• 27 اپریل, 2024

تعارف سورۃالزخرف (43 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃالزخرف (43 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی90 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003
)

وقت نزول اور سیاق و سباق

قرطبی کے نزدیک جملہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ ابن عباس نے بھی اس مؤقف کی بھرپور تائید کی ہے پھر بھی اس سورت کے نزول کی معین تاریخ بتانا مشکل امر ہے۔ علماء کی اکثریت اس رائے کے حق میں ہے کہ یہ سورت نبوت کے چوتھے سال کے آخر میں یا پانچویں سال کے ابتداء میں نازل ہوئی۔ گزشتہ سورت کا اختتام اس بیان پر ہوا تھا کہ الہی پیغمبروں پر نازل ہونے والی وحی میں کچھ معمہ یعنی اخفاء کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کے نزول سے قبل آپ اس کی ہیئت اور اہمیت سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ موجودہ سورۃ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ قرآن کریم نہایت واضح اور فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے اور یہ جملہ حقائق الاشیاء پر مشتمل ہے اور اس کی تعلیمات آسانی سے سمجھ آنے والی ہیں، اس لئے اخفاء کا پہلو ہونے کے باوجود کسی کے لئے اس کے جھٹلانےکا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ سورت مزید بتاتی ہے کہ خدا تازہ وحی کے نزول سے نہیں رکے گا، جب کبھی بھی اس کی حقیقی ضرورت پیدا ہوگی جیسا کہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا سلسلہ باوجود استہزاء اور مخالفت کے نہیں رکا۔ الہٰی مصلح کی بعثت کا تسلسل قائم رہے گاباوجودیکہ کفار جو بھی کہیں یا کریں۔

مضامین کا خلاصہ

موجودہ سورۃ گزشتہ تین سورتوں کی طرح اس بیان سے شروع ہوتی ہے کہ قرآن کریم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو بڑی عظمتوں والا اور صاحب حمد ہے اور توحید کے مضمون کو آگے بڑھاتی ہےجو اس سورت کا مرکزی خیال ہے۔ یہ مضمون (توحید باری تعالیٰ) گزشتہ حٰم والے حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں سے مختلف اندازمیں بیان ہوا ہے۔یہ سورت بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی توحید کے قیام کی خاطر ابتدائے آفرینش سے اپنے رسول اور نبی مبعوث فرمائے ہیں جنہوں نے خدا کے واحد و یکتا ہونے کا پرچار کیا۔ ان کی مخالفت کی گئی اور ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا گیا۔ مگر اس مخالفت نے خدا کو نئے نبی اور نئی وحی کے نزول سے نہیں روکا۔ نبی، وقت کی ضرورت کے عین مطابق مبعوث ہوتے رہے اور ان میں سب اعلی اور افضل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں ظاہر ہوئے۔یہ سورت یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو انسان کی خدمت کے واسطے پیدا کیا ہے اور اسکی مادی ضرورتوں کو بھرپور طور پر پورا کیا ہے۔ جب خدا نے انسان کی مادی ضروریات کا اس قدر خیال رکھا ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہو کہ وہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ضروریات کو نظر انداز کردیتا۔دراصل انسان کی اخلاقی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خدا نئی وحی کو نازل کرتا ہے۔مگر اپنی نا سمجھی اور بے وقوفی میں کفار خدا کے شریک بنا لیتےہیں جو مختلف شکلوں اور انواع کے ہوتے ہیں اور یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ نہایت بےباکی سے اپنی مشرکانہ رسوم کو بھی خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ،یہ کہتے ہوئے کہ اگر خدا چاہتا تو وہ بتوں کی پوجا نہ کرتے۔ مشرکوں کا یہ دعویٰ انسانی عقل کے خلاف ہے اور کوئی الہٰی صحیفہ اس کی تائید نہیں کرتا۔

مشرکوں کے انکار کی بنیادی وجہ ان کا تکبر اور دھوکہ دہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کریم ایک عظیم آدمی پر نازل نہیں کیا گیا۔ ان کے اس متکبرانہ احساس برتری والے خیال کی قرآن کریم نے یوں تردید کی ہے کہ جسے وہ عظیم قرار دیتے ہیں وہ خدا کی نظر میں ہرگز عظمت والی چیز نہیں ہے۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا کہ دولت، مقام و مرتبہ اور حیثیت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے معاشرے میں مختلف طبقات جنم لیتے اور اس کی تباہی کا سبب بنتےہیںتو خدا خود ہی مشرکوں کو کئی ٹن سونا اور چاندی عطا کر دیتا یہاں تک کہ ان کے گھروں کی سیڑھیاں بھی سونے کی بن جاتیں۔ کیونکہ یہ چیزیں خدا کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اس سورت کا مرکزی خیال بت پرستی کی بیخ کنی ہے مگر جہاں قرآن کریم بت پرستی کی مذمت کرتا ہے وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معزز قراردیتا ہے جو عیسائی عقائد کی رو سے معبود ہیں جبکہ قرآن انہیں خدا کا معزز رسول قرار دیتا ہے یہ بتاتے ہوئے کہ آپ نے اپنی قوم کو ایک خدا کی طرف بلایا تھا مگر انہوں نے انکار کیا اور آپ کی تعلیمات کو نہ مانا۔ لہٰذا غلطی ان لوگوں کی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کو مورد الزام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سورۃ توحید باری تعالیٰ کے مضمون پروضاحت اور مدلل دلائل کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021