• 27 اپریل, 2024

ہدایت کے راستوں کو پانے کے لئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
ہدایت کے راستوں کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا قدم جو رکھا ہے وہ ایمان بالغیب ہے، اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی ہے جو ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ ایمان میں ترقی ہدایت کے ان راستوں کی طرف لے جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے پانے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنے کے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’متقی کی حالت میں چونکہ رؤیتِ باری تعالیٰ اور مکالمات و مکاشفات کے مراتب حاصل نہیں ہوتے اس لئے اس کو اول ایمان بالغیب ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ تکلف کے طور پر ایمانی درجہ ہوتا ہے کیونکہ قرائن قویہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتا ہے جو بین الشک والیقین ہوتا ہے‘‘ (کہ شک اور یقین کے درمیان یہ چیزیں ہوتی ہیں)۔

فرمایا کہ ’’… متقی اللہ تعالیٰ کو مان لیتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ مت سمجھو کہ یہ ادنیٰ درجہ ہے یا اس کا مرتبہ کم ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں ’’یہ ایمان بالغیب متقی کے پہلے درجہ کی حالت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی وقعت رکھتی ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ سب سے بڑھ کر ایمان کس کا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپؐ کا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرا کس طرح ہو سکتا ہے، مَیں تو ہر روز جبریل کو دیکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو ہر وقت دیکھتا ہوں۔ پھر صحابہ نے عرض کی کہ کیا ہمارا ایمان؟ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان کس طرح؟ تم بھی تو نشانات دیکھتے ہو۔ آخر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ صدہا سال کے میرے بعد آئیں گے ان کا ایمان عجیب ہے کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا نشان نہیں دیکھتے جیسے تم دیکھتے ہو مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ متقی کو اگر وہ اسی ابتدائی درجہ میں مر جاوے، تو اسی زمرہ میں داخل کر لیتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس لذت اور نعمت سے ابھی اس نے کچھ بھی نہیں پایا‘‘۔ (جو نشانات دیکھ کر ملتی ہے)۔ ’’لیکن پھر بھی وہ ایسی قوت دکھاتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی رکھتا ہے بلکہ اس ایمان کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہے۔ یعنی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔‘‘ عمل یہ ہے کہ نمازوں پر قائم ہو جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’تقویٰ کی اس حالت میں نمازوں میں بھی وسوسے ہوتے ہیں اور قسم قسم کے وہم اور شکوک پیدا ہو کر خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے بھی وہ نماز نہیں چھوڑتے اور نہیں تھکتے اور ہارتے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ چند روز نماز پڑھی اور ظنونِ فاسدہ اور خیالات پراگندہ دل میں گزرنے لگے۔ بدظنیاں پیدا ہونے لگ گئیں۔ گندے خیالات آنے لگ گئے۔ نماز چھوڑ دی اور ہار کر بیٹھ رہے۔ مگر متقی اپنی ہمت نہیں ہارتا۔ وہ نماز کو کھڑی کرتا، نماز گری پڑتی ہے، وہ بار بار اسے کھڑی کرتا ہے۔ تقویٰ کی حالت میں دو زمانے متقی پر آتے ہیں۔ ایک ابتلا کا زمانہ دوسرا اصطفا کا زمانہ۔ ابتلا کا زمانہ اس لئے آتا ہے کہ تا تمہیں اپنی قدرو منزلت اور قابلیت کا پتہ مل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر راستبازوں کی طرح ایمان لاتا ہے۔ اس لئے کبھی اس کو وہم اور شکوک آکر پریشان دل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی خدا تعالیٰ ہی کی ذات پر اعتراض اور وہم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ صادق مومن کو اس مقام پر ڈرنا اور گھبرانا نہ چاہئیے بلکہ آگے ہی قدم رکھے‘‘۔ فرمایا کہ ’’شیطان پلید کا کام ہے کہ وہ راضی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منکر نہ کرا لے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے روگردان نہ کر لے۔ وہ وساوس پر وساوس ڈالتا رہتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسان انہیں وسوسوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کر لیں پھر دیکھا جائے گا۔ باوجود اس کے کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک سانس کے بعد دوسرا سانس آئے گا بھی یا نہیں؟‘‘ (مطلب یہ کہ دل میں جو وسوسہ پیدا ہوا ہے یا غلط خیال پیدا ہوا ہے وہ کر لو دیکھا جائے گا۔ پھر بعد میں اصلاح ہو جائے گی)۔ فرمایا کہ ’’لیکن شیطان ایسا دلیر کرتا ہے کہ وہ بڑی بڑی جھوٹی امیدیں دیتا اور سبز باغ دکھاتا ہے۔ شیطان کا یہ پہلا سبق ہوتا ہے، مگر متقی بہادر ہوتا ہے اس کو ایک جرأت دی جاتی ہے کہ وہ ہر وسوسہ کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس لئے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ فرمایا، یعنی اس درجہ میں وہ ہارتے اور تھکتے نہیں اور ابتدا میں اُنس اور ذوق اور شوق کا نہ ہونا ان کو بے دل نہیں کرتا۔ وہ اسی بے ذوقی اور بے لطفی میں بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب وساوس اور اوہام دور ہو جاتے ہیں۔ شیطان کو شکست ملتی اور مومن کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض متقی کا یہ زمانہ سستی کا زمانہ نہیں ہوتا بلکہ میدان میں کھڑے رہنے کا زمانہ ہوتا ہے۔ وساوس کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے‘‘۔

(الحکم جلد5 نمبر6 مورخہ 17؍فرور ی1901ء صفحہ 201)

(خطبہ جمعہ 20اگست 2010)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021