• 29 اپریل, 2024

حضرت سید میر داؤد احمد صاحب سے متعلق سنہری یادیں (قسط 1)

استاذی المحترم حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه سے متعلق سنہری یادیں
قسط 1

استاذی المحترم حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم كی سیرت پر كچھ لكھنا میرے لئے بہت ہی مشكل تھا۔كئی بار كوشش كی ۔ بالآخر الله تعالیٰ نے ہمت بخشی اور میں نے نیت باندھی اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان سے جڑی انمٹ سنہری یادوں كو قارئین كے سامنے پیش كر رہا ہوں كہ شاید سیرت كی یہ باتیں كسی كے دل میں اتر جائیں۔ امید ہے كہ یہ اثر دكھائیں گی۔ میرے پاس یہ امانت تھیں۔

حضرت میر صاحب كو دنیا سے رخصت ہوئے 47 برس بیت گئے ہیں اور خاكسار بھی 77 سال كا ہو گیا ہے۔ اب ریٹائر ہوچکا ہےمگر پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنی آسمانی قیادت كا ثبوت دیتے ہوئے اس عاجز كو ازراهِ شفقت ان الفاظ كے ساتھ قبول فرما لیا ہے كہ دفتر پی ایس میں آكر چھوٹا موٹا كام كر دیا كرو۔ الحمد لله میری گاڑی اسلام آباد میں مسجد كے قریب چلی جاتی ہے۔ حضور كی اقتدا میں نمازیں ادا كرنے كی توفیق ملتی ہے۔ عاجز كی یہ تحریر تحدیثِ نعمت كے طور پر ہے۔ جو بات یاد آتی گئی وه خلوص نیت کے ساتھ سپردِ قلم كر دی ہے۔ یادوں كی بارات بن گئی ہے۔ الله تعالیٰ مجھے معاف فرمائے اور حضرت میر صاحب كو ان كی نیكیوں اور احسانات كا بدلہ بڑھ كر دے اوران كی اولاد در اولاد كو خلافت کاسلطانِ نصیر بننےكی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین ثم آمین۔ (خاکسار۔مجید احمد سیالكوٹی)

آج اپنے شفیق سرپرست ومحسن اور پیارے استاد حضرت سید میر داود احمد صاحب مرحوم پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه كی یادوں سے دل ودماغ پر جو كیفیت طاری ہوئی ہے اس نے تڑپا دیا ہے اور مجبور كیا ِہے كہ ان سنہری یادوں كو صفحۂ قرطاس پر دوسروں كیلئے بھی بكھیر دوں تاكہ اس عظیم شخصیت كی سیرت كے نمایاں پہلوؤں كوجان كر مخلصینِ جماعت اپنی مقبول دعاؤں سے ان كے مقام ومرتبہ كو اور بلند كر سكیں اور اُذْكُرُوْاَ مْوَتَاكُمْ والی حدیث پر عمل در آمد ہو جائے۔

سن 1961ء میں خاكسار تحریكِ جدید ربوه میں انٹرویو سے فارغ ہوكروالد صاحب مرحوم كے ساتھ جامعہ احمدیہ ربوه میں داخلہ كیلئے حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه كے ایك وسیع دفتر میں حاضر ہوا تو حضرت میر داؤد احمد صاحب كی مسحور كن، ذی وقاراور بارعب شخصیت نے انتہائی پیار اور عزت واحترام بخشا۔ پہلے ذہن میں جو خوف تھا وه جاتا رہا اور ان كی باتیں سكون اور اعتماد کا موجب ہوئیں۔ مکرم والد صاحب اور خاكسار كے لباس اور باتوں سے عیاں تھا كہ ہم كسی دیہات سے آئے ہیں۔ مکرم والد صاحب نے حضرت بابو قاسم الدین صاحبؓ امیر ضلع سیالكوٹ كا ایك خط حضرت میر صاحب كو دیا جس میں یہ لكھا تھا كہ یہ واقف زندگی طالبعلم جماعت ضلع سیالكوٹ كی طرف سے ہے۔ اس زمانہ میں ایك تحریك ہوئی تھی كہ ضلعی جماعتیں كوشش كركے كم از كم ایك طالبعلم كو جامعہ میں بھجوائیں۔ ضلع كی طرف سے 20 روپے ماہانہ وظیفہ خاكسار كیلئے مقرر ہوا تھا جس پر مجھے خوشی تھی اور وقف كے جذبہ اور عزم میں ایك قوت تھی۔ میٹرك كا رزلٹ كارڈ بھی خاكسار كے پاس تھا۔ اسی سال یہ قاعده بنا تھا كہ طلبہ میٹرك كركے جامعہ آئیں۔ بہرحال اس پہلی ملاقات میں ہی حضرت سید میر داؤد احمد صاحب نے مختصر انٹرویو كے بعد والد صاحب كو فرما دیا اور یقین دلایا كہ آپ بے فكر ہو جائیں۔ اب سے میں اس كا سرپرست ہوں۔ حضرت میر صاحب نے شفقت ومحبت سے نوازتے ہوئےخاكسار كو جامعہ كی ممہده كلاس میں داخل كر لیا اور كتابوں كا انتظام فرمادیا اور ہوسٹل میں رہائش اور كھانے كا انتظام بھی کروادیا۔

كلاس میں پڑھائی شروع ہوئی تو سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی كیونكہ دوسرے طلبہ مہینہ ڈیڑھ پہلے سے كلاس میں داخل تھے اور كلاس معمول كے مطابق چل رہی تھی۔ خاكسار عربی زبان سے نابلد تھا۔ اوپر سے صرف ونحو كی گردانیں۔ كچھ سمجھ نہیں آتا تھا كہ كدھر جاؤں۔ اسی كیفیت كو بیان كرنے كیلئے خاكسار حضرت میر صاحب كے دفتر میں حاضر ہوا۔ حضرت میر صاحب نے محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب كو بلایا اور انہیں ہدایت فرمائی كہ اس طالبعلم كی ایك ماه تك عربی وغیره مضامین پڑھانے میں مدد فرمائیں۔ محترم جلیل صاحب تو میرے لئے فرشتہ ثابت ہوئے۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں اور شفیق انداز سے ایسی راہنمائی فرمائی اور حوصلہ دیا كہ میری گھبراہٹ دور ہو گئی اور جامعہ كی تعلیم میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ دوسرا خدا كا یہ فضل ہواكہ كلاس میں ایك ذہین اورلائق طالبعلم مکرم محمد جلال شمس صاحب دوست بن گئے۔ الحمد لله خاكسار پہلےسہ ماہی ٹیسٹ میں اچھے نمبروں سے كامیاب ہو گیا جس سے ایك امید بندھ گئی۔ میں سمجھتا ہوں كہ وه میرے وقف میں رہنے كا ایك turning point تھا۔ اگر حضرت میر صاحب اپنی دوربین بصیرت اور حكمت سے راہنمائی نہ فرماتے تو خاكسار دوسرے كئی طلبہ كی طرح جامعہ كے مشكل نصاب اور طویل سفر کوہرگز طے نہ كر پاتا۔

حضرت میر صاحب نے اس وقت ایك بنیادی گُر بتایا كہ الله تعالیٰ كے حضور دعاؤں پر زور دیا كرو اور اس كو اپنی عادت بنا لونیز مثال دی كہ دیكھو!میرے سٹاف میںمکرم مولوی شریف صاحب اكاؤنٹنٹ ہیں اور صحت كے لحاظ سے بھی كمزور ہیں۔ جب انہوں نے جامعہ پاس كیا تھا تو ان كو نہ تحریكِ جدید قبول كرتی تھی اور نہ صدر انجمن احمدیہ۔ تو میں نے ان كو كہا كہ یہ مجھے دے دیں۔ چنانچہ مولوی شریف صاحب میرے پاس ہیں اور بڑی محنت، خلوص اور دیانتداری كے ساتھ اپنے فرض كو پورا كر رہے ہیں اور مجھے كبھی بھی ان كے حساب كتاب كے باره میں كوئی مشكل پیش نہیں آئی كیونكہ وه ایك دیانتدار اور دعا گو كاركن ہیں۔
الله تعالیٰ كا فضل ہوااور ان بزرگوں كی دعاؤں سے ایك سہارا مل گیا اور جامعہ احمدیہ كا كٹھن تعلیمی سفر شروع ہوا بلكہ یہ كہنا غلط نہ ہو گا كہ بڑی سہولت سے طے ہونے لگا۔

حضرت میر صاحب نے پہلے دن ہی فرما دیا تھا كہ تم جب چاہو دفتر آجایا كرو اور اپنی ضرورت كے مطابق اپنے وظیفہ كے پیسے لے لیا كرو۔ تمہاری رقم میرے پاس جمع رہے گی۔ بعض اوقات مجھے بڑی حكمت سے سمجھاتے كہ كس طرح تم نے اپنے وظیفہ كی رقم خرچ كرنی ہے۔ خاكسار كھلاڑی قسم كا طالبعلم تھا اور اتھلیٹك گیمز میں نمایاں تھا۔ حضرت میر صاحب میری صحت كا بھی خیال ركھتے اور دودھ وغیره پینے كی تلقین فرماتے۔ دوڑ دھوپ اور وقارِ عمل كے كاموں میں میری دلچسپی كو دیكھتے ہوئے آپ نے ہمیشہ اپنے ساتھ معاون كے طور پر ركھا۔ بالخصوص جب آپ صدر خدام الاحمدیہ مركزیہ اور افسر جلسہ سالانہ ربوه تھے۔ الحمد لله 8 سال متواتر ان كے ساتھ بطور معاون افسر جلسہ سالانہ خدمت كی توفیق ملی۔

حضرت میر داؤد احمد صاحب بحیثیت پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه
جماعت احمدیہ كی تاریخ شاہد ہے كہ حضرت میر صاحب اعلیٰ قسم كے منتظم تھے۔ جب حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو جامعہ احمدیہ كا پرنسپل مقرر فرمایا تو اس وقت آپ 30-32 سال كے نوجوان تھے۔آپ نے پرنسپل بنتے ہی جامعہ احمدیہ كی بلڈنگ، دفتر، ہوسٹل اور سٹاف كوارٹرز كو ایسے عمده طریقہ سے تعمیر كروایا كہ جامعہ احمدیہ لوگوں كیلئے پُر كشش اور دیده زیب جگہ بن گئی۔طلبہ اور سٹاف كے ركھ ركھاؤ میں ایك نمایاں وقار نظر آنے لگا۔ لائبریری، میٹنگ ہال اور كھیلوں كے میدان كو بھی آپ نے بڑی توجہ سے تیار كرایا۔

حضرت میر صاحب كا یہ ایمان تھا كہ یہ اداره حضرت مسیح موعود ؑكا قائم كرده ہے اور خدائی بشارتوں كے تحت عظیم مقاصد یعنی اسلام كی نشأتِ ثانیہ كیلئے جاری كیا گیا ہے اس لئے یہ باغِ احمد كا سدا بہار پودا ہے اور میں حضرت خلیفۃالمسیح کے ارشاد اور رہنمائی میں اس كا مالی ہوں۔ یہاں سے حضرت مسیح موعودؑ كے علمِ كلام سے مزین ہو كر علماء تیار ہوتے ہیں اور یہ مجاہدین اپنی دعاؤں اور دلائل كے زور سے مخالفین كا منہ بندكر دیتے ہیں۔

حضرت میر صاحب جامعہ احمدیہ كے اس وسیع احاطہ کےایك ایك انچ كی دیكھ بھال كرتے۔ اس كو سنوارنے اور اس كی بلڈنگ كو وسیع سے وسیع تر كرنے كیلئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریك جدید سے حضور كی منظوری سے بجٹ وصول كرتے اور ماہرین كے ذریعہ نقشے بنواتے اور بلڈنگ كو وسیع كرواتے۔ ان كو جنون تھا كہ جامعہ احمدیہ ٹی آئی كالج وسكول كے مقابلے میں زیاده نمایاں ہو اورطلبہ بھی نمایاں ہوں۔ اگر حضرت میر صاحب كو جامعہ سے لگاؤ، جنون اور عشق نہ ہوتا تو یہ عظیم الشان ادارہ اپنی بلندیوں كو نہ چھوتا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بے آب وگیاه جگہ میں ربوه آباد كركے غیر معمولی كارنامہ سر انجام دیا تو حضرت میر صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ كی دعاؤں اور خدا كے فضل سے جامعہ احمدیہ كو یہاں پروان چڑھایا۔ تبھی تو آپ كا سٹاف اور طلبہ آپ سے بےپناه محبت اور احترام كرتے اور اپنا بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی میر صاحب كے سامنے پیش كرتے۔ آپ سچے ہمدرد اور شفیق استاذ تھے۔ چنانچہ آپ ضرور حل نكالتےاور مشكل دور كرتے۔ غیر ملکی طلبہ كے تو وه حقیقی والد سے بھی بڑھ كر خیر خواه تھے اور ہر كسی كے راز كو راز ركھتے۔ دوسروں كی پرده پوشی تو ان پر ختم تھی۔ الغرض حضرت میر صاحب نے جامعہ اور اس كے طلبہ كو سنوارنے اور تیار كرنے میں اپنے خون كا قطره قطره خرچ كر دیا۔ اپنے كردار اور پیار سے اس كو روشن كر دیا ۔ اس پر ان كو فخر تھا۔

حضرت میر صاحب كا طریق تھا كہ دعاؤں كے ساتھ اپنے طلبہ كی تربیت، تعلیم، صحت اور ضروریات كا بھی بہت خیال ركھتے۔جامعہ كے ہوسٹل میں جاكر خود جائزه لیتے، پكنك، ہائیكنگ اور علمی مقابلہ جات كی خود نگرانی فرماتے اور جہاں كمی نظر آتی اس كو درست فرماتے اور نئی ہدایات د ے كر معیار كو بلند فرماتے۔ ایك روز سردیوں میں آٹھ نو بجے رات ہوسٹل آئے تو میں سویا ہوا تھا۔ رضائی اٹھائی تو میں اٹھنے لگا۔ بڑی شفقت سے جیسے ماں باپ اپنے بچے كو لوری دے كر سلادیتے ہیں سلا دیا۔ صبح اٹھا تو كمره كے دوسرے لڑكے كہنے لگے۔ پتہ ہے میر صاحب رات كو آئے تھے، تم جلدی سو گئے تھے اور اٹھنے لگے تھے۔ میں نے كہا مجھے یاد ہے اور انہوں نےدوباره سلا دیا تھا۔ آپ چونكہ دار الیتامیٰ كے بھی انچارج تھے۔ وہاں بھی اكثر رات كو نگرانی كیلئے ایك آدھ چكر لگاتے تھے۔ اور فرماتے ان كی مجھے بہت فكر رہتی ہے۔ ایك دفعہ مكرم مولوی عبد اللطیف ستكوہی صاحب آف لاہور ربوه آئے تو پوچھنے لگے مجید! جانتے ہو یہ كون ہیں؟ عرض كیا كہ جانتا تو ہوں لیكن جس حوالے سے آپ چاہتے ہیں میں نہیں جانتا۔ فرمانے لگے یہ وه بزرگ ہیں جو ہمارے دار الیتامی ٰكو سب سے زیاده چند ه دیتے ہیں۔ ممكن ہے اس كے بعد اور مخلصین بھی اس میدان میں زیاده قربانی کرنے لگے ہوں مگرمیر صاحب نے بتایا تو اس وقت وہی تھے۔ پھر تو ستكوہی صاحب كی شخصیت میرے دل میں مستحضر ہو كر ره گئی ۔ الله اس مخلص كی اولاد كو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ یتیموں كا ملجا وماویٰ بننے والا رحمدل شخص واقعی عظیم ہوتا ہے۔ ان كی عظمتوں كو سلام كرنا چاہیے۔ الله مرحوم كے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

حضرت میر صاحب مركز سلسلہ ربوه كی روحِ رواں تھے۔ ہم نے تو ان كو ساری عمر افسر جلسہ سالانہ ہی دیكھا ہے۔ انہوں نے جلسہ كے بابركت ایام میں ہمیشہ اپنے ساتھ ڈیوٹی پر لگائے ركھا۔ آٹھ سال ان كے ساتھ ڈیوٹی دی۔ ایك ایك چیز كا بغور مشاہده كرتے اور ہدایات دیتے اور پھرنگرانی كرتے۔ جلسہ كے سارے شعبے ایك منظم طریق سے نہایت سلیقہ اور عمدگی سے چلتے۔ لنگرخانوں، قیام گاہوں، مہمان خانوں اور مہمانوں سب كا باریك بینی سے جائزه لیتے۔ ہر كوئی حیران ہوتا كہ یہ انسان ہے یا كوئی اور مخلوق ہے۔ انتھك محنت کے باوجود كوئی گھبراہٹ نہیں، تھكان كا نام نہیں۔ چہره ہے كہ تمتما رہا ہے۔ خوشیوں كی بہار لئے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ كے مہمانوں كیلئے دل وجان نچھاور كر رہا ہے اور بچھا جا رہا ہے۔ دفتر افسر جلسہ میں جو بھی آتا اسے ایسے ملتے جیسے برسوں سے اس سے واقف ہوں۔ ان میں ہندوستان كے درویش، بنگلہ دیش كے ممبران، بیرونی ممالك كے نمائندگان شامل ہوتے۔ان كی زندگی كے واقعات كیلئے تو كتاب چاہیے۔ بس فكر تھی تو یہ كہ حضرت مسیح موعودؑ كے مہمانوں كو كوئی تكلیف نہ ہو۔

جلسہ كے ایام میں آپ كو جماعتی جیپ مل جاتی تھی اور ٹیلیفون بھی تاکہ رابطہ میں آسانی رہے۔

مكرم مرزا غلام احمد صاحب اور چوہدری حمید الله صاحب آپ كے دست وبازو تھے۔ ان پر بہت اعتماد ہوتا تھا۔ میاں احمد صاحب سمجھتے تھے كہ مجید كیا ہر وقت میر صاحب كے ساتھ لگا رہتا ہے۔ ایك دن انہوں نے كہہ بھی دیا تو میر صاحب نے انھیں فرمایا جو کام یہ Runner كے طور پر كرتا ہے وه تم نہیں كر سكتے۔ بس سارا دن یہ كرو، وه كرو، اِدھر جاؤ، اُدھر جاؤ ہی لگا رہتا تھا۔ پھر تجربہ بھی ہو گیا تھا كون كون لوگ كس كس شعبہ میں كیا كیا فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس لئے آپ سے ہدایات پا كر میں سب کو پہنچا دیتا تھا۔

ایك دن جب میں مربی بن چكا تھاحضرت قاضی نذیر احمد صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے میری ڈیوٹی اپنے ساتھ لگوا لی۔ حضرت میر صاحب نے ہدایت بھیجی كہ یہ سال ہا سال سے میرے ساتھ كام كر رہا ہے۔ ٹھیک ہے اب آپ كا مربی ہے لیكن اس سال ڈیوٹی میرے ساتھ رہنے دیں۔ قاضی صاحب اپنی شان كے بے بدل مناظر تھے۔ دلیلوں سے محبتانہ رنگ میں بات ہوتی رہی۔ قاضی صاحب كہنے لگے كہ پاكٹ بك تیار ہو رہی ہے جلسہ پر ہم نے شائع كرنی ہے اور دیگر كام بھی كرنے ہیں۔ حضرت میر صاحب نے دلیل دیتے ہوئے فرمایا كہ قاضی صاحب! پھر جلسہ پر مہمانوں كو پاكٹ بك ہی كھلانا۔ احترام اپنی جگہ قائم رہا۔ قاضی صاحب نے حضرت میر صاحب كی بات پر سرِ تسلیم خم كر دیا اور میری ڈیوٹی بدلی گئی۔

ايك روزپیڑے بنانے والیوں نے ہڑتال كر دی، نانبائی اور ٹھیكیدار بھی اكڑ گئے۔ حضرت میر صاحب كو سخت فكر دامنگیر ہوئی۔ حضورؓ سے دعا كیلئے عرض کی اور ان كا بدل تلاش كرنا شروع كر دیا۔ فرمایا كہ جامعہ كے سب لڑكوں كو پیڑے بنانے پر لگا دو اوركچھ ٹرك بھیجو كہ فلاں فلاں دیہاتوں سے پیڑے بنانے والیاں لائے۔ چنانچہ ٹرك پر مکرم منیر بسمل صاحب اور خدام چلے گئےاور مزدور لے آئے۔ اس دن میاں احمد صاحب بھی نہ سوئے۔ صبح حضرت میر صاحب نے میاں احمد صاحب كو حكم دیا كہ ابھی گھر جاؤ اور اتنے گھنٹے آرام كرو اور نیند پوری كرو تا تازه دم ہو كر خدمت كرسكو۔ دوسروں كا اتنا خیال اور اپنا كہ سونا ہی نہیں۔ اس دن میں بھی كافی جاگا۔ صبح حضورؓ كو رپورٹ كرنے گئے تو حضورؓ نے مٹھائی كا ڈبہ تبرك دیا۔ میر صاحب نے مجھے پكڑا كر كہا كہ كھا لو۔ میں نے نہ سمجھا، بھوک بھی كافی تھی۔مٹھائی خوب كھائی۔لنگر خانہ نمبر 1 پہنچے اور جامعہ كے لڑكوں كو بے لوث سخت محنت كرتے دیكھ كر شاباش دی اورمجھے فرمایا كدھر ہے تبرك؟ تھوڑا سا باقی ره گیا تھا پیار سے فرمانے لگے تبرك تو تبرك ہوتا ہے تم سارا كھا گئے ہو۔ ابھی تو دوسرے لنگروں میں بھی جانا ہے۔ میرے شیر كام كر رہے ہیں۔اپنے طلبہ كو كہتے كہ میں نے شیر پالے ہیں۔ واقعی لڑكے دن رات ایك كر دیتے تھے۔ كہتے كہ میں بےفكر ہوجاتا ہوں جہاں دیكھتا ہوں جامعہ كا لڑكا ڈیوٹی دے رہا ہے۔ دوسری طرف اگر كسی لڑكے سے كوئی كوتاہی ہو جاتی تو سخت ناراض ہوكر فرماتے كہ ابھی تو ان پر ذمہ داریاں پڑنی ہیں۔ كام چوری كی عادت كو سخت ناپسند فرماتے اور اصلاح كرتے ۔ ہر وقت اصلاح پیش نظر ہوتی۔

ان دنوں حضرت میر محمود احمد صاحب كی ڈیوٹی لنگر خانہ تمبر 1 كی طرف كی مستورات كیلئے كھانا پہنچانے كی ہؤا كرتی تھی۔ میر صاحب نے چونكہ جلسہ میں تقریر بھی كرنی ہوتی تھی۔ ادھر عورتوں كی ڈیلنگ تو ان كو احساس ذمہ داری اور جانفشانی سے كام كرتے ہوئے آواز اور گلے كی بھی تكلیف ہوجاتی۔جس سے دوسرا تاثر لیتا كہ یہ گھبراہٹ كا شكار ہیں حالانكہ ایسی بات نہ تھی۔ حضرت میر صاحب فرمانے لگے كہ ہے تو میر ا یہ چھوٹابھائی لیكن نیكی، تقویٰ اور تعلق بالله میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ اس دن سے مجھ میں تو حضرت میر محمود صاحب كی بزرگی كا احترام رچ بس گیا ہے۔ حضرت میر صاحب علماء سلسلہ كا خاص خیال ركھتے۔ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور حضرت مولانا ابو العطاء صاحب كے گھروں میں بھی جلسہ كے مہمانوں كا رش ہوتا۔ فرماتے فلاں جگہ سے آٹا چینی لے لو اور ان كے گھر پہنچا آؤ كیونكہ وه غیرمعمولی مہمان نواز ہیں اور خرچ بڑھ گیا ہو گا۔

حضرت میر صاحب حضورؓكی تقریر جلسہ گاه جاكر سٹیج پر بیٹھ كر سنتے۔ ساتھ میرا بھی داؤ لگ جاتا۔ بڑے انہماك سے بہت ڈوب كر سنتے۔ مكرم ثاقب زیروی صاحب كی نظم پر میں نے ہمیشہ ان كو اشكبار دیكھا ہے۔

لنگرخانوں كے سلسلہ میں حضرت مرزا منصور احمد صاحب كی انتظامی قابلیت كے بہت قائل تھے۔ كہتے تھے كہ یہ اكثر روٹی پوری كروا لیتے ہیں۔آپ انعام كا اعلان كرتے۔ نانبائیوں میں مقابلہ كروا كر ایك جوش پیدا كردیتے اور عجیب نظارہ ہوتا۔ نانبائی خوش رہتے اور نعرے لگاتے۔

سارے شعبوں كی رپورٹ لے كر فائنل رپورٹ تیار كرنے میں مكرم چوہدری حمید الله صاحب یدِ طولی ركھتے تھے۔ حاضری پرچی بجٹ كے متعلق خرچ سے ایك نقشہ ابھر كر سامنے آجاتا۔ ان كے كام سے حضرت میر صاحب مطمئن تھے، كیونكہ ان كا رجسٹر اپ ٹو ڈیٹ ہوتا تھا۔

ایك دن میرے بھائی اور دیگر عزیز گاؤں سے آئے۔ سب نوجوان اور صحتمند تھے۔ جلسہ كے دفتر میں سیدھے آگئے۔ میر صاحب نے برا نہ منایا۔ فرمانے لگے كہ یہ كون ہیں؟ تعارف ہوا تو فرمانے لگے فوراً پرہیزی یا سپیشل لنگرخانہ، جو ڈاكٹر سلطان محمود شاہد صاحب كے زیرِنگرانی تھا، سے كھانا لاكر ان كو كھلاؤ۔ چنانچہ ہدایت كی تعمیل كی۔سارے دیہاتی بڑے خوش ہوئے كہ میر صاحب تو كمال كے انسان ہیں۔ حسنِ سلوك سب مہمانوں سے ایك جیسا۔ فرماتے سب مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے ہیں۔ سب قابلِ قدر ہیں اور اكرامِ ضیف كے حقدار ہیں۔

آپ افسر گولبازار سے بھی رپورٹ لیتے۔ ایك روز كراچی كا ایك آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی تصویریں فروخت كر رہا تھا كہ جن میں Tuching تھی۔ یہ دیكھ كر سخت غصہ میں آگئے اور فرمایا میں ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔ میر صاحب اصل تصویر میں كسی قسم كی تبدیلی کرنا ناجائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ ماركیٹ سے تصاویر اٹھوا دیں۔

٭ ایك دن رپورٹ ملی كہ بجلی والے اور اس كے لڑكوں نے جامعہ كے طالبعلم فضل الہٰی عارفؔ كی، جو گوشت كی ڈیوٹی پرمتعین تھے، كسی بات پر پٹائی كر دی ہے۔ آپ نے اسے دفتر بلایا اور تنبیہ كی اور اس كے لڑكوں كو بھی خدمت سے محروم كر دیا۔ كاركنان كا خیال ركھنا اور ان كے جذبات كی حفاظت كرنا اپنا فرض سمجھتے۔ میں نے دیكھا كہ حضرت میر صاحب سارا دن بڑے بے چین رہے۔ فضل الہٰی عارف كی بھی دلجوئی كی اور بجلی والے اور اس كے لڑكوں كی بھی خوب دهلائی كی اور سب كو سبق دیا خبردار! اگر آئنده كسی نے جامعہ كے طالبعلم پر ہاتھ اٹھایا یا اس كی توہین كی۔ اگر شكایت ہے تو تحریرًا دفتر كو اطلاع كرو۔ میں خود اس كی اصلاح کے لیے مناسب تدبیر كروں گا۔

(مرسلہ: مجید احمد سیالکوٹی دفتر پی ایس اِسلام آباد یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021