• 29 اپریل, 2024

ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی

الحمدللہ کہ ہر احمدی خلافت کی اہمیت اور برکات سے خوب آگاہ ہے۔ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ہر آن ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش خلافت کی برکتوں سے حاصل ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔خلافت سے مضبوط تعلق اور وفا ہی ایک سچے احمدی کی زندگی کا طرہ ٔ امتیاز ہے اور اِسی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا راز پنہاں ہے۔

مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جینیٹکس(Genetics) کے مضمون میں اپنی Ph.Dمکمل کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ الحمد اللہ۔ شکرانِ نعمت اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرتے ہوئے خصوصاً نئی نسل کے طلبہ کے ازدیادِ علم اور ازدیاد ایمان کے لئےچند باتیں تحریر میں لارہی ہوں۔قائد اعظم یونیورسٹی سے 1992ء میں جینیٹکس میں ایم فل کرنے کے بعد میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھا جس میں میں نے آئندہ Ph.Dکے ارادہ کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔حضرت صاحب نے جواباً جو خط تحریر فرمایا اس خط کا ایک ایک لفظ تاحیات میرے لئے علمی جستجو کا ذریعہ بنا رہے گا۔حضوررحمہ اللہ نے اپنے خط محررہ 15جولائی1992ء میں فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ آپ کے دل اور دماغ کو روشنی عطا فرمائے علم اور حسن ِ عمل کے میدان میں امتیاز حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔آپ نے جس مضمون میں Ph.Dکرنے کا ارادہ کیا ہے اس مضمون میں مجھے گہری دلچسپی ہے اور تلاش میں ہوں کہ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ احمدی براہ ِ راست میری ہدایت کے تابع ایک انقلابی نوعیت کا مقالہ اس موضوع پر تحریر کرے۔سب نقشہ میرے ذہن میں ہے مگر وقت کی کمی مانع ہے۔ یہ باتیں خط و کتابت سے تو طے نہیں ہوتیں اگر کبھی آپ کا انگلستان آنا ممکن ہو تو متعدد نشستوں میں یہ مضمون میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین خدماتِ سلسلہ کی توفیق بخشے۔‘‘

اس خط کے موصول ہونےکے بعد میں نے کوشش کی کہ میں انگلستان جا سکوں مگر اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہےاس وقت میرے لئے لندن جانے کے سامان پیدا نہ ہو سکے ۔ جب میں B.Scکررہی تھی تو میرے والد محترم رشید احمدصابر مرحوم امریکہ منتقل ہو چکے تھے وہ مستقل خط و کتابت کے ذریعہ میری تعلیم کے متعلق منصوبہ بندی کرتے رہے اور میری ہمت اور حوصلہ بڑھاتے رہے۔چنانچہ آپ نے امریکہ میں MS اور پھر Ph.D کے داخلہ کے لئے کتب خرید کر بھیجیں اسی طرح بیالوجی اور جینیٹکس کی بہت اچھی کتابیں میرے لئے بھیجا کرتے تھے۔ آپ نے مجھے بتادیا تھا کہ امریکہ میں داخلے کے انتظام کے دوران وقت ضائع نہیں کرنا بلکہ پاکستان میں M.Sc میں داخلہ لے لیں۔چنانچہ 1992ء میں مَیں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے M.Sc اور M.Phil کی تعلیم مکمل کر لی اور اس دوران امریکہ داخلے کی خاطر خواہ کوشش نہ ہو سکی۔

میرے والد محترم ہمیشہ مجھے نمازوں کے التزام دعاؤں اور قرآن کریم پر گہرے غور و فکر کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آپ نے مجھ پر یہ واضح رکھا کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر اور معاشرے میں اچھے گھر کو پروان چڑھانا ہے اور عورت کی تعلیم کا یہی مقصد ہونا چاہئے۔تعلیمی ترقی میں مجھ پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ایک خط میں مجھے لکھا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور قوی امید ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے ملک کی نامور سائنسدان بنیں گی۔

میرے والد مرحوم مجھے بزرگان سلسلہ کو خطوط لکھنے کی بھی نصیحت کرتے رہتے تھے۔1992ءمیں ہی میں نے کچھ خطوط نوبیل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بھی لکھے جس میں اپنی آئندہ ریسرچ کے بارہ میں حضرت صاحب کے خط کا ذکر بھی کیا ۔چنانچہ ایک خط کے جواب میں جو 11مئی 1993ءکا ہے اس میں انہوں نے لکھا :

Your decision to pursue a course in the US is to be commended because there is no scope for any people trained here in spite of the fact that everyone recognizes that your subject is the subject of the future.

جینیٹکس میں ایم فل کے بعد مختلف کوششوں کے باوجود خاکسار Ph.Dمیں داخلہ لینے میں کامیابی حاصل نہ کر سکی۔اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے 1994ء میں میری شادی ایک واقفِ زندگی مکرم ایم ایم طاہر صاحب سے ہو گئی ۔اللہ تعالیٰ نےہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا اور مجھے جماعتی تعلیمی ادارہ نصرت جہاں اکیڈمی میں خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ اس طرح بیس سال گزر گئے۔جب نصرت جہاں گرلز کالج دارالرحمت کا قیام عمل میں آیا تو میری ٹرانسفر وہاں کر دی گئی۔ نظارت تعلیم کی طرف سے اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا منصوبہ شروع ہوا تو اس کے تحت مجھے Ph.Dکرنے کے لئے کہاگیا۔گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ میرے لئے صرف یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ کسی ایسی یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہو جہاں سے میں روزانہ گھر واپس آسکوں۔ ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد ہمارے گھر سے سب سے قریب تھی لیکن وہاں Geneticsمیں Ph.Dنہیں کروائی جاتی تھی۔حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں نے اپنے مضمون سےقریب ترین شعبہ ‘‘اینیمل بریڈنگ اینڈ جینیٹکس’’میں داخلہ کے لئے Applyکر دیا۔ مگر داخلہ میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔اگلے ہی سمسٹر یعنی Spring 2014میں جب یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے داخلوں کا اعلان ہوا تو اس میں سینٹر آف ایگریکلچر بائیو کیمسٹری اینڈ بائیو ٹیکنالوجی(CABB)کی طرف سے جینیٹکس میں Ph.Dکے داخلہ کا اعلان کر دیا گیا جس کے متعلق بعدا زاں معلوم ہوا کہ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تجویز پر CABBکی طرف سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC)میں جینیٹکس میں Ph.Dکا پروگرام شروع کروانے کی درخواست دی گئی تھی جو منظور ہو گئی اور اللہ کے فضل سے میں Ph.Dمیں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔جینیٹکس میں صرف میں نے ہی Applyکیا تھا۔ میرے بعد ایک یا دو طلبہ کا داخلہ ہوا تھامگر وہ کسی وجہ سے Ph.Dجاری نہ رکھ سکے اور چند سمسٹرز کے بعدزرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں HECکی طرف سے Ph.D جینیٹکس کا پروگرام ختم کر دیا گیا ۔اس طرح زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تاریخ میں صرف مجھے ہی جینیٹکس میں Ph.Dکرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ان حالات و واقعات میں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کی جھلک نظر آتی ہے۔الحمدللہ علیٰ ذالک

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے M.Sc کی تھی چنانچہ خلافتِ خامسہ میں جب کبھی یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے باہر سے میرا گزر ہوتا تو میں سوچتی تھی کہ کاش میں کبھی اس یونیورسٹی کا وزٹ کر سکوں۔خدا تعالیٰ نے اس یونیورسٹی کی فضا میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع عطا فرما دیا اور پھر جیسا کہ خاکسار نے M.Sc اور M Phil کے دوران ہر امتحان اور اسی طرح Ph.D کے ہر مرحلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھتی رہی اور ان کی دعاؤں کی بدولت یہ کٹھن سفر طے کر نے میں کامیاب ہوئی۔اس مضمون سے نئی نسل کے طالب علموں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر انسان ہمت نہ ہارے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کامیابی عطا فرماتا ہے۔

ایک بار پھر میں اپنے مضمون کے پہلے حصے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے خط کا ذکر ہے اس طرف لوٹتی ہوں۔ جس انقلابی نوعیت کے مقالہ لکھنے کی خواہش کا اظہار آپ نے فرمایا وہ دراصل دنیا کو ایک Supreme Power کا احساس دلاناہے ایک طرح سے یہ Unification کے نظریہ کو ہی ثابت کرنا ہے آج انسان نے علم کی جن حدود کو پار کر لیا ہے اس میں ایک طرف تو Atheism اور Agnosticism یعنی دہریت کے خیالات جنم لے رہے ہیں دوسری طرف جنہیں خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر یقین ہے ان کے لئے تخیلات پر حق الیقین پیدا کرنے کا اس سے اچھا موقع کوئی نہیں۔ آج آپ عالمِ صغیر یعنی انسانی جسم اور اس میں ہونے والے تغیرات کا مطالعہ اس حد تک کر سکتے ہیں کہ مثلاً انسان کے صرف ایک سانس لینے میں اس قدر عوامل حصہ لیتے ہیں جن پر انسان کا ذرہ بھر بھی اختیار نہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کے جسم کے ذرہ ذرہ کے کروڑہا حصہ میں بھی ایک خاص قدرت جلوہ گر ہے ۔ آج انسان اپنا Code of Life پڑھنے کے قابل ہو چکا ہے بلکہ اس سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

اب میں سوچتی ہوں اور اپنے مولا کے حضور شکر بجا لاتی ہوں کہ اس نے مجھے پہلے پروگرام کی بجائے موجودہ دور میں Ph.D کی توفیق بخشی۔ بیس پچیس سال پہلے کی Genetics اور آج کی Genetics میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور جیسا کہ پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے جس خط کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا انہوں نے بھی کہا تھا کہ Your subject is the subject of future کہ آپ کا عنوانِ تحقیق مستقبل کا مضمون ہے۔

(مرسلہ: ڈاکٹر د۔ طاہر (پی ایچ ڈی جینیٹکس))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021