• 27 اپریل, 2024

جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرو گے تو …

جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ جو دینے سے کبھی نہیں تھکتا وہ تمہیں نہ صرف اس مشکل اور تکلیف سے نکالے گا بلکہ صبر کی وجہ سے تمہیں عزت بھی دے گا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
زیادہ مانگنے والے ہوں تو ان کی محتاجی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک تو خود ان میں بیٹھے رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر خواہشات بھی بڑھتی رہتی ہیں۔ تو اس میں ایک تو صبر کرنے والے کے لئے خوشخبری ہے کہ صبر سے کام لو اگر تنگ بھی کئے جاؤ تو اپنے خدا کی رضا کی خاطر صبر کرو اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ جو دینے سے کبھی نہیں تھکتا وہ تمہیں نہ صرف اس مشکل اور تکلیف سے نکالے گا بلکہ صبر کی وجہ سے تمہیں عزت بھی دے گا۔ پھر ایک اہم بات یہ یہاں بیان فرمائی کہ مانگنے کی عادت اپنے اندر کبھی نہ پیدا کرو۔ جیسے مرضی حالات ہوں صبر شکر کے ساتھ گزارا کرو اور اسی طرح گزارا کرنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر ایک دفعہ مانگنے کی عادت پڑ گئی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائے گی۔ قناعت پھر بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ تن آسانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے، پتہ ہے کہ کھانے کو مل رہا ہے، کسی قسم کا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا، اور صرف اس لئے کہ میری ساری ضروریات پوری ہو رہی ہیں مدد کے ذریعے سے تو ایسے نکمے مرد بیٹھے رہتے ہیں اور بیوی بچوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اگر جماعتی وسائل کے مطابق محدود پیمانے پر ضروریات پوری ہو رہی ہوں تو بیوی بچوں کی بہت سی ایسی ضروریات بھی ہیں جو ان وسائل کے ساتھ پوری نہیں ہو سکتیں، ایک محدود مدد ہوتی ہے۔ تو بہرحال ہر انسان کو اگر مدد ہو بھی رہی ہو تو کام کرنا چاہئے، اپنی ذمہ داری خود اٹھانی چاہئے اس لئے جس قسم کا بھی کام ملتا ہو کرنا چاہئے اور ہر ایک کواپنے پاؤں پر ہر ایک کو کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ اگر تم سوال کرنے کی عادت جاری رکھو گے توپھر اللہ تعالیٰ محتاجی میں بھی اضافہ کرتا چلا جائے گا اور اس وجہ سے پھر گھر سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لیں ایسے گھروں میں میاں بیوی کی لڑائیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ بچے الگ پریشان ہو رہے ہوتے ہیں، نفسیاتی مریض بن رہے ہوتے ہیں۔ اس بات کو کوئی معمولی بات نہ سمجھیں۔ عزت اور وقار اسی میں ہے کہ خود محنت کرکے کمایا جائے۔ اور امدادوں یا وظیفوں کو کبھی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے فرائض ہیں ان میں یہ بھی فرض ہے کہ محنت کرکے کماؤ اور کھاؤ۔

میں نے دیکھا ہے کہ جن کو اپنی عزت نفس کا خیال ہو مانگنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ مجھے پاکستان کا تجربہ ہے۔ ایسے خاندان بھی میری نظر سے گزرے ہیں جن کے وسائل اتنے بھی نہیں تھے کہ پورا مہینہ کھانا کھا سکیں تو بعض دن ایسے بھی آ جاتے تھے کہ لنگر خانے سے آکے سوکھے ٹکڑے لے جاتے تھے اور ان کو پانی میں بھگو کر کھاتے رہے۔ لیکن کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ گو بعد میں پتہ لگ گیا اور ان کی مدد کی گئی اور ضرورت پوری کی گئی، لیکن انہوں نے خود کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا، ایسے سفید پوش بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے ہیں کہ اچھی بھلی آمدنی ہو جس سے بہت اچھا نہ سہی لیکن غریبانہ گزارا چل رہا ہوتا ہے پھر بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں وظیفہ دیا جائے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے گھروں سے اللہ تعالیٰ برکت اٹھا لیتا ہے۔ اگر ہمت ہو اور نیک نیتی ہو توبہت معمولی رقم قرضہ حسنہ کے طور پر لے کر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ مَیں نے بعض لوگوں کو اس طرح معمولی رقم سے کاروبار وسیع کرتے بھی دیکھا ہے۔ تو جب انسان ہمت کرے تو خدا تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے۔ یہاں یورپ میں بھی بعض لوگ جو جوان ہیں بعض فارغ بیٹھے رہتے ہیں کہ ضروریات تو پوری ہو رہی ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ چاہے چھوٹے سے چھوٹا کام ملے اپنی تعلیم کے مطابق نہ بھی کام ملے تب بھی کام کرنا چاہئے فارغ بہرحال نہیں بیٹھنا چاہئے۔

ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے بعض افراد نے رسول اللہﷺ سے کچھ مال طلب کیا جس شخص نے بھی آنحضورﷺ سے مانگا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نواز دیا حتی کہ آپ کے پاس جمع شدہ مال ختم ہوگیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے جب تک وہ میرے پاس ہوتا ہے تومیں اسے دونوں ہاتھوں سے خرچ کرتا رہتا ہوں۔ میں اسے تم سے بچا کر تو نہیں رکھتا لیکن تم میں سے جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ بھی اس سے عفو کا سلوک فرمائے گا، اور جو کوئی صبر کا مظاہرہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کر دے گا۔ اور جوکوئی استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا۔ اور تمہیں کوئی عطا صبر سے بہتر اور وسیع تر نہیں دی گئی۔

(بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن محارم اللہ)

پھر حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دنیا میں اپنی بھوک مٹا لی قیامت کے دن یہ اس کی امیدوں کے درمیان روک ہو گی۔ اور جس نے حالت فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا وہ رسوا ہو گا اور جس نے حالت فقرمیں صبر سے کام لیا اللہ تعالیٰ اسے جنت فردوس میں جہاں وہ شخص چاہے گا اسے ٹھہرائے گا۔

(مجمع الزوائد جلد ۱۰ صفحہ ۲۴۸)

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2021