آپ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے کے اخبارات، رسائل و جرائد اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ کس طرح ہمارے مصنفین اور کالم نگاروں نے بیچارے سال 2020ء کو بہت کوسا اور برا بھلا کہاہے۔ ٹائم میگزین نے تو سرورق پر 2020ء لکھ کردرج ذیل سرخی بھی چسپاں کر دی:
“THE WORST YEAR EVER”
خیر!یہ تو دنیا داروں کا تبصرہ تھا مگر ایک مومن تو جس حال میں بھی خدا اس کو رکھے راضی برضا رہتا ہے ۔سالوں کے یوں تیزی سے ہاتھوں سے نکلے جانے پر محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے ان ہاتھوں میں کچھ تھا بھی یانہیں؟ اور اپنی زندگی کے گزرے ہوئے سال چند دنوں جیسے محسوس ہو رہے ہیں ۔اس سوچ کے آتے ہی فوراً میرا ذہن قرآن کریم کی سورۃالبقرۃ کی وہ آیت جس میں رمضان المبارک کے ضمن میں آتا ہے کہ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ یعنی گنتی کے چند دن ہی تو ہیں،کی طرف گیا۔ اگرچہ یہ رمضان المبارک کے مہینے کے لئے آیا ہے مگر غور کیا جائے تو ہم اپنی ساری زندگی کا یہ عنوان باندھ سکتے ہیں۔اب جب ہم پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ ہماری یہ زندگی ’’گنتی کے چند دن ہی توہیں‘‘ تو کیوں نہ ہم اپنے بقیہ چند دن اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے خوب زور لگائیں، محنتیں کرلیں اور اپنی گزشتہ کوتاہیوں سے استغفار کرتے ہوئے اور توبہ کرتے ہوئے اپنی باقی ماندہ زندگی میں اعمال صالحہ بجا لانے کا مصمم ارادہ باندھیں ۔
ایک طالب علم کا امتحان اور ہمارے لئے سبق
مگر المیہ یہ ہے کہ ہر نئے آنے والے سال میں ایسے کتنے ہی ریزولوشن ہم نے بنائے اور پھر انسانی کمزوری غالب آئی اور پھر ہم دوبارہ انہی غفلتوں میں کھوئے گئے ۔یہاں پر مجھے وہ اپنا طالب علم بیٹا یاد آگیا کہ جب بھی اس کا اسکول کے امتحان کا نتیجہ خراب آتا ہے تو بہت توبہ کرتا ہے اور وعدے کرتا ہے کہ اگلے سیمیسٹر میں شروع سال سے ہی محنت کرے گا ۔بس کسی طرح ابّواس دفعہ راضی ہوجائیں۔ مگر پھر کیا نیا سال آتے ہی دوبارہ پھر پرانی ڈگر پر چل پڑھتا ہے ۔پھر ہلکی سی سرزنش پر سنبھل جاتا ہے ۔اسکول والے تو اپنے مارکس اور گریڈ کو بہتر بنانے کا موقعہ بھی دے دیتے ہیں ۔ایسا واقعہ جب بھی میرے ساتھ گزرتا ہے تو مجھے اپنی فکر پڑ جاتی ہے کہ میں بھی تو ہر سال اپنے خدا سے عہدوپیمان باندھتا ہوں مگر پھر دوبارہ انہی غفلتوں میں کھو جاتا ہوں :
قرآن کریم ان حالات کا نقشہ کچھ یوں کھینچتا ہے:
وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ ؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ
ترجمہ: ’’اور وہ اس میں چیخ رہے ہوں گے ۔اے ہمارے رب ! ہمیں نکال لےہم نیک اعمال بجا لائیں گے جو ان سے مختلف ہوں گے جو ہم کیا کرتے تھے ۔کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں کوئی نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑسکے؟ نیز تمہارے پاس ایک ڈرانے والا بھی آیا تھا ۔پس چکھو (اپنے ظلم کا بدلہ) اور ظلم کرنے والوں کے حق میں کوئی مددگار نہیں۔‘‘
(سورۃالفاطر:38)
یہاں قیامت کے دن خدا تعالیٰ کا جواب کیسا برحق ہے کہ تم وہی تو ہو جسے ہم نے لمبی عمر دی اور ہر دن اور سال تم پر جو آیا وہ تمہارے لئے مہلت لے کر آیا کہ اپنی غلطیوں کو سدھار تے اور خدا کی طرف رجوع کرتے ۔
پھرفرمایا:
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ
لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ
ترجمہ: ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجاتی ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے لوٹا دیجیے ۔شاید کہ میں اچھے کام کروں اس (دنیا) میں جسے چھوڑ آیا ہوں ۔ہرگز نہیں ۔یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔ اور اُن کے پیچھے ایک روک حائل رہے گی اس دن تک کہ وہ اُٹھائےجائیں گے۔‘‘
(سورۃالمومنون: آیات100تا101)
خدا فرمائے گا کہ تم وہی تو ہو جو پہلے بھی ایسی باتیں کرتے تھے۔ آج اگر ہم عذاب ٹال دیں اور تمہیں واپس لوٹا دیں تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم پھر دوبارہ وہی حرکتیں کروگے جو اس سے پہلے کرتے آئے ہو۔ جب امتحان کا وقت ختم ہوجائے اور نتیجہ سننے کا وقت ہو تو ایسی فریاد ہرگز قابل قبول نہیں۔
چنانچہ غفلتوں میں گزرتا ہوا وقت انسان کو بظاہر ایک لامتناہی زندگی کا سفر معلوم ہوتا ہے لیکن جب موت کے کنارے پر پہنچتا ہے تو بے اختیار اس کے دل سے یہ صدا بلند ہوتی ہےکہ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ۔ گنتی کے چند دن ہی تو تھے جو گذر گئےاور ضائع ہو گئے۔
نظرانصاف سے دیکھا جائے تو ہم سب کو اس طالب علم کو دیکھ کرجس کا پرچہ خراب ہوا اپنی اپنی فکر کرنی چاہئے ۔مجھے تو اپنے سارے پرچے خراب دکھائی دے رہے ہیں ۔نماز کا بھی،قرآن کا بھی، اہل وعیال کے حقوق کا بھی،حقوق اللہ و حقوق العباد کا بھی،والدین کے حقوق کا بھی، اعمال کابھی اور خدمت دین کا بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: کیونکہ
وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ
ترجمہ: ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقیناً اللہ کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا مگر کافر لوگ۔‘‘
(سورۃیوسف:88)
اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ سلیبس بڑا ہی مشکل اور ممتحن بڑا سخت بھی ہے ۔شدید العقاب ہے ۔نقل کا وہاں کوئی چانس نہیں ہے اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔
وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
ترجمہ: ’’اور یہ کہ انسان کے لئے اُس کے سوا کچھ نہیں جو اُس نے کوشش کی ہو۔‘‘
(سورۃالنجم:40)
آسان حساب
وہ کون سے خوش نصیب خدا کے بندے ہونگے جن کا حساب آسان لیا جائے گا؟ اس بارےمیںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِٖ فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖٖ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا
ترجمہ: ’’اے انسان! تجھے ضرور اپنے ربّ کی طرف سخت مشقّت کرنے والا بننا ہوگا۔ پس (بہرحال) تُو اُسے رُوبرو ملنے والا ہے۔ پس وہ جسے اُس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گاتو یقیناً اُس کا آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘
(سورۃالانشقاق: آیات7تا9)
ہم تو خدا تعالیٰ سے اس کی رحمت کی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں ان لوگوں میں شمار کرے جن کا آسان حساب لیا جائے گا ۔ایک دفعہ خاکسار اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا سے امریکہ جا رہا تھا ۔کچھ پاکستانی مہمان بھی ہمراہ تھے۔وہاں کچھ ایسا ہی نظارہ دیکھنے کو ملا۔جب ہم امریکہ بارڈر پر پہنچے تو امیگریشن آفیسر نے ہمارے کینیڈین پاسپورٹ سرسری دیکھ کر معمول کی کارروائی کے بعدہمیں واپس لوٹا دئےاور امریکہ داخلے کی اجازت دے دی۔مگر ہمارے پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کے پاسپورٹ اچھی طرح چھان بین کرنے کےلئے نہ صرف رکھ لئے بلکہ علیحدہ کمرے میں لے جاکر انٹرویو بھی لیا ۔تو یہ بھی ایک طرح کا حساب ہی تو تھا۔ایک سرسری اور آسان اور دوسرا مشکل۔ملک کے بارڈر بھی کوئی بغیر حساب کے کراس نہیں کرسکتا۔
خداتعا لیٰ کے حساب میں بھی سارے نیک اور بد شامل ہونگے۔کسی کا حساب آسان ہوگا اور کسی کا مشکل۔
جیسا کے جمعہ کی نماز میں تلاوت کی جانے والی سورۃالغاشیہ میں بیان ہے:
اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ
ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ
ترجمہ: ’’یقیناً ہماری طرف ہی اُن کا لَوٹنا ہے۔ پھر یقیناً ہم پر ہی اُن کا حساب ہے۔‘‘
(سورۃالغاشیہ:آیات26تا27)
ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد ﷺ خود بھی تو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! میرا حساب آسان کر دے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ متعجب رہیں کہ آنحضرت ﷺ اپنے آسان حساب کی کیوں باتیں کرتے ہیں۔ آپﷺ تو بے حساب بخشے جانے والے وجود ہیں۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ۔
اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرً
اے میرے اللہ مجھ سے آسان حساب کرنا۔ تو میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی حِسَابًا یَّسِیْر سے کیا مراد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا اعمال نامہ سرسری نظر سے دیکھا گیا ۔کیوں کہ اے عائشہ! اس دن جس کے حساب میں پوچھ گچھ کی جائے گی وہ تو ہلاک ہو جائے گا ۔
(مسند احمد)
عمل کا گھر
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی اس قدر فکر تھی کہ وہ صرف دنیاداری میں مبتلا نہ ہو جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری امت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی۔ اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی۔ تو اس خواہش نفس کی پیروی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گی۔ اور دنیاسازی کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ اے لوگو! یہ دنیا رخت سفر باندھ چکی ہے اور جا رہی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں۔ پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔
یہ تنبیہ کی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر استطاعت ہے تم دنیا کے بندے بن جاؤ۔ یہ وارننگ ہے کہ تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ دنیاداری کے دھندوں میں خدا کو بھول جاؤ۔ اگر خدا کو بھول گئے تو اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی یہاں نہیں ملے گی تو اگلے جہان میں ملے گی۔ سوچو اور غور کرو کیا تم خداتعالیٰ کی سزا کو سہہ سکتے ہو۔ یقینا ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ جو یہ کہہ سکے کہ ہاں میں سہہ سکتا ہوں۔ فرمایا کہ اس لئے زندگی کے جو چند دن ہیں ان میں خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچو، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آگے جھکنے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ7مئی 2004 بحوالہء الاسلام ویب سائٹ)
حرف آخر
خدا سے التجا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں اس خراب پرچہ کرنے والے طالب علم کی طرح یہ نہ کہنا پڑے کہ ایک بار ہمیں دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ ہم نیک اعمال بجالائیں اور تیرے احکامات پر عمل کریں بلکہ اے ہمارے رب ہمیں (دنیا آخرت کی کھیتی ہے) اسی امتحان کے کمرہ میں اچھے پرچے کرنے کا موقعہ ’’الدنیا مزرعة الآخرة‘‘
دے دینا تاکہ ہم اچھے نمبروں سے پاس ہوکر آسان حساب کے لائق ٹھہریں۔ آمین
(از خالد محمود شرما۔کینیڈا)