• 27 اپریل, 2024

حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه سے متعلق سنہری یادیں (قسط 3)

استاذی المحترم حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه سے متعلق سنہری یادیں
قسط 3

مجاہد فورس میں شمولیت

حضرت میر صاحب نے حب الوطنی كے جذبہ سے سرشار ہو كر دفاعِ پاكستان كی ایك حكومتی پالیسی مجاہد فورس میں نئے مربیان كو بھرتی كروایا۔ ہم تین كلاسوں كے لڑكے اس میں بھرتی ہوئے۔ ہر سال ایك ماه كی ٹریننگ ہوتی تھی۔ تقریباً سب لڑكے ہی صحتمند اور جذبہ ركھنے والے تھے۔ہمارے انسٹركٹر بعض اوقات اپنی فوجی زبان یا جو عام طور پر لوگ بولتے ہیں، استعمال کرتے جس كا ہم كو سامنا كرنا پڑتا۔ ہم میں بعض لڑكےبہت متقی تھے۔ انہیں یہ فوجی زبان پسند نہ آئی۔ وه شاید ان كی بھی تربیت كرنا چاہتے تھے۔ بات میر صاحب اور حضور تك پہنچی۔ ایك دن بلا كے ہمیں سمجھایا كہ دیكھو تمہارا كام ہے سیكھنا۔ اگر ان كے مارچ كرانے، گرنیڈ چلانے میں نقص ہے تو تمہارا اعتراض ٹھیک ہے، لیكن اگر ان كی زبان ہی عام اخلاق سے گری ہوئی ہے تو یہ ان كی عادت ہے اور ان كی مجبوری ہے۔ اس كی پروا مت كرو۔ اپنے مقصد كو پانے كی كوشش كرو۔ چنانچہ اس كے بعد لڑكے مزید ذوق وشوق سے ٹریننگ لیتے رہے اوررینك حاصل كیے اور چنیوٹ جاكر مختلف بٹالین كے مقابلہ میں بھی اول آئے۔ حضرت میر صاحب ہمارا مقابلہ دیكھنے خود بڑی شان سے بڑے خوبصورت لباس میں خوبصورت عینك لگائے دلجوئی اور حوصلہ افزائی كیلئے چنیوٹ كی گراؤنڈ میں موجود تھے۔ آپ كی شخصیت اتنی پركشش اور خوبصورت تھی كہ ہر افسر بھی وہاں ہیچ لگ رہا تھا۔ الله تعالیٰ نے بہت حسن عطا فرمایا تھا۔ مردانگی اور جرأت كا بہترین نمونہ تھے۔ شخصیت پُركشش اور باوقار تھی، چھا جاتے تھے۔

  • 13 اپریل 1972 كو خاكسار كی نائیجیریا كیلئے روانگی تھی۔ سب عزیز رشتہ دار جامعہ كے طلبہ اور دوست ربوه ریلوے سٹیشن پر الوداع كیلئے موجود تھے۔ حضرت میر صاحب، حضرت مولانا عبد المالك صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد اور دوست بھی ہار لیے الوداع کرنے كیلئے موجود تھے۔ میرے لیے جدائی اور جذبہ خدمت دین كیلئے دور دراز ملك میں جاناعجیب جذباتی كیفیت پیدا كئے ہوئے تھا۔

نعروں كی گونج میں حضرت میر صاحب نے پردرد دعا اور نمناك آنكھوں سے الوداع كیا۔ حضرت مولانا عبدالمالك صاحب مرحوم تو فیصل آباد تك ساتھ گئے۔ ان كی دعاؤں نے مجھے سہارا دیا اور منزل پر پہنچ كر كام كرنے كی توفیق بخشی۔

حضرت میر صاحب سے رابطہ رہا۔ ان كی دعائیں پہنچتی رہیں۔ جب بھی اپنی صحت كا بتایا یا لکھا تو لكھا كہ بس چوں چوں ہو رہی ہے، بلڈ پریشر كی سخت تكلیف تھی اور شدید سردرد میں مبتلا رہتے تھے اور سلسلہ كی بیشمار ذمہ داریوں كو سنبھالتے تھے۔ جس طرف بھی دیكھیں حضرت میر صاحب ہی ہوا كرتے تھے۔ جامعہ كے پرنسپل ، ناظر درویشان قادیان، افسر جلسہ سالانہ، انچارج دار الیتامیٰ ربوه، صدر خدام الاحمدیہ، صدر انصار الله، جماعتی دعوتوں كے منتظم اعلیٰ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله كے دستِ راست اور حقیقی سلطانِ نصیر تھے۔

٭…٭…٭

خاكسار كی پہلی تقرری بطور مربی گلگشت كالونی ملتان شہر میں ہوئی۔ وہاں حضرت میر صاحب كے بھانجوں محترم ملك فاروق احمد كھوكھر صاحب محترم ملك خالد ظفر صاحب محترم ملك طارق احمد كھوكھر صاحب اور محترم ملك زبیر كھوكھر صاحب كی كوٹھی ہے ۔ ان كے والد مكرم ملك عمر علی صاحب ملك كے رئیس اور بہت بڑے نواب زمیندار تھے۔ ان كا شمار ملتان كے وڈیروں میں ہوتا تھا۔ آپ جماعت احمدیہ ملتان كے امیر بھی رہے تھے۔ موصوف حضرت میر محمد اسحاق صاحب كے داماد تھے۔ ان كی وفات پرغیر احمدی رشتہ داران ان كو ملتان میں ہی دفن كرنا چاہتے تھے لیكن حضرت میر داؤد صاحب ان كی باڈی ربوه لانے میں كامیاب ہو گئے جہاں بہشتی مقبره میں دفن ہوئے۔

خاكسار جب گلگشت كالونی كے مربی ہاؤس پہنچا تو مكرم ملك عمر علی صاحب كی بطور امیر جماعت خدمات كا تذكره سنا اور بڑی خوشی ہوئی۔پھر ان كی كوٹھی جانے كا اتفاق ہوا بہت وسیع عریض رقبہ پر مشتمل تھی۔ كالونی میں ایك سے ایك بڑھ كر كوٹھی تھی۔ پندره سولہ كوٹھیاں تو احمدیوں كی تھیں۔ بہت اعلی تعاون كرنے والی جماعت تھی۔ محترم مولوی بركت الله صاحب مربی انچارج حسین آگاہی ملتان میں رہائش پذیر تھے۔ ان كا گھر احمدیہ مسجد سے ملحق تھا۔ لیكن گلگشت كالونی بھی عموما آتے جاتے تھے۔ بڑے سوشل تعلق ركھنے والے تجربہ كار مربی تھے۔ محترم ملك فاروق صاحب كی كوٹھی میں كھانے یا دعوت پر ملاقات ہوتی۔

حضرت میر داؤد صاحب نے مجھے ربوه سے چلنے سے پہلے كہہ دیا تھا كہ میں نے اپنے بھانجوں كو لكھ دیا ہے كہ مجید كی ڈیوٹی گلگشت كالونی میں لگی ہے۔ اس لئے درس القرآن اور نمازوں كیلئے مسجد جایا كرو۔ یہ سب بھائی بڑے محبت كرنے والے تھے۔ گلگشت كالونی میں رمضان المبارك گزارا اعتكاف بھی بیٹھا ۔ ایك دوماه كے بعد میری تبدیلی ملتان سے ڈیره غازی خان بطور مربی ضلع ہو گئی۔

ملتان میں بھٹو كے الیكشن سنہ 1970 كا گرما گرم ماحول دیكھنے كا موقعہ ملا اور سیاست كو سمجھنے اور سیاسی لوگوں سے ملنے كا موقعہ ملا۔ محترم ملك فاروق كھوكھر صاحب محترم بركت الله صاحب مربی ضلع اور حضرت صاحبزاده مرزا طاہر احمد صاحب كی ملتان آمد پر صاحبزاده فاروق ذوالفقار علی بھٹو مصطفیٰ كھر اور دیگر شخصیات مشتاق اعوان وغیره سے ملنے كا موقعہ ملا۔ جماعت نے بھٹو كی بہت مدد كی۔ بھٹو سیٹ جیت گیا۔ اور احراریوں جماعت اسلامی كے نمائندوں كو شكست ہوئی۔ مظفر گڑھ میں كھر جیتا اور نواب نصر الله اپنی سیٹ كھو گئے۔ بری طرح ناكام ہوئے۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ پیپلز پارٹی غیر معمولی مارجن سے جیت گئی۔ اس كا كریڈٹ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب كو جاتا ہے،جنہوں نے حكمت اور بصیرت سے پالیسی وضع كی اور بھٹو كو كامیاب كیا۔ میں نے دیكھا كہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب بھٹو سے انگریزی میں ہی بات كرتے۔ بھٹو بھی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب كی شخصیت انگریزی دانی اور علمی بصیرت سے بہت متاثر تھا۔ اكثر پوچھتا تھا مرزا صاحب آپ نے انگریزی زبان كہاں سے سیكھی ہے۔ بہت عمده ادبی لب ولہجہ سے مزین زبان خدا كی دین تھی جس سے ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں ره سكتا تھا۔ انہیں كیا پتہ تھا كہ اسكے پیچھے اسكے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب كی دعائیں ہیں۔

گھریلو باتیں

حضرت میر صاحب كی بیگم صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مریم ام طاہر كی پیاری بیٹی تھیں۔ جو جماعت میں بی بی باچھی كے نام سے معروف ہیں۔ یہ گھر كی مالكہ تھیں اور اپنے گھر كو جو قصر خلافت سے دار الصدر کی چھوٹی سڑك كے جنوبی کونے پر واقع ہے۔ ہمیشہ صاف ستھرا ركھتیں اور سجاتی رہتیں۔ انہیں الله تعالی نے تین بیٹیوں اور ایك بیٹے سید قمر سلیمان صاحب سے نوازا تھا۔ گھر بھرا بھرا لگتا تھا۔ ایك روز مجھے آپ كے ہاں جانے كا اتفاق ہوا تو برآمده میں ایك لڑكی كو دیكھا ۔ میں نے كم عقلی سے پوچھا كہ كون تھی كیونكہ یہ نوكرانی تو لگتی نہیں۔ فرمانے لگے یہ میری پیاری بڑی بیٹی گوگو ہے۔ صاحبزادی امۃ المصوّر۔ پھر خود ہی فرمانے لگے اس كی انگریزی زبان بہت عمده ہے۔ آٹھویں كلاس كی طالبہ ہے۔ بعد میں ان كی شادی ڈاكٹر مرزا مغفور احمد صاحب ابن حضرت مرزا منصور احمد صاحبؒ كے ساتھ ہوئی جو اب امیر جماعت احمدیہ امریكہ ہیں۔ صاحبزادی امۃ المصوّر صاحبہ كے انگریزی زبان میں بہت عمده علمی مضامین پڑھ كر حضرت میر صاحب كی بات یاد آجاتی ہے۔ جو انھوں نے 58 سال قبل كہی تھی۔

٭ اسی طرح ایك روز حضرت میر صاحب كے گھر بستر كے پاس كرسی پر بیٹھا تھا كہ اچانك دو بچیاں عمر 8-10 سال نمودار ہوئیں اور اپنے ابا كو سلام كركے واپس چلی گئیں۔ میں نے پھر اپنی كم عقلی كا ثبوت دیا اور پوچھ لیا كہ یہ كون تھیں؟ فرمانے لگے یہ میری بیٹیاں ہیں۔ اب انھوں نے سونا ہے اور مجھے اطلاع دینے آئی تھیں كہ ابا ہم سونے جا رہی ہیں۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا كہ كیسی اعلیٰ تربیت ہے كہ والد سے اجازت اور دعا لے كر جا رہی ہیں اور قرة العین ہو گئی ہیں۔

٭ میں اپنی كھلی اجازت سے فائده اٹھاتا تھا اور میر صاحب اور بی بی باچھی نے كبھی برا نہیں منایا، بلكہ ہمیشہ بڑے سلیقہ سے پرچ كے اوپر گلاس ٹھنڈے مشروب سے بھرا ہوا عطا كرتے، مہمان نوازی كرتے،حال احوال پوچھتے اور اگر كوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو حل بتا كر پریشانی دور كرتے۔

٭ ایك روز آپ كی كوٹھی میں ایك نحیف سی عورت كو دیكھا جس كے پاؤں بہت ہی چھوٹے چھوٹے تھے۔ پوچھا تو فرمانے لگے یہ محمد عثمان چؤ چینی صاحب كی والده محترمہ ہیں جو 15 سال كے عرصہ دراز كے بعد انھیں ملنے آئی ہیں اور ہماری مہمان ہیں۔ان كے پاِؤں اس لیے چھوٹے ہیں كہ وہاں ایك رسم تھی كہ لڑكیوں كو لوہے كے جوتے پہنا دیتے تھےجس سے پاؤں طبعی حالت تك نہیں پہنچ سكتے تھے اور بچیوں كو جوانی میں تیز چلنا دشوار ہو جاتا تھا۔

ان دنوں مکرم عثمان چینی صاحب كی سنگاپور كی رائل فیملی كی ایك عورت سے شادی بھی ہوئی۔ حضرت میر صاحب نے بتایا كہ مجھے یہ كفو نہیں لگا۔ مکرم عثمان صاحب متقی، مذہبی، عالم دین اور یہ رائل فیملی کی ناز و ادا میں پلی بڑھی خاتون ہیں لہٰذا نباه کا امکان بہت کم ہے۔ حضرت میر صاحب كی بات سچی نكلی اور كچھ عرصہ بعد ہی علیحدگی ہو گئی۔

مکرم عثمان چینی صاحب جب كراچی میں مربی تھے تو آپ نے دوسری شادی چین میں اپنے علاقہ كی ایك نیك اور پاك سیرت لڑكی سے كی۔ محترم امیر صاحب كراچی مکرم چوہدری احمد مختار صاحب نے اسے بیٹی بنایا اور بیٹیوں سے بڑھ كر ان كا خیال ركھا۔ الله تعالیٰ نے انہیں ایك بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا جو الله تعالیٰ كے فضل اور خلیفۂ وقت كی دعاؤں سے سبھی ڈاكٹرز ہیں اور جماعت كے خادم ہیں۔ حضرت میر داؤد صاحب كی راہنمائی اور مدد ہمیشہ چینی صاحب كو حاصل رہی۔ مکرم چینی صاحب جامعہ میں تعلیم كے دوران ہی صاحبِ كشوف بزرگ تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء كی دعاؤں كا ثمره تھے جو جماعت احمدیہ میں اپنے كردار اور تقویٰ سے پہچانے جاتےتھے۔ آپ ہر جگہ عزت واحترام پاتے تھے۔ یہ ہے احمدیت كی بركت جو انہوں نے پائی۔ جامعہ میں ہم نے ان كی اقتدا میں 9 سال تك نمازیں پڑھیں۔ ہر رمضان المبارك میں ہم ان سے پوچھتے تھے كہ چینی صاحب! لیلۃ القدر دیكھی ہے؟ بعض اوقات كہتے كہ ہاں !آج خاص روشنی تھی یا كہتے كہ آج رات فلاں پہر ہلكی بارانِ رحمت تھی۔ حقیقی معنوں میں چینی صاحب پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ خلافت كے عاشق، نظامِ سلسلہ كے وفادار خادم اور بہترین مربی تھے۔ اكثر لوگ ان كے نمونہ سے متاثر ہوتے اور خلیفۂ وقت کو دعا کی عرض کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کوبھی دعا كا كہتے جو خلیفۂ وقت کی برکت سے قبول ہوتیں۔

٭…٭…٭

كچھ بھولی بسری سنہری یادیں

حضرت میر داؤد صاحب كو خلیفۂ وقت كے قرب كی وجہ سے مركزربوه سے باہر جانا ہر گز پسند نہیں تھا۔ گرمیوں كی تعطیلات كے ایام بھی ہمیشہ ربوه میں خلیفۂ وقت كے پاس گزارتے اور خدمت بجا لاكر فخر محسوس كرتے۔ ایك روز پوچھا كہ ایسا كیوں ہے؟ فرمانے لگے کہ حضور كے قرب كے مقابلہ میں سیر وتفریح میں كوئی كشش نہیں ہے۔

٭ حضرت میر صاحب كوحضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بےحدعشق تھا اور یہ چیز اپنے طلبہ میں بھی دیكھتے تو بےحد خوشی محسوس كرتے۔ ایك دن فرمانے لگے كہ یوسف كمبولایا آف كینیا، جو آخری كلاس میں تھے، كو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت ہے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی محبت طلبہ میں اجاگر كرتے اور فرماتے كہ یہ حضور علیہ السلام كی كتب كے مطالعہ سے ہی پیدا ہوسكتا ہے۔ فرماتے تھےکہ تم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے مجاہد ہو۔ خوش نصیب ہو كہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے۔ حق ادا كرنا تمہارا فرض ہے۔

٭ سن1969ء میں میر صاحب نے مجھے مسجد مبارك میں اعتكاف بٹھایا۔پھر اس سال قادیان جانے والے قافلہ میں نام لكھوایا اور مولانا سلطان محمود انور صاحب، جو قافلہ كے ہیڈ مقرر ہوئے، كو فرمایا كہ مجید سیالكوٹی کے لئے بھی کوشش کرناکہ اسےویزہ ضرور ملے۔ آخری وقت میں بعض كے نام حكومت نے كاٹ دیے۔ الحمد لله میرا نام بچ گیا اور قادیان جلسہ پر جانے كی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام كو آنحضرت ﷺ كا سلام پہنچا كر دل كو جو سرور ملا وه ناقابل بیان ہے۔ بیت الدعاء میں دعا كرنے كا مزه آگیا۔ بلك بلك كر اور رو رو كر دعائیں مانگیں۔ مسجد مبارك، مسجد اقصیٰ، الدار، بیت العافیت اورسرخ چھینٹوں والے كمره میں دعائیں كیں۔ واپس ربوه پہنچنے پر میر صاحب نے انتہائی تپاك سے استقبال كیا۔ میں نے جزاكم الله كے ساتھ تہہ دل سے شكریہ ادا كیا۔

٭ حضرت میر صاحب كو صحابہ سے تعلق بڑھانے اور ان كی صحبت میں بیٹھنے كا بہت شوق تھا۔ سن1961ء ۔1962ء میں آپ نے اپنے گھر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ كی پر تكلف دعوت كا انتظام كیا اور ہمیں بھی شمولیت كی دعوت دی۔ حضرت میر صاحب ہر مہمان صحابی سے جھك كر مصافحہ كرتے ۔ ایسی اعلیٰ دعوت میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیكھی اور كھائی تھی۔

* حضرت مولوی غلام رسول راجیكی صاحبؓ اور حضرت مولوی ابراہیم بقاپوری صاحبؓ كی وفات پر جس رنگ میں آپ نے ان كی خدمت كی اورہماری ڈیوٹیاں لگائیں اور محلہ دار الرحمت سے بہشتی مقبره تك لےجانے اور تدفین كے مراحل مكمل كیے، وه ان كی صحابہ سے محبت كی مثال ہے۔اسی طرح ہمارےسامنے ان بزرگوں كی سیرت اور كارہائے نمایاں بھی بیان كرتے كہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی صداقت كی كھلی دلیل ہیں۔ تم لوگوں نے بھی ان كے نقشِ قدم پر چل كر اپنے عشقِ مسیح موعودؑ وعشق رسولؐ كے نمونے پیش كرنے ہیں۔ یہ میرصاحب کاکمال ہےکہ آپ نے ہم میں صحابہ سے محبت كے جذبہ كوپروان چڑھایا۔ الله آپ كو اس كی جزائے خیر دے۔

* ایك دفعہ جامعہ کے كسی استادسے پڑھاتے ہوئے منہ سے یہ بات نكل گئی كہ یہ ضروری نہیں ہےكہ خلیفۂ وقت كو ہی قرآن مجید كا سب سے بڑھ كر علم ہو۔ كسی عالم دین كو بھی یہ فہمِ قرآن ہو سكتا ہے۔ كسی طالبعلم نے یہ بات حضرت خلیفۂ ثالث رحمہ الله تك پہنچا دی۔ حضورؒ كو یہ بات سخت ناگوار لگی۔ حضوؒر نے پرنسپل كو لكھ بھیجا كہ ایسی بات مجھے پہنچی ہے، تحقیق كریں کہ كس نے یہ بات كی ہے۔ اگر اس اداره میں طلبہ كو یہ چیز سكھائی جاتی ہے تو پھر الله ہی حافظ ہے۔ حضرت میر صاحب نے پہلے تو بلا مشروط معافی نامہ لكھا۔پھر جامعہ كے طلبہ كو جون كے مہینہ میں روزه ركھنے اور استغفار كرنے كا كہا اور جس استاد نے ایسی بات كہی تھی اسے كہا كہ حضور انور كے پاس جا كر وضاحت كریں۔ كافی دنوں بعد حالات نارمل ہوئے اور معافی ہوئی۔

* ایك روزگرمیوں كے دنوں میں آندھی اور جھكڑ چلے۔ جامعہ اور گولبازار كے سائن بورڈادھر ادھر اُڑ گئے۔ جامعہ كے بعض طلبہ كو پتہ نہیں كیا سوجھی كہ انہوں نے وه سائن بورڈ جامعہ میں پرنسپل كے دفتر اور كلاس رومز اور ہال پر آویزاں كر دیے۔ صبح جب پرنسپل صاحب جامعہ آئے تو دیكھ كر بڑے پریشان ہوئے۔ پتہ چلا كہ چند طلبہ نے یہ کام کیا ہے جن میں دو خاندان كے طلبہ بھی تھے۔ حضرت میر صاحب نے سب كو فارغ كر دیا اور حضور ؒكو رپورٹ كر دی۔ حضرت میر صاحب نے برداشت نہ كیا كہ اس اداره كا جس كے وه سربراه ہیں کوئی اس طرح كا مذاق كرے۔ ادارے كا وقار قائم ركھنا آپ كی اولین ترجیح تھی۔ کچھ عرصہ بعد حضورؒ نے ان سب بچوں کو معاف فرما دیا۔

٭ حضرت مير صاحب كو اپنےبیٹےمکرم سید قمرسلیمان صاحب كی تعلیم كی بھی فكر رہتی تھی۔ جامعہ كے ایك طالبعلم برادرم شیخ كریم الدین صاحب ہوا كرتے تھے۔ ان كی انگریزی زبان بہت اعلیٰ تھی۔ ہر وقت انگریزی لٹریچر اور ناول پڑھتے رہتے تھے۔ حضرت میر صاحب نے اس كی ڈیوٹی لگائی كہ وه مکرم سید قمر سلیمان صاحب كو انگریزی پڑھایا كرے۔ وه پڑھاتے تھے اور میر صاحب اس كی بہت مدد فرماتے اور اس كی انگریزی زبان كے قائل تھے۔

٭ برادرم كریم الدین صاحب نے مقالہ انگریزی میں لكھا تو ماركنگ كیلئے مكرم چوہدری محمد علی صاحب كے پاس گیا۔ مکرم چوہدری صاحب نے پڑھ كر اس نوٹ كےساتھ واپس كر دیا كہ یہ جامعہ كے طالبعلم كی تحریر نہیں ہو سكتی۔ یہ تو كسی منجھے ہوئے انگریز ادیب كی تحریر ہے۔ حضرت میر صاحب نے مکرم چوہدری صاحب كو بلا كر سمجھایا كہ آپ اس پر نمبر لگائیں ۔ میں اس طابعلم كو جانتا ہوں۔ یہ اسی كی زبان اور تحریر ہے۔ میں نے شیر پالے ہوئے ہیں۔ برادرم كریم الدین صاحب كی انگریزی تقریر بھی بہت عمده ہوتی تھی۔

٭ حضرت میر صاحب سے پھر میں نے ایف اے كے امتحان دینے كی منظوری لی۔ انہوں نے اس شر ط پرمنظوری دی كہ جامعہ شاہد كے امتحان بھی انہی تاریخوں میں ہیں۔ تمہارا امتحان سنٹر ٹی آئی كالج ہے۔ ایف اےکا امتحان دے كر جامعہ كا پرچہ دینا ہے۔ كوئی سہولت نہیں دی جائیگی۔ ایف اے كا امتحان دیا اور ایك دو پرچے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں مكمل كركےجامعہ آكر شاہد كے پرچے دیے۔ جامعہ كے امتحان كا وقت 4 گھنٹے ہوتا تھا۔ شاہد كا پرچہ بھی بہت طویل ہوتا تھا۔

٭ حضرت میر صاحب كی مہربانی كہ میں نے ایف اے كے امتحان میں اعلیٰ نمبر لیے اور وظیفہ منظور ہوا۔ مکرم رفیق روزی صاحب سے بعض كتابیں لے كر تیاری كی تھی۔

٭ پھر بی اے كی تیاری كر رہا تھا كہ نائیجیریا كی راه لی۔ میدان عمل میں یہ تیاری كام آئی۔ زبان سے ہی تو پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ الحمد لله پھر كبھی مشكل پیش نہیں آئی۔ ایك دفعہ تو برادرم سید جلید صاحب نے میری دلجوئی كی۔ میرے نزدیك برادرم سید جلید احمد صاحب انگریزی سكولوں كے پڑھے ہوئےبہت اعلیٰ debater اور ٹی آئی كالج یونین كے صدر ره چكے تھے۔ سیرالیون میں Tumbodu ٹاؤن میں احمدیہ سكول كے پرنسپل تھے۔ بڑی اچھی ایڈمنسٹریشن تھی۔ سكول اچھی طرح سنبھالا ہوا تھا۔ علاقہ میں سكول كا نام پیدا ہوا۔

٭ ایك دن نظارت اصلاح وارشاد كی طرف سے اتفاقاً میری ڈیوٹی لگ گئی كہ دار الصدر كے حلقہ، جس میں میر صاحب كا گھر بھی آتا تھا، میں لوگوں كے دروازے كھٹكھٹا كر نماز كیلئے مسجد مبارك میں لایا كرو۔ حضرت میر صاحب كو اپنی ڈیوٹی كا بتایا۔ كہنے لگے کہ بہت اچھی بات ہے۔ بڑی سستی ہے، ضرور توجہ دلانی چاہیے۔ اصلاح وارشاد نے اچھا سوچا ہے۔ دوسرے دن ملے تو كہنے لگے میں نے ببّی (برادرم قمرسلیمان صاحب )كو كہہ دیا ہے۔ ویسے الحمد لله ہم باقاعدگی سے آنے والے ہیں۔ ہم تو رہتے بھی مسجد كے پاس ہیں۔ فرمانے لگےکہ فلاں فلاں گھروں كے دروازے احتیاط سے كھٹكھٹانا كیونكہ انہوں نے حفاظتی كتے پالے ہوئے ہیں۔ میں نے چند اور خدام كو ساتھ لیا ۔ میں مربی تھا اس لئے خدام احترام كرتے تھے۔ عشره تربیت اچھا گزرا۔ رپورٹ تسلی بخش تھی۔ ماشاء اللہ سب گھروں نے تعاون كیا۔ ان میں مکرم پیر معین الدین صاحب، میاں طیب صاحب، میاں صمد صاحب، میاں انس صاحب اور ایك سید فیملی تھی۔ ایك سے ایك اچھے لوگ تھے۔ حضرت میر صاحب كا تعاون تو غیرمعمولی اور مثالی تھا۔

٭…٭…٭

(مجید احمد سیالکوٹی دفتر پی ایس اِسلام آباد یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021