• 6 جولائی, 2025

یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آنحضرتﷺ سے عشق و محبت اور آپ پر درود بھیجنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو محبت کی اور جس طرح نوازا اس ذکر کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
’’پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَ خَاتَم النَّبِیِّیْن۔ اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اور اُسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں‘‘۔ یعنی آنحضرتﷺ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا اونچا مرتبہ ہے۔ ’’اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے‘‘۔

پھر فرماتے ہیں۔ فارسی کے کچھ شعر ہیں۔

ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہر و ماہ را نیست قدرے در دیار دلبرم
آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب
واں کجا باغ کہ می دارد بہار دلبرم

یعنی میرے دوست کے مقابلے میں، میرے محبوب کے مقابلے میں کوئی بھی محبوب نہیں ہے۔ میرے دوست کے مقابلے میں تو چاند اور سورج کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ چہرہ کہاں ہے جو اس کے چہرہ کی طرح چمک دمک رکھتا ہو اور وہ باغ کہاں ہے جس میں میرے دوست کی طرح بہار آئی ہو۔

فرمایا کہ: ’’اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے جوش میں ہے لیکن وہ جو زندہ کرنے والا ہے اس کا تعین نہیں ہوا کہ وہ کون ہو گا ’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحی کی تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا کہ ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ جس نے دوبارہ دین کا احیاء کرنا ہے یہ وہ شخص ہے۔ جو آنحضرتﷺ سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ اور کوئی محبت نہیں کرتا۔ ’’اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘ یعنی احیاء دین کے لئے جو شرط ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں ہو۔ ’’سووہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ اور اسی شخص میں پائی جاتی ہے۔ ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کوبھی نہایت عظیم دخل ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہونی چاہئے۔ ’’اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبین، طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعدعین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیْبَتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہہ تھی ایک عجیب عالَم ظاہر ہوا‘‘۔ یعنی بیداری کے عالم میں اونگھ کی سی کیفیت تھی۔ اس میں اس طرح ہوا ’’کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بہ سرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی ؓ وحَسْنَین و فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا‘‘۔ اب اس پر بھی بعض مخالفین کو اعتراض شروع ہو جاتا ہے کہ سر ران پر رکھنے سے۔ اپنی ذہنی حالت کا دراصل وہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ کہ اتنا غلط مطلب نکالتے ہیں کہ شرم آتی ہے۔ کوئی مسلمان کہلانے والا ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔ آپ فرما رہے ہیں کہ ’’مادر مہربان کی طرح‘‘۔ اب ماں کے مقام کی جو مثال ہے اس کے بارے میں بھی جو غلط سوچ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے حال پر رحم کرے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ یہ فرمایا ہے کہ سامنے آ کر کھڑے ہو گئے جس طرح بچہ کو ساتھ چمٹا لیتے ہیں۔ چمٹا لیا ساتھ۔ تو فرمایا کہ ’’مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیاہے۔ اور اب علی و ہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک‘‘۔

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 599-597 حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)

پس دیکھیں اس عاشق صادق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی محبت جو آپ کو اپنے آقا اور محبوب سے تھی کہ بے انتہا درود بھیجا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نوازا جیسا کہ اس سے ظاہر ہے۔

پس آج ہمیں بھی اس محبت کے نمونے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو جلد سے جلد اس آقا کی غلامی میں لا سکیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہے تاکہ دنیا میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہو۔

(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2020