حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان مخالفین کواس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری عقلوں او ر آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ آج تمہارے پاس طاقت ہے تو تم جو چاہو کرنے یا کہنے کی کوشش کرو، کرتے رہو، کہتے رہو۔ مولوی کی آنکھ پر پردے تو پڑے ہوئے تھے ہی اور ہیں ہی۔ ان کا کام تو صرف فساد اور نفرتیں پھیلانا ہی ہے افسوس تو اس بات کا ہوتاہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی باوجود جاننے کے اور ذاتی مجالس میں اس کے اظہار کے پھر بھی کھلے عام یہ اعتراف نہیں کرتے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جوسب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی ہے اور آپ کی تعلیم کی پیروی کرنے والی ہے۔ اِکّا دُکّا آپ کو ملیں گے، آپ کے دوست ہوں گے، یہی اعتراف کریں گے۔ لیکن اس علم کے باوجود کبھی کھل کے نہیں کہہ سکتے۔ اور جیسا کہ مَیں نےکہا، بعض دفعہ اظہا ر ہوچکاہے، اور اس اظہار کے باوجود، 1974ء میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جوقانون پاس کیا تھااس کے بارہ میں بھی اظہار ہوتاہے کہ یہ غلط تھا۔ اور اس وقت مُلّاں کو خوش کرنے کے لئے یا جو بھی مقاصد تھے اس زمانے کی حکومت کے ان کو پورا کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اس سے سوائے ملک میں بدامنی اور بے چینی کے ملک کو کچھ اور نہیں ملا، بے چینی اور بدامنی ضرور ملی ہے۔ یہ اظہار کرتے ہیں غیر بھی۔ پھر بھی مُلّاں کے پیچھے چلتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تو مَیں اس کی تفصیل نہیں بتا رہا۔
ایک قانون کا ذکر یہاں کرنا ہے جو چند سال سے بنا ہوا ہے پاکستان میں۔ ہتک رسول کا قانون ہے۔ اور مُلّاں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح احمدیوں کو اس قانون کے تحت پھنسایا جائے اور الزام لگایا جائے اور بعض بظاہر جو بڑے پڑھے لکھے کہلاتے ہیں۔ پڑھے لکھے سے مراد ہے بظاہر پڑھے لکھے۔ ہیں تو پڑھے لکھے ہی قانون دان ہیں، حکومتوں کے جج ہیں۔ یہ مولوی کے ڈر سے یا اللہ کے خوف کی کمی کی وجہ سے یا جو بھی وجہ ہو احمدیوں کو اس ہتک رسول کے الزام کے تحت سزا دے دیتے ہیں، بغیر تحقیق کے کہ حقائق کیا ہیں۔ باوجود یہ پتہ ہونے کے کہ مولوی جھوٹ بھی بولتا ہے اور جھوٹی گواہیاں بھی دلواتا ہے احمدی کے خلاف فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک احمدی کو جنہوں نے چند سال ہوئے بیعت کی تھی، نوجوان آدمی تھا اس کے خلاف گاؤں کے ایک مولوی نے ایف آئی آر کٹوائی کہ یہ میرے پاس مسجدمیں آیا تھا اور ایک دوسوالوں کے بعد کہا کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے۔ نعوذ باللہ۔ اور الفاظ بھی کیسے لکھتے ہیں ایف آئی آر اس وقت میرے پاس ہے ان کی حالت دیکھیں۔ کہ مَیں فلاں جگہ کا مولوی ہوں اور میرے پاس فلاں فلاں آدمی موجود تھے کہ اقبال ولد فقیر محمد قوم فلاں جو احمدی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اچانک میرے پاس آیا اور مجھے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ آپ کا کیا مذہب ہے تو میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ پاک کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے اور ان کے علاوہ پیروں فقیروں کو بھی ماننے والاہوں۔ ان کو تو کم مانتے ہیں پیروں فقیروں کو زیادہ مانتے ہیں۔ تو دوبارہ اس نے سوال کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بتلائیں۔ تو مَیں نے اسے کہا کہ تم کسی عالم دین کے پاس چلے جاؤ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے وہ آپ کو مسئلہ حل کر دیں گے تو اقبال مذکور اس احمدی نے کہا کہ آپ کا نبی جھوٹا ہے اور یہ فلاں فلاں نے بات سنی اور وہ دوڑ گیا۔ یعنی کوئی سرپیر نہیں ہوتا ان کی باتوں کا کہ خود جا کے کہا کہ مجھے مارو۔ اتنے بے وقوف نہیں ہیں احمدی۔ ایک تو محبت کا تقاضا ہے ایسی بات کہہ نہیں سکتے۔ اگر دنیاداری کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایسی بات کہے گا۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جج صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اس بے چارے کو عمر قید کی سزا سنا دی اور دس ہزار روپے جرمانہ۔ تو جیل میں ہے آج کل۔
ایسے لوگوں سے انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اسی سے مانگنا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کو آئے گا اور جو ہمارے اسیران ہیں ان کو خود احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح جیل میں مدد فرما رہا ہوتاہے۔ باوجود تنگی کے کبھی احساس نہیں ہو رہا ہوتاایسے ایسے فضل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو مدد کو انشاء اللہ آنا ہے اور آئے گا۔ ججوں کو بھی جوفیصلے سنانے والے ہیں ان کو بھی یاد رکھناچاہئے کہ ان کے اوپر ایک احکم الحاکمین ہے جو بغیر کسی جنبہ داری کے انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ تم لوگ کسی مظلوم کو سزا تو دے سکتے ہو۔ لیکن ٹھیک ہے اس کے پاس اختیار نہیں ہے، کچھ نہیں کرسکتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بہرحال نہیں بچ سکتے۔ اب بعض مولوی بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے احمدیوں کو کہتے ہیں، بعض اخباروں میں بھی آ جاتا ہے، تقریریں بھی کرتے ہیں کہ اگر تم احمدیت سے منحرف ہو جاؤ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں سب سے بڑا عاشق رسول سمجھیں گے اور اپنے سینے سے لگائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں کیا پتہ کہ عشق رسول کیا ہوتا ہے۔ جس شخص کو تم چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہو اسی سے تو ہم نے عشق رسول کے اسلوب سیکھے ہیں۔ عشق رسول کی پہچان تو ہمیں آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے ملی ہے۔ ان کو چھوڑ کر ہم تمہارے پاس آئیں جن کے پاس سوائے گالیوں کے اور غلیظ ذہنیتوں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔جماعت احمدیہ کی تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی عشق رسول کے اظہار اور غیرت دکھانے کا معاملہ آیا احمدی ہمیشہ صف اول میں رہا، اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا۔ پرانے زمانے میں مذہبی اختلاف کے باوجود کچھ شرافت تھی، کچھ قدریں تھیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر اسلام کے دفاع کے لئے، آنحضرتﷺ کے لئے غیرت دکھانے کے لئے کوئی کام ہوا تو غیروں نے بھی اس کا برملا اظہار کیا۔ جماعت کی خدمات کی توصیف و تعریف کی۔ آجکل کے اخباروں کی طرح، لوگوں کی طرح خوف زدہ ہو کر نہیں بیٹھ گئے کہ پتہ نہیں کیا مصیبت آ جائے گی ہم پہ اگر ہم نے کچھ کہہ دیا۔ یہ جرأت پاکستان میں تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش میں ظاہر ہو رہی ہے۔ ان کے عوام نے بھی دکھائی ہے۔ ان کے سیاسی لیڈروں نے بھی دکھائی ہے ان کے اخباروں نے بھی دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جو اس جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)