• 29 اپریل, 2024

استاذی المحترم حضرت سید میر داؤد احمد صاحب (قسط 2)

استاذی المحترم حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه سے متعلق سنہری یادیں
قسط 2

جامعہ كے طلبہ، جو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی پر ہوتے، ان كا پورا خیال ركھتے۔ ان كے آرام، كھانے اور عزتِ نفس كا خیال ركھتے۔ جو كھسك جاتا اس كی خوب كلاس لیتے تا دوسروں كو سبق ملے۔ طلبہ میر صاحب پرجان قربان كرتے تھے۔ سب كو ہی میر صاحب سے پیار تھا۔ ماں باپ سے بڑھ كر محبت تھی۔ میر صاحب نے اپنے حسنِ اخلاق، ذاتی تعلقات اور محبت سے طلبہ میں یہ مقام پیدا كیا تھا۔ حقیقی معنوں میں وه ہمدرد، شفیق اور پیار كرنے والا وجود تھا اور ہمہ وقت ان كی بہتری اور بھلائی كیلئے دعاگو رہتے تھے۔ خود عاشقِ خلافت تھے اور طلبہ میں بھی عقیدت ومحبت كا جذبہ اُجاگر كرتے تھے۔

خلیفۂ وقت اور نظامِ جماعت سے جس قدر ان كو عقیدت ومحبت اور عشق تھاوه اپنی مثال آپ تھا۔ اتنی گہرائی اور ادراك كہ جو آخری سرحدوں كو چھو رہا تھا۔ حضرت خلیفۂ ثانی سے تو كمال درجے كا عشق تھا۔ آپ كو حضورؓ کی دامادی كا شرف حاصل تھا، لیكن قرب اتنا كہ حضورؓ كی آخری طویل بیماری میں ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہے۔ ہم جامعہ میں تھے۔خلیفۂ وقت سے تعلق كی باتیں سن سن كر دل میں جذبات پالتے رہے۔ ایك دفعہ جلال شمس صاحب اور خاكسار كو ملاقات كا بھی سپیشل چانس دلوا دیا۔ حضورِ انور بستر پر تھے۔ میر صاحب اپنے ساتھ لے گئے۔ اورك مره میں ملاقات كرادی۔ اس كے علاوه بھی جس كار میں باہر تشریف لےجاتے تو ڈاكٹر حشمت الله اور آپ ساتھ ہوتے۔ اور ہمیں وقت سے پہلے بتا دیتے كہ آج فلاں جگہ كھڑے ہونایا فلاں دن جامعہ كے احاطہ میں كار لاؤں گا، دیدار كر لینا۔ اس طرح ہمیں موعود خلیفہ اور روحانی لیڈر كو دیكھنے كی سعادت نصیب ہو جاتی اور دل محبت وعقیدت سے لبریز ہوجاتا۔

حضرت میر صاحب فرماتے اس انسانؓ كے مجھ پر بہت احسان ہیں۔ میں تو اس لائق نہ تھا۔ اپنی شادی كا واقعہ سناتے كہ نكاح ہو چكا تھا۔ایك دن حضورؓ ساتھ لے گئے اور فرمایا یہ تمہاری بیوی ہے، اس كو ساتھ لے جاؤ۔ بیٹی كو خود گھر چھوڑنے آئے۔ فرماتے جب سے حضور وفات پا گئے ہیں، میں كبھی چار دیواری میں مزار پر جانے كی ہمت نہ پا سكا۔ اب مجھے پتہ لگا ہے كہ عشق كیا ہوتا ہے۔

٭ ایك دن میں نے ان كے بیٹے قمر سلیمان كو دیكھ كر حضرت میر صاحب سے كہا كہ اس كو جامعہ بھیج دیں۔ فرمانے لگے اس كی صحت كمزور ہے۔ جامعہ كی تعلیم تو تمہارے جیسے صحتمند اتھلیٹ كو بھی تھكا دیتی ہے۔ یہ تو بہت دبلا پتلا ہے۔ تاہم یہ واقفِ زندگی ہی ہے۔ خدا جس طرح چاہے گا اس سے خدمت لے گا۔ میری اور بی بی كی تو یہی خواہش ہے۔ قمر سلیمان صاحب اب خدا كے فضل سے اعلیٰ تعلیم كے بعد نائیجیریا میں احمدیہ سكولوں میں پڑھانے كی خدمت كے بعد مركز میں وكالت وقفِ نو كے ذمہ دار عہدے پر خدمات بجا لا كر اپنے قابل فخر باپ كی روح كو خوش كر رہے ہیں۔ مولیٰ كریم انھیں مزید خدمات كی توفیق بخشے۔

٭ حضرت میر صاحب كے ساتھ بےتكلفی تھی۔ میرے ساتھی، ہم جماعت اور جامعہ سٹاف والے جانتے ہیں كہ مجھے ان كے گھر میں باربار جانے كی توفیق ملتی۔ خوب تواضع فرماتے۔ سنہ 1969 میں اعتكاف كے دنوں میں تو كھانا گھر سے بھجواتے۔ ان کے گھر ایک لڑکا ارشد رہتا تھا جو ان كے گھر كھانا لاتا تھا۔ اب وه جرمنی میں ہے۔ بےپایاں شفقتوں میں سے كس كس كا ذكر كروں۔ عید پر عیدی دینا ان كا طریق تھا بلكہ میرے دوست جلال شمس كیلئے بھی بھیجتے تھے۔

٭ سید قمر سلیمان صاحب كے متعلق فرمانے لگے كہ میں نے ایك دفعہ اسے ہلكی سی چپیڑ لگائی لیكن اس كے فوراً بعد مجھے ندامت محسوس ہوئی اورنفس نے ملامت كی كہ تو كون ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی نسل پر ہاتھ اُٹھانے والا۔ فرمانے لگے چنانچہ میں نے استغفار كیا اور توبہ كی۔ پھر كبھی كسی بچے كو نہیں مارا۔ بی بی كا مجھے پتہ نہیں وه اس كے بچے ہیں اور وه حضرت مصلح موعودؓ كی بیٹی ہے۔ بہت ہی عزت كرتے بی بی كی۔ اكثر جب تحفہ بھیجنے اور برتن واپس كرنے میں دیر ہو جاتی اور بی بی پوچھتیں تو فرماتےتم میری جواب طلبی كروا دیتے ہو۔ بی بی كہتی ہیں ایسے طالبعلم ہیں جامعہ كے جو برتن بھی وقت پر واپس نہیں كرتے۔

٭ سردیوں میں ہمیں لنڈے كے كوٹ اور سویٹر پہنے دیکھتے تو خوش ہو كر فرماتے اچھا ہے سستے ہیں۔ لیكن میں اپنے بچوں كو صرف اس لئے نہیں پہناتا كہ حضرت مسیح موعودؑ كی نسل ہے۔ یہ خود داری قابلِ قدر تھی۔

٭ میر صاحب جامعہ كے ذہین طلبہ کا بےحد احترام كرتے تھے۔مثلاً محمد جلال شمس صاحب۔ لیكن ان كے متعلق كہتے تھےکہ اگر وہ محنت کرے تو اول آجائے۔

٭ میری ایك دفعہ كمپارٹمنٹ آگئی اور دل برداشتہ ہوا تو تو بڑے پیار سے سمجھا كر اعتماد بحال كیا اور فرمایا: گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔

پھر فرمانے لگے كہ تمھیں كیا پتہ كہ میدانِ عمل میں كس نے كس طرح كامیاب ہونا ہے۔ جامعہ تو صرف ایك ابتدائی درس وتدریس كا اداره ہے۔ ساری زندگی اس كو درسگاه نہ سمجھیں۔

٭ میر صاحب اپنے طلبہ كو مختلف اوقات میں ذمہ داریاں دے كر ان كی صلاحیتوں كو اُجاگر كرنے كی كوشش كرتے۔ ایك دفعہ ایک گروپ نے كسی تقریب كا اہتمام كیا، جس كا معیار كسی پہلو سے بھی میر صاحب كو پسند نہ تھا۔ مجھے بلا كر فرمایا خرچ میں دیتا ہوں۔ دعوت كا اعلیٰ درجے كا انتظام كرنا ہے۔ ساتھ منیر احمد بسمل اور ناصر شمس كو لگا لو۔ چنانچہ ہم نے انتظام كیا۔ بہت عمده انتظام ہو گیا، لیكن بعض طلبہ نےکھانے کے اداب اور جامعہ کے وقار کو ملحوظ نہ رکھا ۔ میر صاحب نے بلایا اور فرمانے لگے۔ ان كو علیحده لے جا كر سلیقہ سكھاؤ كہ دعوتوں میں بھی آداب ہوتے ہیں اور تم لوگوں نے تو دنیا كو سكھانا ہے۔ پھر فرماتے كہ میں چاہتا ہوں كہ ہمارے مربی اس داغ كو دھوئیں جو دوسرے مولویوں نے مذہب كے نام پر لگوا ركھے ہیں۔ آپ ہمیشہ كوشش كرتے كہ جامعہ كے طلبہ ہر جگہ نمایاں عزت پائیں۔ چنانچہ آپ نے طلبہ كیلئے اعلیٰ درجہ كا ہوسٹل بنوایا اور میس بھی عمده اور جامعہ كی عمارت بھی اعلیٰ اور ہال بھی خوبصورت۔ كھیلوں كا میدان اور معیار بھی بلند كیا۔ روك دوڑ تو جامعہ كی ایسی دلچسپ ہوتی كہ سارا ربوه دیكھنے كیلئے امڈ آتا۔ خدام الاحمدیہ كے اجتماع پر جامعہ كے طلبہ ہر علمی وورزشی مقابلہ میں آگے آگے ہوتے۔

ایك دفعہ جب آپ صدر خدام الاحمدیہ تھے تو طلبہ كے انعامات بہت تھے۔ حضورنے تقسیمِ انعامات كرنی تھی۔ ہر نام كے ساتھ ضلع كا نام بولا جانا تھا، لیكن فرمایا كہ جامعہ كے طلبہ كے نام كے ساتھ جامعہ کا نام بولا جائے۔ اس سال میرے سات آٹھ انعام تھے۔

حضرت میر صاحب جامعہ كی عظیم الشان عمارت بنوائی اور طلبہ میں اعتماد اور احساس برتری كو عروج تك پہنچایا۔ ہر وقت بلڈنگ كے معیار اور لڑكوں كے علمی معیار كی فكر رہتی تھی۔

٭ حضرت میر صاحب نے انتظامی صلاحیتوں كے علاوه ایك دعا گو ہمدرد عالم باعمل انسان تھے۔ہمیں حدیث پڑھاتے ہم نے دوسرے اساتذه سے بھی حدیث پڑھی لیكن آپ نے جس رنگ میں پڑھائی وه بہت اچھوتا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا كہ آج ہی حدیث پڑھنی شروع كی ہے۔ عشق رسول ﷺ میں ڈوب كر بڑے درد سے پڑھاتے۔ بیان دل ودماغ میں اترتا چلا جاتا۔ یہ خوبی آپ نے اپنے باپ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ سے ورثہ میں پائی تھی۔ ہم تو اس عظیم انسان كو نہ دیكھ سكے لیكن بیٹے كے رنگ انداز اور تبحّر ِعلمی كو دیكھ كر انداز ه ہوگیا كہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ عظیم المرتبت انسان ہوں گے، جن كے تینوں بیٹے سلسلہ كے دعاگو عالم باعمل ستون بنے۔ سب نے باپ كی مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں كو خوب اپنایا اور نام كمایا۔ جماعت كی خدمت كی سعادت پائی۔

حضرت میر صاحب مختلف وقتوں میں ٹیسٹ بھی لیتے اور بہت سخت ماركنگ كرتے، لیكن سالانہ امتحان میں كچھ اور معیار ہوتا۔ پوائنٹ بائی پوائنٹ جو جواب دیتا اس كو اچھے نمبر ملتے۔ ناصر شمس صاحب ان كی اس ٹیكنیك كو خوب سمجھ گئے تھے۔

٭ حضرت میر صاحب خود اتنا انكسار دكھاتے كہ فرماتے مجھے تقریر سے ڈر لگتا ہے لیكن جب تقریر كرتے اور طلبہ كو اسمبلی یا آخری تقریر كی گھنٹی میں نصائح فرماتے تو انداز ایسا كہ دلوں اور روحوں میں اترتا جاتا۔ سپاسنامے لكھنے كے تو ماسٹر تھے۔ آپ ہر تقریب كے روحِ رواں ہوتے تھے۔ طلبہ كو خلیفۂ وقت كے ساتھ تعلق پیدا كرنے كی ہر وقت فكر رہتی اور انہیں خطوط لكھنے كی تلقین كرتے۔ خوب رنگ چڑھایا۔ خلیفۂ وقت کےمقام اوراسکےاحترام وتقدس كو جس گہرے رنگ میں ہم سمجھے ہیں یہ اس بزرگ ہستی كی ہی وجہ سے ہے۔ خلیفۂ وقت سے محبت ایمان كو تازگی بخشتی ہے۔

٭ حضرت میر صاحب طلبہ كو سخت جان اور مشقت والی زندگی كا عادی بنانے كی كوشش كرتے۔ اسی لیے ہائیكنگ كے دوران سینكڑوں میل چلنے، كراس كنٹری ریس اور پیدل سفر كی مشق كرواتے اور خود دلچسپی لیتے۔ ایك دفعہ خاكسار نے بھی كراس كنٹری ریس میں حصہ لیا۔ جھنگ جا كر واپس آنا تھا۔ خاكسار قدرتی طور پر ایتھلیٹ تھا اور كھیلوں كا بہت شوقین تھا۔ بڑے شوق سے كراس كنٹری ریس میں حصہ لیا لیكن جھنگ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی تھك كر چور ہو گیا اورآبلہ پا ؤں میں گیا۔ شوق وجذبہ تو قائم تھالیكن پاؤں نے نڈھال كر دیا تھااور دل چھوڑ بیٹھا تھا۔ بس پكڑی اور ربوه واپس آگیا۔ میر صاحب تو سمجھتے تھے كہ اول آئے گا۔ دیكھ كر پریشان ہوئے اور فرمایاکہ ونگیں پہنا دوں؟ سخت شرمندگی ہوئی۔ كوئی وجہ بھی ان كو قائل نہ كر سكی۔ كہنے لگے كہ میں تو سب طلبہ كو حوصلہ مند اور سخت حالات كا مقابلہ كرنے والےمجاہد كے طور پر دیكھنا چاہتا ہوں۔ دل چھوڑ دینے والے طالبعلم كو وه پسند كرتے تھے۔

٭ تقریر سے خود تو گریز كرتے تھے لیكن مقررین كی بہت عزت افزائی فرماتے تھے۔ تقریری مقابلہ جات میں عربی تقریر میں دو تین سال حصہ لیا۔ میری رٹی ہوئی تقریر اچھی ہو گئی۔ اس كو آپ نے كئی دفعہ سراہا اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ جب بھی ملتے فرماتے كہ میرے سے تو تم اچھی تقریر كر لیتے ہو۔ حالانكہ یہ بات سن کر مجھے بہت شرم محسوس ہوتی تھی۔ آپ کا مقصد میری حوصلہ افزائی فرمانا تھا۔

٭ میر صاحب اپنے اصول كے بڑے پابند تھے۔

٭ حضرت میر صاحب سیر وتفریح كے بھی شوقین تھے۔ دریائے چناب پر پكنك كیلئے جانا پسند تھا۔ برادرم خلیفہ صباح الدین صاحب كی والده كے ہاتھ كے مچھلی كباب بہت مرغوب تھے۔ پكنك كے دوران كشتی میں بیٹھتے تھے۔ گپ شپ چل رہی تھی كہ كوئی نامناسب لفظ میرے منہ سے نكل گیا۔ آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور ٹوك دیا۔ فرمانے لگے ابھی تم لوگوں نے مربی بن كر میدانِ عمل میں جانا ہے تو زبان كی احتیاط بےحد ضروری ہے۔ ہر میدان میں وه ہم لوگوں كا جائزه لیتے رہتے تھے اور ہماری عادتوں سے خوب واقف تھے اور پرده پوشی كرتے اور نصیحت سے ہمیں راهِ راست پر چلاتےتھے۔

ہم نے شاہد كا امتحان دینا تھا۔ بعض طلبہ امتحان كے بارے میں سنجیده نہ تھے اس لئے طب كے امتحان میں بہت سے فیل ہو گئے۔ سب كو سبق دینے كیلئے تین مہینے مزید لگوائے۔ ایك كلاس فیلو، جو بہت سنجیده تھا، اس نے پیپر میں اوٹ پٹانگ لكھ دیا جس پر پرچہ دیكھنے والے نے سخت ریماركس دیے اور وه بیچاره زیرِ عتاب آگیا۔ میر صاحب چونكہ اسے آخری وارننگ دے چكے تھے اس لئے دوباره سفارش نہ كی۔ سخت ابتلا اور كٹھن راہیں جامعہ كے كورس كا حصہ ہیں۔ جس پر خدا كا فضل ہو وہی اس كو طے كرتا اور سرخرو ہوتا ہے۔

  • ان دنوں جامعہ كی آخری كلاس كو ہوسٹل سے چھٹی ہو جاتی تھی۔ سب نے اپنا انتظام كرنا ہوتا تھا۔ خاكسار اور برادرم اسماعیل منیر ثانی صاحب نے دار البركات میں دو كمرے كا چھوٹا سا گھر 20 روپے ماہوار كرائے پر لیالیكن كھانے كا مسئلہ تھا۔ آپ نے ازراهِ شفقت چند ماه مزید ہوسٹل سے كھانے كی اجازت فرمائی۔ ان كی شفقت تھی۔ پھر گاہے گاہےہمارے پاس بھی آتے۔ ایك دن آپ برادرم ناصر شمس صاحب كے ساتھ تشریف لائے لیكن میں نے ان كو نہ دیكھا۔ برادرم ناصر شمس صاحب مجھ سے باتیں كرتے رہے۔ كسی بات پر میں نے كہا كہ یار میر صاحب نے مولانا یا مولوی كا لفظ میرے لئے استعمال كیا ہے جس سے مجھے بڑا وَٹ چڑھا ہے۔ دوسرے روز ہی كسی كے ہاتھ خط اور تحفہ بھیجا جس میں لكھا تھا کہ اگر وَٹ نہ چڑھے تو یہ تحفہ آپ كیلئے ہے۔ یہ ان كی شفقت تھی۔ پھر مجھے معلوم ہوا كہ انہوں نے میر ا وه فقره سن لیا تھااور چلے گئے تھے۔ میں سمجھا صرف برادرم ناصرشمس صاحب ہی تھے۔یہ ان كا بڑا پن تھا۔
  • حضرت میر صاحب اپنے طلبہ كی جسمانی تكلیف كو بھی دیكھ نہ سكتے تھے۔ ایك دفعہ مجھے ملیریا ہو گیا۔ فضلِ عمر ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اس وقت مکرم بھٹی صاحب میل نرس تھے۔ آپ تشریف لائےتو مجھے سخت بخار تھا۔ آتے ہی فرمانے لگے کہ اسے سخت بخار ہے۔ تم نے ابھی تك اسے ٹھنڈی پٹیاں بھی نہیں لگائیں۔ پھر گھر سے كھانا بھی بھجواتے رہے۔ عظیم شفیق باپ تھا۔ یہی صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ كا طریق تھا۔
  • حضرت میر صاحب كا طریق تھا كہ آپ فارغ التحصیل طلبہ كی فائل پر دعا كے ساتھ اپنی رائے اور تأثرات لكھتے۔ آپ كے ریماركس لمبے تجربہ كی بنا پر ہوتے تھے۔ فرماتے تھےکہ تعلق اور بےتكلفی اپنی جگہ لیكن ریماركس دیانت وامانت كا مسئلہ ہے۔ خلافت كے اطاعت گزار تھے۔ فرماتے تھےکہ میرے تاثرات 95 فیصد درست نكلتے ہیں۔ جن لوگوں نے مایوس كیا ان كی مثال دے كر فكر كا اظہار فرماتے۔آخر انسان تھے سو فیصد ججمنٹ تو صرف الله تعالیٰ كی ہوتی ہے۔
  • جامعہ سے فراغت كے ساتھ ہی اچكن كی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ حضرت میر صاحب نے ایك دفعہ اچكن كا كپڑا بھیجا لیكن ساتھ ہی سلوائی كی قیمت كا بھی وعده كر دیا۔ 40 روپے میں مکرم منان ٹیلر صاحب نے سی كر دی۔ میں نے پہنی تو پسند فرمائی۔ فرمانے لگے اس كپڑے كی خال اچھی ہے۔ یہ كپڑا بی بی كی پسند ہے۔ لائلپور سے خرید كر لائے تھے۔ سن 1969ء میں مجھے یہ اچكن پہن كر قادیان جانے كی سعادت ملی۔
  • ان دنوں بعض بیٹیوں والے ضرورتمند والدین جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ كو بھی بعض اوقات زیرِ غور ركھنے لگے تھے۔ میر صاحب نے ایك دن فرمایا كہ شادی كا بھی سوچو۔ عرض كیا كہ حالات اجازت نہیں دیتے۔ فرمانے لگے كہ واقفِ زندگی كے حالات تو اسی طرح رہنے ہوتے ہیں۔تم پروگرام بناؤ خدا سبب پیدا كر دے گا۔ لیكن دو باتیں یاد ركھو۔ ایك تو روزانہ درود شریف كا ورد كیا كرو اور دعا بہت كیاكرو۔ دوسرے انتخاب كے وقت كسی ملازمت كرنے والی كو ترجیح نہ دینا۔كیونكہ پھر اور مسائل كھڑے ہوجاتے ہیں اور مربی كیلئے وقف نبھانا مشكل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انہی ہدایات كی روشنی میں والدین نے شادی كا بندو بست فرمایا۔ اور میر صاحب نے مالی اعانت فرما كر سارے بوجھ ہلكے كر دیے بلكہ شادی كے بعد بھی ایك دن اپنے كاركن مکرم سلیم صاحب كو میرے گھر ایك لفافہ دے كر بھیجاجس میں 100 روپے تھے۔ اس وقت ہمارا الاؤنس 90 روپے ہوتا تھا۔ یہ ان كی دریا دلی كی مثال ہے۔
  • میرے دوست مکرم جلال شمس صاحب كے حالات بھی مجھ سے ملتے جلتے تھے۔ میں نے عرض كیا كہ اس كا بھی خیال فرمائیں۔ آپ اشاره سمجھ گئے اور ان كی والده صاحبہ كو گھر بلایا اور بڑی عزت سے پیش آئے اور طلائی كڑے، جو بی بی یا بیٹی كے تھے، انھیں دے دیے كہ جا كر جلال شمس كی شادی كا انتظام كرو۔ اس كے علاوه بھی مدد فرمائی۔
  • حضرت میر صاحب جامعہ كے بیسیوں لڑكوں كی مدد فرماتے۔مگر كسی كو كانوں كان خبر بھی نہ ہوتی۔ ایك دوست كی شادی تھی۔ اس كے ساتھ كچھ اختلاف تھا۔لیكن اس كی ذہانت كے قائل تھے۔ اسے بھی شادی پر حسب عادت تحفہ بھیجا اور اس كی شادی كی خوشیوں میں شامل ہوئے۔ وه دوست اب بھی بتاتے ہیں كہ میں سمجھتا تھا كہ میر صاحب مجھے پسندنہیں کرتے۔ لیكن یہ تو عظیم انسان ہے۔ سب طلبہ سے یكساں سلوك فرماتے۔ ہاں بعض كے ساتھ ان كی طبائع كے مطابق تھوڑا سا بےتكلف ہوجاتےلیكن پیار، محبت، شفقت اور راہنمائی سب سے برابر تھی۔ اسی لئے جب آپ اس دنیا سے كوچ كرگئے تو ہر طالبعلم سمجھتا تھا كہ وه آج حقیقی طور پر یتیم ہو گیا ہے۔

جامعہ كا رعب دبدبہ اور وقار قائم كرنے میں میر صاحب نے بنیادی كردار ادا كیا۔ مولویت اور خشكی كو لڑكوں سے نكالنے كو توآپ جہاد سمجھتے اور یقیناً آپ اس جہاد میں كامیاب ہوئے۔

  • حضرت میر صاحب اچھی شعر وشاعری كو بھی پسند فرماتے ۔ مثلاً ایك دفعہ میری كاپی سے بعض شعروں پر نشان لگائے۔ ؎

ہم سے كہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن
تم كوئی اچھا سا ركھ لو اپنے ویرانے كا نام

میری ڈائری سے شعر پڑھ كر ان پر كہا۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كا كلام ازبر تھا۔ سوز لحن بھی بہت پسند تھا۔ناصر شمس صاحب سے غزلیں اور نظمیں سنتے تھے۔ ناصر شمس صاحب اور حفیظ كھوكھر صاحب كی آواز اچھی تھی۔

  • سن 1970ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله مغربی افریقہ كے تاریخی دوره پر تشریف لے گئے۔ یہ افریقہ میں كسی بھی خلیفۃ المسیح كا پہلا دوره تھا۔ آپ نے حضورؒ كی واپسی كی خوشی میں استقبال كی تیاریاں شروع كر دیں۔ شدید گرمیوں كے دن تھے۔ آپ كو بی بی صاحبہ نے مشورہ دیا كہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے الہام «بخرام كہ وقت تو نزدیك رسید وپائے محمدیاں بر منار بلند تر محكم افتاد» كو بڑے رنگ برنگے بلبوں كے ساتھ بڑے سے سائن بورڈ پر لكھ كر ربوه كی گولبازار والی پہاڑی پر آویزاں كیا جائے تاكہ دور دور تك روشنیوں سے تحریر کردہ یہ پر نور الہام پڑھا جائے اور پیشگوئی ظاہری طور بھی بڑی شان كے ساتھ پوری ہوتی نظر آئے۔ حضرت میر صاحب نے مجھےاپنے آفس میں بلایا اور بتایا كہ بی بی كا یہ خیال ہے كہ جامعہ والے یہ كام اپنے ذمہ لیں۔ ہماری كلاس، جو جامعہ كی آخری كلاس تھی، نے بڑی خوشی سے اس سعادت كو پایۂ تكمیل تك پہنچانے كو اپنے لئے باعثِ فخر سمجھا۔ ساری كلاس اس محنت طلب كام پر جٹ گئی۔ میر صاحب كی قدم قدم پر راہنمائی اور مدد نے ایك عجیب ولولہ اور جوش پیدا كر دیا۔ پہاڑی كی چوٹی پر اتنے بڑے سائن بورڈ كو بجلی كے قمقموں سے جگمگانا كوئی آسان كام نہ تھا۔ ایك ایك چیز كا منصوبہ تیار كیا گیا۔ بڑی بڑی پائپیں لیں۔ بجلی والوں كو وہاں تك بجلی لے جانے كا كہا۔ شدید گرمی اور كڑكتی دھوپ میں میر صاحب كا باربار پہاڑی كی چوٹی پر جانا ابھی تك میری آنكھوں كے سامنے ہے۔ برادرم اسمعیل منیر صاحب، برادرم ملك منصور صاحب، برادرم خلیل مبشر صاحب، برادرم خلیفہ صباح الدین صاحب، برادرم فضل الہٰی صاحب، برادرم صفی الرحمن خورشید صاحب سب نے انتھك محنت كركے منصوبہ كو چار چاند لگا دیے اور پہاڑی بقعۂ نور بن گئی۔ سارے ربوه والوں كی توجہ كا مركز وه پہاڑی بن گئی۔ ہر كوئی حیران كہ یہ كام كیسے ہوگیا۔لیكن حضرت میر صاحب بڑے خوش كہ محنت كام آئی اور پركشش چیز پیش كرنے میں كامیابی حاصل ہوئی۔ اسی رات جامعہ كے چھوٹے چھوٹے درختوں پر بھی قمقمے عجیب سہانا منظر پیش كر رہے تھے۔ خدام، انصار اور دوسری تنظیموں نے بھی اپنے دفاتر خوب سجائے تھے۔ سرگودھا اور فیصل آباد سے سارے قمقمے ختم ہو گئےتھے۔ لاہور سے بھی لائے گئے۔ ساری خوشی سمٹ كر ربوه آگئی تھی۔ رات دن سے بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔ حضرت میر صاحب رات كو حضورؒ كے ہمراه جامعہ اور دیگر پہاڑی عمارات كا نظاره كرانے لائے۔ ربوه دلہن كی طرح سجا ہوا تھا۔ ہر دل میں قمقمے جل رہے تھے۔ جن كا اظہار ظاہری طور پر بھی نظروں كو خیره كر رہا تھا۔ ایسا نظاره كہ سب عش عش كہہ اٹھے تھے۔ دوسرے روز میر صاحب نے حضور ؒكی خوشنودی كے كلمات بھی ہمیں سنائے۔ اور مجھے حكم دیا كہ ان سب شیروں كی جنہوں نے یہ كارنامہ سرانجام دیا ہے، نعمت كده گولبازار میں دعوت كرو تا ان كی حوصلہ افزائی ہو۔ لیكن سب كو بتا دو كہ حضورؒ نے بہت دعا دی ہے۔ باربار كہتے كہ پہاڑی كی تحریر كا آئیڈیا بی بی كا ہے۔ اچھوتا خیال پایۂ تكمیل كو پہنچ جائے تو خیال پیش كرنے والا خوشی كی آخری حدوں كو پہنچ جاتا ہے۔ میں نے پالیا، میں نے پالیا، پكار اٹھتا ہے۔ یقیناً بی بی كی بھی یہی كیفیت تھی۔الله انہیں جزا دے۔
  • ہم مربیان جامعہ احمدیہ سے فارغ ہو كر دفاتر صدر انجمن احمدیہ اور تحریكِ جدید میں مفوضہ امور كی انجام دہی میں مصروف ہو گئے۔ گاہے بگاہے جب بھی خاکسارمیر صاحب كے دفتر میں حاضر ہوتا تو دیكھا کرتاكہ میر صاحب دفتر میں كرسی سے كھڑے ہو كر بڑے تپاك سے سلام كا جواب دیتے، استقبال كرتے اور كرسی پیش كرتے۔ بہت شرم آتی كہ اس شان كا انسان اتنی عزت دینے كی كیوں كوشش كرتا ہے۔ ایك دن رہا نہ گیا اور عرض كر دیا كہ میر صاحب آپ ایسا كیوں كرتے ہیں؟ كیوں شرمنده كرتے ہیں؟ فرمانے لگے اب تم سلسلہ كے عالم ہو۔ میرا فرض ہے كہ اب تم سے اسی طرح معاملہ كروں۔ عرض کیا کہ بےشك دوسرے طالبعلموں سے ایسا كریں لیكن مجھے معاف كریں۔ ورنہ میں نہیں آیا كروں گا۔ فوراً فرمایا كہ اگر ایسا ہے تو ٹھیك ہے۔ جم جم آؤ اجازت كا شكریہ۔
  • حضرت میر صاحب دفتروں میں ہماری كاركردگی دیكھنے اور ملاقات كیلئے بھی كبھی كبھی چلے جاتے۔ ان دنوں نصرت جہاں سكیم كا دفتر نیا نیا كھلا تھا۔ 17 سالہ منصوبہ تھا۔ رات دن مصروفیت رہتی تھی۔ ہمارے انچارج مكرم چوہدری سمیع الله سیال صاحب تھے جو بہت محنتی انسان تھے۔ دوپہر كو لنگرخانہ كی دال لا كر ہمیں بھی دیتے اور كام تھا كہ ختم ہی نہ ہوتا۔ دفتری اوقات كے علاوه بھی وقت دینا پڑتا۔ مکرم سیال صاحب كی آواز ماشاء الله بڑی كڑك دار تھی۔ میر صاحب مذاق سے فرماتے تمہارے باس كی آواز تو بڑی مزیدار ہے۔ ان كے گلے میں ایكسٹرا بیٹریاں لگی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ مکرم سیال صاحب بھی تو میر صاحب كے دوست اور جلسہ سالانہ كے اہم شعبہ پرالی كے انچارج رہے ہیں۔ بےتكلفی اور احترام اور مزاح میں لطیف امتیاز ركھنے كا سلیقہ آپ كو خوب آتا تھا۔ جتنا عرصہ خاکساران كے پاس رہا ہمیشہ نہایت عزت سے پیش آئے۔(باقی آئندہ ان شاءاللہ)

(مرسلہ: مجید احمد سیالکوٹی دفتر پی ایس اِسلام آباد یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021