• 10 مئی, 2025

جمعہ کے بابرکت دن کا فیض اور اس دن میں خوف کا پہلو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
جمعہ کا دن جہاں بابرکت ہے وہاں ابنِ آدم کے لئے اس دن میں خوف کا پہلو بھی ہے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدم کو پیدا کیا، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اتارا۔ اُس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو وفات دی اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے اور اسی دن قیامت برپا ہو گی۔ مقرب فرشتے، آسمان اور زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر اس دن سے خوف کھاتے ہیں۔

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیہا باب فی فضل الجمعۃ حدیث نمبر 1084)

پس اس دن کا فیض پانے کے لئے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزارنے کی ضرورت ہے۔ اس دن جہاں نیک اعمال کرنے والوں کے جنت میں جانے کے سامان ہیں تو شیطان کے بھرّے میں آ کر غلط کام کر کے، غلط عمل کر کے جنت سے نکلنے کی بھی خبر ہے۔ اور پھر ہم جواس زمانے کے آدم کے ماننے والے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب فرمایا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اور سلطان بنایا ہے۔ پس اس آدم کے ذریعہ اب دنیا میں بھی جنت قائم ہونی ہے جس نے اخروی جنت کے بھی سامان کرنے ہیں۔ جب آپ کے ذریعہ نئی زمین اور نیا آسمان بننا ہے تو وہ کوئی مادّی زمین اور مادّی آسمان تو نہیں بننا بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلامِ صادق کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے پیدا ہوں گے جو خدا کی رضا کے حصول کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں گے۔ دنیا میں روحانی نظام کے قیام کے لئے نئی زمین اور نئے آسمان بنانے کی کوشش کریں گے۔ قربانیوں کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں گے۔ اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہوں گے اور اعمالِ صالحہ میں اضافہ کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کے پیشِ نظر ہو گا۔ پس اگر تو ہم نے اس زمانے کے امام کے ساتھ کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدوں سے فیض پانا ہے اور دونوں جہان کی نعمتوں سے حصہ لینا ہے تو ایسے اعمال کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر ہر بڑے حکم پر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس ترقی کا حصہ بن جائیں جو آپؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمائی ہے۔ اُن خوشخبریوں کا حصہ بن جائیں جو ہمارے قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے۔

پس ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مَیں تجھے فتوحات دوں گا، یہ تو ہو گا اور انشاء اللہ تعالیٰ یقینا ہو گا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْن (حم السجدۃ: 9)۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق نیک عمل بھی کئے اُن کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ پس ایمان لا کر پھر نیک اعمال بھی ضروری ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی، خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جا سکتی ہے تو وہ یہی اعمالِ صالحہ ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 1صفحہ14۔ مطبوعہ ربوہ)

پس ایمان لانے کے بعد عملِ صالح انتہائی ضروری ہے۔ اور عملِ صالح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا۔ پھر جو اجر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نہ ختم ہونے والے اجر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اعمالِ صالحہ کی اہمیت ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ وَبَشِّرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ۔ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَاالَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُ تُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا۔ وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (البقرۃ: 26) اور خوشخبری دے دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے کہ اُن کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ جب وہ ان باغات میں سے کوئی پھل بطور رزق دئیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا رزق لایا گیا تھا۔ اور ان کے لئے اُن باغات میں پاک بنائے ہوئے جوڑے ہوں گے اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2021