی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات …ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے۔ بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا اور ان تمام نشانوں کی پروانہیں کروں گا جو میرے اس دعویٰ کے مصدق ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں‘‘۔
(اشتہار 2اکتوبر 1891ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ235,236 ایڈیشن1989)
حیات مسیح ثابت ہونے کی صورت میں لاکھ نشان بھی قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں گے
ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا:۔
’’سب سے پہلے بحث کے لائق وہی امر ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن اورحدیث اس دعوے کے مخالف ہیں اور وہ امر مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر درحقیقت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں پھر اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوے پر ایک نشان کیابلکہ لاکھ نشان بھی دکھاوے تب بھی وہ نشان قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن ان کی مخالف شہادت دیتا ہے۔ غایت کار وہ استدراج سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا سب سے اول بحث جو ضروری ہے مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات کی بحث ہے جس کا طے ہو جانا ضروری ہے کیونکہ مخالف قرآن و حدیث کے نشانوں کا ماننا مومن کا کام نہیں۔ ہاں ان نادانوں کا کام ہے جو قرآن ا ور حدیث سے کچھ غرض نہیں رکھتے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ239.240 اشتہار 6اکتوبر 1891ء ایڈیشن1989)
میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا
ایک اور اشتہار میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی جو پورے ہندوستان میں اہلحدیث کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے جنھوں نے نصف صدی کے قریب حدیث پڑھائی تھی اور پورے ملک میں شیخ الکل مشہور تھے، کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
’’اس قدر تو خود میں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعوی مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن وحدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰ ابنِ مریم آسمان پر بجسد عنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے۔تو گو میرا دعوی ہزار الہام سے موید اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھلاؤں، تاہم وہ سب ہیچ ہیں۔ کیونکہ کوئی امر اور کوئی دعوی اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت! ایک جلسہ بحث مقرر کرکے میری دلائل پیشکردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیہ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابنِ مریم کا بجسدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تألیف کی ہیں، جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا۔‘‘
(اشتہار 17اکتوبر 1891ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 242)
اپنے قول سے رجوع کر وں گا
پھر ایک اور اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا ۔(یہ اشتہار آپ نے مولوی نذیر حسین صاحب کی وفات و حیات مسیح پر بحث سے انکار پر تحریر فرمایا)
’’میں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اپنے اس الہام پر غلطی پر نکلا اور آپ نے نصوص صریحہ بینہ قطعیہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو ثابت کر دکھایا تو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعوے سے دست بردار ہو جاوں گا، اپنے قول سے رجوع کر وں گا۔ اپنے الہام کو اضغاث احلام قرار دے دوں گا اور اپنے اس مضمون کی کتابوں کو جلا دوں گا اور میں نے اللہ جلشانہ کی قسم بھی کھائی کہ در حالت ثبوت مل جانے کے میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘
(اشتہار 23اکتوبر 1891ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 261)
صدق و کذب کا معیار
’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں۔ اور اگر وہ درحقیقت قرآن کی رو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر۔اب قرآن درمیان میں ہے۔ اس کو سوچو۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ نمبر178 روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ264)
’’ہمارے دعوے کی جڑھ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات ہے۔ اس جڑ ھ کو خدا اپنے ہاتھ سے پانی دیتا ہے اور رسول اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ44 روحانی خزائن جلد20 صفحہ246)
قارئین کرام ان مذکورہ حوالوں کو غور سے ملاحظہ فرمائیں۔ان حوالوں کو پڑھنے کے بعد ایک ادنی فہم کا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٔ مسیحیت ومہدویت کو توڑنے کے لیے صرف حیات مسیح کی ایک آیت کافی ہے۔اگر یہ لوگ حیات مسیح کو قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں توایسی صورت میں ان نام نہاد مسلمان علماء کواحمدیت کی مخالفت میں نہ تو تنظیمیں بنانے کی ضرورت پڑے گی نہ ہی راتیں جاگ کر لاکھوں صفحات سیاہ کر کے کتب لکھنی پڑیں گی۔ آخر کیا ضرورت ہے کہ گلی گلی محلے محلے اتنی محنت کر کے احمدیت کے خلاف جلوس نکالے جائیں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اشتعال انگیز تقاریر کی جائیں۔ بہتر یہی ہے کہ جماعت احمدیت کو باطل کرنے کے لیے حیات مسیح کا ثبوت پیش کر دیں۔ ان نام نہاد علماء کو معلوم ہے کہ حیات مسیح کا عقیدہ قرآن وحدیث میں نہیں ہے نہ ہی ان کے پاس اس کے حق میں عقلی دلائل ہیں۔چونکہ دلائل وبراہین سے تہی دست ہیں اس لیے ان کو انتہائی غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد یہی تدبیر سوجھی کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوی کو مسیح کی وفات سے کوئی تعلق نہیں، کا نعرہ لگا کر عوام کی توجہ اصل موضوع سے ہٹا دی جائے۔ لیکن حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے مذکورہ بالا حوالے اور ان کے علاوہ آپ کی متعدد تحریرات ان علماء کے اس بے بنیاد دعوی کو جڑھ سے اکھاڑنے کے لیے کافی ہیں۔
میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اے ناظرین !میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کا قرآن وحدیث میں ایک ذرہ نشان نہیں ملتا لیکن ان کی وفات پر کھلے کھلے نشان اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ موجود ہیں۔‘‘
(اشتہار 23اکتوبر 1891 مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ257)
میرا دعوی صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ قرآن شریف،حدیث اور عقل اس کی مصدق ہے
پھر آپ اشتہار 26مارچ 1891ء میں تحریرات فرماتے ہیں:۔
’’میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القاء سے حق کو کھول دیا ہے اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ در حقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی یحیٰی کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے۔اس زمانے کے لیے جو روحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کی خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے وہ میں ہوں۔یہ خدا تعالیٰ کافعل ہے جو لوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور میں کھول کر کہتا ہوں کہ میرا دعوی صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدق ہے۔تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں۔ عقل خدا داد بھی اس کی مؤید ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 203)
(مرسلہ: (ساجد محمود بٹر ۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا))