دل دعا اور دکھ دیا نہ ہؤا
آدمی کیا ہے پھر ہوا نہ ہؤا
دیکھتے رہئے ٹوٹتے رہئے
کیا یہاں ہو رہا ہے کیا نہ ہؤا
لوگ ایسے کبھی دُکھے نہ ہوئے
شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہؤا
ہائے اس آدمی کی تنہائی
جس کا اس دنیا میں اک خدا نہ ہؤا
ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل
ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہؤا
جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا
ایک کا اجر دوسرا نہ ہؤا
اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا
جو ہمارے خیال کا نہ ہؤا
جب سمجھنے لگے محبت کو
پھر کسی سے کوئی گلہ نہ ہؤا
دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی
کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہؤا
کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہؤا
اور کیا رشتہء وفا ہو گا
یہ اگر رشتہ وفا نہ ہؤا
دیکھ کر حسن اس قیامت کا
جو فنا ہو گیا فنا نہ ہؤا
کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں
یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہؤا
ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد
حرف ہی جن کا مسئلہ نہ ہؤا
اب غزل ہم کسے سنانے جائیں
آج غالب غزل سرا نہ ہؤا
(1988)
(عبید اللہ علیم ؔ)
(یہ زندگی ہے ہماری۔ نگارِ صبح کی اُمید میں صفحہ29۔31)