حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ اُس سے مانگتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کے حوالے سے قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے کہ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہِٓ اِلَّا الَضَّآلُّوْنَ (الحجر: 57) اور گمراہوں کے سوا اپنی رب کی رحمت سے کون مایوس ہوتا ہے؟ ہمیں یہ مایوسی تو نہیں کہ وہ دن لوٹ کر نہیں آئیں گے یا کس طرح آئیں گے؟ وہ دن تو جیسا کہ میں نے کہا ان شاء اللہ لوٹ کر آئیں گے۔ کیونکہ ہمیں اُس خدا کی قدرتوں پر یقین ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اُس کا یہی قانونِ قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ664)
پس اگر ہم عاجزی دکھاتے ہوئے اُس سے مانگتے رہیں گے تو وہ ضرور مدد کو آتا ہے اور آئے گا۔ جب سب حیلے ختم ہو جاتے ہیں تو تب بھی حضرتِ توّاب کا حیلہ قائم رہتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ۔ وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ (الشوریٰ: 29) اور وہی ہے جو مایوسی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز اور سب تعریفوں کا مالک ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا روحانی زندگی میں بھی، جسمانی زندگی میں بھی عموم ہے۔ جب خدا تعالیٰ عمومی طور پر مایوس لوگوں کو رحمت سے نوازتا ہے تو جو مومن ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہ اللہ تعالیٰ اُن کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں۔ جو سچے مومن ہیں اُن کو مایوسیوں میں نہیں ڈالتا بلکہ ایسے مومنوں کو جو اس کے آگے جھکنے والے ہیں، جو عاجزی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اُن کی ضرور خبر لیتا ہے، اُن کی مدد کے لئے ضرور آتا ہے۔ اپنی رحمت کو ان کے لئے وسیع تر کر دیتا ہے۔ جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَیَزِیْدُہُم مِّنْ فَضْلِہٖ (الشوریٰ: 27) اور مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے بہت بڑھا کر انہیں دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے نوازنے کے طریقے اور معیار انسانی سوچوں سے بہت بالا ہیں۔ پس جب ایسے خدا پر ہم ایمان لانے والے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات اور پُرانی یادیں ہمیں مایوس کریں۔ ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی نہیں ہے۔ یعنی ایسی صورت جو انسانوں کے دائرہ اختیار میں ہو تب لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہ کی آواز آتی ہے۔ اور وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہُ کا نظارہ ایک عاجز انسان دیکھتا ہے۔
پس یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے دن اور رات دعاؤں میں صرف کریں۔ خاص طور پر ان جلسہ کے دنوں میں جلسے پر آئے ہوئے جو لوگ ہیں، جو شامل ہو رہے ہیں وہ اپنے قادیان میں قیام کے ہر لمحے کو دعاؤں میں ڈھال دیں۔ خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی یاد رکھیں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی رحمت سے گمراہوں کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ پس یہ مایوسی غیروں کا کام ہے۔ ہم تو گمراہوں میں شامل نہیں۔ ہم تو مہدی آخر الزمان کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اس مسیح و مہدی کے ذریعے سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا ہے۔ ہمیں تو گمراہی میں بھٹکنے کے بجائے صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی اس حقیقت کو جانتے ہیں تبھی تو ایمان کی مضبوطی کے ساتھ تکالیف بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان تکالیف کو جو انہیں مخالفینِ احمدیت پہنچاتے ہیں اُن کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ تبھی تو اپنے شہداء کو بغیر جزع فزع کے باوقار طریقے سے دفنانے کے بعد، اُن کی تدفین کرنے کے بعد، دعائیں کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لَوٹتے ہیں۔ اور پھر اپنے آنسو صرف اور صرف خدا کے آگے بہاتے ہیں۔ لیکن بعض اِکّا دُکّا، کوئی کوئی، پریشان بھی ہو جاتے ہیں جو اچھا بھلا دین کا علم رکھنے والے بھی ہیں اور بعض جماعت کے کام کرنے والے بھی ہیں۔ کہہ دیتے ہیں اور بعض مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ یہ سختیوں کے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ کل یا پرسوں کی باتیں ہوتی تھیں، یہ کل یا پرسوں تو ختم ہی نہیں ہو رہی۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ قوموں کی زندگی میں دنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ قوموں کی عمر میں چند سال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ترقی کرنے والی قومیں صرف ایک محاذ کو نہیں دیکھتیں، ایک ہی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی، اُن کی نظر قوم کی مجموعی ترقی پر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے سخت حالات کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی ہے بلکہ پاکستان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی پہلے سے بڑھ کر ہے۔ ہاں بعض سختیاں بھی ہیں۔ بعض پابندیاں ہیں۔ جانی اور مالی نقصانات ہیں۔ خلیفہ وقت کو جماعت سے براہِ راست اور جماعت کو خلیفہ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے۔ وہ بیشک اپنی جگہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے بھی نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے انتظام فرمایا ہے۔ اگر پاکستان میں جلسے اور اجتماعات پر پابندیاں ہیں تو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے ہی کئی جلسوں اور اجتماعات میں دنیا کا ہر احمدی بشمول پاکستانی احمدی شریک ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے باوجود پابندیوں کے روحانی مائدہ کو بندنہیں ہونے دیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات ہیں تو کبھی بھی کسی وقت بھی کسی کے دل میں بھی مایوسی کے خیالات نہیں آنے چاہئیں۔ بلکہ ان دنوں میں اہلِ ربوہ کو بھی اور اہلِ پاکستان کو بھی اپنی بے چینیوں کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے دعاؤں میں بدل لینا چاہئے، دعاؤں میں ڈھال لینا چاہئے۔ مَیں اپنے تصور میں ربوہ کے جلسہ کے پُر رونق ماحول اور پاک ماحول کو لا کر غور کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جو احمدیت کی فتح کی تقدیر ہے اُس پر غور کرتا ہوں اور یہی ہر احمدی کا کام ہے۔ وہ تقدیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا پر غالب کرنے کی تقدیر ہے۔ جو دنیا کی اکثریت کو مسیح محمدی کی جماعت میں شامل کرنے کی تقدیر ہے۔ جو دوسری قوموں کی طرح پاکستانیوں پر بھی مسیح موعود کی صداقت خارق عادت طور پر ظاہر ہونے کی تقدیر ہے۔ پس ہمیں اپنی دعاؤں میں ایک خاص رنگ پیدا کرتے ہوئے اس الٰہی تقدیر کو اپنی زندگی میں دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے عاجزی کی انتہا کرتے ہوئے مانگتے چلے جانا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ24؍ دسمبر 2010ء)