انڈونیشیا تاریخ کے آئینہ میں
اور ایک یادگار سفر کی روداد
انڈونیشیا کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو اس کی اہمیت اس حوالہ سے ملتی ہے کہ ابتدائی دور میں یہ نسل انسانی کا مسکن رہا ہے۔یہاں سے ایسے آثار ظاہر ہوئے ہیں کہ جن کی تحقیق کی بنیاد پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ پانچ کروڑ سال پہلے یہاں ابتدائی دور میں ایسے جاندار آباد تھے جن کی شکل آج کے انسان سے ملتی ہے گویا وہ ابتدائی انسان تھے۔ چلتے چلتے جب بات تمدن ، تہذیب اورمذہب تک پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں ہندو مت نے اپنا رنگ جمایاجو افسانوی رنگ میں اپنے اس غلبہ اور پرچارکی بہت ساری کہانیاں لئے ہوئے ہے۔ اس حوالہ سے ہندو سادھو آجی ساکو (Aaji Saku) کا ذکر محفوظ ہے۔ یہاں کی جگہوں کے کئی نام بھی ہندوانہ رہے ہیں۔ اور پھر اشوک اعظم کے مبلغین بھی بدھ مت کی تعلیمات کے ساتھ وہاں پہنچے۔وہاں پر بدھوں کا جو ایک عظیم ترین مندر Bodobodar ہے اس کو دیکھتے ہوئے بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے یہ لگتا ہے کہ کسی دور میں بدھ مت یہاں کی اکثریت کا مذہب تھا۔
مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں کئی ہندو اور بدھ بادشاہتوں کا قیام رہا۔ انڈونیشیا اور عرب دنیا کے تعلقات اسلام کی آمد سے پہلے کے ہیں مگر اسلام کی آمد کے بعد اس کے اندر تک رسائی ہوئی جب خلفائے راشدین کے دور میں حجاز، یمن ، ایران ، ہندوستان اور ملتان تک جانے والے تاجر مبلغین نے اسلام کی پرامن اور محبت سے بھری تعلیم کا نمونہ پیش کیا اور بارھویں صدی میں باقاعدہ تبلیغی اثر قائم ہوگیا۔مگر ایک بات جو اس ملک کے باشندوں کی خاصیت لگتی ہے کہ یہاں کے لوگ شروع سے ہی بڑے روادار تھے اور ہر ایک کی مذہبی آزادی اور اس کے پرچار کے خواہاں تھے۔ماضی میں بھی کسی جنگی جارحیت میں نہ شامل ہوئے نہ خود مرتکب ہوئے۔اور نہ کبھی باہر سے کسی جارحانہ اثر کو قبول کیا۔ اس وجہ سے اسلام کو بھی یہاں کسی سخت مخالفت کا سامنا نہ ہوا سوائے ایک سلطنت کے جو مجا پاہتMujapahat کے نام سے جانی جاتی تھی۔وہاں کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ہوتا تھا۔
جاوا میں اشاعت اسلام چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی۔
انڈونیشین تاریخ کا ایک منفرد پہلو ہے کہ انڈونیشین بادشاہ جہاں اپنا نیک نمونہ دکھاتے رہے وہاں اسلام کے مبلغ بھی ہوتے تھے۔
آخر کار پندرھویں صدی میں یہ ظلموں کے ستائے ہوئے مسلمان اس ہندو سلطنت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور وہاں کے ہندوؤں کو بھاگ کر بالی Bali میں پناہ لینا پڑی۔ یہ واحد واقعہ ملتا ہے کہ جب مسلمانوں نے ہندوؤں کے خلاف تشدد والا رویہ اختیار کیا ہو۔
تیرھویں صدی میں مارکوپولو جب یہاں آیا تو اس نے مسلمانوں کو یہاں خوشحال پایا۔پھر ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامہ میں سماٹرا کے سلطان کے شہنشاہ ہند کے ساتھ سفارتی تعلقات کا ذکر کیا ہے۔سولہویں صدی میں پرتگیزی ملاح اس علاقہ میں پہنچے جو ان کے ہاں Spice Islands کے نام سے جانا جاتا تھا۔آج بھی یہاں سے پام آئل اور گرم مصالحہ جات دنیا بھر میں جاتے ہیں۔ مگر اس وقت یہ پرتگالی اور ڈچ اقوام عیسائیت سمیت اپنا وہ اثر یہاں قائم نہ کرسکیں جو اسلام کا تھا۔ان پرتگالی اور ڈچ حکمرانوں نے اپنا اثر قائم کرنے کے لئے بہیمانہ طریق تک اختیار کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں ان کے خلاف اور بھی نفرت بھر گئی۔ان جزائر کو انہوں نے ڈچ ایسٹ انڈیز یا مشرقی نیدرلینڈ کا نام تک دے دیا تھا۔انہوں نے طاقت اور ظلم سے ظاہری حکومت تو قائم کرلی مگر دلوں کو فتح نہ کرسکے ۔اس لئے انڈونیشین قوم ان سے آزادی کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی اور ہر بڑی سے بڑی قربانی دیتی رہی۔ آخر عبدالرحیم سوکارنو اور محمد حتیٰ Soekarno & Hatta جیسے لوگوں نے جنم لیاجو تعلیم کی روشنی کو اپنا ہتھیار بناکر کھڑے ہوئے۔اپنی سرزمین کے لئےانڈونیشیا کے لفظ کو بھی انہی لوگوں نے متعارف کروایا۔دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے ان جزائر کو ہالینڈ سے چھین کر انڈونیشیا کا نام تو دے دیا مگر جہاں وہ کئی محاذوں سے پیچھے ہٹے وہاں1945ء میں اس کو بھی خیر باد کہہ گئے۔اورمقامی سیاسی لیڈروں نے اپنی آزادی کااعلان کرتے ہوئے ایک آزاد انڈونیشیا کی پارلیمنٹ بنادی۔ مگر ڈچ فوجوں نے جب دوبارہ اپنا حق جتانا چاہا توانہیں ناکام لوٹنا پڑا۔ 30دسمبر1949ء کو یونائیٹڈ سٹیٹس آف انڈونیشیا کا قیام عمل میں آگیا اور پھر یہ فیڈریشن آف انڈونیشیاآخر ایک ریاست کے طور پر نیا دستور لئے ہوئے ری پبلک آف انڈونیشیا کے نام سے پہچانی جانے لگی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1925ء میں سماٹرا اور جاوا کے ہالینڈ کے ماتحت جزائر میں اس آخری دور میں حقیقی اسلام کی اشاعت اورمسیح دوراںؑکی آمدکے اعلان اور اس کی جماعت میں شامل ہوکر اس قدرت ثانیہ اور اس مسیح کےعہد خلافت کے مظہر ثانی کی بیعت میں آنے کی منادی کے لئے مولوی رحمت علی صاحب کو بھجوایا۔ مولوی صاحب کی تبلیغ سے جو حضرت مصلح موعود ؓ کی روحانی توجہ سے خوب برکت پا رہے تھے، اس علاقہ میں جلد سے جلد احمدیت کا جھنڈا گاڑدیا اور جہاں آپ کا مکان ‘‘آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے’’جیسے معجزانہ نشان کا مقام ٹھہرا وہیں احمدیت کا اثر اتنا وسیع ہوتا چلاگیا کہ ڈچ حکومت نے اپنے جدہ قونصل خانہ میں مقرر ہونے والے سماٹرا جانے والے افسر کو ہدایت کی کہ رستہ میں قادیان رک کر اس تحریک کا تعارف حاصل کرے ۔چنانچہ 1930ء میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے مل کرگیا۔
خدا تعالیٰ نےانڈونیشیا جماعت کی دعائیں سن لیں اور ان کی امیدیں بھر آئیں۔ وہ یادگار دن19جون 2000ء کہ جب اس قدرت ثانیہ اور اس مسیح موعودؑ کےعہد خلافت کے مظہر رابع حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒ نے اس انڈونیشیا کی سرزمین کو برکت بخشی تھی۔یہ وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب پہلی مرتبہ کسی خلیفۃ المسیح کے قدم اس سرزمین پر پڑے تھے جن سے صدر مملکت سے لے کرعام آدمی تک مستفیض ہوئے۔
آپ نے اس جماعت کو یہ نوید سنائی کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نئی صدی کے اختتام سے قبل انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی مسلم ملک ہوگا، ان شاء اللہ۔ آمین
اس موقع پر ہزاروں احباب نے حضورؒ کے دست مبارک پراجتماعی بیعت کی سعادت پائی تھی۔ اس بابرکت وجود نے اپنی اس پیاری جماعت کے حوصلے بلند کرتے ہوئے جہاں انہیں خوشخبریاں سنائیں وہاں دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے ان کی یوں حوصلہ افزائی بھی فرمائی کہ انڈونیشیا میں آئندہ بہت بڑھ کر ترقی ہوگی۔ان شاء اللہ۔
پھر فرمایا کہ میں آپ سب کے لئے قدم قدم پر دعائیں کررہا ہوں ۔میں آپ سے بہت خوش ہوں۔اللہ آپ کو بے انتہا فضلوں اور برکتوں سے نوازے۔آمین
جلسہ سالانہ انڈونیشیا کی اختتامی دعا سے قبل فرمایا کہ میں نے جوخلوص، پیار انڈونیشیا کی جماعت میں دیکھا ہے میں نے دنیا میں کسی جماعت میں ایسا خلوص اور پیار ومحبت نہیں دیکھا۔ جولوگ باہر سے آئے ہیں انہوں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہے کہ کس طرح انڈونیشیا کی جماعت اپنے اخلاص میں سب سے آگے ہے۔ ان کی آنکھوں سے کس طرح آنسو رواں ہیں۔ چھوٹے بڑے سب کی آنکھوں سے کس طرح آنسو بہتے ہیں۔
باہر سے آنیوالوں کو فرمایا کہ یہ پیغام یادرکھیں اور واپس جاکر اپنے ملکوں میں یہ پیغام دیں کہ انڈونیشیا جیسا خلوص وپیار اپنے اندر پیداکرواور ان جیسا بنو۔
سب سے بڑھ کر حضور کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضور کی اپنی تازہ نظم جو آج تک جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے ایمان کو تازہ کرتی اور روح کو گرماتی ہےکہ
اے عظیم ۔انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا
یقینًا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے اس دورہ کے دوران اس جماعت کے لئے توجہ اور محبت ہی تھی کہ جو اس ناچیز کے دل میں بھی گھر کرگئی اور جامعہ احمدیہ میں درجہ شاہد کا طالبعلم ہوتے ہوئے جہاں جاگتے میں ایم ٹی اے کی آنکھ سے حضور اور جماعت انڈونیشیا کے پیار کے نظارے دیکھتا تھا اک رات سوتے میں بھی خود کو حضورکی معیت میں وفد کے درمیان جماعت انڈونیشیا کے مرکز پارنگ میں پایا اور دیکھا کہ حضور انور جیسے جلسہ سالانہ کے کچن کا معائنہ فرما رہے ہیں تو یہ عاجز غلام بھی پیچھے پیچھے ہے۔ اس خواب کی جو تعبیر ہوئی اس کا آگے چل کر ذکر ہوگا۔ ان شاء اللہ
اور پھر جب زمانے نے رنگ بدلا اور مخالفت بڑھ گئی، احمدیوں پر ظلم ڈھائے گئے اور ایسے حالات کی وجہ سے انڈونیشیا جانا مشکل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان مہیا کردیئے کہ ان درد کے ماروں کا مسیحا، مسیح ا لزمانؑ کا جانشین، نائب الرسول، خلیفہ خامس حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان کی دلداری اور حوصلہ افزائی کے لئے ستمبر 2013ء میں سنگاپور میں نزیل ہوا اور ان کے زخموں کامرہم بنا۔
ان غلاموں کی ترسی نگاہوں اور پیاسی روحوں نے وہاں پہنچ کر اپنے آقا کی دید سے تسکین پائی اور اپنے من کی پیاس بجھائی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کو حوصلہ دیا اور فرمایا کہ اس خطے میں انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں احمدیت کی وجہ سے افراد جماعت پر بہت زیادہ ظلم ہورہا ہے اور بعض شہادتیں بھی ہوئی ہیں ۔۔۔ انڈونیشیا کے احمدیوں پر اس ظلم کی وجہ سے جماعت کا بہت وسیع تعارف دنیا میں ہواہے ۔۔۔ پاکستان کے بعد انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں ظلم وبربریت کی داستانیں رقم ہوتی چلی جارہی ہیں ۔۔۔ ان پاکستانی ملاؤں کا اثر ہی انڈونیشیا کے ملاؤں پر بھی ہے جو یہ ظلم کرتے رہے ہیں یا کرنے کی طرف لوگوں کو ابھار رہے ہیں۔جب بھی موقع ملتا ہے مخالفین نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جتنا مخالفت میں دشمن بڑھ رہا ہے ، احمدیوں میں استقامت بھی اس سے بڑھ کربڑھ رہی ہے۔
پھر نصیحت فرمائی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے۔ اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27ستمبر 2013ء بمقام سنگاپور)
محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں اس ناچیز کو بھی جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا دورہ کرنے کی توفیق ملی جس کی رپورٹ علیحدہ سے اس سے قبل شائع ہوچکی ہے۔ اس میں تمام جماعتی پروگرامز اور تحدیث نعمت کا ذکر بھی مع تفصیل آچکا ہے۔ فی الوقت اس تفصیل کو چھوڑتے ہوئے ملک کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد قارئین کی دلچسپی کے لئے ایک سفر نامہ کے طور پر اس کی روداد تحریر ہے۔
خاکسار 22دسمبر 2019ء کو علیٰ الصبح لندن ہیتھروائیرپورٹ سے صبح آٹھ بجے بذریعہ قطر ائیرویز براستہ دوہا انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوا۔ راستہ میں ساڑھے چھ گھنٹہ کے بعد دوہا ائیرپورٹ پر دو گھنٹہ کا قیام تھا۔ پھر دوہا سے رات کا آٹھ گھنٹے کا مسلسل فضائی سفر کرنے کے بعد 23 دسمبر کو انڈونیشیا وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے Soekarnu-Hatta جکارتہ ائیرپورٹ پر اترا ۔
جکارتہ میں اس وقت کی لینڈنگ کے لئے بھی پہلے سے طے پایا تھا کیونکہ جکارتہ کا ٹریفک جام دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس لئے اس رش سے بچنے کے لئے جتنی جلدی ممکن تھا پارنگ (مرکز جماعت انڈونیشیا) کے لئے نکلا جائے۔ جو کم از کم 3سے4 گھنٹے کا سفر تھا۔ اسی وجہ سے دوران دورہ جب بھی جکارتہ سے علیٰ الصبح کوئی فلائیٹ لیناہوتی تو اس سے قبل رات ائیرپورٹ پر ہی ہوٹل میں یا جکارتہ میں جماعتی گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنا پڑتا۔
یورپ سے باہر خاکسار کا کسی ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ ان ایام میں لندن جیسے شہر سے نکل کر جہاں موسم سرما اپنے عروج پر تھا 1,2 گریڈ ٹمپریچر سےیہ ایسی جگہ کا سفر تھا جہاں نہ صرف گرمی تھی بلکہ حبس بھی شدید تھی اور وہاں کا ٹمپریچر30سینٹی گریڈ تھا۔ خاکسار نے سامان پیک کرتے ہوئے اسی موسمی تبدیلی کو مدنظر تو رکھا مگر اس کا ٹھیک اندازا جکارتہ ائیرپورٹ پر اتر کر ہی ہوا۔اس لئے مرکز پہنچ کر نمازوں اور کھانے سے فارغ ہوکر پہلے مارکیٹ کا رخ کیا کہ موسم کو مدنظررکھتے ہوئے بھی جو کپڑے ساتھ رکھے تھے مناسب نہیں رہیں گے اس لئے یہاں پہنچ کر ہی اب درست اندازا ہوا ہے۔لندن کےسرد موسم میں جتنے چپکے ہوئے موٹےگرم اورزیادہ کپڑے آرام دیتے تھے یہاں کے گرم محبوس موسم میں کھلے باریک ہوادار اور کم کپڑے راحت دیتے تھے۔مارکیٹ پہنچ کر اپنی طرف سے موسم کی مناسبت سے ایک سستی ٹی شرٹ پسند کی تو پتہ چلا کہ اس کی بھی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے یعنی ستر ہزارانڈونیشن روپیہ۔ یقینًا ایک پاکستانی اوریجن رکھنے والے کے لئے اتنے ہزار روپیہ صرف ایک ٹی شرٹ کے لئے آنکھیں کھولنے کو کافی تھا مگرشکر ہے یہ انڈونیشن روپیہ تھا جس کی مالیت پاکستانی روپیہ سے بھی کم تھی اور پاؤنڈ کے مقابلہ میں تو بہت ہی کم تھی۔الحمدللہ اپنے قیام کی مناسبت اور ضرورت سے خریداری کرلی۔یہاں کا لباس بھی خاص تھا۔ پیچی (ٹوپی)، سارنگ (دھوتی) اور قمیص بھی بطور سووینیئر مل گئی۔
انڈونیشیا کا ملک equator پر ہونے کی وجہ سے سارا سال گرم مرطوب موسم رکھتا ہے۔یہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور حبس بھی رہتی ہے۔اور جزائر جو سمندری ہوائیں بھی رکھتے ہیں ،دلکش ساحلی علاقے اور گھنے جنگلات بھی ہیں۔جو سیاحت کا مرکز ہیں۔اس لئے وہاں سفر کرنے سے قبل اگر موسم کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حسین اور دلکش نظاروں کا مالک ملک اور بھی حسین لگتا ہے۔خاکسار نے اپنے دوہفتہ کے قیام کے دوران جہاں جماعتی پروگرامز میں شمولیت اختیار کی وہاں اس کے جغرافیائی حسن اور خدوخال کا بھی نظارہ لیا۔اس قیام کے دوران خاکسار کو اس کے دارالخلافہ جکارتہ اور جماعتی مرکز پارنگ کے علاوہ سماٹرا، کلمانتن اور جاوا کے ریجنل اور پھر نیشنل وقف نو اجتماعات میں شمولیت کے علاوہ سیر کا بھی موقع ملا۔
چاہے جکارتہ ہو یا اس کے علاوہ دوسرے صوبے سب میں سفر کرتے ہوئے ایک چیز جو نظر آئی وہ عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ کام تھا۔ان کا لباس اور پردہ ان کا مذہبی پس منظر بتاتا تھا مگر صرف عورت اور معاشرے کا بنیادی فرد ہونے کے لحاظ سے وہ گھر کے باہر بھی اپنے اپنے کاموں میں مگن نظر آتیں۔موٹر سائیکل ایک بنیادی سواری کے طور پر تھا اس کو بھی مرد خواتین بلاامتیاز چلا رہے تھے۔بلکہ اس متعلق تو یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں کے ٹریفک جام اور بے روزگاری میں اس سواری نے عوام کو بہت ریلیف دیا ہوا ہے۔یہاں موٹر سائیکل سواری بھی Uber کیطرح دستیاب تھی۔پھر جہاں ٹریفک جام ہوا ایک خاص منظر نظر آیا کہ گلی محلے یا سڑکوں پر بیٹھے بظاہر فضول اور نکمے لوگ فورًا اس بے ہنگم ٹریفک میں کھڑے ہوجاتے اور گاڑیوں کے لئے رستہ بنواتے۔اس کا صلہ ڈرائیور کی طرف سے شکریہ اور شاباش کے بعد چند سکے یا روپے ان کی ہتھیلی میں تھمادینا ہوتا تھا۔یہ دونوں منظر شہروں اور گاؤں میں برابر دیکھنے کو ملے۔
خاکسار کے اس دورہ میں احباب جماعت نے اکرام ضیف میں پہلے دن کوشش کرکے پاکستانی اوریجن کا کھانا تیار کیا۔ ان کا خلوص اور کوشش اپنی جگہ مگر اس میں تکلف کا عنصردیکھ کر طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا تو محترم عبدالباسط شاہد ،امیر صاحب انڈونیشیا سے درخواست کی کہ آئندہ سے خاکساربھی جو انڈونیشین احباب کھاتے ہیں وہی کھانا ان کے ساتھ کھائے گا۔ اس طرح الحمد للہ وہ کھانا حفظان صحت کے اصولوں اور موسمی لحاظ سے بہتر رہا۔اور یوںوہاں کے مختلف کھانوں ، پھلوں اور مشروبات کا تعارف بھی ہوگیاور ذائقہ بھی چکھا۔چاول ان میں بہت مرغوب ہیں۔ ہر کھانے میں اور اکثر کھانوں میں اس کا استعمال عام ہے۔وہاں کے دوستوں نے بتایا کہ اگر ان کو ایک دن چاول نہ ملیں تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ کھایا ہی نہیں۔کیلے کے پتوں میں چاولوں کو خاص طریقے سے سجا کر مٹھائی اور دوسری ریفریشمنٹ میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس دورہ کے دوران پانچ کے قریب ایسے پھل اور دوتین مشروب ہونگے جن کا ذائقہ خاکسار کے لئے بالکل نیا تھا اس لئےان کو کیمرے کی آنکھ اور تصور کی آنکھ سے محفوظ کرلیا۔
دورہ کے دوران ساتھ رہنے والے واقفین نو نے نماز فجر کے بعد کی چائے یا ہلکا پھلکا ناشتہ ایسا متعارف کروایا کہ واپس آکر بھی کچھ دن اس کی عادت رہی۔لندن کی زندگی میں اکثر تو صبح دفتر کی تیاری کے دوران ہی ناشتہ ہوتا تھا یا بعض اوقات وہ بھی چائے کا کپ دفتر آکر پینا ہوتا ہے۔مگروہ کہتے تھے کہ انڈونیشیا میں اس وقت ناشتہ کیا جاتا ہے اور دس گیارہ بجے بھی کچھ کھایا جاتا ہے جو شاید لندن کے elevenses کے مطابق ہو مگر ہم جیسی اکثریت تو یہاں brunch کی عادی ہوچکی ہوتی ہے۔
بہرحال اس دوران چاہےوہ احباب کا خلوص تھا، کہیں نظاروں کی دلکشی تھی یا دسترخوان پر چنا ہوا کھانا تھا، سب دیکھ کر ایک حقیقت ہمیشہ یاد رہی کہ یہ محض اور محض خدا کے فضل ،مسیح موعودؑکی غلامی ،حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی شفقت اور وقف کی برکت کا ہی نتیجہ تھاورنہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
Kuala Namu پہنچ کر ائیرپورٹ سے سیدھے برستیگی گئے جو کاروریجن ، نارتھ سماٹرا میں میدان سے تقریبا ًستر کلومیٹر دور تھا اور یہاں کی ایک مشہور قدرتی جھیل Toba Lake کے راستہ میں پڑتا تھا۔ گرم موسم میں یہاں آنا یوں سمجھ لیں کہ جیسے گرمیوں میں پاکستان میں لاہور سے مری کی طرف چلے جائیں۔یہاں سے مشہور دو پہاڑ بھی نظر آتے تھے جو لاوا اگلتے تھے۔انڈونیشیا کی سرزمین پر ایسے کئی پہاڑ ہیں جن پر زلزلے اور لاوا پھٹنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اس جگہ کا نام برستیگی بھی ڈچ ہے ۔
ٹوبہ لیک یہاں کی مشہور سیر گاہ ہے۔بڑی بڑی دور سے لوگ یہاں آتے ہیں۔یہاں سبزیوں اور کافی وغیرہ کےOrganic Farms بھی ہیں۔ یہاں سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بطور تحفہ سووینیئر پیش کرنے لئے سبز چائے اور کافی لی گئی تھی۔(کیا حضور کے لیے دیئے جانے والے تحائف کا ذکر کرنا ضروری ہے ؟)
اس کے علاوہ وہاں بدھ مت کا ایک گولڈن ٹیمپل دیکھنے کا بھی موقع ملاجو Lumbini Natural Park میں واقع تھا۔ اس کی تعمیر 2010ء میں مکمل ہوئی تھی اور اکتوبر 2010ء میں اس کا افتتاح ہواجس میں دنیا بھر سے 1300 بدھ بھکشو شامل ہوئے تھے۔
رات ہمارا قیام ایک ہوٹل میں رہا۔ اس کے بعد صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم میدان کے لئے روانہ ہوئے ۔وہاں کے ایک مقامی دوست مکرم نبوت صاحب نے جن کے آباء کا تعلق لاہور پاکستان سے تھا اور اللہ تعالیٰ نے اب ان کو مالی فراخی بھی عطا کی ہوئی تھی، ایک معروف Sea Food ریسٹورنٹ پرہم سب احباب کی دعوت بھی کی تھی۔اس کے بعد انہوں نے وہاں کا خاص کھڈی پر بننے والا ایک سووینیئر کپڑا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے بطور ہدیہ پیش کیا جو لندن واپسی پر خدمت اقدس میں تعارف کے ساتھ پیش کردیا گیاتھا۔
میدان میں ہمیں وہاں کا شاہی محل بھی دیکھنے کا موقع ملا جو Maimoon Palace کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس میں ملایا تہذیب کا اثر نمایاں تھا۔اس شاہی خاندان کی مسلمان ہونے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔بہرحال یہ محل عوام کی تفریح کا بھی مرکز ہے۔
وہاں سے ہم واپس جکارتہ پہنچ کر جماعتی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے کیونکہ اگلے روز 30دسمبر کو ہم نے Central Kalimantan کے ریجن میں Palang karaya کے لئے روانہ ہونا تھا ۔
Garuda Airline سے ہماری وہاں کے لئے فلائٹ تھی ۔
ائیرپورٹ جانے سے پہلے ہم نے جکارتہ کی کچھ سیر کی جس میں پہلے Jakarta National Monumentدیکھا جس کو Monas بھی کہتے ہیں۔یہ اس ملک کے پہلے صدر سوکارنو نے تعمیر کروایا تھا جو انڈونیشین قوم کی جمیعت کی نشانی کے طور پر تھا۔ یہ ایک سو بتیس میٹر لمبا مینار ہے جس کے سر پر چمکدار گولڈن شعلہ نما تاج بنایا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی یکجہتی اور جمعیت کی نشانی کے طور پر مسجد استقلال تعمیر کروائی گئی تھی۔ ہم وہاں سے مسجد استقلال گئے جو جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔اس میں بیک وقت دو لاکھ نمازی سماسکتے ہیں۔مذہبی آزادی کی وجہ سے وہاں داخل ہوتے ہوئے نہ تو مذہب پوچھا گیا اور نہ فرقہ، صرف ریکارڈ کے لئے نام اور ملک کانام لکھا گیا۔اس مسجد میں شکرانے کے دو نوافل بھی ادا کئے اور دعا کی کہ خداتعالیٰ جلد وہ دن لائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خوشخبری پوری ہو کہ انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی ملک بن جائے۔
اس کے بعد ہم ائیرپورٹ پہنچے جہاں سے کلمانتن کے لئے فلائٹ تھی۔وہاں پہنچنے پر مقامی احباب نے استقبال کیا۔یہاں کی آب وہوا گرم تھی اور اسی طرح حبس بھی شدید تھی۔ائیرپورٹ سے ہوٹل جاتےہوئے راستہ میں مقامی ریسٹورنٹ سے مقامی کھانا کھایا ۔یہاں کے حلال کلچرل کھانوں میں سمندری خوراک ، مچھلی، چاول ،سوپ اور سالاد نیزپھلوں کا استعمال عام تھا جو صحت اور موسمی لحاظ سے موزوں تھا۔ شاید یہاں کی خوراک اور موسم کا ہی اثر تھا کہ کوئی فربہ انسان دیکھنے کو نہ ملا۔ یہ ہوٹل مکرم معلم صاحب کی اہلیہ نےجو اپنا ایک ذاتی کاروبار بھی کرتی تھیں، دورہ کنندگان کے اعزاز میں بک کروایا تھا۔
جس مقامی ہوٹل میں خاکسار کی رہائش تھی وہ پالانگ کرایا کے سنٹرل چوک کے سامنے تھا جس میں نئے سال کی تقریب منعقد ہورہی تھی۔ اس لئے نیوائیر نائٹ میں تمام رات شور شرابہ، میوزک ،رنگ برنگی روشنیاں اور آتش بازی کی آوازیںکانوں میں بجتی رہیں۔
پالانگ کرایا میں ہمارے ایک احمدی پاکستانی دوست کا قالین کا کاروبار تھا۔ انہوں نے ایک شام کھانے کی دعوت پر بلایا تو باہمی تعارف ہوا کہ وہ ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں 35شمالی سے تعلق رکھتے تھے۔خاکسار کی جامعہ احمدیہ پاس کرنے کے بعد پہلی تقرری ضلع سرگودھا کی تھی۔چند ماہ چک منگلا میں خدمات سرانجام دینے کے بعد جب خاکسار کا تبادلہ سرگودھا شہرمیں کیا گیا تو اس دوران جو جماعتیں خاکسار کے سپرد تھیں ان میں سے شہر کے قریب کی جماعتوں میں سے ایک یہ بھی تھی ۔ انہوں نے پاکستانی کھانے کا اہتمام کیا تھا جو کافی دنوں بعد میسر ہواتھا اس لئے اس کا ذائقہ اور بھی لذیذ محسوس ہورہاتھا۔موصوف نے بتایا کہ انڈونیشیا میں خصوصا ًجکارتہ میں ہمارے کافی پاکستانی احمدی کاروبار کر رہے ہیں جن میں قالین کا کاروبار بہت کامیاب ہے۔ یہ بھی پہلے وہاں کاروبار کرتے تھے اب ساتھ یہاں بھی دکان بنالی تھی۔ ان میں مکرم ملک محبوب الرحمٰن صاحب کا نام قابل ذکر ہے جو کامیاب بزنس مین تھے اور ان کا اپنا ہوٹل بھی تھا جس پر بعد میں ہم جکارتہ واپس آکر اپنے نیشنل وقف نو اجتماع کے لئے جاوا ، وانا سیگراجاتے ہوئے ملنے بھی گئے تھے۔
اس کی وجہ کاروبار نہیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی شخصیت اور تعارف تھا۔
پالانگ کرایا میں ہمارےایک واقف نو جو لوکل گورنمنٹ میں کافی مستعد و معاون ہیں اور ان کی سسرالی فیملی بھی معروف فیملی ہےنیزیہ خود بھی حضور انور ایدہ اللہ کی اجازت سے سیاست پڑھ رہے ہیں ، نے اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ انہوں نے مقامی اخبار میں ہمارے آنے کی خبر مع تصویر شائع بھی کروائی۔
واپسی سے قبل ہم اس جگہ بھی گئے جہاں صدر سوکارنو کا مجسمہ نصب ہے۔یہ پالانگ کریا سٹی مانیومنٹ تھا۔پھر Kahayan Bridge دیکھا۔ اس شہر کو سوئیکارنو نے انڈونیشیا کا نیا دارالخلافہ بنانے کے لئے آباد کیا تھا۔ وہاں سے ائیرپورٹ واپسی سے قبل ہم مکرم نورالدین صاحب ، معلم سلسلہ کی دعوت پر ان کے گھر اور ان کی اہلیہ کی دکان پر بھی گئے تا ان کا شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے اسقدر مہمان نوازی کی۔اللہ انہیں اس کی بہترین جزاء دے۔آمین۔انہوں نے یہاں کا ایک مشہور پھل دریان بھی متعارف کروایا جس کا ذکر جب سے خاکسارانڈونیشیا پہنچا تھا ہر انڈونیشن احمدی دوست کرتا تھا کہ کیا آپ نے ابھی تک وہ پھل کھایا ہے کہ نہیں؟ ان کے علاقہ اور گھر پر وہ وافر طور پر دستیاب تھاجس کو انڈونیشین احباب نے خواب شوق سے کھایااور خاکسار نے صرف ذائقہ چکھا جو خاکسارکےمزاج کےموافق نہیںتھانیزاس کی بڑی عجیب سی خوشبوتھی مگر بتانے والوں نے اس میں چھپے فوائد بھی بتائے اور خاکسار سے قبل آنے والے جماعتی وفود اور احباب کی اس سے جڑی داستانوں سے بھی محظوظ کیا۔
یکم جنوری 2020ء کووہاں سے واپس جکارتہ پہنچے اور رات قیام وسمہ الرحمت میں کیا۔اب ہمارا اصل سفر ویسٹ جاوا Wanasigra کی طرف تھا۔ہمارا یہ سفر بذریعہ روڈ تھا۔اس کے لئے ہم صبح ناشتہ کے بعد نکل پڑے تھے۔ خاکسار کے ہمراہ نیشنل سیکرٹری وقف نو اور دو واقفین نو خدام بھی تھے۔تقریبا ًپانچ چھ گھنٹے کا سفر کرکے ہم ایک سیاحتی مقام پرKampung Sumber Alam Garut ایک گیسٹ ہاؤس میں رکے۔تما م راستہ سرسبز تھااور بعض جگہوں پر سڑک کے دونوں اطراف وہاں کے مقامی پھلوں اور سوغات عام تھیں جن میں شکرقندی کے زیادہ ٹھیلے تھے۔یہ گیسٹ ہاؤس سومبر عالم تھا جس کے مالک ایک احمدی دوست مکرم Akun صاحب تھے جو نیشنل سیکرٹری ضیافت بھی تھے۔ اس گیسٹ ہاؤس کی تاریخی اہمیت بھی تھی کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ دورہ انڈونیشیا پر تشریف لائے تھے توآپؒ نے یہاں بھی قیام فرمایا تھا۔ الحمدللہ کہ خاکسار 2جنوری 2020ء کو یہاں پہنچا اور یہ سن کر زیادہ خوشی ہوئی کہ رہائش بھی اسی سوئیٹ اور کمرہ میں ہوگی جس کو حضورؒ نے برکت بخشی تھی۔اس گیسٹ ہاؤس کی جغرافیائی صورتحال ایسی تھی کہ یہ پہاڑیوں کے دامن میں تھا اور ان سے گندھک ملا پانی کاچشمہ نکلتا تھا جو اس طریقہ سے پائپ لائنوں کے ذریعہ گیسٹ ہاؤس تک لایا گیا تھا کہ وہ نہ صرف ایک بڑے سوئمنگ پول کے لئے استعمال ہورہا تھا بلکہ اس گیسٹ ہاؤس کے خوبصورت جھونپڑیوں نما کمروں اور سوئیٹس کے اندر غسل خانوں تک پہنچایا گیا تھا۔سوئیٹس کے صحن میں بھی چھوٹے سوئمنگ پولز تھے اور پھر ان غسل خانوں میں بھی نہانے کے لئے چھوٹے چھوٹے پولز بنائے گئے تھے تاکہ مہمان اور زائرین طبی لحاظ سے بھی اس سے پوری طرح استفادہ کرسکیں۔ اس لئے خاکسار نے بھی فائدہ اٹھایا علاوہ ازیں اس جماعتی تاریخی اہمیت کے حامل مقام سے حسین یادیں جمع کیں۔ اس کا اردگرد کا ماحول اور منظر بھی دیدہ زیب تھا۔گیسٹ ہاؤس کے ماحول اورکمرے کے گرد پانی کے تالاب اور ان میں کھلے ہوئے کنول اور نرگس کے بڑے بڑے پھول، ان میں تیرتی چھوٹی چھوٹی خوبصورت سنہری مچھلیاں باری تعالیٰ کے مصور اور احسن الخالقین ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔رات کے وقت یہاں تالاب کے بیچوں بیچ ہلکی روشنی میں نیچے بیٹھ کر لکڑی کے دسترخوانوں پر انڈونیشین کھانا سجانے کے بعد اس کا لطف اٹھانا اور بھی مزہ دیتا ہے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔
اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد 3جنوری کو ہم Wanasigra کے لئے روانہ ہوئے جو ویسٹ جاوا کا ایک گاؤں تھا اور یہاں جماعت کی اکثریت تھی اردگرد کے دس گاؤں احمدی تھے۔ یہاں سارے کا سارا علاقہ احمدی تھا۔یہ 1940ء سے قائم شدہ جماعتیں ہیں ۔وقف نو کا نیشنل اجتماع اسی اسکول میں ہی منعقد ہوا۔الحمدللہ یہاں بھی دوردراز سے واقفین نو اور والدین جمع ہوئے ۔یہ حقیقی جماعتی اور روایتی اجتماع یا جلسہ کا منظر پیش کررہا تھا۔گاؤں کے ہر گھر میں مہمان ٹھہرے تھے اورتمام گلیوں میں بھی وہی سماں نظر آرہا تھا۔ ایک تین منزلہ وسیع و عریض مکان میں خاکسار کے ساتھ وقف نو ٹیم اور دوسرے مربیان کرام کی رہائش کا انتظام کیا گیاتھا۔ یہ مکان ایک احمدی بزرگ خاتون کا تھا جن کے متعلق یہ بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو مالی فراخی عطا کی ہوئی ہے۔گاؤں کے باہر مین روڈ پران کا اپنا ایک ریسٹورنٹ ہے۔ وہ مالی قربانی میں بہت آگے بڑھی ہوئی ہیں ۔وہ مسجد بھی انہوں نے ہی بنوائی تھی۔اب انہوں نے خدااس کے رسول ﷺاور امام حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان غلاموں اور مہمانوں کے لئے اپنا سارا گھرپیش کردیا تھا۔تمام کمرے اسی طرح جماعت کے حوالہ کرکے خود نیچے اپنے بہو ،بیٹوں اوران کے بچوں کے ساتھ ڈائننگ ہال میں شفٹ ہوگئی تھیں۔ جب یہ سنا تو پشیمانی بھی ہوئی اور ان سے مل کر ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔دل سے ان کے لئے دعا نکلی کہ کس طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم نے گھر کیا ہوا ہے اور دور اول کے صحابہ کانمونہ دکھانے والے ایسے لوگوں کے دلوں میں ایمان تازہ کیا ہوا ہے ۔ان کے اس خلوص اورقربانی کی جزا کسی انسان کے بس میں نہیں تھی ۔ خداتعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا دےاور دین و دنیا کی حسنات سے نوازے۔آمین۔
5جنوری 2020ء کو اس اجتماع کی اختتامی تقریب کے بعد واپسی ہو ئی۔رات کو دیر سے ہی جکارتہ پہنچ کرائیرپورٹ پر ہی ہوٹل میں قیام کیا کیونکہ اگلے روز صبح سویرے ہی خاکسار کی فلائیٹ تھی۔
٭…٭…٭
(مرسلہ: لقمان احمد کشور، انچارج شعبہ وقفِ نومرکزیہ لندن)