اگر ایک ٹیم کے بیشتر ارکان کھیل سے قبل ہی جواریوں کے ساتھ گفت و شنید کے باعث کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو یہ عمل میچ فکسنگ کہلاتا ہے۔ ایک میچ فکس کرنے کے لئے جوئے بازو ں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کوئی ارب پتی جرائم پیشہ گروہ ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ عام طور پر کرکٹ میں کسی ٹیم کے بیشتر ارکان ہارنے پر ہی میچ فکسنگ کرتے ہیں۔ یوں وہ ایک دن میں لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔ مگر یہ کھیل کے قوانین کی واضح خلاف ورزی ، اپنے ضمیر وا یمان کا سودا اور وطن و قوم سے کھلی غداری ہے۔
میچ فکس کرنا اسپاٹ فکسنگ کے مقابلے میں مشکل ہے۔ کیوں کہ کرکٹ میں ایک ٹیسٹ یا ون ڈے اسی وقت فکس ہوتا ہے جب ٹیم کے بیشتر کھلاڑی جوا کھیلنے پر رضامندہو ں بلکہ انتظامیہ کے اعلی افسروں کو بھی حصے دار بنانا پڑتا ہے۔ گویا جوئے باز گروپ کی اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کرکٹ ہی نہیں کئی کھیلوں میں میچ فکسنگ کے واقعات ملتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کے بدلے میں جوئے باز گروپ کہیں زیادہ منافع حاصل کرتا ہے ۔
لیکن میچ فکسنگ کا یہ مطلب نہیں کے دانستہ ہارا جائے۔ میچ ڈرا کرنے کی خاطر بھی یہ عمل اپنایا جا سکتا ہے یا پھر دو ٹیموں کا مشترکہ مفاد وابستہ ہو، تو وہ بھی اس غیر قانونی عمل میں ملوث ہوسکتی ہیں۔
عالمی کھیلوں میں جوا
کھیل اور پیسہ جب بھی مل جائیں تو جوا کھلانے والے قانونی ادارے ہوں یاغیر قانونی بکی، وہ مختلف طریقوں سے میچ پر نظر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے کھیلوں میں جوئے بازی کا اولین تذکرہ یونانی اولمپکس میں ملتا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کے اولمپکس میں بعض کھلاڑی رشوت لے کر ہار جاتے تھے۔ نیزیونانی شہری ریاستیں مختلف ٹیموں کو رقم کے بل پر خریدنے کی کوشش کرتی تھیں تاکہ خود فخرمند ہو سکیں ۔ یہ منفی سرگرمیاں یونانی اولمپکس کے اختتام تک جاری رہیں حالانکہ ہر کھلاڑی یہ قسم کھاتا کہ وہ ایماندار رہے گا اور اولمپکس کے قوانین کی پاسداری کرے گا ۔
زمانہ قدیم میں امراءہی کھیلوں پرجوا کھیلتے اور شرطیں لگاتے تھے۔ جب صنعتی دور شروع ہوا اور متوسط طبقے نے جنم لیا تو عام لوگ بھی جوا کھیلنے لگے۔ یوں خصوصا ََ اسپاٹ فکسنگ کی قسم ’’ترقی‘‘ کرنے لگی۔ انیسویں صدی کے اختتام تک تقریبا ََتمام ممالک میں کھیل پر جوا کھیلنا ممنوع تھا لیکن ہر ملک میں غیر قانونی بکی موجود تھے۔ امریکا میں مکے بازی کا کھیل خصوصاََ جوئے سے لتھڑا پڑا تھا۔ وجہ یہی ہے کے باکسنگ انفرادی کھیل ہے اور اس میں ایک کھلاڑی کو خریدنا مشکل نہیں۔ امریکی باکسنگ کی تاریخ میں اسی لئے میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے کئی واقعات ملتے ہیں۔
دنیا میں میچ فکسنگ کا سب سے بڑا واقعہ بلیک سوکس بیس بال سکینڈل ہے جو 1919ء میں امریکہ میں پیش آیا۔ہوا یہ کہ اس سال امریکن لیگ کی چیمپیئن ٹیم شگاگو وائٹ سوکس اور نیشنل لیگ کی چیمپیئن ٹیم، کنکنٹی ایڈز کے مابین نو مقابلوں کی سیریز کھیلی گئی۔ سیریز کا مقصد کھیل کی مقبولیت بڑھانا اور مزید منافع کما نا تھا۔ مگر وائٹ سوکس کے آٹھ کھلاڑیوں نے جوئے بازوں کے ساتھ مل کر میچ کیا پوری سیریز ہی فکس کر لی۔نتیجہ ٹیم نے پانچ مقابلے ہار کر مخالفین کو جتوادیا جوئے بازوں نے ان کھلاڑیوں کوکُل ایک لاکھ ڈالر دئے جو سو سال پہلے بہت بڑی رقم تھی۔ حقیقت یہ ہےکہ کرکٹ ہی نہیں ، فٹ بال، ٹینس ،باکسنگ ،گھڑ دوڑ ،کاردوڑ وغیرہ کے کھیلوں میں میچ یا اسپاٹ فکسنگ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے اور اکثر اس ضمن میں سکینڈل آتے رہتے ہیں۔ دنیائے فٹ بال میں میچ فکسنگ کا سب سے بڑا سکینڈل 2006ء میں اٹلی میں سامنے آیا ۔ہوا یہ کہ اطالوی پولیس نے اپنے فٹ بال کلبوں جووینتیس، میلان، فلورینٹینا اور لارڈ کے منیجروں کی ٹیلی فونی گفتگو ریکارڈ کی ۔وہ ریفری بھجوانے والے اداروں پر زور دے رہے تھے کے اطالوی فٹ بال لیگ، سیری اے کے مقابلے کھلوانے کی خاطر ان کے من پسند ریفری بھجوائے جائیں۔ اب پولیس نے مزید چھان بین کی تو انکشاف ہوا کہ یہ مینیجر اپنے واقف کار ریفر یوں کی مدد سے میچ فکس کرانا چاہتے تھے۔
ٹینس بھی انفرادی مقابلوں کا کھیل ہے لہذا جوئے باز اب اس کی طرف بھی متوجہ ہیں گو ابھر تے ٹینس کھلاڑی اسپاٹ یا میچ فکسنگ کر کے اپنا کیریئر داؤ پر نہیں لگاتے مگر بعض کو رقم کی چمک اندھا کر دیتی ہے۔ اسی لیے 2009ء میں برطانوی اخبارات نے یہ رپورٹ شائع کی کہ 2005ء سے ومبلڈن کے ’’آٹھ مقابلے‘‘ فکس ہوئے ہیں۔ انہی دنوں برطانوی ٹینس چیمپئن اینڈی امرے کا یہ بیان سامنے آیا ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹیکس میں میچ فکسنگ ہوتی ہے‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کے اگر کوئی لالچی ٹینس کھلاڑی دوسرے یا تیسرے راؤنڈ میں پہنچ جائے تو وہ ستر اسی ہزار پاؤنڈ پا کر میچ فکسنگ کر سکتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کے ان مرحلوں میں انعامی رقم 30 ہزار پاؤنڈ سے بھی کم ہوتی ہے۔
(سنڈے ایکسپریس 19 ستمبر 2010ء)
بھارت جدت پسند بکیوں کا گڑھ
کرکٹ کے کروڑوں دیوانوں کا ملک ہونے کے باعث بھارت میں اس کھیل پر ہر سال اربوں روپے کا جوا ہوتا ہے۔ بھارتی کرکٹ میں تو جوئے بازو ں کا کاروبار اتنا منظم ہے کہ اس میں کھلاڑی سے لے کر انڈین کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ افسر تک شامل ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وسیع جوابازی کے باوجود بھارت میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آتا کیوں کہ سب ایک دوسرے کا جرم چھپانے اور پردہ پوشی کی سعی کرتے ہیں۔
بھارت میں قانو ناََ صرف گھڑ دوڑ پر شرط لگائی جاسکتی ہے۔ اسی لیے کرکٹ کی جوئے بازی زیر زمین ہوتی ہے اور وہاں جرائم پیشہ گروہ اس کاروبار میں منسلک ہیں۔ 1984ء کے بعد جب شارجہ میں کرکٹ مقابلوں کا دور شروع ہوا تو بھارتی بکیوں نے سب سے پہلے وہاں اسپاٹ فکسنگ کی لت متعارف کرائی۔اس سے قبل بھارتی بکی بھارت آنے والی ہر غیر ملکی ٹیم کے کھلاڑیوںکو جوا کھیلنے کی دعوت دیتے تھے۔ کئی غیر ملکی کھلاڑیوں کے بیان اسی امر کے گواہ ہیں۔
بعد ازاں بکیوں نے جب دیکھا کہ کھلاڑی خرید کروہ نتائج پر حسب دلخواہ اثر انداز ہو سکتے ہیں، تو کھلاڑیوں کو پیسے کی چمک دکھانے لگے۔ جو ہاتھ آتا، وہ اس پر زرِ کثیر خرچ کرتے لیکن بدلے میں انہیں دگنا منافع ہوجاتا۔ اسی پرکشش منافع کے باعث نہ صرف بھارتی بکیوں کاکاروبار پھیل گیا بلکہ انہوں نے بیرون ممالک مثلاََ دبئی، لندن، جوہانسبرگ وغیرہ میں دفاتر قائم کر لئے۔ نیز کراچی اور لاہور میں جرائم پیشہ افراد کے تعاون سے اپنا دھنداشروع کردیا۔
کرکٹ میں جوئے بازی سے متعلق پہلی موت بھی بھارت میں سامنے آئی۔1991ء میں ایک جوا باز ، جیتو بھائی جب شرط لگانے والوں کو رقم ادا نہ کر سکا تو اس نے خودکشی کرلی 992 1ءمیں آسٹریلوی کرکٹرڈینز جونز نےشکایت کی کہ ایک بھارتی بکی نے اسے 50 ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے تاکہ وہ سری لنکنوں سے میچ کے دوران فکسنگ کر سکے ۔1996ء میں سابق بھارتی کوچ سنیل دیونے انکشاف کیا کہ بعض بھارتی کھلاڑی میچ /ا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں۔ پھر جلد ہی کپل دیو، اظہر الدین، سچن ٹنڈولکر جیسے کھلاڑیوں کے نام سامنے آگئے۔
بھارت میں جوئے بازوں کےپنپنے کا راز یہ ہے کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کوئی بکی گرفتار ہو جائے تو آسانی سے ضمانت کرا کرچھوٹ جاتا ہے۔ پھر اوّل تو وہ گرفتار ہی نہیں ہوتا، محض چند سو روپے کی رشوت لے کر پولیس اسے چھوڑ دیتی ہے۔ مزید برآں بڑے بکیوں کے سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں سے تعلقات ہوتے ہیں، لہذا پولیس کو ہمت نہیں ہوتی کہ ان پر ہاتھ ڈالے۔
بھارتی بکیوں کی طاقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ وہ آئی پی ایل کے فرنچائز مالکوں تک بھی رسائی رکھتے ہیں۔ اب بالفرض بکیوں کا ایک گروہ کسی فرنچائز کے مالک کو منہ مانگی رقم دے کر کہہ سکتا ہے کہ اپنی ٹیم سے کہو، فلاں میچ ہار جائے۔ ٹیم کے کھلاڑی اپنے باس کی بات بے چوںوچرا مان لیں گے کیوں کہ انہیں علم ہے کہ ان کو بھاری برکم میچ فیس مل ہی جائے گی۔ چونکہ وہ اس ٹیم سے صرف اس لیے وابستہ ہوتے ہیں کے خوب پیسہ کما سکیں لہذا وہ ایمانداری یا کلب سے اخلاص کا زیادہ مظاہرہ نہیں کرتے۔
(سنڈے میگزین 19 ستمبر 2010ء)
اسپاٹ فکسنگ
جب برطانیہ میں کرکٹ پھل پھول رہی تھی، تو یہ ڈیوک، لارڈ وغیرہ ہیں جو ایک ایک بال اور رن پر شرط لگانے لگے۔ حتیٰ کہ اس امرپر بھی شرط لگ جاتی کہ ٹاس کا سکہ کون کپتان پھینکے گا۔ چو نکہ کرکٹ میں ہر لمحہ نیا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے ۔لہذا جوئے بازو ں کو اپنا شوق یا اپنی ہوس پوری کرنے کے کثیر مواقع میسر آ گئے حقیقتاََآئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کا سابق سربراہ پال کنڈون ’’اعتراف کر چکا ہے کرکٹ دنیا کا وہ کھیل ہے جس میں سب سےزیادہ جواء کھیلا جاتا ہے ۔ اور فکسنگ اس کی ہر سطح پر موجود ہے‘‘ اسی لئے برطانوی کاؤنٹی کرکٹ میں اسپاٹ فکسنگ عام ہے مگر اسے درپردہ رکھا جا تا ہے۔
اسپاٹ فکسنگ یوں مقبول ہوئی کہ اسے انجام دینا میچ فکسنگ کی نسبت آسان ہے۔ میچ فکس کرانے کے لئے کم از کم آدھے کھلاڑیوں کا ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔ جبکہ اسپاٹ فکسنگ میں ایک مشہور کھلاڑی خریدنے سے کام چل جاتا ہے۔ اسی لیے میچ فکسنگ اب دم توڑ رہی ہے۔جبکہ اسپاٹ فکسنگ کھیلوں کے لیے نیا خطرہ بن چکی ۔ میچ فکسنگ میں بکیوں کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ کسی کھلاڑی نے راز اگل دیئے یا تعاون نہ کیا تو سارا پلان چوپٹ ہو سکتا ہے ۔اسپاٹ فکسنگ سے ایسا کوئی خطرہ وابستہ نہیں کے بلکہ ایک بار یہ جواء کرنے والا کھلاڑی مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ من و عن بکیوں کی خواہشات پر عمل کرے۔وہ پھر جب چاہیں اس سے میچ میں اچھا یا برا کھیل دکھانے کی فرما ئیش کر سکتے ہیں۔
پیسہ بولتا ہے
لالچ ہوس اور لوبھ کا دوسرا نام میچ یا اسپاٹ فکسنگ ہے۔ یہ عمل اپنانے والا کوئی بھی کھلاڑی صرف اپنےضمیرو ایمان کا سودا ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ملک و قوم کی عزت بھی خاک میں ملا دیتا ہے۔ لیکن صرف کھلاڑی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا خصوصاََ جب وہ دنیا کرکٹ نوآموزناتجربے کار اور معصوم ہو۔ اس پیسے اور اس کی چیلی کرپشن میں تو کیپٹل ازم، کیمونزم، سوشل ازم اور نجانے کیسے کیسے ازموں کو چاروں شانے چت کر دیا ، ایک بیچارا کھلاڑی کیا شے ہے۔ مزید برآں یہ حقیقت ہے کہ بیشتر کھلاڑی بکیوں کی چرب زبانی یا پھر دھمکیوں کے با عث ان کے جال میں پھنستے ہیں یہ بکی معصوم کھلاڑیوں کو قیمتی تحفے دیتے، خریداری کراتے اور مہنگے ہوٹلوں میں لے جاتے ہیں ۔یوں ان میں تمناؤں کا بے حساب سمندر پیدا کرکے پھر فطری بشری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کھلاڑی ان ’’مہربانیوں‘‘ تلے دب کر خود کو بے بس پاتا اور مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کے لئے ’’کچھ کرے‘‘ غرض انسانی نفسیات کے نباض یہ شاطر بکی بڑی گہری چالیں چل کر کھلاڑیوں کو گھیرتے ہیں ۔ذرا سوچ کر بتائیے، جو کھلاڑی سال میں پچاس ہزار ڈالر کماتا ہے، اگر اسے صرف ایک وائڈ یا نو بال کرانے پر اتنی ہی رقم مل رہی ہو، تو کیا وہ حاصل کر لے گا؟ جبکہ میچ کے مجموعی نتیجے پر بھی اس بال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
(سنڈے ایکسپریس 19ستمبر 2010ء)