ثنائے جہاں آفریں ہے محال
زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال
کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں
کرے کوئی حمد اس کی سو کیا بیاں
کہوں کیا میں اس کی صفات کمال
کہ ہے عقل کل یاں پریشاں خیال
خرد کنہ میں اس کی حیران ہے
گماں یاں پریشاں پشیمان ہے
زمین و فلک سب ہیں اس کے حضور
مہ و خور ہیں اس سے ہی لبریز نور
یہ صنعت گری اس ہی صانع سے آئے
کف خاک کو آدمی کر دکھائے
نہ آوے کسی کے جو ادراک میں
سو رکھ جائے وہ اس کف خاک میں
بری ہے گا تمثیل و تشبیہ سے
منزہ ہے وہ بلکہ تنزیہہ سے
وہی حاصل مزرع آسماں
کیے اس نے دانے میں خرمن نہاں
سفید و سیہ کو نہیں اس کی بار
ورے ہے زمانے کی لیل و نہار
(میر تقی میر)