• 29 اپریل, 2024

ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے ایک اور بہت اہم نکتہ بھی پیش فرمایاہے۔آپ فرماتے ہیں کہ ’’تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَال۔ تو بٹھاتا تھا مومنوں کو جگہ بہ جگہ جہاں انہیں کھڑے ہو کر لڑنا چاہئے۔ اس سے ایک سبق تمہارے لئے نکلتاہے کہ دشمن کامقابلہ، مناظرہ، مباحثہ بے شک کرو مگر اپنے امام کی منشاء کے ماتحت۔ کیونکہ یہ ترتیب جس کا انجام فتح و ظفر ہو اللہ کے بندے ہی جانتے ہیں‘‘۔

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ۵۲۶)

توبعض خطوں کی وجہ سے مجھے فکر پیدا ہوئی جومَیں یہاں بیان کرتاہوں ۔ ایک دوست نے لکھا کہ کیونکہ دشمن ہر وقت زبان درازی کرتا رہتاہے اور جماعت کے متعلق بالکل جھوٹی اور لغو باتیں منسوب کی جاتی ہیں ۔ پھر تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کو مَیں تبلیغ کرتا ہوں ان کو بھی ان کے دماغوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور ہماری طرف غلط باتیں منسوب کر کے ان کو بتائی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ یعنی احمدی سچے ہیں تو ہمارے سے مباہلہ کر لیں۔ تو لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ مَیں سمجھتاہوں کہ مجھے مباہلہ کا چیلنج قبول کرلینا چاہئے اور اس کی اجازت دی جائے۔اب ایک خط کی تو مجھے فکر نہیں تھی لیکن مختلف جگہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس سے فکر پیدا ہوئی۔ تو اس بارہ میں آپ لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے جیساکہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا ارشاد ہے کہ ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں ۔ آپ میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے امام سے آگے نکلنے کی کوشش کریں ۔یا کسی کو مباہلہ کا چیلنج دیں ۔ہر ایک کا تو حق ہی نہیں ہے۔ اس کے بھی کچھ قواعد وضوابط ہیں۔ آنحضرت ﷺنے بھی جب عیسائیوں اور یہودیوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو اپنی مرضی سے تو نہیں دیا تھا۔ جب تک خدا تعالیٰ نے آپ کو نہیں کہا اور طریق نہیں بتا دیا آپ ہمیشہ ہدایت کی دعائیں ہی کرتے رہے۔ اسی طرح حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جب مخالفین کی دشنام طرازیاں انتہا کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ کے اِذن سے مختلف لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی پھر اس زمانہ میں آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی مباہلہ کا چیلنج دیا تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی دیا۔تویہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ہر کوئی اٹھے اوراس قسم کی سوچ دل میں پیدا کرلے بلکہ مناظروں مباحثوں وغیرہ میں بھی اس قسم کی شرطیں لگانے کی اجازت نہیں ہے جس سے یہ احساس ہوتاہو کہ آپ جماعت کی اور احمدیت کی سچائی کو اپنی شرطوں کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں یا اپنی دعاؤں کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں۔ احمدیت تو سچی ہے اور یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا خدائی بشارتوں کے ماتحت اور آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔اور احمدیت کی سوسال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف لوگوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو جو چیلنج دئے ان کے سامنے مقابلہ کی نیت سے جو بھی کھڑا ہوا اس کے ٹکڑے اڑتے ہم نے دیکھے ہیں ۔ خدا خود ہمارے بدلے لیتاہے اور لیتا چلا جا رہاہے پھر آپ کو کس بات کا خوف اور فکرہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے امام کی جو ڈھال آ پ کے لئے مہیا فرمائی ہے اس کے پیچھے ہی رہیں اور جو طریق اور دلائل پیغام پہنچانے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان کے مطابق دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں ۔ جیساکہ آپ نے فرمایا کہ جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعائیں کریں اور دعاؤں سے ہی مدد کریں ۔ ہماراخدا زندہ خدا آج بھی ہمیں اپنی خدائی کے جلوے دکھا رہاہے اور انشاء اللہ دکھاتا چلا جائے گا۔آپ بے فکررہیں ۔ ہاں ایک شرط ہے کہ خالص ہوکر اس کی طرف جھکیں اور اس سے مدد مانگیں ۔ وہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتاہے۔ اس کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ جو مخالفین مباہلے کااتنا ہی شوق رکھتے ہیں وہ اپنا شوق پورا کریں ۔ خدا کو جتنا مرضی پکاریں وہ،اپنی ناکیں رگڑیں ، اپنے ماتھے رگڑیں ۔کبھی ان کی یہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی جو وہ جماعت کے خلاف کریں گے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کاہی ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ مَیں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے۔

(خطبہ جمعہ 11؍ جولائی 2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2020