• 10 مئی, 2025

وہ کیا ہی بابرکت وجود تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں کو چھوا

وہ کیا ہی بابرکت وجود تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں کو چھوا، آپ سے براہِ راست فیض پایا
حضرت ولی داد خان صاحب، حضرت مدد خان صاحب

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرۃ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے پیار اور محبت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اُس دلدار کو راضی کریں۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جس روز خدا تعالیٰ کے سایہ عاطفت کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا، اُس روز جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ عاطفت میں لے گا اُن میں وہ دو لوگ بھی شامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔

(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلٰوۃ حدیث نمبر 660)

یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید محبت کا اظہار ہو۔ پس جب عام مومن کو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے تو جو اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور نبی ہوتے ہیں اُن سے محبت کو خدا تعالیٰ کس طرح نوازے گا، اس کا تو اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ عشق و محبت کے عجیب نظارے ہیں جس کا آخری سرا اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے عشق و وفا کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادوں کا زمانہ پاتے ہیں۔ یہ نمونے دکھانے کا موقع ہم میں سے بعض کے باپ دادا کو بھی ملا، آباؤ اجداد کو بھی ملا، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وقت پایا اور اپنی محبت اور پیار اور عقیدت اور احترام کا اظہار براہِ راست آپ سے کیا۔ اور پھر آپؑ کے پیار اور شفقت سے بھی حصہ لینے والے بنے۔

اس وقت مَیں ایسے ہی چند بزرگوں کی روایات اور واقعات کا ذکر کروں گا۔ وہ کیا ہی بابرکت وجود تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں کو چھوا، آپ سے براہِ راست فیض پایا۔

مَیں نے جو بعض روایات لی ہیں ان میں سے پہلی روایت حضرت ولی داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو راجپوت قوم کے تھے۔ ملک خان صاحب کے بیٹے ساکن مراڑاتحصیل نارووال، کہتے ہیں کہ ’’مَیں نے دسمبر 1907ء میں جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی اور تاریخِ جلسہ سے ایک دن پہلے رات کو قادیان پہنچا تھا۔ صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر سے باہر تشریف لانا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کے پاس بہت بڑا ہجوم ہے۔ آدمی ایک دوسرے پر گِر رہے تھے۔ مَیں چونکہ نووارد تھا، مَیں دوسری گلی پر کھڑا ہو کر دعا مانگ رہا تھا کہ اے مولا کریم! اگر حضور اس گلی سے تشریف لے آویں تو سب سے پہلے مَیں مصافحہ کر لوں۔ اُسی وقت کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اسی راستے سے تشریف لے آئے ہیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’یکلخت مجھے ایسا معلوم ہوا جس طرح سورج بادل سے نکلتا ہے اور روشنی ہو جاتی ہے۔ مَیں نے دوڑ کر سب سے پہلے مصافحہ کیا۔ حضور آریہ بازار کے راستے باہر تشریف لے گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب کے باغ کا جو شمالی کنارہ ہے وہاں سے حضور واپس مڑے۔ غالباً مسجدنور یا مدرسہ احمدیہ کی مغربی حد ہے، وہاں حضور بیٹھ گئے۔ صحابہ کرام ارد گرد جمع تھے اور میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی نے کچھ نظمیں اپنی بنائی ہوئیں سنائیں‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3صفحہ 84 روایت حضرت ولی داد خان صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

پھر حضرت مدد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ انسپکٹر بیت المال قادیان جو کہ راجہ فتح محمد خان صاحب کے بیٹے تھے، یاڑی پورہ ریاست کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1896ء میں انہوں نے بیعت کی اور 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں۔ اُن دنوں میں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا‘‘۔ (میرا خیال ہے آج کل تو یہ عہدہ نہیں لیکن یہ junior comissioned officer ہوتے تھے) تو کہتے ہیں کہ ’’میری اُس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے مَیں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں، کیونکہ میری پہلی بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی جو ڈاک کے ذریعے (خط کے ذریعے) ہوئی تھی‘‘۔ کہتے ہیں ’’میرا ان دنوں قادیان میں آنے کا پہلا ہی موقع تھا۔ نیز اس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جاوے۔ شاید اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ لہٰذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور پھر وہاں سے واپس آ کر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں‘‘۔ کہتے ہیں ’’مَیں قادیان کو اس سوچ کے ساتھ آیا تھا لیکن جونہی یہاں آ کر مَیں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہرگز نہ جاؤں۔ یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا۔ میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار بھی ہو گی تو کیا ہو گا۔ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی مبارک چہرہ ہرگز نظر نہیں آئے گا۔ میں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آ جائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جس سے تیرا بیڑا بھی پار ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا۔ اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے دَر پر جا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا لیکن دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریراً جواب میں فرمایا کہ آپ نے یہ بہت اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کرواتے رہتے ہو۔ جس پرمَیں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں اور ان شاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خود ہی دین و دنیا میں کامیابی دے گا۔ اور خدا آپ پر راضی ہو جائے گا۔ اور آپ کی شادی بھی خدا ضرور ہی کرا دے گا۔ آپ مجھے یاد دہانی کراتے رہا کرو۔ مَیں آپ پر بہت خوش ہوں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’خاکسار نے حضور کی اس تحریر کو شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم کو دکھایا اور کہا کہ حضور نے خاکسار کو آج یہ تحریر فرمایا ہے اور پھر کہا یہ کیا بات ہے کہ مَیں نے تو کبھی کسی موقع پر بھی حضور کو اپنی شادی کرنے یا کرانے کے بارے میں اشارہ تک نہیں کیا۔ اس پر شیخ صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ اب تو تمہاری شادی بہت جلد ہونے والی ہے۔ کیونکہ حضور کا فرمانا خالی نہیں جایا کرتا۔ آپ تیارہی رہیں‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’خدا شاہد ہے کہ حضور کے اس فرمانے کے قریباً دو ماہ کے اندر اندر ہی میری شادی ہو گئی۔ اس سے پہلے میری کوئی بھی کسی جگہ شادی نہیں ہوئی تھی۔ میری دو شادیاں حضور نے ہی کرائی تھیں۔ ورنہ مجھ جیسے پردیسی کو کون پوچھتا تھا۔ یہ محض حضور کی خاص مہربانی اور نظرِ کرم تھی کہ آپ کے طفیل میری شادیاں ہوئیں۔ کہاں مَیں اور کہاں یہ عمل‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4صفحہ 95تا 97 روایت حضرت مدد خان صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

(خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2021