• 28 اپریل, 2024

یہ قربانیاں جو شہدائے پاکستان نے دی ہیں، دیتے رہے ہیں، جس کی انتہا 2010ء کے سال میں بھی ہوئی، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے اس سال احمدیت کے خوبصورت پیغام کو دنیا کے امیر ملکوں میں بھی اور دنیا کے غریب ملکوں میں بھی متعارف کروانے کا سامان پیدا فرمایا ہے یہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا ہی نظارہ ہے۔ اس سال میں ان شہداء کی قربانیوں نے جس طرح ہمیں اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے اسلام کے خوبصورت اور پُر امن پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع دیا ہے، اس کثرت سے جماعت کا تعارف اور اسلام کا پیغام پہلے کبھی نہیں پہنچا۔ مختلف ذرائع، مختلف میڈیا، چاہے وہ یورپ میں ہے، امریکہ میں ہے، افریقہ میں ہے، ایشیا میں ہے یہ سب دوسرے ذرائع اور میڈیا استعمال ہوئے۔ قومیں اپنے مقاصد میں قربانیاں دے کر ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ قربانیاں جو شہدائے پاکستان نے دی ہیں، دیتے رہے ہیں، جس کی انتہا 2010ء کے سال میں بھی ہوئی، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ نہیں جا رہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ احمدیت کا پیغام اور تعارف اسلام کی امن پسند تعلیم کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں کثرت سے پہنچنا، یہ ان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے۔ یقینا یہ بات ان قربانیوں کی قبولیت کا ایک حصہ ہے، ایک جزو ہے اور آئندہ دنیا کے افق پر احمدیت کی جو فتوحات اُبھر رہی ہیں، وہ اس سے بہت بڑھ کرانشاء اللہ تعالیٰ اس چمک کا نظارہ دکھانے والی ہیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ جس طرح ہمارے قربانیاں کرنے والوں کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اُن لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے، جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ (سورۃ آل عمران آیت 170)۔ جو لوگ اپنے ربّ کے حضور مارے گئے تم انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ پس وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دائمی رزق کو پانے والے ہیں جو ہر لمحہ اُن کے درجات بلند کر رہا ہے۔ یہاں اموات کے لفظ کے ساتھ اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوگا کہ جس کا خون رائیگاں نہیں جاتا۔ اور دوسرے یہ کہ جو اپنے پیچھے اپنے نقشِ قدم پر چلنے والے چھوڑ جاتے ہیں۔ پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہم نیکیوں میں بڑھنے کے لئے اپنے قربانیاں کرنے والوں کی نیکیوں کو بھی زندہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی قربانیوں کی وجہ سے جو کامیابیاں ملی ہیں ان سے بھی انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ جس پر وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے کے بعد بھی خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر لی اور ان کی قربانیاں بھی انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ اس کا نقشہ سورۃ آلِ عمران میں اس طرح کھینچا گیا ہے کہ فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِنْ خَلْفِہِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورۃ ال عمران آیت نمبر171) بہت خوش ہیں اس بات پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی اُن سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔

پس ان شہداء کی قربانیاں ہمارے ایمانوں میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خوشخبری کو سن کر کہ وہ خوشخبریاں پارہے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے بارہ میں خوشخبریاں پا رہے ہیں، اس بارہ میں بہت سے خطوط خط لکھنے والے شہداء کے ورثاء مجھے لکھتے ہیں کہ ہم خواب میں فلاں شہید کو ملے، اپنے شہید کو ملے، بھائی کو ملے، باپ کو ملے، بیٹے کو ملے۔ اُس نے کہا کہ مَیں بہت خوش ہوں۔ یہاں عجیب نرالہ سلوک مجھ سے ہو رہا ہے۔ تم لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب ہم اُن سے اُن کی خوشی کے اظہار سن کر اس یقین پر پختہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خاص رزق دے رہا ہے، اُن کے لئے خوشی کے سامان بہم پہنچا رہا ہے تو اس بات پر بھی ہمارا یقین بڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیچھے رہ جانے والوں کی کامیابیوں کے بارہ میں جو انہیں خوشخبریاں دے رہا ہے وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ضرور سچ ثابت ہوں گی اور ہو رہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایک فیصلہ کر کے چلتی ہے تو پھر تدریجی نتائج پیدا کرتے ہوئے وہ اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ بندے کو بظاہر پتہ نہیں چل رہا ہوتا لیکن جب آخری نتیجہ نکلتا ہے تو پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کتنے سچے ہیں۔ وہ کتنے سچے وعدوں والا خدا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے زیادہ سے زیادہ اور جلدی فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر چمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی قربانیاں کرنے والوں کے نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں، اُن کی نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں، مختلف خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت جماعت کو جو کامیابیاں ملنی ہیں، جن کی خبریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے دیتا ہے، ہم بھی اُن کامیابیوں کا حصہ بن جائیں۔ اس بابرکت دن ’’جمعہ‘‘ کا مَیں نے ذکر کیا ہے تو اس سال اللہ تعالیٰ نے عموم سے ہٹ کر جو کبھی کبھی واقع ہوتا ہے ایک خصوصیت ہمیں دی ہے۔ اس سال میں اس خصوصیت سے گزارا ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ابتداء بھی جمعہ سے اور انتہا بھی جمعہ سے۔ اور اس طرح عموماً سال کے باون جمعہ ہوتے ہیں، اس سال ترپّن جمعہ ہمیں ملے۔ اور حدیث کے مطابق جمعہ وہ دن ہے جس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کی دعا خاص طور پر قبول فرماتا ہے۔

(ماخوذاز بخاری کتاب الطلاق باب فی الاشارۃ فی الطلاق والامور حدیث نمبر 5294)

مَیں امید کرتا ہوں اور پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ ہم نے اپنی کوشش کے مطابق اپنے جمعے دعاؤں میں گزارنے کی کوشش کی ہو گی۔ ہمارے شہداء جو لاہور میں شہید ہوئے یا چند ایک جو مردان میں بھی مثلاً ایک شہید ہوئے، انہوں نے بھی جمعے کے دن دعائیں کرتے ہوئے اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی ہیں۔ یقیناً اُن دعاؤں نے جنت میں ان کے لئے جہاں بہترین رزق کے سامان پیدا کئے ہوں گے وہاں یہ دعائیں پیچھے رہنے والوں اور جماعت کی ترقی کی انہیں خوشخبریاں بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔ آج پھر اس آخری دن کے جمعہ کو ہمیں اپنی خاص دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2021