• 29 اپریل, 2024

حاصل مطالعہ (قسط 3)

دل کے زنگ دور کرنے کا گرُ!

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقیناً یہ دل بھی صیقل کیے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ آلودہونے پر اُسے صیقل کیا جاتا ہے۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اس کی (یعنی دل کی) صفائی کیسے کی جائے؟

آنحضورﷺ نے فرمایا:

موت کو کثرت سے یاد کرنے سے۔

اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے۔

(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد نمبر 3 باب التا سع عشر (فی تعظیم القرآن) فصل فی ادمان تلا وۃالقرآن۔مکتبۃ الرشد۔ریاض ۔طبع ثانی 2004ء)

حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘آنحضرت ﷺ خدا کے سچے رسول اور سب رسولوں سے افضل تھے۔ سچا ہونا ان کا تو اس بات سے ثابت ہے کہ اس عام ضلالت کے زمانہ میں قانون قدرت ایک سچے ہادی کا متقاضی تھا اور سنت الہٰیہ ایک رہبر صادق کی مقتضی تھی کیونکہ قانون قدیم حضرت رب العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو رحمت الہی اس کے دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسے جب امساک باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے ۔ اور جب وباسے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دواہی پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی ظالم کے پنچہ میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریاد رس پیدا ہوجاتا ہے ۔پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو خداوندتعالیٰ اپنی طرف سےکسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرماکر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اسکی اصلاح کرے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ دوم۔روحانی خزائن جلد اول۔ حاشیہ صفحہ 114،113)

قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے

ارشادات عالیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
’’یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اوربار بار اضطراب سےدُعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دُعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ455ایدیشن1988ء)

امام کی ڈھال کے سائے میں مقابلہ

’’اے دوستو ! بیدار ہواور اپنے مقام کو سمجھو اور اُس اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کیلئے کوشش کرو کہ سَو میں سے سَو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اُس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خداتعالیٰ نے تمہاری حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے اور اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح تم سے خوش ہو جائے۔‘‘

(قیام امن اور قانوں کی پابندی کے متعلق جماعت احمدیہ کافرض ازحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ،انوار العلوم، جلد14، صفحہ 525)

مالی مشکلات سے نجات

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ خاکسار اور مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ کو قادیان دارلامان میں اکٹھا رہنے کا موقع ملا۔ایک دن دوران گفتگومیں نے عرض کیا کہ آپ سیّدناحضرت مسیح موعوؑد کاکوئی خاص واقعہ بتائیں۔ حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خاص برکات کا ایک واقعہ سنایا ۔ آپؓ نے بیان کیا کہ میں ایک عرصہ تک مالی مشکلات میں مبتلا رہا اور کئی ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔ میں نے مالی مشکلات سے گھبراکربے چینی کی حالت میں حضرت اقدس علیہ السلا م کے حضور نہایت عاجزی سے اپنی مالی مشکلات کے ازالہ کے لئے درخواست دعا کی۔ اس پر حضور اقدسؑ نے فرمایا: میاں عبداللہ ہم بھی ان شاء اللہ آپ کے لئے دعا کریں گے لیکن آپ اس طرح کریں کہ فرضوں کی نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کا وظیفہ جاری رکھیں۔ چنانچہ حضور اقدسؑ کے ارشاد کے مطابق میں نے کچھ عرصہ اس وظیفہ کو جاری رکھا اور خود حضورؑ نے بھی دعا فرمائی ۔ خدا کے فضل سے تھوڑے ہی عرصہ میں میرا سب قرض اُتر گیا۔اسکے بعد جب کبھی بھی مجھے مالی پریشانی ہوتی ہے تو میں یہی وظیفہ کرتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کشائش کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ یہ وظیفہ میں نے بارہا پڑھا ہے اور اس سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔

حضرت مولوی صاحب کی بات سن کر میں نے عرض کیا کہ سیّدنا حضرت اقدس علیہ السلام تو اب وصال فرما چکے ہیں ۔ اگر حضور اس دنیا میں ہوتے تو آپ کی طرح حضورؑ سے اس وظیفہ کی اجازت لے کر اس سے فائدہ اُٹھاتے ۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ ہم بھی اس وظیفہ سے کسی صورت میں آپ سے اجازت حاصل کرکے فائدہ اُٹھاسکیں ۔ اس پر حضرت مولوی صاحبؓ نے تبسّم فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اب تک اور کسی شخص کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن آپ کی خواہش پر آپ کو اس کی اجازت دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے اس بابرکت وظیفہ کی مجھے اجازت فرمائی خاکسار بھی اب اپنی زندگی کے آخری ایّا م میں ہے۔ لہٰذا میں ہر اس احمدی کو جو میری اس تحریر سے آگاہ ہوسکے اور اس وظیفہ سے فائدہ اُٹھانا چاہے اپنی طرف سے اس وظیفہ کی اجازت دیتا ہوں۔

(حیاتِ قدسی حصہ سوم: صفحہ 80تا 81)

عبرتناک انجام

’’حضرت جناب بابو اکبر علی صاحبؓ ریٹائرڈ انسپکٹر آف ورکس اکبر منزل حال مہاجر قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اپنی ایک ملاقات کی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ نے فرمایاکہ ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ آپ اور چھٹی لے لیں اور یہاں ہمارے پاس کچھ عرصہ ٹھہریں۔ اس کے بعد میری ملازمت کے حالات دریافت فرماتے رہے ۔کیا تنخواہ ملتی ہے؟کیا کام کرنا پڑتا ہے؟ حتی ٰ کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی دریافت فرمائیں گویا حضورؑ میرے حالات سے پورے طور پر واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ الغرض میں وہ کتاب (حقیقۃ الوحی) لے کر گیا اور اپنے والد صاحب کو پڑھنے کے لئے دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو اس گندی کتاب کو (معاذاللہ) ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتا ہوںجس پر میں نے حضرت اقدس ؑ کے ارشاد کے مطابق وہ سب کچھ عرض کر دیا۔ آخر میرے والد صاحب نے کتاب لے کرچند اوراق اِدھر اُدھر سے پڑھے۔ پھر وہ کتاب ہمارے گاؤں کے ایک نوجوان مولوی کو جسے ایک اور مولوی ملازم رکھ کر پڑھواتا تھا، پڑھنے کو دی۔ اس بدقسمت نوجوان مولوی نے کتاب کو پڑھ کر والد صاحب سے کہا کہ یہ کتاب تو ایسی ہے جیسا کہ حلوہ میں زہر ۔ خدا کی شان کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُسے اسی رنگ میں زہر پلا دیا۔ یعنی ایک زہریلے سانپ نے اُسے کاٹا اور وہ دوسرے دن راہی ملک عدم ہوگیا۔‘‘

(رجسٹر روایات جلد 7 صفحہ259 ۔ بحوالہ ماہنامہ خالد جون 2009ء)

کیا کھویا اور کیا پایا

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا سالِ نو کے موقع پر ایک فکر انگیز ارشاد:
’’غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا ۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا ۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پا یا ۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کیا کھویا اور کیا پایا۔‘‘

(ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن ۔ 20 جنوری 2017ء، صفحہ6)

٭…٭…٭

(مرسلہ: عطاء المجیب راشد ، امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2021