ہمارے پاس نہ دنیاوی حکومت ہے نہ ہی دنیاوی دولت اور تیل کا پیسہ ہے۔ ہاں ایک چیز ہے جس کی طرف دنیا کے ہر احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے عبادات، صدقات اور استغفار کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا۔ یہی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش میں لاتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہے۔ عبادات کی طرف اور خاص طور پر نمازوں کی ادائیگی کی طرف میں گزشتہ خطبات میں توجہ دلا چکا ہوں۔ آج صدقات اور استغفار کے حوالے سے زیادہ بات کروں گا کہ یہ خدا تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ انسان کے اندر بے شمار کمزوریاں ہوتی ہیں بسا اوقات ہم دنیاوی کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے اپنی عبادتوں کی ادائیگی کا بھی حق ادا نہیں کرتے۔ کوئی ذاتی مشکل آئے تو تھوڑے سے صدقے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ورنہ نہیں۔ استغفار کی طرف توجہ کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو یہ چیز واضح ہو جائے گی کہ ہم میں سے اکثر یہ حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے اور اس کے رحم کو جوش دلانے والا اور دشمنوں اور مخالفین کی کوششوں کو ناکام و نامراد کرنے والا بننا ہے تو ہمیں ان باتوں کی طرف بہرحال توجہ دینی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی بخشش کو حاصل کرنے والے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں توبہ اور استغفار اور صدقات قبول کرتا ہوں تو یہ اس لئے کہ تم توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دو تا کہ تمہاری مشکلات دور کروں۔ تمہاری بے چینیاں دور کروں۔ تمہیں اپنے قریب کروں۔ تمہارے گزشتہ گناہوں کو معاف کروں۔ تمہیں صحیح عبد بننے کی توفیق عطا کروں۔ تم پر اپنا رحم کروں۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ۔ (التوبۃ: 104) یعنی کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ۔۔۔
پس استغفار بھی دعا ہی ہے اور جب انسان اپنے گناہوں سے اور اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرتا ہے تو ایک رقّت اور جوش پیدا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ دل میں ایک درد پیدا ہونا چاہئے۔ صرف منہ سے اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ، اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہنے اور توجہ اللہ تعالیٰ کی بجائے کہیں اور رہنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ پس اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور صدقات کو جو بے چینی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے۔ اور جب بندہ یہ عہد بھی کرتا ہے کہ آئندہ میں اپنی کمزوریوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کروں گا اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کی کوشش کرے تو پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی، دعاؤں اور صدقات کو قبول کرنے کی مزید وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ میرے بندوں کو بتا دو کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دو قدم چل کر آتا ہوں۔ اگر میرا بندہ تیز چل کر میری طرف آتا ہے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب یحذرکم اللہ نفسہ حدیث 7405) پس اللہ تعالیٰ کے رحم کی کوئی انتہا نہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا سخی ہے۔ بڑا کریم ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی ہاتھ اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔
(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ان اللہ حی … الخ حدیث 3556)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 فروری 2017۔ بحوالہ الاسلام)