• 29 اپریل, 2024

’’ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانے کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعدنصرت آتی ہے‘‘۔

اب دیکھیں آپ فرماتے ہیں کہ خوشبو سونگھتا ہے۔ ہم تو من حیث الجماعت ان مخالفتوں اور تکلیفوں کے باوجود صرف خوشبو نہیں سونگھ رہے بلکہ اس کے پھل کھا رہے ہیں۔ بے شک ہم اپنی ہر جانی قربانی اور شہادت پر افسوس کرتے ہیں، غمزدہ بھی ہوتے ہیں، دکھ بھی ہوتا ہے، تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن یہ شہادتیں، یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو کر جماعت کو پھلوں سے لاد رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ پس کبھی گھبرانانہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی۔ ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ708-707)

یعنی اگر یہ ہو گا کہ میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت سے آپ انکار کر رہے ہیں کہ وہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔

پس آج پاکستان کے احمدیوں سے زیادہ اس بات کو کون جان جاسکتا ہے یا ہندوستان کے بعض علاقوں کے وہ احمدی جن پر ظلم اور سختیاں ہو رہی ہیں یا دنیا کے بعض دوسرے ممالک کے احمدی جو سختیوں اور تکلیفوں سے گزر رہے ہیں، اُن سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ اضطرار یا اضطراب کیا ہوتا ہے؟ پس جب اضطرار پیدا ہو جائے تو دعاؤں کی قبولیت کا وقت بھی قریب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آج میں جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین اور پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں جن کو مسیح محمدی کی بستی میں جلسے میں شمولیت کا موقع مل رہا ہے کہ اپنے اضطرار اور اضطراب کو دعاؤں اور آنسوؤں میں ڈھالنے کی انتہا کر دیں اور پھر پہلے سے بڑھ کر اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا لیں تا کہ ایک حقیقی انقلاب لانے والے بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے‘‘۔ (بندے اور خدا میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے)۔ ’’اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔ …… جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے تو وہ اَور ہی انسان ہو جاتا ہے۔ اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے۔ اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے۔ خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتاہے تب خدا تعالیٰ جو رحمان رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اُس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ492 مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعائیں کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو قبولیت بھی عطا فرمائے۔ ہماری کلفتوں کو دور فرمائے اور جلد اس کو سرور میں بدل دے۔ ہمارا شمار ہمیشہ ان بندوں میں رکھے جن پر ہر وقت اس کے پیار کی نظر پڑتی رہتی ہے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ دسمبر 2010ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2021