• 10 مئی, 2025

حضرت مستری اللہ دتہ ولد صدر دین صاحب رضی اللہ عنہ سکنہ بھانبڑی، حضرت میراں بخش صاحب، حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب چھبر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مستری اللہ دتہ ولد صدر دین صاحب رضی اللہ عنہ سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ 1894ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1894ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ ’’میرے استاد کا نام مہر اللہ تھا۔ میں نے اُن سے قرآن شریف سادہ پڑھا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ امام مہدی ظاہر ہونے والا ہے اس کی بیعت کرلینا۔ جب خبر سنائی دی کہ قادیان میں حضرت امام مہدی ظاہر ہوگئے تو میں نے اپنے استاد مہراللہ صاحب کے کہنے پر بیعت کرلی۔ مَیں نے اور میرے بھائی رحمت اللہ صاحب نے قادیان میں آکر بیعت دستی کرلی تھی۔ اور بھانبڑی سے ہمیشہ جمعہ قادیان میں آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے۔ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دوست اگر تمہارے پاس آیا کریں تو ان کی خاطر تواضع کیا کرو۔ ماسٹر عبد الرحمان صاحب بی اے بھانبڑی بھی ہمارے پاس جایا کرتے تھے اور مفتی فضل الرحمان صاحب بھی کبھی کبھی جایا کرتے تھے‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانی اکثر دفعہ سنا ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا سلسلہ سچا ہے۔ اس کو انشاء اللہ زوال نہ ہوگا۔ جھوٹ تھوڑے دن رہتا ہے اور سچ سدا رہتا ہے۔ کچھ زمیندار مہمان قادیان میں آگئے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ اس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہوگا۔ حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا۔ کچھ کھانا ان کو کھلایا جائے۔ باورچی نے کہا کہ حضور رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا۔ کچھ حرج نہیں ہے لے آؤ۔ چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں۔ حضور نے بھی کھائیں اور سب مہمانوں نے بھی کھالیں۔ غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال کو جانے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ باسی کھالینا سنت ہے‘‘۔

(رجسٹر روایت صحابہ نمبر 4 صفحہ 106 روایت حضرت مستری اللہ دتہ صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں شرف الدین صاحب درزی گوجرانوالہ آبادی چاہ روڈا محلہ احمد پورہ لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت قریباً 1897ء یا 1898ء میں کی۔ مگر اپنے والد صاحب سے کچھ عرصہ تک اس امر کا اظہار نہ کیا۔ آخرکب تک پوشیدہ رہ سکتاتھا۔ بھید کھل گیاتو والد صاحب نے خاکسار کو صاف جواب دے کر گھر سے نکال دیا۔ تو خاکسارنے خدارازق پر توکل کرکے ایک الگ دوکان کرایہ پر لے لی۔ تنگدستی تو تھی ہی مگر دل میں شوق تھاکہ جس طرح بھی ہو سکے بموجب حیثیت حضرت اقدسؑ کے لئے ایک پوشاک بنا کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر حضور کی خدمت میں پیش کی جائے۔ اسی خیال سے مَیں نے ایک کرتہ ململ کا اور ایک سلوارلٹھے کی اور ایک کوٹ صرف سیاہ رنگ کا اور ایک دستارململ کی خریدکر اور اپنے ہاتھ سے سی کر پوشاک تیارکرلی اور قادیان شریف کا کرایہ ادھر ادھر سے پکڑ پکڑاکر قادیان شریف پہنچ گیا۔ دوسرے روزجمعہ کا دن تھا۔ اس لئے خیال تھا کہ اگر ہو سکے تو یہ ناچیز اور غریبانہ تحفہ آج ہی حضور کی خدمت ِبابرکت میں پہنچ جائے تو شاید حضور جمعہ کی نماز سے پہلے ہی اس کو پہن کر اس غریب کے دل کو خوش کردیں۔ غرض اسی سوچ بچار میں قاضی ضیاء الدین صاحب کی دوکان پر پہنچ گیااوران کے آگے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔ وہ سنتے ہی کہنے لگے کہ چل میاں، میں تم کو حضور کی خدمت میں پہنچا دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کر مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے۔ اس وقت حضور علیہ السلام ایک تخت پوش پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔ اور خواجہ صاحب کمال الدین تخت پوش کے سامنے ایک چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں بھی وہاں خواجہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ خواجہ صاحب نے دریافت کیا کہ اس وقت کیسے آئے۔ قاضی صاحب نے میری خواہش کا اظہارکردیا۔ خواجہ صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر میری طرف مخاطب ہوئے اور کہا کیوں میاں! مَیں ہی تمہاری وکالت کردوں۔ مَیں نے کہا یہ تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔ اس پر خواجہ صاحب نے مجھ سے وہ کپڑے لے کر حضورؑ کو پیش کردیئے۔ اور ساتھ ہی یہ عرض بھی کر دی کہ حضور اس لڑکے کی خواہش ہے کہ حضور ان کپڑوں کو پہن کر جمعہ کی نمازپڑھیں۔ خواجہ صاحب کی یہ بات سن کر حضور نے کپڑے اٹھاکر پہننے شروع کردیئے‘‘۔ (مطلب یہ کہ فوری تو نہیں پہنے ہوں گے لیکن دیکھنے شروع کر دئیے) ’’لیکن جب کوٹ پہنا تو وہ تنگ تھا۔ تومَیں نے عرض کی کہ حضور کوٹ بہت تنگ ہے۔ اگر اس کو اتار دیں تو میں اس کو کچھ کھول دوں۔ حضور نے کوٹ اتار کر مجھے دے دیا۔ میں جلدی سے اٹھ کر بازار میں آیا اور ایک درزی کی دوکان پر بیٹھ کر تھوڑا ساکوٹ کو کھولا اور خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے کوٹ پہن لیا مگر ابھی بھی بٹن بندنہیں ہوتے تھے۔ مگر حضور نے کھینچ تان کر بٹن لگا لئے اور کچھ بھی خیال نہ کیا کہ یہ کپڑے حضور کے پہننے کے لائق بھی ہیں یا نہیں‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 12 تا 14۔ روایت حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب چھبرجو ریاست جموں کے مولوی نیک عالم صاحب کے بیٹے تھے، لکھتے ہیں کہ 1929ء میں پینشن حاصل کی اور قادیان آ گیا۔ 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو تمام مسجد پُر ہوگئی اور کوئی جگہ باقی نہ تھی۔ حضور کے ساتھ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے۔ اُن کی بغل میں جائے نماز تھی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم دیا کہ جو تیاں لوگوں کی ہٹا کر جائے نماز بچھادی جاوے جس پر شمال کی طرف ڈاکٹر صاحب مذکور اور ان کے بائیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے بائیں طرف عاجز راقم نے نماز پڑھی۔ الحمد للہ۔ الحمدللہ۔ اُس دن حضرت صاحب جری اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر سب تقریروں کے بعد تھی۔ یعنی کم ازکم پانچ گھنٹے بعد حضور کی تقریر ہوئی تھی۔ پہلے مقررین کی تقریروں میں سے راقم نے کچھ نہیں سنااور حضرت جری اللہ مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی پاک صورت اور مبارک چہرے پر میری نظر تھی اور میں زار زار رو رہا تھا۔ غالباً اس کی وجہ اب مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں نے زندگی میں اس کے بعد حضور انورؑ کو نہیں دیکھنا تھا۔ اس لئے اس روز راقم نے پانچ گھنٹہ حضور کے رُوئے مبارک کو ٹکٹکی باندھے دیکھااور بخدا مجھے کسی کی تقریرکا کوئی حصہ یادنہیں ہے اور اس عرصہ میں زار قطار رویا اور پرجوش محبت سے گریہ و بُکا کیا۔ الحمدللہ۔ پھر اپنے وقت پر حضرت اقدسؑ سٹیج پر تشریف لے گئے اور سورہ الحمد شریف کی نہایت ہی لطیف اور لذیذو پُر تاثیر تفسیر بیان فرمائی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 125-136 روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

(خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2021