• 27 اپریل, 2024

شادی بیاہ کے مسائل

’’آجکل شادی بیاہ کے بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ روزانہ خطوں میں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ لڑکیوں کی طرف سے عورتوں کی طرف سے بچیوں کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ جو کم مالی حیثیت رکھنے والے ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں لڑکا ہو یا لڑکی۔ بیواؤں کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہر حال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے۔ اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کردیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہوجاتی ہے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یہ جو مَیں نے آیت تلاوت کی ہے کہ تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اور اسی طرح تمہارے درمیان جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جس پر ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو بڑا واضح طور پر کھل کر فرماتا ہے کہ معاشرے میں اگر نیکیوں کو فروغ دینا ہے تو معاشرے میں جو شادیوں کے قابل بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کرانے کی کوشش کرو بلکہ یہاں تک کہ اُس زمانے میں جو غلام تھے اور لونڈیاں تھیں ان میں سے بھی جو نیک فطرت ہیں ان کی بھی شادیاں کروا دو تا کہ برائی نہ پھیلے۔ یہ قوم بھی جو غریب لوگ ہیں یہ بھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ تو یہ حکم شادی کی پابندی کا ہے۔ اس زمانے میں غلام تو نہیں ہیں لیکن بہت سے ممالک میں غربت ہے اور غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہوتی تو جماعت ان لوگوں کی مدد بھی کرتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر بعض لوگ مدد کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہئے۔ تو فرمایا یہ نہ سمجھو کہ ان کی غربت ہے اس لئے شادی نہ کراؤ۔ اگر مرد کام نہیں کرتا یا ملازمت اس کے پاس نہیں ہے یا کوئی کمائی کا ایسا بڑا ذریعہ نہیں ہے تو ان کی شادیاں بھی کرواؤ اور پھر جماعت میں جو ایک نظام رائج ہے ایسے لوگوں کی ملازمت یا کاروبار کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہئے۔ تو الّا ماشاء اللہ جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو سوائے چند ایک کے شادی کے بعد احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سنبھالنا ہے اس لئے کوئی کام کریں، کوئی کاروبار کریں، کوئی نوکری کریں، کوئی ملازمت کریں۔ پھر اکثر بیوی بھی اپنے خاوند کے لئے کوئی کام کرنے کے لئے یا ملازمت حاصل کرنے کے لئے ترغیب دلانے کا باعث بن جاتی ہے۔ بیوی بھی اس پر دباؤ ڈالتی ہے تو اس سے بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور کئی مثالیں ایسی ہیں کہ شادی کے بعد ایسے غریبوں کے حالات بہتر ہو گئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ علم رکھتا ہے کہ کس کے کیا حالات ہونے ہیں۔ معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بیواؤں میں سے بھی اکثر جو ایسی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے۔ اس لئے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لئے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لئے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروادو۔ تو یہ ہے حکم اللہ تعالیٰ کا جبکہ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض معاشرے اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسلامی اور احمدی معاشرہ کہلاتے ہوئے بعض لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ تو ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ہماری روایات یعنی وہ جھوٹی روایات جو دوسرے مذاہب یا غیر مسلموں کے بگڑے ہوئے مذہب کا حصہ بن کر ہمارے اندر جڑ پکڑ رہی ہیں، ہمارے اند رداخل ہو رہی ہیں ان کو نکالنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24؍ دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2021