فَنَسْئَلُ اللّٰہَ تَعَالیٰ خَیْرَھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ اَللّٰھُمَّ اھْدِھِمْ وَ اَیِّدْھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْکَ وَاجْعَلْ لَّھُمْ حَظًّا کَثِیْرًا فِیْ دِیْنِکَ وَاجْذِبْھُم بِحَوْلِکَ وَ قُوَّتِکَ لِیُؤْمِنُوْا بِکِتَابِکَ وَ رَسُوْلِکَ وَ یَدْخُلُوْا فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا آمِین ثُمَّ آمِین وَالْحَمْدُللّٰہِ رَبِّ الْعٰلمین
(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ 25)
ترجمہ:ہم اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں ان کےلئے خیر و بھلائی کے طلب گار ہیں ۔اے اللہ! انکو ہدایت دے۔اور اپنی خاص روح القدس سے ان کی تائید فرما ۔اور اپنے دین کا بہت زیادہ حصہ ان کو عطا کر ۔اور اپنی قوت و طاقت سے ان کو اپنی طرف کھینچ لے تاکہ وہ تیری کتاب اور تیرے رسول پر ایمان لائیں۔اور اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں۔آمین ثم آمین ۔ والحمد للہ رب العالمین۔
یہ حضرت مسیحِ موعودؑ کی کل عالم کے لئے ہدایت کی دعا ہے۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم جنوری 2021 کو اپنے خطبہ جمعہ کے آخرمیں پوری دنیا کو (جن میں کہ سربراہانِ مملکت بھی شامل ہیں) اور جماعت احمدیہ کو موجودہ درپیش مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
گذشتہ ایک سال سے ہم ایک نہایت خطرناک وبائی مرض کا سامنا کر رہے ہیں، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔اور دنیا کا کوئی ملک بھی اس وبا سے باہر نہیں ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ دنیا کی اکثریت اس بات کی طرف توجہ نہیں دینا چاہتی کہ کہیں یہ وبا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اپنے حقوق و فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لیے نہ ہو۔ یہ تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہلانا چاہتا ہے، بتانا چاہتا ہے، توجہ دلانا چاہتا ہے۔ اس طرف کسی کی سوچ نہیں ۔
چند ماہ پہلے میں نے بہت سے سربراہان حکومت کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے خطوط لکھے تھے اور کووِڈ کے حوالہ سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کے حوالہ سے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ آفات خداتعالیٰ کی طرف سے اپنے حقوق و فرائض بھولنے اور ادا نہ کرنے بلکہ ظلم میں بڑھنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ اس لیے توجہ کریں۔ بعض سربراہان نے جواب بھی دیے۔ لیکن ان کے دنیاداری والے جواب تھے کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں (دنیا کی نظر سے لا اُبالی باتیں کیں۔ دین والی بات نہیں کی۔ خدا کا بہت بڑا خانہ جو بیچ میں تھا،میں نے بیان کیا تھا، اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔) اور ضرور ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن نہ یہ لوگ اپنی حالتوں کو بدلنے کی طرف عملی قدم اُٹھانا چاہتے ہیں نہ قوم کے ہمدردبن کر قوم کو اصل مقصد کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اس وبا کے بعد کے اثرات بہت خطرناک ہوں گے۔ یہ دنیا کے ہر لیڈر کو پتہ ہے۔ ہر عقلمند انسان کو پتہ ہے۔ ہر تجزیہ نگار کو یہ بات پتہ ہے لیکن اس کے باوجود اصل حل کی طرف توجہ نہیں ہے۔ صرف دنیا کی جو کوششیں ہیں اُسی کی طرف توجہ ہے۔
اس بیماری سے معاشی لحاظ سے نہ صرف انفرادی طور پر ہر فرد کمزور ہو رہا ہے۔ صحت کے لحاظ سے جو متاثرین ہیں وہ تو ہو رہے ہیں لیکن عمومی طور پر ہر ایک معاشی لحاظ سے بھی متاثر ہو رہا ہے۔ بلکہ بڑی بڑی امیر حکومتوںکی معیشتوں کی بھی کمریں ٹوٹ رہی ہیں۔دنیا داروں کے پاس اس کا صرف ایک حل ہے کہ جب ایسی صورت حال ہوجائے گی، جب معیشت تبا ہ ہو جائے گی تو دوسرے چھوٹے ملکوں کی معیشتوں پر قبضہ کیا جائے۔ ان کو کسی طرح اپنے جال میں پھنسایا جائے، اپنے دام میں لایا جائے اور پھر بہانے بہانے سے ان کی دولتوں پر قبضہ کیا جائے۔ اس کے لیے بلاک بنیں گے اور بن رہے ہیں۔ سرد جنگ دوبارہ شروع ہوجائے گی۔اور اب کہا جانے لگا ہے کہ ایک طرح سے شروع ہوگئی ہے۔ اور کوئی بعید نہیں کہ اصل ہتھیاروں کی جنگ بھی ہوجائے جو نہایت خوفناک جنگ ہوگی۔ پھر یہ لوگ ایک اَور گہرے کنویں میں گِر جائیں گے۔ غریب ملک تو پہلے ہی پسے ہوئے ہیں، امیر ملکوں کے عوام بھی پسیں گے اور بڑی خوفناک حدتک پسیں گے۔
٭…حضورِ انور نے جماعت احمدیہ عالمگیر کو اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
پس اس سے پہلے کہ دنیا اس حالت کو پہنچے، ہمیں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے دنیا کو ہوشیار کرنا چاہیے۔ پس یہ سال مبارکبادوں کا سال اُس وقت بنے گا جب ہم اپنے فرائض کو اس نہج پر ادا کرنے والے ہوں گےکہ لوگوں کو سمجھائیں،دنیا کو سمجھائیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب کرنے کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے۔ ہم جو زمانہ کے امام مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کو ماننے والے ہیں۔ کیا ہماری اپنی حالتیں ایسی ہو چکی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ خالصتاً للہ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہیں۔ یاابھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے اور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے جذبات کو غیرمعمولی معیاروں تک لانے کی ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے سپرد ایک بہت بڑا کام کیا گیا ہے۔ اور اس کے سرانجام دینے کے لیے پہلے اپنے اندر، اپنے معاشرے میں، احمدی معاشرے میں، پیار اور محبت اور بھائی چارے کی فضا کو پیدا کریں اور پھر دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لائیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہے، جو حضرت محمدرسول اللہﷺ نے بلند کیا تھا۔ تبھی ہم اپنی بیعت کے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تبھی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں۔ اور تبھی ہم نئے سال کی مبارکباد دینے کے اور لینے کے مستحق قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہر احمدی مَرد، عورت، جوان، بچہ اور بوڑھا اس بات کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اس سال میں نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 2021)
ان دلوں کو خود بدل دے اے میرے قادر خدا
توتو رب العٰلمین ہے اور سب کا شہر یار
کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید
آیت لَا تَیْئَسُوْا رکھتی ہے دل کو اُستوار
اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فُرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار
(اشعارکاحوالہ)
(مرسلہ:مریم رحمٰن)