حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تین فتنوں کے متعلق پیشگوئی جو پوری ہوئی اور اس حوالے سے آپ علیہ السلام کا چیلنج
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1880ء میں الہاماً تین فتنوں کی خبر دی گئی ۔وہ الہامات براہین احمدیہ میں شائع ہوئے ۔وہ یہ ہیں :
(فتنہ نمبر 1) ’’ولن ترضی عنک الیھود ولا النصٰرٰی وخرقوا لہ بنین و بنات بغیر علم۔ قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیر الماکرین۔ الفتنۃ ھھنا فاصبر کما صبر اولوا العزم‘‘
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1صفحہ نمبر 266،267حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
ترجمہ: ’’پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں ان کو کہہ دے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہم کفو ۔اور یہ لوگ مکر کر یں گے اور خدا بھی مکر کرے گا ۔ایک فتنہ برپا ہوگا پس صبر کر جیسا کہ اولو العزم نبیوں نے صبر کیا۔‘‘
(تذکرۃ صفحہ نمبر 38)
(فتنہ نمبر 2) ’’و اذ یمکر بک الذی کفر۔ اوقد لی یاھامان لعلی اطلع الی الٰہ موسی وانی لأظنہ من الکاذبین۔ یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکاتا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں کہ کیونکر وہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ یہ کسی واقعہ آئندہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو بصورت گزشتہ بیان کیا گیا ہے۔ تبت یدا ابی لھب وتب۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ۔ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوا اور اس کو لائق نہ تھا کہ اس کام میں بجز خائفؔ اور ترسان ہونے کے یوں ہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جو تجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اس سے ظہور میں آوے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحب حبا جما۔حبا من اللہ العزیز الاکرم عطاءً ا غیر مجذوذ۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں‘‘
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1صفحہ نمبر 609-610حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

(فتنہ نمبر 3) ’’میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1صفحہ نمبر665 حاشیہ در حاشیہ نمبر 4)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ’’سراج منیر‘‘ (سن اشاعت مئی 1897) میں ان تینوں الہامات میں مذکور تین فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
ایک دانشمند انسان جب براہین احمدیہ کو کھول کر صفحہ241 میں نصاریٰ کے ذکر اور ان کے مکر اور حق پوشی کی پیشگوئی کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولوالعزم۔ اور پھر آگے چل کر جب پانسو گیارہ صفحہ پر ایک مفتری اور بیباک مسلمان کے ذکر کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولوالعزم اور پھر آگے چل کر جب صفحہ557 میں ایک چمکتے ہوئے نشان کے ذکر کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولواالعزم تو ان تین فتنوں کے تصور سے جو صفحہ 241۔ اور صفحہ 511۔ اور صفحہ 557 براہین احمدیہ میں اس وقت سے سترہ برس پہلے لکھی ہوئی ہیں طبعاً اس کے دل میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ یہ تین فتنے کیسے ہیں جن میں سے ایک عیسائیوں سے تعلق رکھتا ہے اور ایک کسی منصوبہ باز مسلمان سے اور ایک کھلے کھلے نشان کے ظہور کے وقت سے۔ اور پھر جب واقعات کی تلاش میں پڑے گا تو وہ تین بھاری بلوے اس کی نظر کے سامنے آ جائیں گے جو ہر ایک ان میں سے فتنہ عظیم کہلانے کا مستحق ہے۔ تب خدا کا عمیق علم دیکھ کر ضرور سجدہ کرے گا جس نے اس وقت یہ خبریں دیں جبکہ ان تینوں فتنوں کا نام و نشان نہ تھا اگر یہ تینوں فتنے چیستاں کے طور پر کسی واقعات کے جاننے والے کے سامنے پیش کئے جائیں تو فی الفور وہ جواب دے گا کہ ایک فتنہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق کا ہے جو عیسائیوں اور ان کے حامی بخیل مسلمانوں سے ظہور میں آیا یعنی ان مسلمانوں سے جن کا نام اس پیشگوئی میں یہود رکھا ہے۔ اور دوسرا فتنہ محمد حسین بٹالوی کی تکفیر کا فتنہ ہے۔ اور تیسرا وہ فتنہ جو ہندوؤں کی طرف سے نشان الٰہی کے ظہور کے بعد وقوع میں آیا۔ یہ تین فتنے ہیں جو پُرشور و بلوہ کی طرح ظہور میں آئے جن کی خدانے سترہ بر س پہلے خبر دیدی تھی!!!»
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 52،53)

آپ علیہ السلام ان تین فتنوں کے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ
’’اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان تینوں فتنوں میں سے کوئی فتنہ بھی قومی شور و غوغا سے خالی نہ تھا اور ہر ایک میں انتہائی درجہ کا جوش بھرا ہوا تھا۔۔ اور ہر ایک میں غیر معمولی غل غپاڑہ اٹھا تھا۔
چنانچہ عیسائیوں کا فتنہ اُس وقت وقوع میں آیا تھا جب آتھم میعاد پیشگوئی کے بعد زندہ پایا گیا۔ پادریوں کو خوب معلوم تھا کہ الہامی پیشگوئی میں صریح شرط تھی کہ آتھم رجوع کی حالت میں جو ایک دلی فعل ہے میعاد میں مرنے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور یہ بھی وہ خوب جانتے تھے کہ آتھم پیشگوئی کی ہیبت سے ضرور ڈرتا رہا۔ اور وہ ایام میعاد میں عیسائیت کے تعصّب پر قائم نہیں رہ سکا۔ اور ان کی مجلسوں سے بھاگ کر فیروزپور کے گوشہ خلوت میں جا بیٹھا۔ اور نیز ان کو خوب معلوم تھا کہ ایک دفعہ بیماری کے وقت میں اس نے یہ بھی کہا کہ ’’میں پکڑا گیا‘‘ اور خوب جانتے تھے کہ فطرتاً اس کی روح ڈرنےوالی تھی۔ اور انہیں کماحقہ اس بات کا علم تھا کہ اس نے اپنی حرکات سے خوف ظاہر کیا استقامت ظاہر نہیں کی اور پہلی وضع متعصبانہ کو ایسا بدل دیا کہ اثناء میعاد میں دین اسلام کی مخالفت میں کبھی دو سطر کا مضمون بھی کسی اخبار میں نہیں چھپوایا اور نہ کوئی رسالہ نکالا جیسا کہ اس کی قدیم سے عادت تھی اور نہ کسی مسلمان سے بحث کی بلکہ اس طرح پر دنوں کو گذارا جیسا کہ کسی نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اور پھر طرفہ یہ کہ چار ہزار روپیہ دینے پر بھی قسم نہ کھائی۔ اور مارٹن کلارک سر پیٹ پیٹ کر رہ گیا مگر نالش نہ کی اور تعلیم یافتہ سانپ وغیرہ الزاموں کو ثابت نہ کر سکا۔ ان تمام وجوہات سے پادری صاحبوں کو یقینی علم تھا کہ وہ بزدل اور ڈرپوک نکلا۔ اور میعاد کے بعد بھی وہ اپنا قصہ یاد کر کے رویا……
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ سب لوگ اس کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیتے تب بھی وہ کبھی نالش نہ کرتا۔ اور اگر میں ایک کروڑ روپیہ بھی اس کو دیتا تو کبھی قسم نہ کھاتا۔ اس کا دل میرا قائل ہوگیا تھا اور زبان پر انکار تھا۔ اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس معاملہ میں آتھم سے زیادہ میری سچائی کا اور کوئی گواہ نہ تھا۔

غرض پادریوں نے آتھم کے معاملہ میں حق پوشی کر کے بہت شوخی کی اور امرتسر سے شروع کر کے پنجاب اور ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ناچتے پھرے اور بہروپ نکالے اور ایسا شور و غوغا کیا کہ ابتداء عملداری انگریزی سے آج تک اس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی۔ اور اس جھوٹی خوشی میں جس کے مقابل انہیں کا کانشنس ان کے منہ پر طمانچے مارتا تھا بہت بُرا نمونہ دکھایا۔ اور گندی گالیوں سے بھرے ہوئے میری طرف خط بھیجے اور وہ شور کیا اور وہ شوخی ظاہر کی کہ گویا ہزاروں فتح ان کے نصیب ہوگئیں اور ہزاروں اشتہار چھپوائے مگر پھر بھی اتنے اور اس قدر جوش کے ساتھ آتھم کا مردہ جنبش نہ کر سکا اور اس جھوٹی فتح کی خوشی میں اس نے کوئی دو ورقہ رسالہ بھی شائع نہ کیا۔ بلکہ ایک اخبار میں شائع کر دیا کہ یہ تمام فتنہ اور شور و غوغا جو عیسائیوں کی طرف سے ہوا یہ میری خلاف مرضی ہوا میں ان کے ساتھ متفق نہیں۔ اور گو سچی گواہی کو چھپایا مگر مخالفانہ تیزی اور چالاکی سے بھی چپ رہا یہاں تک کہ الہام الٰہی کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینہ کے اندر فوت ہوگیا۔ غرض بڑا بھاری فتنہ یہ تھا جس میں دین اسلام پر ٹھٹھا کیا گیا۔ اور جس میں بدبخت مولویوں اور دوسرے جاہل مسلمانوں نے پادریوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملا کر اپنا مُنہ کالا کیا۔ اور ایک الہامی پیشگوئی کی ناحق تکذیب کی اور اسلام کی سخت توہین کے مرتکب ہوئے۔ اب صفحہ 242 براہین احمدیہ غور سے پڑھو اور انصاف کرو کہ کیسی صفائی سے اس فتنہ کی اس میں خبر ہے اور کیسا صاف صاف لکھا ہے کہ اول عیسائی مکر کریں گے اور پھر صدق ظاہر ہو جائے گا۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 53تا 55)
عبد اللہ آتھم کے متعلق ’’آخری اشتہار‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ناظرین یاد رکھیں کہ آخری پیغام جو آتھم صاحب کو قسم کھانے کے لئے پہنچایا گیا وہ اشتہار 30دسمبر 1895ء کا تھا ۔۔۔ خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے وجود کو اس کے ہم مذہب لوگوں کی نظر سے چھپا لیا اور جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا۔ تیس 30دسمبر 1895ء تک ہماری طرف سے اس کو تبلیغ ہوتی رہی کہ شائد وہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے سچی گواہی ادا کرے۔ پھر ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خداتعالیٰ کے وعدہ کے انتظار میں لگے سو آتھم صاحب نے 30دسمبر 1895ء میں سے ابھی سات مہینے ختم نہ کئے تھے کہ قبر میں جا پڑے۔‘‘
(انجام آتھم بحوالہ روحانی خزائن جلد نمبر 11صفحہ نمبر3اور4)
عبدا للہ آتھم کی وفات 27جولائی 1896ء کو بمقام فیروز پور ہوئی۔
پھر ’’دوسرا فتنہ جو دوسرے درجہ پر تھا محمد حسین بٹالوی کی تکفیر کا فتنہ تھا۔ اس میں بھی عوام کا شور وغوغا پادریوں کے شور وغور سے کچھ کم نہ تھا۔ اسی فتنہ کی تقریب پر بمقام دہلی سات یا آٹھ ہزارکے قریب مکفر اور مکذب جامع مسجد میں میرے مقابل پر اکٹھے ہوئے تھے۔ اگر عنایت الٰہی شامل نہ ہوتی تو ایک خطرناک بلوہ برپا ہو جاتا۔ غرض اس فتنہ کا بانی محمد حسین بٹالوی تھا اور اس کے ساتھ نذیر حسین دہلوی تھا جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں فرمایا جو صفحہ 511 میں درج ہے تبت یدا ابی لھب و تبّ۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الَّا خائفا یعنی دونوں ہاتھ ابی لہب کے ہلاک ہوگئے جس سے اس نے فتویٰ تکفیر لکھا اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس مقدمہ میں دخل دیتا مگر ڈرتا ہوا۔ یہ فتنہ بھی پشاور سے لے کر کلکتہ بمبئی حیدر آباد اور تمام بلاد پنجاب اور ہندوستان میں پھیل گیا۔ اور جاہل مسلمانوں نے رافضیوں کی طرح مجھ پر لعنت بھیجنا ثواب کا موجب سمجھا۔ اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات ٹوٹ گئے اور بھائی بھائی سے اور بیٹا باپ سے علیحدہ ہوگیا۔ سلام ترک کیا گیا یہاں تک کہ ہماری جماعت میں سے کسی مُردہ کا جنازہ پڑھنا بھی موجب کفر سمجھا گیا۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 56،55)
محمد حسین بٹالوی نے 1891ء میں بڑے پیمانہ پر ملک گیر دورے کرکے مخالفت کا بازار گرم کیا اور کفر کے فتوے کی تیاری اور اشاعت کے حوالے سے بھر پور کوششیں کیں جس کا تفصیلی ذکر تاریخ احمدیت جلد نمبر 1صفحہ نمبر 385تا389 میں موجود ہے ۔
’’تیسرا فتنہ جو تیسرے درجہ پر ہے وہ فتنہ ہے جو اب لیکھرام کی موت پر کُھلاکُھلا نشان ظاہر ہونے کے وقت ہندوؤں سے وقوع میں آیا اور انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت تھی فتنہ کو انتہا تک پہنچایا اور قتل کے منصوبے کئے اور کر رہے ہیں اور گورنمنٹ کو اکسایا اور اکسا رہے ہیں۔اس فتنہ کے ساتھ چونکہ ایک کھلا کھلا نشان ہے جس سے مخالفوں کے دلوں پر زلزلہ آگیا ہے اور فتح عظیم حاصل ہوئی ہے۔ اور بہت سے اندھے سوجاکھے ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ فتنہ تیسرے درجہ پر ہے۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 56)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق 6مارچ 1897ء کو پنڈت لیکھرام عبرتناک موت کا شکار ہو۔
(تفصیل :تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ نمبر 580تا601)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ میں مذکور ان تین فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
’’یہ تین فتنے ہیں جن کا براہین احمدیہ میں آج سے سترہ برس پہلے ذکر ہے۔ اب اگر بڑےسے بڑے متعصب مسلمان یا عیسائی یا ہندو کے سامنے یہ کتاب براہین احمدیہ رکھ دی جائے اور ان تینوں فتنوں کے مقامات اس کو دکھلائے جائیں اور حلفاًاس سے پوچھا جائے کہ یہ تینوں فتنے واقعی طور پر وقوع میں آ چکے یا نہیں۔ اور کیا یہ پیشگوئی کے طور پر براہین احمدیہ میں لکھے گئے تھے یا نہیں۔ اور کیا یہ واقعات ثلاثہ جو بڑے زورشور سے ظہور میں آچکے نہیں بتلاتے اور گواہی نہیں دیتے کہ حقیقت میں ایک فتنہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ہوا جس میں لاکھوں انسانوں کا شوروغوغا ہوا اور گروہ کے گروہ نہایت پُرجوش صورت میں بازاروں میں پھرتے تھے اور بہروپ نکالتے تھے اور دوسرا فتنہ حقیقت میں محمد حسین بٹالوی کی طرف سے ہوا جس نے مسلمانوں کے خیالات کو اس عاجز کی نسبت بھڑکتی ہوئی آگ کے حکم میں کر دیا اور بھائیوں کو بھائیوں سے اور باپوں کو بیٹوں سے اور دوستوں کو دوستوں سے علیحدہ کر دیا اور رشتے ناطے توڑ ڈالے۔ اور تیسرا فتنہ لیکھرام کی موت کے وقت اور نشان الٰہی کے ظاہر ہونے کے حسد سے ہندوؤں کی طرف سے ہوا اس فتنہ کے جوش میں کئی معصوم بچے قتل کئے گئے راولپنڈی میں قریباً چالیس 40 آدمیوں کو زہر دیاگیا اور مجھ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور گورنمنٹ کو مشتعل کرنے کیلئے سعی کی گئی اور آئندہ معلوم نہیں کہ کیا کچھ کریں گےاب بتلاؤ کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جیسے براہین احمدیّہ میں تصریح اور تفصیل کے ساتھ تین فتنوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ تینوں فتنے ظہور میں آگئے۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر56۔57)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہامات میں مذکور ان تین فتنوں کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کرنے اور ان کے پورے ہونے کے حوالے سے تفصیل بیان کرنے کے بعد اپنے زمانے کے نو معروف افراد کے نام لکھے وہ نام یہ تھے:
(1)محمدحسین بٹالوی
(2)سرسید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی
(3)نذیرحسین دہلوی
(4)عبدالجبارغزنوی
(5)رشیداحمدگنگوہی
(6)محمدبشیربھوپالی
(7)غلام دستگیر قصوری
(8)عبداللہ ٹونکی پروفیسر لاہور
(9)مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ
ان نو افراد کے نام لکھنے کے بعد بطور چیلنج تحریر فرمایا:
’’اگر کوئی صاحب ان صاحبوں میں سے میرے الہام کی سچائی کے منکر ہیں تو کیوں خلقت کو تباہ کرتے ہیں میرے مقابل پر قسم کھا جائیں کہ یہ تینوں فتنے جو براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی ذکر کئے گئے ہیں یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور اگر پوری ہوگئی ہیں تو اے خدائے قادر اکتالیس دن تک ہم پر وہ عذاب نازل کر جو مجرموں پر نازل ہوتا ہے پس اگر خداتعالیٰ کے ہاتھ سے اور بلاواسطہ کسی انسان کےوہ عذاب جو آسمان سے اترتا اور کھا جانے والی آگ کی طرح کذاب کو نابود کر دیتا ہے اکتالیس روز کے اندر نازل نہ ہوا تو میں جھوٹا اور میرا تمام کاروبار جھوٹا ہوگا اور میں حقیقت میں تمام لعنتوں کا مستحق ٹھہروں گا۔
اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس قسم کی پیشگوئیاں جن کو خود بیان کرنے والے نےاپنی تحریروں اور چھپی ہوئی کتابوں کے ذریعہ سے مخالفوں اور موافقوں میں پیش ازوقت شائع کر دیا ہو اور اپنی عظمت میں میری پیشگوئیوں کے مساوی ہوں اس زمانہ میں دکھاویں جن میں الٰہی قوت محسوس ہو تب بھی میں جھوٹا ہو جاؤں گا۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر57۔58)
مذکورہ بالا نو افراد کے انتخاب کے حوالے سے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’غرض یہ نو صاحب ہیں جو قسم کھانے کیلئے منتخب کئے گئے ہیں کیونکہ ہر ایک ان میں سے ایک جماعت اپنے ساتھ رکھتا ہے پس اس کے ساتھ فیصلہ کرنے سے جماعت کا فیصلہ خود ضمناً ہو جائے گا۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 58)
موجودہ زمانے کے کئی احمدیت مخالف علماءایسے ہیں جو انہیں نو افراد میں سے کسی نہ کسی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں ان کی احمدیت مخالف کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔پھر موجودہ زمانے کے متعصب علماء یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی ایک ہی پیشگوئی بتائیں جو پوری ہوئی ۔
اب ان سے یہ پوچھنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانے میں ان بڑے بڑے علماء کو مخاطب کرکے چیلنج کے طور پر مقابل پر قسم کھانے کے لیے بلایا ۔ اگر یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں تو وہ مقابل پر آکر قسم کھا لیتے ۔صرف 41دنوں کی بات تھی سچ اور جھوٹ واضح ہوجانا تھا ۔ان نو علماء میں سے کسی ایک نے بھی ہمت کی ہوتی تولمبی چوڑی مخالفتوں کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔وہ علماء مقابل پر کیوں نہیں آئے کیونکہ ان کو علم تھا کہ براہین احمدیہ میں مذکور پیشگوئیاں پوری ہوگئیں ہیں اسی لیے وہ مقابل پر قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔
موجودہ زمانے کے علماء نے الزام دینا ہے تو ان نو علماء کو دیں جنہوں نے قسم نہ کھا کر پیشگوئیوں کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی اور نہ صرف پیشگوئیوں کی سچائی کو ہی تسلیم نہیں کیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ ملہم من اللہ کو بھی سچا ثابت کر دیا ہے کیونکہ پیشگوئیاں علم غیب پر مشتمل ہوتیں ہیں اور علم غیب صرف رسول اور نبی کو ہی ملتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر یہ انسان کا فعل ہوتا تو کب کا تباہ کیا جاتا اور قبل اس کے جو تمہارا ہاتھ اٹھتا خدا کا ہاتھ اس کو تباہ کر دیتا دیکھو خدا فرماتا ہے عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖ أَحَدًا O إِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُولٍ (الجن :27-28) یعنی غیب کو چنے ہوئے فرستادوں کے سوا کسی پر نہیں کھولا جاتا۔ اب سوچو اور خوب غور سے اس کتاب کو پڑھو کہ کیا وہ غیب جس کی اس آیت میں تعریف ہے کامل طور پر پیش نہیں کیا گیا میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تمہیں دکھایا گیا اگر ان اندھوں کو دکھایا جاتا کہ اس صدی سے پہلے گذر گئے تو وہ اندھے نہ رہتے ۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر 60،59)
قسم کھانا کتنا آسان تھا ۔اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بیان میں جھوٹا سمجھتے تو ہمت کرتے۔ قسم کھاتے اور اپنے گھر جاتے۔صرف 41روز کا انتظار تھا پھر سب واضح ہوجانا تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اور قسم کیلئے ضروری ہوگا کہ جو صاحب قسم کھانے پر آمادہ ہوں وہ قادیان میں آکر میرے روبرو قسم کھاویں میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا یہ دین کا کام ہے پس جو لوگ باوجود مولویت کی لاف کے اس میں سستی کریں تو خود کاذب ٹھہریں گے اگر میرے جیسے شخص کو جس کا نام دجّال رکھتے ہیں مغلوب کرلیں تو گویا تمام دنیا کو بدی سے چھڑائیں گے اور قسم کے وقت یہ شرط نہایت ضروری ہوگی کہ میں ان کی قسم سے پہلے پورے دو گھنٹے تک عام جلسہ میں ان پیشگوئیوں کی سچائی کے دلائل ان کے سامنے بیان کروں گا تا وہ جلدی کر کے ہلاک نہ ہو جائیں اور نیز ان پر حجت پوری ہو اور ان کا حق نہیں ہوگا کہ بجز قسم کھانے کے ایک کلمہ بھی منہ پر لائیں خاموشی سے دو گھنٹے تک میرے بیان کو سنیں گے پھر حسب نمونہ مذکورہ قسم کھا کر اپنے گھروں میں جائیں گے۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر57،58)
موجودہ زمانے کے علماء نے اگر کچھ کہنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے ان علماء کو کہیں جنہوں نے ایسا اچھا اور آسان موقع گنوا دیا ۔مخالفت کرنا ،گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا تو ویسے ہی مخالفین انبیاء کی روش ہے ۔اصل چیز اللہ تعالیٰ کے حضور فیصلہ کے لیے حاضر ہونا اور اس سے فیصلہ چاہنا ہے ۔قسم کھانا بھی ایک ذریعہ ہے۔اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے علماء تعصب کو دل سے نکال کر خوف خدا رکھتے ہوئے بجائے بدزبانیاں کرنے کے اس فیصلہ کن طریق کو اپناتے ،معاملہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں لے جاتے تو سچ عیاں ہوجاتا لیکن انہوں نے مقابل پر خاموشی اختیار کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام تر دعاوی کو سچا ثابت کر دیا ۔؎
صاف دِل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر ہے دِل میں خوفِ کردگار
اگر وہ قسم نہیں کھانا چاہتے تھے تو اس دوسرے طریق کو اپناتے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا تھا:
’’اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس قسم کی پیشگوئیاں جن کو خود بیان کرنے والے نےاپنی تحریروں اور چھپی ہوئی کتابوں کے ذریعہ سے مخالفوں اور موافقوں میں پیش ازوقت شائع کر دیا ہو اور اپنی عظمت میں میری پیشگوئیوں کے مساوی ہوں اس زمانہ میں دکھاویں جن میں الٰہی قوت محسوس ہو تب بھی میں جھوٹا ہو جاؤں گا۔‘‘
(سراج منیر بحوالہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ نمبر57۔58)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں ان بڑے بڑے علماء کو ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جس کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابل پر پیش کرسکیں اور یہ دکھا سکیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا کوئی اور بھی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہے اور اسے بھی غیب کی خبریں ملتی ہیں ۔پوری دنیا میں کسی ایک شخص کابھی نہ ملنا ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ جس شخص سے ہم کلام ہوتا تھا اور جسے غیب کی خبریں دیتا وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے ۔اس طرح ان علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو ایک اور لحاظ سے تسلیم اور ثابت کر دیا ۔
(ازابن قدسی ؔ)