• 28 اپریل, 2024

تبلیغ کا جنون اور ایمان افروز دلچسپ واقعات (قسط دوم)

تبلیغ کا جنون اور ایمان افروز دلچسپ واقعات
(قسط دوئم و آخر)

کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر

جب میں پہلی دفعہ کشمیر گیا تو وہ سستے زمانے تھے ۔گھی آٹھ آنے سیر مل جاتا تھا۔ انڈے ایک آنے کے چار اور مرغی ڈھائی آنے میں مل جاتی تھی۔ سیب ایک آنے سیر۔ اچھے چاول ایک آنے کے ڈیڑھ پاؤ جبکہ چینی بارہ چودہ آنے سیرتھی۔ سواری کے لئے گھوڑا آٹھ آنے روز اور سامان اُٹھانے کے لئے مزدور اس سے بھی سستا مل جاتا تھا۔ ٹانگے کی نسبت کشتی میں سفر سستا تھا۔ کھانے کے لئے آلو کی بیسن لگی روٹی اور چھوٹی چھوٹی مچھلی مل جاتی۔ ناشپاتی بہت لذیذ ہوتی اور وہ بھی ایک آنے سیر جوکبھی ایک روپے کی سو مل جاتیںتھیں۔ ایک جگہ بھاؤ پوچھا تو جواب ملا آپ درخت سے جتنی ضرورت ہے اُتار لیں۔ عُناب قیمتی ہوتے ہیں مگر وہاں خود رو بیریوں کی طرح وافر اُگے ہوئے تھے۔ سبزیاں تروتازہ ’خوش رنگ‘ خوش ذائقہ جوحسن و تازگی کی مثال ہوتی تھیں۔ مگر وہاں پسّو اور کھٹمل بہت تھے۔ میں نے تکیے کے غلاف کی طرح ایک بڑا تھیلا سی لیاتھا اُس کو اپنے اوپر چڑھا کر خوب کس کے منہ باندھ لیتا۔ کچھ بچاؤ ہو جاتا لیکن اگر لباس میں گھس جاتے تو بہت بے چینی ہوتی۔

کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر دیکھنے گیا تو مجاور سے پوچھا کہ یہاں ایک نبی کی قبر ہے۔کیاآپ بتا سکتے ہیں کہاں ہے؟ اُس نے میری طرف انگلی کر کے باقی لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ پکا ’مرزائی‘ ہے۔ ہم اُس مسجد میں گئے جس کے ساتھ مزار ہے۔ متولّی نے بتایا کہ اس قبر پر سنگ مر مر کا کتبہ تھا جس کو کوئی مرزائی یا عیسائی لے گیا ہے۔ کیونکہ اُن دونوں کا اُس سے مطلب حل ہوتا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا تھے۔ اگر کتبہ موجود رہتا تو خدائی اور عیسائیت دونوں ختم ہوجاتی اورمرزائی کہتے ہیں کہ وہ نبی تھےجو فوت ہو چکے ہیں۔ کتبے سے وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔

ایک رات میں سارے تاشقند میں دعوت الی اللہ

میں ایک مرتبہ وقف عارضی کے دوران سری نگر میں تھا۔ وہاں سرکاری طور پر ایک نمائش کا اہتمام تھا۔ اتنی بڑی نمائش میں نےپہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ بہت بڑے رقبے پر اسٹال لگے تھے۔ خوب روشنیوں کا انتظام تھا۔ وہاں تین مسلمان ملے جو مختلف لباس میں تھے میں نے سلام دعا کر کے بات شروع کر دی۔ میری باتوں پر نو عمر لڑکے نے توجہ دی۔ سن رسیدہ سُنی اَن سنی کر کے آگے چل دیئے۔ میں نے اُس لڑکے سے سوال کیا:
بھائی صاحب! آپ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کیا عقیدہ ہے؟

اُس نے جواب دیا:
وہ سب نبیوں سے افضل ہیں۔ خاتم النبیین ہیں اور اُن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

میں نے پوچھا: اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کیا خیال ہے؟

اُس نے جواب دیا:
حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں۔ آسمان پر ہیں اور آخری زمانے میں آئیں گے۔میں نے کہا ‘‘پھر آخری کس کو کہیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو؟’’ وہ لڑکا گھبرا گیا۔چلّا چلّا کے اپنے ساتھیوں کو بُلایا اور اجنبی زبان میں تفصیل سُنا دی۔ وہ اردو سمجھتے تھے مگر آپس میں اجنبی زبان میں بات کرتے تھے۔

اُنہوں نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہاکہ آپ نے بات ایسی طرز سے پیش کی ہے جو ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ آپ کل ہماری سرائے میں آئیں تو بات ہو۔ اُنہوں نے ایک خوبصورت کارڈ جس پر سری نگر کا پتہ لکھا ہوا تھا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہاکہ آپ کل ضرور تشریف لائیں۔ ہم آپ کا شدت سے انتظار کریں گے۔

اگلے دن میں نے کشتی کرائے پر لی۔ کشتی اس لئے لی کہ ایک تو ٹانگے کی نسبت سستی تھی دوسرے مجھے پانی میں سفر کرنا دلچسپ لگتا تھا۔ کشتی والے نے مجھے کارڈ پر درج پتے کے مطابق سرائے تاشقندی پر اُتار دیا۔ وہ ایک وسیع سرائے تھی جس میں سارا تاشقند کا مال آتا تھا۔ پھر وہاں سے محصول ادا کر کے باہر آتا تھا۔ سارا سٹاک وہاں ہونے کی وجہ سے کثرت سے تاجر آ جا رہے تھے۔ بھیڑ سی لگی تھی۔ کوئی لانے والا تھاتوکوئی خرید کر جانے والا۔ میں نے گیٹ پر ٹکٹ دکھایا تو گیٹ کیپر نے ایک آدمی کو بلا کر مجھے ساتھ لے جانے کو کہا۔ خفیف سے تلاشی بھی ہوئی۔ میرے پاس صرف ٹریکٹ تھا۔ وہ خوش پوش شخص مجھے ساتھ لے کر دوسری منزل پر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک خوش شکل وجیہہ با وقار شخص ملے جو غالباً سرائے کے انچارج تھے۔ مجھ سے پوچھا:

آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟

میں نے بتایا کہ ابھی تو فلاں محلے سے آیا ہوں لیکن رہنے والا قادیان کا ہوں۔ اُس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا کہ قادیان میں ایک شخص سے میرے دوستانہ تعلقات ہیں۔

میں نے نام پوچھا تو اس نے بتایا:

بشیر الدین محمود احمد۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اُس نے میرے امام کا نام عزت سے لیا تھا۔

جب میں اوپر والی منزل پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا کمرہ ہے جو تاشقندی قالینوں سے خوب سجا ہوا ہے۔ کمرے میں تقریباً پندرہ آدمی موجود تھے جو میرے داخل ہونے پر تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے اور میرا تعارف ایک معّمر شخص سے کروایا۔ نمائش والا سارا قصہ دہرایا۔ گفتگو شروع ہوئی جو تقریباً دو گھنٹے جاری رہی۔ بہت سنجیدہ لوگ تھے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے۔ ایک صفت اُن میں عجیب دیکھی کہ اگر اُن میں سے کسی کو باہر جانا ہوتا تو کسی دوسرے کو بُلا کر اپنی جگہ پر بٹھاتا اور پھر جاتا۔ اطمینان سے میری باتیں سُنیں اور بڑے ادب سے کہا کہ ہم آپ کے دلائل کا کما حقہ جواب نہیں دے سکتے البتہ ہم تاشقند جا کراپنے شہر کے علماء سے بات کریں گے۔ آپ کے استدلال سے ہم بہت خوش ہوئے ہیں۔

میں نے واپس آ کر جب یہ رپورٹ دارالتبلیغ میں ارسال کی تو ناظر صاحب دعوۃ تبلیغ محترم سیّد ولی اللہ شاہ صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپؓ بے حد خوش ہوئے۔ فرمایا کہ دیکھو اس نے بعض تنخواہ دار مبلغوں سے بڑھ کر کام کیا ہے۔میاں عبدالرحیم صاحب سے خدا تعالیٰ نے زبردست دعوت الی اللہ کا کام لیا ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے سارے تاشقند میں احمدیت کی تبلیغ کا موقع بہم پہنچا دیا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔ سیّد صاحب نے مجھے گلے سے لگایا اور بہت مبارک باد دی اور حضورؒ کی خوشنودی کا مژدہ سُنایا۔ میں مسیح موعود ؑکا ایک غلام اس خبر سے جس قدر خوش ہوا اس کا اندازہ قارئین کرام پر چھوڑ دیتا ہوں۔ ثم الحمد للہ

عدالت خاں صاحب کی قبر سے روشنی

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک خطبے میں فرمایا تھا کہ جماعت کے نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کے لئے نکل جانا چاہیے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم میں کون سے تنخواہ دار مبلغ تھے؟ وہ ہمہ وقت دعوت الی اللہ کرتے اور کامیابیاں حاصل کرتے۔ آپ کا اندازِ بیان اتنا جوش دلانے والا تھا کہ دو نوجوانوں نے بغیر وسائل کے روس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ان میں سے ایک مجھے کشمیر میں ملے۔ میں دعوت الی اللہ کے لئے آسنور میں تھا۔ میں نے احوال پوچھا تو بتایا کہ میرا نام عدالت خان ہے ۔حضورؓ کے خطبہ سے متاثر ہو کر پاپیادہ اللہ توکّل نکل کھڑے ہوئے۔ روس کی سرحد مکرم پر اسمٰعیل صاحب تو نکل گئے۔ میری بات نہ سنی گئی۔ دو دفعہ انکار ہوچکا ہے۔ اب چند دن بعد تیسری دفعہ کوشش کروں گا……جب دو سال بعد دوبارہ جموں گیا تو نظر نہ آئے۔ میں نے سمجھا روس جانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے۔ میں نے تبلیغی دورے کے بعد واپسی کا سفر جموں کی طرف سے کرنے کی بجائے حویلیاں، مظفر آباد کی طرف سے کیا۔ دوستوں نے تنبیہہ بھی کی کہ یہ راستہ پُرخطر ہے۔ مگر مجھے دعوت الی اللہ، سیر اور دشوار گزار راستوں کا شوق تھا۔ سوپور، کپ درزہ مقدردن، ہچہ مرگ اوردیووالی وغیرہ کی طرف سے سفر کیا۔ ہر جگہ اور راستے میں اور سفر کے اَن گنت دلچسپ واقعات پیش آئے۔ ہچہ مرگ میں مجھے ایک مخلص احمدی دوست ملے جو سری نگر میں آشنا ہوئے تھے۔ میں نے مکرم عدالت خان صاحب کا پوچھا آپ نے بتایا کہ مکرم عدالت خان صاحب روس جانے کے لئے میرے پاس ٹھہرے تھے۔ اتفاق سے بیمار ہو گئے اورمرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔

بخار ٹائیفائڈ اور پھر نمونیہ ہو گیا جب دیکھ بھال اور علاج میری طاقت سے باہر ہو گیا تو میں نے اُنہیں مقدردن جماعت میں لے جانے کی تیاری کی وہاں بھی افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن حالتِ یاس میں اُس مخلص نوجوان نے کہا کہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس سے میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی غیر احمدی کو میرے پاس لائیں وہ مجھ سے حضرت مسیح موعودؑکی صداقت پر مباہلہ کرے پھر خدا کی قسم میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں…… مگر ایسے غیر احمدی کا کیسے انتظام ہوتا؟ آخر ان کا وقتِ شہادت آگیا۔ غریب الوطنی میں موت کو گلے لگایا اور یہیں اُن کو دفن کر دیا گیا۔

وہاں پر میں ایک دن حجام سے بال کٹوا رہا تھا تو اُس نے ایک بات سُنائی وہ غیر احمدی تھا کہنے لگا عدالت خان کا کیا کہنا میں گواہ ہوں کہ وہ شہید ہوا دیکھو وہ سامنے قبرستان ہے اور وہ میرا گھر ہے۔ میں ایک دن رات کو جاگا تو دیکھا قبرستان میں روشنی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ کوئی میت آئی ہو گی۔ دوسرے دن بھی قبرستان میں خاص طرح کی روشنی دیکھی پھر بھی میں نے یہی خیال کیا کہ تدفین ہو رہی ہو گی۔ تیسری رات بھی روشنی دیکھی، تو میں ہمت کر کے اُٹھا قبرستان آیا تو دیکھا یہ روشنی عدالت خان کی قبر سے پھوٹ رہی تھی شعائیں بلند ہو رہی تھیں۔

میں وہاں سے اُٹھا تو عدالت خان کی قبر پر دعا کی سبحان اللہ ۔اللہ تبارک تعالیٰ اپنی راہ میں مرنے والوں کو کیسے کیسے نور عطا فرماتا ہے۔ خدا درجات بلند فرمائے آمین۔

ایک دعا

میں ویرووال میں تھا وہاں مکرم مولوی روشن الدین صاحب مبلغ مسقط کی کتاب ’’بخاری شریف‘‘ اردو میں زیر مطالعہ تھی۔ اس میں ایک جگہ پڑھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے دعا کی تھی کہ خدایا میں مدینہ میں بھی رہوں اور شہادت بھی نصیب ہو۔ میں نے اُس وقت دعا کی خدایا میں قادیان میں بھی رہوںاور شہادت بھی نصیب ہو اللہ تعالیٰ نے میری آدھی دعا تو قبول کر لی ہے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قادیان میں رکھا اُمید ہے دعا کا دوسرا حصہ بھی اللہ تعالیٰ قبول کرے گا۔

(ابا جان کی وفات تو ربوہ میں ہوئی تھی مگر پھر اُن کی تدفین قادیان میں ہوئی۔ اس طرح درویش کی جملہ دعائیں قبول ہوئیں۔ اب ن)

’’وہ پھول جو مرجھا گئے‘‘ سے ایک اقتباس

محترم بدرالدین عامل صاحب اپنی کتاب ’’وہ پھول جو مرجھا گئے‘‘ حصہ دوم میں لکھتے ہیں کہ 1942ء میں پہلی دفعہ وہ میاں عبدالرحیم صاحب کے ساتھ تبلیغی ٹرپ پر گورداسپور کے پاس ایک گاؤں میں گئے تھے اور اُن کی پُرلطف گفتگو سے اس قدر محظوظ ہوئے تھے کہ اگلے سال بھی آپ کی معیت میں یومِ تبلیغ منانے گھوڑے واہ گئے۔

’’لہرائے سے ہوتے ہوئے طغلوانہ پہنچے وہاں پر ایک غیراحمدی مولوی جو وہاں پر مسجد میں امامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں کفش دوزی کا شغل فرماتے تھے۔ رستہ میں بڑے درخت کے نیچے مل گئے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر کہا کہ آگیا لوگوں کو گمراہ کرنے کا دن (یوم تبلیغ پر اس قسم کے آوازے احمدیوں پر غیر احمدی افراد کی طرف سے کسے جاتے تھے۔) وہیں پر ان سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ اور جیسا کہ معمول تھا بات گھوم پھر کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر آ کر ٹھہرتی …… یہ بچارہ مولوی جس نے محض طنز کے طور پر آوازہ کسا تھا وہ بھلا کس طرح اس نبردآزمائی میں ثابت قدم رہتا تھوڑی دیر بعد نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو وہ نماز پڑھانے چلا گیا۔ فارغ ہو کر گھر میں جا گُھسا۔ وہاں یہ گفتگو سننے طغلوالہ کے سکھ دوست بھی جمع تھے۔ وہ بھی انتظار میں تھے کہ مولوی نماز پڑھ کر آئے تو آگے بات چلے۔ جب غیرمعمولی دیر ہوئی تو ان میں سے چند ایک اس کو گھر سے بُلا کر لائے وہ آیا تو اس حال میں کہ ایک سکھ دوست نے اس کو بازو سے تھام رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں آر، سوئی اور وہ جوتی جو اس کے پاس زیرتیاری تھی پکڑی ہوئی تھی۔ وہ عُذر کرتا کہ میں نے کام دینا ہے میں نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ مجھے فرصت نہیں ہے وغیرہ۔ مگر وہ دوست مانتے نہیں تھے۔ اور اس کو ہماری باتوں کا جواب دینے پر اُکساتے تھے۔ مگر اس کے پاس جواب ہو تو وہ ٹھہرے وہ پھر عُذر کرکےاُٹھنا چاہتا مگر وہ پکڑ کر بٹھا لیتے۔ ایک سکھ معمر دوست نے اس کو کہا کہ تم جو جوتا بنا رہے ہو۔ اگر اس کو آج مکمل بھی کر لو تو پھر بھی مشکل سے تم اس کی فروخت سے سات آٹھ آنے کما پا ؤ گے۔ لو میں تمہیں ایک روپیہ دیتا ہوں۔ اب تمہیں عُذر نہیں ہونا چاہئے۔ ایک روپیہ پاکر بھی وہ بحث جاری رکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔‘‘……

(صفحہ100تا 102)

زمانۂ درویشی میں دفتر زائرین میں خدمات اور سیکرٹری تبلیغ کے فرائض
تقسیم ملک کے بعد قادیان میں آ کر بسنے والے، ہندوستان بھر سے مختلف مذاہب والے اور دیگر ممالک سے لو گ قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آنے لگے۔ ان کے لئے ایک علیحدہ دفتر زائرین 24؍نومبر 1948ء کو قصرخلافت کے قریب دفتر تحریک جدید کی پُرانی عمارت میں بنایا گیا۔ بعض اوقات زائرین کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ان کو لٹریچر بھی دیا جاتا۔ محترم میاں عبد الرحیم صاحب درویش قادیان کو اس دفتر میں لمبا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔ جماعت کی تاریخ سے شناسائی تھی چشم دید واقعات بڑی روانی سے پُراثر انداز میں بیان کرتے مینارۃالمسیح کی سیر کراتے ہوئے ان کاہرچیزکی تفصیل بیان کرنا آنے والوں کو بے حد متأثر کرتا۔ جماعت کا تعارف بھی دلنشین انداز میں کرواتے۔ اردو، پنجابی، ہندی تینوں زبانوں میں اپنے مخاطب کی ذہنی سطح اور ذوق کے مطابق بات سے بات نکال کر دعوت الی اللہ کرتے۔ دین کا علم تھا دلائل مستحضر تھے گفتگوکا فن اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمایا ہوا تھا۔ کامیاب مبلغ اور مناظر تھے قادیان کے مقدس مقامات کی تفصیل کوعقیدت و محبت کے رنگ بھر کے دکھاتے۔ ہمیں آپ کی سب خدمات کی تفصیل معلوم نہیں البتہ اس زمانے کے آپ کے خطوط سے جو اشارے مل سکے کوئی رنگ بھرے بغیر پیش خدمت ہیں –

31-10-1970

رمضان مبارک ہو۔ جالندھر پھر چندی گڑھ اور پھر وہاں سے رُڑکی ضلع سہارنپور شام پانچ بجے پہنچ گئے یہاں سالانہ یوپی کانفرنس تھی خدا تعالیٰ نے زبردست مخالف حالات کے باوجود بہت تائیدات ربی اور اعلیٰ انتظام حکومت اور نیک سرشت لوگوں کو دعوت الی اللہ کرنے کی توفیق دی ۔مسلم غیر مسلم سب نے مدد کی اور بہت اعلیٰ جلوے خدا نے دکھائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ابتدا ہی میں فرما دیا تھا رُڑکی میں خدا قدرت کا جلوہ دکھائے گا۔ مخالفت کا ایک طوفان تھا مگر ہر قسم کی مخالفت کی موجودگی میں ہر ذریعہ سے اعلان کیا گیا وہاں صرف ایک احمدی ہے وہ بھی نوجوان لڑکا ۔بہت بہادر ہے۔ مختلف جگہ کے احمدی لوگ آئے سارے شہر میں زیادتی اور اخلاص کی جنگ ہے۔ ہندو سکھ اور حکومت اخلاص سے پیش آتے ہیں۔

۲۴۔۸۔۱۹۷۱

جلسہ سری نگر کشمیر میں گیا تبلیغ کا بے حد موقع ملا چار روز دن رات گفتگو سے دماغ تھک گیا۔ جلسہ صوبائی تھا۔ بارونق ہوا خدا نے کام کی توفیق دی۔ واپسی قافلہ رات کو ہوئی۔ بس سے پٹھان کوٹ وہاں سے بذریعہ ٹرک دو بجے قادیان پہنچے۔

بیماری میں دعوت الی اللہ کی توفیق

مئی 1971ء میں مقدمے کے سلسلے میں وکیل صاحب کے گھر ہی قیام تھا اچانک درد گردہ کی شدید شکایت ہوئی۔ تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی۔ دعا اور نماز کی بھی ہمت نہ رہی۔ مجھے مجبور ہو کر وکیل صاحب کو جگانا پڑا میں نے اُن کو قادیان کا فون نمبر بتایا اور جو رقم جیب میں تھی اُن کو دے دی کہ کسی طرح مجھے قادیان پہنچا دینا۔ تکلیف بے حد تھی قادیان سے دوری نے الگ پریشان کیا ہوا تھا۔ دراصل مجھے درد گردہ کا اندازہ نہ تھا پہلے کبھی یہ تکلیف نہ ہوئی تھی اچانک پیشاب بند ہو گیا اور ایک اُلٹی بھی ہو گئی۔ وکیل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا ایک مریض لارہا ہوں۔ کار نکالی اور مجھے سہارا دے کر سوار کرایا اور بہت پیار محبت سے تسلی دیتے رہے کہ آپ تو خود حکیم ہیں مایوس نہ ہوں۔ ڈاکٹر بھی بہت خلیق تھا۔ میری ہمت بالکل جواب دے چکی تھی حال سنانا مشکل تھا تاہم اُس نے ایک ٹیکہ لگایا۔ اللہ کی شان دو منٹ کے بعد ہی میری حالت سنبھلنا شروع ہو گئی۔ واپسی پر کار میں خود بیٹھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے خاص مدد فرمائی۔

وکیل صاحب کو اللہ تعالیٰ جزا دے ہر طرح دوا اور غذا کا خیال رکھا۔ کاغذات بھی مکمل کروائے 13 تاریخ کو ٹکٹ خرید کر بس کےذریعہ قادیان کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں مسافروں نے باتیں شروع کیں مگر نقاہت کے باعث بول نہ سکا معذرت کر لی۔ تھوڑی دیر کے بعد اُس نے ہستی باریٰ تعالیٰ پر کوئی اعتراض کر دیا۔ ہمت عود کر آئی میں نے دو گھنٹے اُس سے باتیں کیں۔ مجھے تو اُسی حی و قیوم نے نئی زندگی دی تھی۔ گھر آ کر پہلے دودھ پھر کھچڑی بنا کر کھائی اور گھر بیوی بچوں کو خط لکھا کہ اس وکیل صاحب کو شکریہ کے خط لکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بالکل غیر لوگوں کے دل میں اپنے بندے کی خدمت کا جذبہ پیدا کر دیا۔

5-9-74

اِس وقت روزے سے ہوں رات کو باجماعت تہجد کا اعلان ہوا تھا جو ہو رہی ہے البتہ فجر اور مغرب کے بعد کی دعا مرکز نے اس خیال سے منع کر دی ہے کہ نئی بات نہ شروع ہو جائے۔ اب ہم باجماعت نماز تہجد ادا کرتے ہیں۔

کچھ کھایا پیا نہیں جاتا تھا۔ ناگپور کا سنگترہ جو بڑا مشہور تھا اب نہ مٹھاس ہے نہ لطافت دیکھیں تو منہ میں پانی آتا ہے مگر خوبصورتی ظاہری ہے۔ کاٹ کر کھائیں تو بے حد کھٹا…… بس اس کے جوس میں پانی ملا کر قطرہ قطرہ گلے سے اُتار ابے حد نقاہت ہو گئی۔ کمرے میں لگا کلاک میرے ساتھ باتیں کرتا ہے ابھی کہا ہے ساڑھے پانچ ہو گئے سجناں کے دیس کی خبریں سن لو یہ کلاک ہر آدھے گھنٹے کے بعد میری خیریت پوچھتا ہے اور نماز کے لئے بیدار کرتا ہے۔

کام اس حال میں بھی کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت سے ہمت طاقت دی ہے۔ چار گھنٹے تک تبلیغ کر لیتا ہوں۔ یوپی، سی پی بہار اور کلکتہ سے آریہ اور عیسائی بٹالہ میں اپنے کام سے آتے ہیں پھر قادیان آ جاتے ہیں۔ خوب گفتگو ہوتی ہے پچھلے ہفتے خدا کے فضل سے دو آدمیوں نے احمدیت قبول کی۔

تھکن ہوتی ہے اعصاب پر اثر پڑتا ہے مگر اُس کی راہ میں جان کی کیا پرواہ ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ مینار پر اذانِ مغرب شروع ہو گئی ہے اللہ اکبر ہو چکا ہے۔ سبحان اللہ کیا پُرذوق و شوق صاف اور مسکن ماحول ہے۔ الحمدللہ لائوڈ اسپیکر مینار کے اوپر ہے مؤذن نیچے اذان دیتا ہے۔ کل جمعہ ہو گا۔

عید کا سماں

جو بھی لندن افریقہ ربوہ امریکہ یا دوسرے ممالک سے قادیان کی زیارت کو آتے ہیں وہ تقریباً سب ہی میرے جاننے والے ہوتے ہیں۔ الحمدللہ اس طرح میری عید ہو جاتی ہے اور آنے والوں کی عید اس طرح کہ اُن کا پرانا واقف ملتا ہے یا ان پر کسی قسم کا حق ہوتا ہے بعض تو یوں بصد منت خوشامد ہاتھ پکڑ کر گلے مل کر بڑی لجاجت سے کہتے ہیں کہ کچھ رقم لے لیں ہم نے آپ کا جائز ناجائز بہت کھایا ہوا ہے مگر خدا کا شکر ہے اُس نے قناعت سے لبریز دل دیا ہے سب کو معاف کر چکا ہوں۔

6-6-1975

کسی کو محتاج دیکھ کر بے تاب ہو جاتا ہوں ہمیں ہر مہینے یا کبھی دو مہینے کے بعد انجمن کی طرف سے ایک پاؤ گوشت ملتا ہے۔ جمعے کے دن آپ کا خط ملا میں نے دو غیرازجماعت مہمانوں کو بلایا ہوا تھا جو کسی تجارت کی غرض سے آئے تھے اور ہمارے محلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چائے ٹھنڈا کے ساتھ دو گھنٹے تبلیغ کی۔ جب جانے لگے تو خیال آیا ان کو آدھا گوشت کیوں نہ دے دوں۔ دو آدمی تھوڑا سا گوشت مگر ایسے جذبے سے قبول کیا گویا بکری دے رہا ہوں۔ دل میں دعا کر رہا تھا۔ سو قبول ہوئی۔

1-5-1977

آج میں تیسری دفعہ بھی بھاری اکثریت سے سیکرٹری تبلیغ چنا گیا الحمد للہ خدا مجھے توفیق دے اچھا اور صحت مند کام کرسکوں۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم (نوٹ : اباجان ۷ فروری ۱۹۸۰ کو مولائے حقیقی سے جاملے ۔)

(مرسلہ: امتہ الباری ناصر- امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2021