تبرکات حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ
حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اَنَّا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ۔ میں اپنے بندے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے متعلق گمان کرتا ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا کیا سننی ہے۔ ہم تو گنہگار ہیں۔ وہ تو اولیاء اللہ کی دعائیں سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب میرا بندہ میرے متعلق بدظنی کرتا ہے تو میں بھی اس کی دعا نہیں سنتا۔ لیکن جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ سب کا مالک ہے۔ سب کا رازق ہے میں اس کے ہاتھ کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہوں۔ اگر بُرا ہوں تو بھی اس کا ہوں اور اگر اچھا ہوں تب بھی اس کا بندہ ہوں۔ وہ میری بھی پکار سنے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میرا بندہ مجھ پر حسن ظنی رکھتا ہے۔ میں بھی اس کی دعا سنتا ہوں۔
فرمایا۔ دیکھو۔ ایک بچہ خواہ کتنا ہی نالائق ہو اور کتنے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے۔ ماں اس کو جھڑکتی ہے۔ بعض دفعہ سزا بھی دیتی ہے۔ مگر پھر چھاتی سے لگا لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ارحم الراحمین ہے۔ اس کی شفقت تو ماں سے بہت زیادہ ہے۔ اس پر انسان کیوں بدظنی کرے اور اس کی ذات سے کیوں ناامید ہو۔ بے شک ہم گنہگار ہیں۔ قصور وار ہیں۔ ہم سے سخت کوتاہیاں اور نافرمانیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ مگر پھر بھی اس کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا خدا بڑا رحیم و کریم ہے۔ جب کوئی مصیبت پڑے کوئی حاجت درپیش ہو۔ فوراً اس کے آستانہ پر جھک جاؤ اور کہو۔ الہٰی! میں بڑا حاجت مند ہوں۔ میں تیرے سوا کس کو کہوں۔ کیا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہوں؟ وہ تو مدینہ میں مدفون ہیں۔ پھر کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہوں؟ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں۔ پس تیرے سوا اور کون ہے جس سے کہوں۔ الہٰی! تو ہی میرا آقا ہے اور میں تیرے ہاتھ کا کرشمہ ہوں۔ تو میرے سب بوجھ خود اُٹھا لے۔ میری دوڑ صرف تیرے در تک ہے۔ تو مجھ کو خالی نہ پھیریو۔ جو انسان اس طرح کہتا ہے خداتعالیٰ اس کی سنتا ہے اور ضرور سنتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے جو مجھ پر حسن ظنی رکھتا ہے میں بھی اس کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں۔
پھر فرمایا۔ وَ اَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِہٖ وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءِ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَاءِ۔ کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھ کو یاد رکھتا ہے اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں قیامت کے دن اس سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کروں گا۔ فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ اس پاک ذات کے اوصاف اس کے محاسن، اس کی خوبیاں لوگوں میں پھیلائیں۔ کیونکہ ہمارا خدا تمام عیوب سے پاک اور تمام کمالات اور تمام خوبیوں سے متصف ہے۔ غیر مذاہب کے معبود ہمارے خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ عیسائیوں کا خدا ایسا ہے کہ انسان کو گناہ کرنے پر مجبور بنایا اور پھر سزا کے بغیر نہیں چھوڑتا۔ بے شک وہ یہ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح نے کفارہ ہو کر انسان کے گناہوں کی سزا معاف کرا دی۔ مگر اصولاً ان کا خدا بغیر سزا کے معاف نہیں کر سکتا۔ اسی طرح آریوں کا پرمیشور ہے۔ وہ بھی سزا کے بغیر انسان کو نہیں چھوڑتا۔ رحم اور شفقت اس کی طبیعت میں نہیں ہے حالانکہ جب ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کو، ایک شریف انسان دوسرے شریف انسان کو معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی کینہ ور کیوں ہے کہ بغیر انتقام کے کسی کو نہ چھوڑے۔
اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہ ایسا نہیں۔ وہ نہایت رحیم و کریم ہے۔ اس کی شفقت اور اس کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ اپنے بندوں کو سزا دے کر خوش نہیں ہوتا۔ بلکہ ان پر رحم کرنا چاہتا ہے۔ پس ہم کو چاہئے کہ ایسے محسن خدا کی ذات کو اس کی صفات کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ ہم سفر میں ہوں یا حضر میں۔ ریل گاڑی میں ہوں یا موٹر میں۔ ہر وقت اپنے محسن اور پیدا کرنے والے خدا کا ذکر کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ جب انسان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے۔ جس طرح اس نے میرا ذکر لوگوں میں کیا۔ میں بھی اس کا ذکر اپنے فرشتوں میں کروں گا۔
پھر فرمایا۔ وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَ اِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہُ ھَرْوَلَۃً۔ کہ اگر میرا بندہ ایک بالشت بھر میرے قریب ہو تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک بازو اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں بھاگ کر اس کے پاس جاتا ہوں۔
فرمایا۔ دو وجودوں کے درمیان کئی قسم کے محبت کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک محبت مساوی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے دوستوں کی محبت ہوتی ہے کہ تم جس قسم کا سلوک کرو گے ایسا ہی ہم بھی کریں گے اور دوسری محبت شفیق ماں کی ہوتی ہے کہ بچہ ماں کے پاس جاتا ہے۔ جو اسے گلے سے لگا لیتی ہے۔ وہ کہتا ہے۔ اماں میں بازار جاتا ہوں۔ اس کا دل شفقت سے بھر جاتا ہے اور کہتی ہے۔ لو آنہ لے لو۔ کوئی چیز لے لینا۔ اللہ تعالیٰ کی شان بھی ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی ایک بالشت اس کے قریب ہوتا ہے تو وہ گز بھر اس کے قریب ہو جاتا ہے اور اگر کوئی چل کر اس کے پاس آتا ہے تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بعض دفعہ تم ایک کھجور صدقہ دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح پالتا ہے جس طرح لوگ گھوڑے کو پالتے ہیں اور پھر قیامت کے دن اس کو بہت بڑھا کر دے گا۔ دیکھو۔ انسان خداتعالیٰ کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ لیکن پھر بھی اس نے انسان میں چھوٹے پیمانہ پر اپنی صفات رکھ دی ہیں۔ اس کو عقل دی ہے، فہم دیا ہے، علم دیا ہے اور پھر انسان کے لئے اتنا کافی سمجھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کا سہارا بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جب لوگوں پر عذاب آیا اور انہوں نے کہا۔ یٰۤاَیُّہَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِندَکَ إِنَّنَا لَمُھْتَدُوْنَ (الزخرف:50) کہ اے جادوگر! اپنے رب سے ہمارے لئے دعا مانگ کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے۔ ہم ضرور ہدایت پا جائیں گے۔ تو باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ عالم الغیب تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر اس نے ان کی درخواست قبول کر لی اور عذاب کو روک دیا۔ کیونکہ وہ بڑا شفیق ہے۔ انسان ذرا توجہ کرے۔ وہ فوراً مان جاتا ہے۔ یہ اسی شفقت کا نتیجہ تھا کہ جب انبیاء کے مخالفین نے ذرا رجوع کیا تو اس نے اپنی وعیدی پیشگوئیوں کو بھی ٹال دیا۔
(روزنامہ الفضل قادیان 26 جولائی 1943ء صفحہ3)