• 30 اپریل, 2024

طیب غذائیں

طیب غذائیں
ہر قسم کے امراض سے محفوظ رہنے کالا زوال اصول

اُمُّ الا لسنہ یعنی عربی میں جب کسی سے حال پوچھنا ہو تو کہتے ہیں۔ کَیْفَ حَالُکَ (آپ کا حال کیسا ہے؟) جواب دینے والا عموماًکہتا ہے انا طیب (میں تندرست ہوں) آج کل کس کا حال حقیقی طور پر طیب ہے؟ جو طیب کے معیار پر پورا اترتا ہو پرانے وقتوں میں ہمارے آباؤ اجداد کی غذا طیب یعنی قدرتی اور سادہ تھی تو ان کا حال بھی واقعی طیب ہوتا تھا۔ ہم میں سے بہتوں نے بزرگوں سے سنا ہو گا کہ عمر بھر ان کی کبھی آنکھ نہیں دکھی،بخار نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ،مگر آجکل عام بیماریوں کا تو ذکر ہی کیا، شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور کینسر جیسے موذی مرض منہ کھولے بیٹھے ہیں اور انسانیت کو ہڑپ کرنے کی تاک میں ہیں آخر ایسا کیوں ہے اور ہر قسم کے امراض سے بچنے کے مؤثر اصول کونسے ہیں؟ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتاہے۔ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُم (سورۃالبقرہ آیت 173 جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے طیبات (پاکیزہ اشیاء) کھاؤ۔

حلال اور طیب کے استعمال سے انسانی جسم دکھوں سے پاک زندگی گزارتا ہے ایسی غذاؤں کا اثر نہ صرف انسان کے جسم بلکہ روح اور اخلاق پر بھی بہت گہرا ہوتا ہے ایسی غذائیں جو اپنی قدرتی حالت میں خوش ذائقہ ہوتی ہیں اور ہمیں کھانے کی طرف رغبت دلاتی ہیں وہی طیب غذائیں ہیں جو زود ہضم اور قوت زیست بخشتی ہیں۔ وہ غذائیں جن کو ہم پکا کر دھواں لگا کر، مصالحہ لگا کر، نمک لگا کر، سرکہ یا آب نمک میں ڈال کر تیار کرتے ہیں کم قابل ہضم اور کم قوت زیست دیتی ہیں۔ طیبات (پاکیزہ اشیاء) میں انسان جوں جوں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کرتا چلا جاتاہے وہ مقام طیب سے اس قدر دور ہٹتی چلی جاتی ہیں اور ان میں افادیت کا پہلو کم اور مضرت کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔مثال کے طور پر بِلا چَھنے آٹے کی تازہ خشک روٹی یا دلیہ ایک طیب غذا ہے لیکن میدہ سے بنی ہوئی روٹی نسبتاً مقام طیب سے دور! اور اسی نسبت سے تلے ہوئے نان اور سموسے پراٹھے اور بھی زیادہ دور یا بالفاظ دیگر زیادہ ضرر رساں ہوں گے۔اسی طرح بسکٹ،کیک،ڈبل روٹی اور کریم رول کی ضرر رسانی بھی مقام طیب سے دوری کی نسبت سے ہوگی۔ایسے ہی تازہ گنے کا استعمال طیب ہوگا جبکہ گڑ، شکر، چینی اور چینی سے بنی ہوئی مٹھائیاں و مشروبات جس قدر مقام طیب سے دور ہوتے جائیں گے اسی قدرصحت کے لئے ضرر رساں ہوتے چلے جائیں گے۔تازہ پھلوں کا استعمال زیادہ طیب (صحت بخش) ہو گا جبکہ ان کے جوس جو مختلف شکلوں میں نظر آتے ہیں۔وہ چند فائدوں کے باوجود مضر زیادہ ہوں گے۔ طیب اور غیر طیب غذاؤں میں بظاہر بہت کم فرق لگتا ہے اور بعض اوقات تمیز مشکل ہو جاتی ہے دراصل غیر طیب غذاؤں کا اثر بہت دیر سے ظاہر ہوتا ہے اسی لیے ہم غیر طیب غذاؤں کے استعمال میں ہمیشہ غفلت برتتے ہیں وہ غذائیں جو مقام طیب (حالت تروتازگی) سے بہت دور ہیں بلکہ باسی ہیں اور آج کل بکثرت مستعمل ہیں اور ان کے نقصانات بھی ان گنت ہیں وہ یہ ہیں۔ ڈبل روٹی، بند، بسکٹ، کیک، گیس ملے اور کھارے مشروبات، کوک، پیک شدہ جوس، پیک شدہ دودھ اور سبزیاں،میدہ کی بنی ہوئی اشیاء، مٹھائیاں وغیرہ۔واضح رہے کہ صرف سادہ تازہ پانی ہی طیب مشروب ہے۔ ہمارا جسم جو خلیات (Cells) سے مل کر بنا ہے اسے طیب غذا کے علاوہ طیب یعنی پاکیزہ ہوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔غیر طیب ہوا مثلاً تمباکو نوشی کا دھواں کارخانوں کی چمنیوں اور گاڑیوں کا دھواں، زہریلی صنعتی گیسیں، گندے نالوں کے زہریلے بخارات اور گردو غبار کے دھوئیں سے ہمارے اجسام میں ہر روز زہریلے مادوں کا اضافہ ہو جاتاہے۔غیر طیب غذا اور غیر طیب ہوا سے ہمارے جسم میں غیرطیب خون پیدا ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا ہر خلیہ (Cell) غیر طیب ماحول میں رہنے کے سبب کمزور ہو جاتا ہے جس میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔

اس طرح نظام انہظام میں غیر طیب غذاؤں کے باعث تراوشیں غیر متوازن ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم دن بدن بگڑتا چلا جاتاہے جبکہ ہمیں چنداں اس کا ادراک و احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ ہارمونز جو جسم کے لیے انتہائی مفید کام بجا لاتے ہیں غیر طیب غذا اور ہوا کے سبب غیر متوازن ہو جاتے ہیں دراصل جس طرح ہمارا ایک بیرونی ماحول ہے اسی طر ح ایک اندرونی ماحول بھی ہے جس میں ہمارے جسم کا ہر خلیہ رہ رہا ہے غیر طیب غذا اور ہوا سے ہمارے جسم کا اندرونی ماحول حالت توازن سے دور ہٹ جاتاہے اور جسم بے شمار قسم کے پیچیدہ عوارض میں مبتلا ہو جاتاہے۔کسی کا یہ مقولہ کتنا اچھا ہے کہ ’’غیر طیب غذا سے غیر طیب (یعنی بیمار) خون پیدا ہوتا ہے‘‘۔ جب بیمار خون اعضائے بدن کی آبیاری کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بیماریاں پیداہوتی ہیں۔ یہ بات اور بھی خطرناک ہے کہ ہم غیر طیبات کے استعمال کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ غیر طیب غذائیں ہمیں طیب لگنے لگی ہیں کوئی بھی شخص اپنی صحت کا معیار جانچنے کے لیے یہ دیکھے کہ وہ طیبات کے استعمال سے کس قدر دور ہے آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ جس قدر وہ طیبات سے دور ہو گا اسی قدر حقیقی صحت سے بھی دور ہو گا۔ غیر طیب غذاسے نظام اخراج فضلات بھی بے حد متاثر ہوتا ہے۔ انتڑیاں، گردے، جلد اور پھیپھڑے اپنے افعال کماحقہ ادا نہیں کر سکتے، جس سے انسان کا اندرونی ماحول غیر طیب ہو جاتاہے۔ تاہم یہ بات بھی ضروری ہے کہ طیبات کے استعمال میں بھی ’’اسراف‘‘ سے بچا جائے۔ غیر طیب غذاؤں کی طرح غیر طیب دواؤں کا اثر بھی انسانی جسم پر انتہائی مہلک ثابت ہورہا ہے غیر طیب دوائیں بھی وہی ہیں جو اپنی قدرتی حالت تازگی سے ہٹ کر ہیں تازہ ترین طبی تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ بعض ایسی جڑی بوٹیاں جواپنی اصل حالت میں ہزار ہا سال سے مستعمل تھیں جب انہی کے جواہر (Alkaloids) استعمال کئے گئے تو ان کے جزوی فوائد میں بے حد تیزی آ گئی لیکن نقصانات حد درجہ بڑھ گئے۔ مثلاً پوست اور افیون کے مقابل پر اگر مارفین اور ہیروئین کے نیک و بد اثرات کا موازنہ کریں تو یہی صورت حال کھل کر سامنے آتی ہے۔

انسان کے لئے قدرتی غذا، تازہ ہوا، تازہ پھل و میوہ جات، سبزیاں و غلہ جات، دودھ اور صاف ستھرا پانی طیبات ہیں۔انسان ان چیزوں میں جوں جوں اپنی مرضی سے تغیّر و تبدّل کرتا جاتاہے اور تکلف اور تصنع کو جگہ دیتا ہے ان غذاؤں کو اپنی طیب حالت سے دور ہٹاتا جاتا ہے اور اسی نسبت سے ان کی افادیت میں کمی آتی جاتی ہے اور مضرت بڑھتی جاتی ہے ۔سبزیوں کی افادیت میوہ جات اور پھلوں کے برابر ہی ہے۔ مگر ہم جن پیچیدہ عوامل سے گزرتے ہیں ان کی افادیت کو کم کر دیتے ہیں۔اگر پھل، سبزیاں اور دوسری غذائیں طرح طرح کےردُو بدل کے بغیر استعمال کئے جائیں تو ہم صحت مند رہ سکتے ہیں۔ طیب غذا ہر شخص کی عمر، جنس، مزاج، طبیعت، پیشہ خطہ ارض، ماحول اور موسم کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔مثلاً ایک نوزائیدہ بچہ کے لیے اس کی ماں کا دودھ ہی سب سے زیادہ طیب ہے۔ بعض لوگوں کو ایک چیز فطری طور پر پسند ہوتی ہے اس صورت میں اس کے لیے وہ چیز طیب نہ رہے گی جو اس کو پسند نہیں۔ ایک مزدور پیشہ آدمی جو سارا دن محنت کرتا ہے ایک پاؤ مکھن بھی اگر کھا لے تو اس کے لئے طیب ہو گا مگر ایک دفتر کے کلرک کے لئے تھوڑا سا مکھن بھی طیب نہ ہو گا۔ سرد علا قوں میں محرک غذائیں طیب کے قریب ہوں گی مگر گرم علاقوں میں طیب کے مقام سے دور۔ اسی طرح ایک ہی علا قے میں سردی اور گرمی کے موسم میں مختلف غذائیں طیب کے مقام کے قریب ہوںگی۔ طیب زندگی گزارنے کے لئے یہ بھی بدرجہ اولیٰ ضروری ہے کہ اس طیب ذات سے زندہ تعلق قائم کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نیز اس کے بر گزیدہ آخری و کا مل نبی حضرت محمد ﷺکی حیات طیبہ کو مشعل راہ بنایا جائے وگرنہ موجودہ دورکے معاشی، معاشرتی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور نفسیاتی مسائل ایسے ہیں کہ خدا سے دور ایک انسان جوصبر و قناعت جیسے اخلاق اور او صاف محمدیﷺسے عاری ہے کوئی بعید نہیں کہ انواع و اقسام کے ذہنی و جسمانی عوارض میں مبتلا ہو جائے۔

(از نذیر احمد مظہر(ڈاکٹر آلٹر نیٹو میڈیسن)، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2021