• 30 اپریل, 2024

ثنائے جہاں آفریں ہے محال

ثنائے جہاں آفریں ہے محال
زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال
کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں
کرے کوئی حمد اس کی سو کیا بیاں
کہوں کیا میں اس کی صفات کمال
کہ ہے عقل کل یاں پریشاں خیال
خرد کنہ میں اس کی حیران ہے
گماں یاں پریشاں پشیمان ہے
زمین و فلک سب ہیں اس کے حضور
مہ و خور ہیں اس سے ہی لبریز نور
یہ صنعت گری اس ہی صانع سے آئے
کف خاک کو آدمی کر دکھائے
نہ آوے کسی کے جو ادراک میں
سو رکھ جائے وہ اس کف خاک میں
بری ہے گا تمثیل و تشبیہ سے
منزہ ہے وہ بلکہ تنزیہہ سے
وہی حاصل مزرع آسماں
کیے اس نے دانے میں خرمن نہاں
سفید و سیہ کو نہیں اس کی بار
ورے ہے زمانے کی لیل و نہار

(میر تقی میر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2021