تعارف صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ
حضرت ڈاکٹر یعقوب خان صاحب رضی اللہ عنہ۔ جہلم
حضرت ڈاکٹر یعقوب خان صاحب رضی اللہ عنہ ولد صوبہ خان قوم افغان جہلم شہر کے رہنے والے تھے۔ آپ ویٹرنری اسسٹنٹ تھے اور اس ملازمت کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مقیم رہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی بیعت کرنے کی توفیق پائی، بیعت کے ایام میں آپ بھارتی صوبہ مہاراشٹرا کے شہر دیولائی کیمپ (Deolai Camp) میں مقیم تھے۔ آپ کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم میں یوں درج ہے:
’’یعقوب خان صاحب افغان ساکن شہر جہلم حال ملازم بعہدۂ ویٹرنری اسسٹنٹ سلوتری مقام دیو لائی کمپ‘‘
(الحکم 30ستمبر 1901ء صفحہ 16کالم 3)
بیعت کے بعد آپ نے اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی اور ساری زندگی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھا۔ 1906ء میں اخبار الحکم میں حضرت سید احمد نور کابلی صاحب کے لیے رشتہ کا اعلان شائع ہوا کہ ’’سید احمد نور مہاجر کابلی نوجوان مخلص بھائی ہے، صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم کا وفادار خادم ہے، حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود اس کی شادی ہونے پر بہت خوش ہوں گے۔ ہر طرح سے متدین، جفاکش، محنتی اور معقول آمدنی رکھتا ہے مستقل طور پر قادیان آ بسا ہے۔ درخواستیں ایڈیٹر الحکم کے نام آئیں۔‘‘ (الحکم 30 جون 1906ء صفحہ1) جب آپ نے یہ اعلان پڑھا تو اپنی بھانجی کا رشتہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا، اس کی تفصیل میں آپ کی بیٹی محترمہ امۃ اللہ صاحبہ لکھتی ہیں:
’’جس وقت سید احمد نور صاحب کابلی کابل سے ہجرت کر کے دارالامان تشریف لائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے الحکم میں ان کے نکاح کے لیے اعلان کر دیا۔ والد صاحب مونہ میں تھے اور اپنے ہاں اس وقت کوئی لڑکی قابلِ شادی نہ تھی مگر میری پھوپھی صاحبہ کے گھر لڑکیاں تھیں۔ انھوں نے اخبار سے حضور کا ارشاد پڑھتے ہی فی الفور لڑکی کے والدین سے مشورہ کیے بغیر حضرت اقدس کی خدمت مبارک میں چٹھی لکھ دی کہ حضور کے حکم کے مطابق خاکسار اس مہاجر کو اپنی بھانجی کا رشتہ خدا کے لیے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرمائے۔ یہ خط لکھ کر سیدھے جہلم تشریف لائے اور اپنی بہن و بہنوئی سے جو کہ مخلص احمدی تھے، تذکرہ کیاکہ میں آپ کی لڑکی امۃ اللہ کا رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اعلان پر ایک مہاجر کو جو کہ ابھی کابل سے ہجرت کر کے آیا ہے بغیر آپ لوگوں کی اجازت کے دے آیا ہوں۔ انھوں نے سر تسلیم خم کیا اور دارالامان لکھ دیا گیا کہ آپ لوگ آکر نکاح کر لیں، اس پر سید احمد نور صاحب معہ چند دوستوں کے آئے اور نکاح کر کے لے گئے۔ قدرت الٰہی کا کرشمہ یہ ہوا کہ شادی ہو جانے کے بعد میری پھوپھی زاد بہن صرف نو ماہ ان کے گھر زندہ رہی اور آٹھ ماہ کا لڑکا تولد ہونے پر انتقال کر گئی۔ پھر جب میری پیدائش ہوئی تو اس لڑکی کے نام پر ابا جان نے میرا نام امۃ اللہ رکھا۔‘‘
(الفضل یکم نومبر 1931ء صفحہ10)
اخبار الحکم میں بھی آپ کی اس مخلصانہ کوشش کا ذکر موجود ہے، اخبار لکھتا ہے: ’’سید احمد نور صاحب مہاجر کی شادی مولوی عبداللہ خاں صاحب لیٹ سکرٹری پنڈ دادن خان کی دختر نیک اختر سے بمقام جہلم ہو چکی ہے۔ اس تحریک کے محرک ڈاکٹر یعقوب خاں صاحب ویٹرینری اسسٹنٹ مونہ ہیں جن کی وہ ہمشیرہ زادی ہیں۔ جس ارادت اور حوصلہ کے ساتھ اس معاملہ میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے بہنوئی مولوی عبداللہ خاں صاحب نے سبقت کی ہے وہ ایک قابل قدر نمونہ ہے، کوئی لمبی بات نہیں ہوئی، کوئی شرط زیور وغیرہ پیش نہیں ہوئی، محض خدا کے لیے انھوں نے اس امر کو پیش کیا۔‘‘
(الحکم 17اگست 1906ء صفحہ5 کالم 3)
(اخبار بدر 16؍اگست 1906ء صفحہ 2 پر بھی آپ کی قادیان آمد کا ذکر موجود ہے۔)
جنگ عظیم اول میں آپ کو بھی انڈین دستے کے ساتھ فرانس جانے کا موقع ملا، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فرانس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں خلافت کی برکات کے حوالے سے درج ذیل خط لکھا: ’’حضور کا خطبہ جمعہ مورخہ 9؍جولائی 1915ء جو لاہور میں ہوا، نظر سے گذرا۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ سلسلہ کا خود ہی حافظ و ناصر ہوتا ہے چنانچہ یہ تیسرا موقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ نشانات دکھا کر اپنی قدرت اور ہستی کا ثبوت دیا اور اپنے پیارے مامور کی جماعت کا خود نگہبان رہا۔ منکرانِ خلافت نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا ہے کہ ضد اور تعصب میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں، کاش وہ حضرت کے اس خطبہ کو جو غور سے پڑھتے اور اپنے شکوک رفع کر لیتے، نہ معلوم یہ لوگ دنیا کی کس ملامت سے ڈرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی افترا پردازیوں سے محفوظ رکھے۔ مبارک اور خوش قسمت ہیں وہ جو حضرت کی غلامی کو اپنا فخر سمجھیں۔‘‘ (الفضل 19،21 ستمبر 1915ء صفحہ1) جنگ کے بعد آپ کو کچھ عرصہ بغداد اور گرد و نواح میں کام کرنے کا موقعہ ملا، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے ان جگہوں پر مقدس مقامات کی زیارت کی۔
(الفضل 23 ؍جون 1917ء صفحہ 1،2)
آپ نے مئی 1931ء میں وفات پائی، اخبار الفضل نے لکھا: ’’8مئی ڈاکٹر یعقوب خاں وٹرنری انسپکٹر پنشنر جو کہ محمد یوسف خان صاحب امریکہ والے کے والد ہیں، فوت ہوگئے۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرانے خادموں سے تھے، نہایت مخلص، متقی، سلسلہ کے جوشیلے خادم تھے۔ احباب مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ خاکسار عبدالمغنی مسجد احمدیہ نیا محلہ شہر جہلم۔‘‘ (الفضل 2جون 1931ء صفحہ2) آپ کی وفات پر آپ کی بیٹی محترمہ امۃ اللہ بیگم صاحبہ نے آپ کے مختصر حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے اخبار الفضل میں لکھا:
’’میرے ابا جان ڈاکٹر یعقوب خان صاحب وٹرنری اسسٹنٹ انسپکٹر 8؍مئی بروز جمعہ 1931ء اس دار فانی سے رخصت ہوکر حقیقی مولا سے جا ملے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم و مغفور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرانے اور مخلص صحابیوں میں سے تھے، اسلام کے سچے خادم اور احمدیت پر دل و جان سے نثار تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حقیقی عاشق اور خاندان نبوت کے شیدا تھے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکموں پر اپنی مال و جان و اولاد فدا و نثار کرنے تک دریغ نہ کرتے بلکہ فخر کا باعث سمجھتے اور راحت محسوس کرتے۔ ہر خاص و عام چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، تین صد روپیہ ماہوار میں سے صرف ایک صد روپیہ گھر والدہ صاحبہ کو خانگی اخراجات کے لیے دیتے اور باقی چندوں اور کچھ غریب لوگوں و اقرباء میں یتیموں بیواؤں پر صرف کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہے اور اسی کے رستہ میں خرچ کرتا ہوں، اگر میرے مولا کو منظور ہوا تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں جمع ہوگا اور وہ بنک دنیا کے تمام بنکوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اولاد کو ہمیشہ سادگی، دیانتداری، محنت کشی اور راستبازی کا سبق دیتے۔ 10 سال مونہ ڈپو میں ملازم رہے۔ والدہ صاحبہ کہتی ہیں …. باوجودکئی نوکر ہونے کےدفتر سے آکر گھر کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے، مشین سے آٹا پیسوا لاتے۔ اگر بعض اوقات کوئی محلہ دار محتاج عورت ہمارے ہاں بیٹھی ہوتی جس کا کوئی سودا وغیرہ لانے والا نہ ہوتا اور آپ اچانک دورہ سے آجاتے تو وردی بھی نہ اتارتے، سفر کی تکان بھی نہ اتارتے اور پہلے اس کا سودا خرید کر لا دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دینی دنیاوی ہر ایک نعمت سے مالا مال کیا، اعلیٰ خاندان اور مسلمانوں کے گھر پیدا کیا، دینی و دنیاوی علم دیا، عزت دی، رزق با فراغت اور حلال عطا فرمایا، مضبوط ایمان دیا، اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، موجودہ وقت کے نبی کی شناخت دی، پرہیزگار اور نیک بیوی عطا کی، متقی و صالح اولاد بخشی …. دس سالہ بیماری میں ابا جان نے صبر و استقلال کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
ایک دفعہ کا ذکر مجھے والد صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مونہ سے خالص شہد کی دو بوتلیں بطور تحفہ لے کر حضرت اقدس کی ملاقات کے لیے دارالامان گیا، آگے ایک اور آدمی بھی ملاقات کے لیے بیٹھا تھا جب حضور تشریف لائے تو اس شخص نے حضور کے ہاتھ پر ستّرپونڈ رکھے مگر حضور نے اوپر آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور جب میں نے دونوں بوتلیں پیش کیں تو حضور خوش ہوئے اور دیر تک اپنے بابرکت کلمات سے فرحت بخشتے رہے۔
(الفضل یکم نومبر 1931ء صفحہ 10)
آپ کی اہلیہ حضرت زینب بی بی صاحبہ نے 1903ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ (الفضل 27 اپریل 1933ء) اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی بچپن میں وفات پاگئے۔ بڑے بیٹے محترم ڈاکٹر محمد یوسف خان صاحب کو 1920ء کی دہائی میں تعلیم کے لیے امریکہ جانے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، حضرت مولوی محمد دین صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کی امریکہ سے واپسی کے بعد کچھ عرصہ امریکہ میں مشن کے انچارج بھی رہے۔ الفضل میں ان کی کئی رپورٹیں شائع شدہ ہیں۔بعد ازاں وہیں امریکہ میں ہی مقیم ہوگئے، مورخہ 19جنوری 1979ء کو وفات پائی بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ دوسرے بیٹے احمد حیات خان صاحب تھے جو 1928ء میں اپنے بھائی کے ساتھ امریکہ گئے اور کچھ عرصہ سنسناٹی (اوہائیو) میں احمدیہ مشن کے نگران رہے، والد صاحب کی وفات پر واپس جہلم چلے گئے۔ بیٹی امۃ اللہ جان اشرف صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد اشرف صاحب آف لندن تھیں جو 1909ء میں پیدا ہوئیں اور 16؍نومبر 1984ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔
حضرت ڈاکٹر یعقوب خان صاحبؓ کی بہن حضرت فضل بی بی صاحبہ اور بہنوئی حضرت حاجی عبداللہ خان صاحبؓ کے حالات ‘‘بعنوان میرے آباء و اجداد’’ان کی پوتی محترمہ رضیہ خانم صاحبہ اہلیہ چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ نے الفضل انٹرنیشنل 13؍اگست 2020ء میں شائع کرائے ہیں۔
(غلام مصباح بلوچ)