• 10 مئی, 2025

دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اس آیت میں ایمان کو اعمالِ صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے۔ جنّات اور انہار۔ یعنی ایمان کا نتیجہ تو جنت ہے اور اعمالِ صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں‘‘۔ (نہریں ہیں)۔ ’’پس جس طرح باغ بغیر نہر اور پانی کے جلدی برباد ہو جانے والی چیز ہے اور دیرپا نہیں۔ اسی طرح ایمان بے عملِ صالح بھی کسی کام کا نہیں۔ پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار (درختوں) سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اشجار ہیں اور اعمالِ صالحہ ان اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں۔ غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبر کیا جاوے اُسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے۔ جس طرح سے ایک کسان کاشتکار کے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخم ریزی کرے۔ اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخم ریزی ہے ضروری اور لازمی ہے۔ اور پھرجس طرح کاشتکار کھیت یا باغ وغیرہ کی آبپاشی کرتا ہے اسی طرح سے روحانی باغ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے۔ یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمالِ صالحہ کے ایسا ہی بیکار ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا کسی دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکما ہے‘‘۔

فرمایا ’’درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لاپروائی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہو گا وہ سب جانتے ہیں۔ یہی حال روحانی زندگی میں شجرِ ایمان کا ہے۔ ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمالِ صالحہ روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں۔ پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض و برکات کے ثمراتِ حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 648۔649جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس اگر نہ ختم ہونے والے اجر لینے ہیں برکات سے فائدہ اٹھانا ہے، دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے۔ خوشخبری ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو نیک اعمال سے سجایا۔ جنہوں نے اگر یہ اعلان کیا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھ کرزمانے کے امام پر ایمان لائے ہیں تو اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔

پس آج بھی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اس طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا حقدار بنانے والی ہو۔ ہماری عبادتیں اور ہماراہر عمل جو ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ اور آج رات اس سال کو الوداع کرنے کے لئے اور نئے سال کے استقبال کے لئے یہ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے خاص یہ توفیق چاہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے گزرنے والے سال میں جو ہم نیک اعمال نہیں بجا لا سکے، نئے سال میں ہم ان کو بجا لانے والے ہوں۔ ایمان کے بیج کو اعمالِ صالحہ کی بروقت آبپاشی کے ذریعے پروان چڑھانے والے ہوں۔ ہمارا اٹھنا ہمارا بیٹھنا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔

ایک طرف تو ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جماعت کے ایک طبقہ نے قربانیاں دے کر جماعت کی تبلیغ کے نئے راستے کھول دئیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مَیں ایک یہ بات بھی افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس بعض غیر از جماعت کے ایسے خطوط بھی آتے ہیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کا ہے، اس نے میرے ساتھ کاروبار کیا تھا، کاروباری شراکت تھی، یا قرض لیا تھا اور اب اس میں دھوکے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ تو ایسے لوگ جو اس طرح جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں وہ ایسے لوگ ہی ہیں جن کا زبانی دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن یہ جودعویٰ ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ ایسے لوگ تو جماعت کی ترقی میں شامل ہونے کی بجائے جماعت کی بدنامی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پھر آپس کے تعلقات ہیں۔ آپس کے جوتعلقات ایک احمدی کے دوسرے احمدی کے ساتھ ہونے چاہئیں، ایک رشتے کے دوسرے رشتے کے ساتھ ہونے چاہئیں اگر ان حقوق کا پاس نہیں تو پھر ان جگہوں کی برکات سے انسان فیض نہیں پا سکتا۔ نہ دعاؤں سے کوئی فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اعمالِ صالحہ میں تمام حقوق بھی آتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے جائزے لے اور دیکھے کہ گزرنے والے سال میں ہم نے اپنے اندر سے کتنی برائیوں کو دور کیا ہے؟ ہمارے قربانی کرنے والوں نے ہماری اپنی طبیعتوں میں، ہمارے اپنے رویّوں میں کیا انقلاب پیدا کیا ہے؟ تو یقینا انفرادی طور پر بھی یہ سال جس کا آغاز اور اختتام بھی جمعہ کو ہوا اور ہو رہا ہے ہمارے لئے برکتوں کا سال ہے۔ لیکن اگر ہم دنیا داری میں بڑھتے رہے، اسی میں پڑے رہے اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے رہے۔ میاں بیوی، نند، بھابھی، ساس، کاروباری شراکت دار ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے، ایک دوسرے کے ساتھ طعن و تشنیع کرتے رہے، اپنے رویوں میں، اپنی بول چال میں غلط الفاظ استعمال کرتے رہے تو پھر ہم برکتیں تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہیں۔ ہمارے جو قربانی کرنے والے ہیں ان کی زبانی یاد کا دعویٰ کرنے والے تو ہم بنے ہیں، اُن کو اپنے لئے نمونہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہم نہیں بنے۔ اگر ہمارے اپنے رویے نہیں بدلے تو ہم نے ان قربانی کرنے والوں کی تسکین کا سامان نہیں کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر دشمنانِ احمدیت کی طرف سے ہمارے لئے تکلیفیں پہنچانے کی انتہا کی گئی تو ہم اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے سجاتے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے۔ ہمارے خلاف اگر آگ بھڑکائی گئی تو ہمیں اس آگ میں سے اس سونے کی طرح نکلنا چاہئے تھا جو آگ میں سے کندن بن کر نکلتا ہے۔ ہمارے آنسو اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوں نکلتے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی انقلاب پیدا کر دیتے۔ پس ہم میں سے جن کا یہ گزرنے والا سال اس طرح گزرا اور انہوں نے اپنے ایمان کی اپنے اعمال سے آبیاری کی وہ خوش قسمت ہیں۔ آئندہ آنے والے سال میں پہلے سے بڑھ کر اس تعلق کو مضبوط کرنے کی خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 31؍دسمبر 2010ء، بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 فروری 2021