• 28 اپریل, 2024

صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے (قسط اول)

صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے
قسط اول

ایک عرب شاعر المتنبی کہتا ہے:

اِذَا لَمْ تَخْشَ عَاقِبَۃَ اللَّیَالِیْ
وَ لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا تَشَآءُ
فَلَا وَ اللّٰہِ مَا فِی العَیْشِ خَیْرُ
لَا الدُّنْیَا اِذَا ذَھَبَ الحَیَآءُ
یَعِیْشُ المَرْءُ مَا اسْتَحْیَا بِخَیْرِ
وَ یَبْقَی الْعُوْدُ مَا بَقِیَ اللِّحَاءُ

اگر آپ راتوں کے (برے کاموں کے) نتیجہ سے خوفزدہ نہیں ہیں اور آپ کو شرم نہیں آتی تو آپ جو چاہیں کریں ۔ پس خدا کی قسم، جب زندگی سے حیا چلی جائے تو زندگی اور دنیا میں کوئی بھی بھلائی باقی نہیں رہتی۔آدمی اس وقت تک بھلائی کے ساتھ زندہ رہتا ہے جب تک اس میں حیا باقی رہتی ہے جیسے کہ درخت اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ اس کی چھال باقی رہتی ہے۔

(بحوالہ گلدستہ علم و ادب)

صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے ’’ایک تعارف‘‘

اللہ تعا لیٰ قرآن مجید میں فرما تا ہے:
’’مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کر یں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفا ظت کیا کریں ۔یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیز گی کامو جب ہے۔ یقیناً اللہ جو وہ کر تے ہیں اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے۔‘‘

(النور: 31 ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)

قارئین کرام ! شرم و حیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک اہم اور امتیازی قوت ہے جو ہر انسان میں بنیادی طور پر موجود ہے ۔اسلام ایسی طرز ِزندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے جس سے اس قوت کو تقویت ملے۔احا دیث میں آ تا ہے:

حضرت زید بن طلحہ ؓ نبی ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہو ئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہو تا ہے۔ اسلام کا (یہ خاص) خلق حیاء ہے۔‘‘

( حدیقۃ الصا لحین ایڈ یشن 2019 UK صفحہ 646حد یث نمبر825)

حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے حیا ئی جس چیز میں بھی ہو اُسے بد نما بنا دیتی ہے۔اور حیا جس چیز میں بھی ہو اُسے خو بصورت بنا دیتی ہے۔‘‘

( حدیقۃ الصالحین ایڈیشن 2019 UK صفحہ648 حدیث نمبر828)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’ایمان ساٹھ یا ستّر سے بھی کچھ زائد حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں سب سے افضل لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا ہے اور عام اور آسان حصّہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے اور حیابھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔‘‘

(مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان رقم 152)

ایمان میں حیا شامل ہونے کا اصل راز یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی ایمان اور حیا اچھے کام کی دعوت دیتے ہیں اور اچھے کاموں کے قریب کرتے ہیں۔ نیز برائی سے روکتے ہیں اور برائی سے دور بھی کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فر ماتے ہیں:
’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھا نے کی حد سے بچا رہے۔کیو نکہ ابتداء میں اس کی یہی حا لت ہو تی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھا نے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلا ح کرے …یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا اور میں نے خصو صیت سے اسے ان مسلمانو ں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں ۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد سوئم صفحہ443)

پھر ایک جگہ آ پ ؑ فرما تے ہیں :
مومن کو نہیں چا ہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محا با اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَ بْصَا رِ ھِمْ۔ (النور: 31) پر عمل کرکے نظر کو نیچی رکھنا چا ہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چا ہئے۔ ’’

(ملفو ظات جلد اول صفحہ 533 ایڈیشن 2003ء)

حیا کے ایمان کا حصّہ ہو نے کے متعلق اسلامی تعلیمات کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کو گاہے بگا ہے اپنے خطا بات اور خطبات میں نصا ئح فر ما ئی ہیں ۔ایک موقع پر فر مایا:
’’اب پردہ بھی ایک اسلامی حکم ہے … نیک عو رتو ں کی یہ نشا نی بتا ئی گئی ہے کہ وہ حیا دار اور حیا پر قائم ر ہنے وا لی ہو تی ہیں ،حیا کو قائم ر کھنے وا لی ہو تی ہیں۔‘‘

(خطاب مستورات کینیڈا، 25جون 2007ء۔ الفضل 2مارچ 2007ء)

مضمون ہذا میں خاکسار ’’صحابیات کا مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے‘‘ کے حوالے سے چند واقعات پیش کرنا چاہے گی مگر اس سے قبل یہ جاننا نہایت درجہ اہم ہے کہ حیا سے کیا مراد ہے؟ جب تک ہم حیا کی اہمیت کو نہیں جانیں گے یہ واقعات ہمارے لیے فقط واقعات ہی رہیں گے۔ بہت ضروری ہےکہ پہلے ہم حیا کی اہمیت کو جانیں تاکہ بعد میں جب ان واقعات کو پڑھیں تو وہ حقیقت میں ہماری زندگیوں میں مشعل راہ ثابت ہوں ۔تاریخ اسلام ایسے بے شماراور بے مثال واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں آنحضرت ﷺ نے اپنی قوت قدسیہ کے ذریعے ایک جاہل اور اجڈ قوم کو باخدا انسان بنانے کے ساتھ ساتھ باحیا انسان بھی بناڈالا۔ زمانہ جاہلیت میں جہاں بے حیائی اپنے عروج پہ تھی اور بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات خود مالک اپنی لونڈیوں سے بدکاری کرواتے اور اس کی آمد وصول کرتے۔ یہ بھی گویا آمد کا ذریعہ تھا ۔مگر شرفاء کا دامن اس قسم کی انتہائی بے حیائی سے پاک تھا ۔عورتوں میں پردے کی رسم نہ تھی بلکہ وہ کھلی پھرتی تھیں۔ نکاح کا تصور نہ تھا ۔ایک عورت سے کئی مرد بدکاری کرتے تھے اور اولاد کے بارے میں حتمی فیصلہ عورت کی گواہی پر منحصر ہوتا تھا ۔جس بیوہ عورت پر متوفّی شوہر کا قریبی رشتہ دار اپنی چادر ڈال دیتا وہی زبردستی اس کی بیوی بنادی جاتی۔ سوتیلے بیٹے اس طریق پر سوتیلی ماؤں پر قبضہ کرلیتے۔ عورتیں بے حجاب اپنے جسم کے مخفی حصّوں کی نمائش کرتیں۔ یہ حیا کا معیار تھا اس وقت کی عورت کا ۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ59)

حیا کیا ہے؟ قرآن و احادیث کی روشنی میں اسکا تعارف

ردائے اخلاق کا جھومر اوراعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ انسان حیا سے متصف ہو۔حیا کی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کو اچھے کام کرنے پر ابھارتی ہے اور ہر قسم کی برائی سے روکتی ہے۔حیا انسان کو تمام گناہوں اور برائیوں سے بچاتی ہے۔نیز حیا داری انسان کے با اخلاق اور اعلیٰ کردار ہونے کی بھی علامت ہے۔یہ بے حیائی کا خاتمہ کر تی، عزت کو تحفظ دیتی اور دل میں عفت پیدا کرتی ہے۔کسی دانا کا قول ہے کہ انسان اپنی خصلت سے پہچا نا جاتا ہے ۔اور خصلت اس فعل یا عادت کو کہتے ہیں جو انسان اختیار کرتا ہے یا وہ اسکی فطرت کا خاصہ ہوتی ہے ۔ گو حیاء فطری ہوتی ہے لیکن پھر بھی اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات اسے بھی دیگر نیک اعمال کی طرح کوشش و محنت کرکے حاصل کیا جاتا ہے اور عادت بنایا جاتا ہے لیکن بسا اوقات یہ فطرت میں پہلے سے ہی شامل ہوتی ہے لیکن چونکہ شرعی قانون کے مطابق اس کا استعمال اکتساب، نیت اور علم پر مبنی ہوتا ہےاس لیے اس کو ایمان کا جزو شمار کیا گیا ہے۔ کوئی بھی انسان اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا جب تک اسکا قول اسکے عمل سے مطابقت نہ رکھے ۔بحیثیت مسلمان جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ ہما را ر ب ہے اور اس بات پر بھی پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ اس نے ہمیں گمرا ہی سے بچنے کے لئے کچھ احکا م بتا ئےہیں کہ اگر تم ان احکام کو من وعن بجا لا ؤ گے تو فلا ح پا جا ؤ گے ۔تواِس زما نے میں ہم سے ز یا دہ خو ش نصیب کو ئی نہیں ہے کیونکہ ہم نےحضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو مانا اور پھر آپ ﷺ کے رو حا نی فر زند کی بیعت کی جس نے اسلام کواز سر نو ز ندہ کیا۔قرآن کر یم حضرت مسیح مو عود علیہ السلا م کی بعثت سے قبل خوبصورت غلا فوں میں طاق پہ سجا کر رکھنا ہی اسکی عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ اس کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا گیا تھا ۔حضرت مسیح مو عو دعلیہ السلام کے با برکت و جود اور خلفاء احمدیت کے ذریعہ قرآن کی شان و شو کت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا ۔پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ناصرف زمانے کے امام الزماں کو مان کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق ملی بلکہ پہلوں سے ملنے کی ضمانت اور خوشخبری بھی دی گئی ۔

پس ہم صحابیات والا فیض اُس وقت اُٹھا سکتی ہیں جب ہم خلیفۂ وقت کے ارشادات پر عمل کرکےاخلاقی برائیوں سے بچ رہی ہونگی۔خدا تعالیٰ نے بےحیائی سے بچنے کے لئے ہمیں پردہ کا حکم دیاہے ۔جیسا کہ خدا تعا لیٰ قر آن کریم میں مو منوں سے مخا طب ہو تے ہو ئے فر ما تا ہے:

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ

(النور:31۔32)

ً ان آیات کا ترجمہ یہ ہے :
’’مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقینا ًاللہ جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اُس میں سے ازخود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی(جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ(لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو(عورتیں عمومآ) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘

حیا انسان کے لئے انتہائی نفیس دولت ہے۔اس سے صرف وہی لوگ متصف ہوتے ہیںجن کے اندر نیکی کا مادہ اور شرافت موجود ہو۔یہ انبیائے کرام کا زیور ہے۔

حضرت ابو مسعود ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں۔بخاری کتاب الادب سے یہ روایت لی گئی ہے کہ سابقہ انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے جو لوگوں تک پہنچتے رہے ایک یہ ہے کہ جب حیاء اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرتا پھرے ۔الفاظ یہ ہیں:

اِذْ لَمْ تَسْتَحْیِ فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ

(بخاری کتاب الادب باب اذ لم تستھی فاصنع ماشئت)

اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مُزَینہ قبیلہ کی ایک عورت بڑے ناز و ادا سے زیب و زینت کئے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! اپنی عورتوں کو زیب و زینت اختیار کرنے اور مسجد میں نازو ادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو۔ بنی اسرائیل پر صرف اس وجہ سے لعنت کی گئی کہ ان کی عورتوں نے زیب و زینت اختیار کر کے ناز و نخرے کے ساتھ مسجدوں میں اِترا کر آنا شروع کردیا تھا ۔‘‘

(سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن ،باب فتنۃ النساء)

ایک اور حدیث شریف میں ارشاد ہوتا ہے:
’’حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔‘‘

(راوی حضرت ابن عمر بہیقی فی شعب الاایمان140/6 حدیث 7727)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَیِّيٌّ سِتِّیْرٌ یُحِبُّ الْحَیَآءَ وَالسِّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ۔

’’بے شک اللہ تعالیٰ ستیر (بہت پردہ ڈالنے والا) اور حیا دار ہے (چنانچہ) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی نہائے تو اسے پردہ کرنا چاہیے۔‘‘

(بحوالہ صحیح سنن أبي داؤد، رقم:3387)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے:

اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً؛ وَالْحَیَآءَ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ۔

’’ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

(أخرجہ مسلم في کتاب الایمان، باب: بیان عدد شعب الایمان، رقم152)

ایک بار رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا:

’’وہ تم بہت زیادہ شرمیلے ہو‘‘ حتی کہ اس نے کہا :
’’شرمیلے پن نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے‘‘ تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان کا حصہ ہے، اور جس میں حیا نہ ہو اس کا ایمان ہی نہیں۔‘‘

(صحیح بخاری)

ایمان میں حیا شامل ہونے کا اصل راز یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی ایمان اور حیا اچھے کام کی دعوت دیتے ہیں اور اچھے کاموں کے قریب کرتے ہیں نیز برائی سے روکتے ہیں اور برائی سے دور بھی کرتے ہیں۔

حیا خیر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

’’حیا صرف خیر کا باعث ہی بنتی ہے‘‘

(مسلم في کتاب الایمان، باب: بیان عدد شعب الایمان، رقم156)

اسی طرح آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:

’’حیا سراپا خیر ہے۔‘‘

(صحیح الجامع الصغیر رقم 395)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ فضل (بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریمﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔

(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضلہ)

حضرت أبو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔‘‘

(مسند احمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباہلی الصدی بن عجلان)

جس عورت نے اپنے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ میں کپڑے اتارے تو اس کے اور اللہ کے درمیان جو چیز تھی اس نے اسے پھاڑ دیا ۔ عورت کا اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور گھر میں کپڑے بدلنا قلت حیا کی مثال ہے۔

حضرت ابو ملیح ہذلیؓ سے روایت ہے کہ اہلِ حمص کی عورتیں یا اہلِ شام کی عورتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل ہوئیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ تم ہی وہ عورتیں ہو جن کی عورتیں حماموں میں داخل ہوتی ہیں؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

مَا مِنْ امْرَأَۃِتَضَعُ ثِیَا بَھَافِیِ غَیْرِ بَیْتِ زَوْ جِھَا اِلَّا ھَتَکَتْ السیتْرَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ رَبِّھَا

یعنی جس عورت نے بھی اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اور اپنے کپڑے اتارے تو اس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پردے کو پھاڑ ڈالا۔

(عون المعبود علی سنن ابی داؤد ۔ج11حدیث نمبر3992)

ایک اور حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ:

’’جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو پردہ میں نہائے۔‘‘

(صحیح سنن ابی دائود رقم 3387)

اَنصار کی خواتین سیاہ چادر اَوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ۔ان کو دُور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔

(ابو داود،کتاب اللباس،باب فی قوله يدنين علين …الخ، ص645 حدیث 4101مفہوم)

ایک روایت میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر سوائے اپنی بیوی اور لونڈی کے ۔میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب لوگ ایک دوسرے کے پاس ہوں (یعنی اکٹھے ہوں) فرمایا اگر تم میں طاقت ہے کہ اسے کوئی نہ دیکھ سکے تو ایسا ہی کر کہ کوئی نہ دیکھ سکے ۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم سے کوئی تنہا ہو تو؟ فرمایا کہ لوگوں سے زیادہ اللہ کا حق ہے کہ اس سے شرم اور حیا کی جائے‘‘

(صحیح سنن ابی دائود ،رقم 3391)

حیا حقیقت میںایک مسلمان عورت کی اصل جمع پونجی ہے۔حیا کے ذریعے ہی عورت اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ حیا عورت کے دینی اور فطری اخلاق کا حصہ ہے۔ چنانچہ ایک حیادار عورت کھاتے، پیتے اور پہنتے وقت حیا کا اہتمام کرتی ہے۔ اسی طرح وہ چلتے پھرتے اور باہر نکلتے وقت حیا کا عملی نمونہ بن کر رہتی ہے۔حیا ہی عورت کی خوبصورتی اور عورت کے پاکدامن ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ حیا ہر عورت کےلئے محفوظ ترین جگہ ہے۔

قرآنی حوالے سے عورت کی حیا کا بے مثال واقعہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عورت کی حیا کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے کنویں پر پہنچے تو وہاں شعیب کی بیٹیوں نے حیا داری کی اعلیٰ منظر کشی کی ۔ اس منظر کا ایک حصہ یہ بھی ہے :

جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان دونوں کی عفت اور مردوں سے دوری دیکھی تو ان کے جانوروں کو خود ہی پانی پلایا دیا۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُوْدَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَآءُ وَأَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيرٌفَسَقٰى لَهُمَا۔

(الق24۔25)

پھر جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تودیکھا کہ بہت سے لوگ (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے ہیں اور اُن سے ہٹ کر ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے کھڑی ہیں۔ موسیٰؑ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ ہم اس وقت پانی پلا نہیں سکتیں جب تک یہ چرواہے پانی پلا کر واپس نہ چلے جائیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے۔ چنانچہ موسیٰؑ نے ان عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ (القصص:24۔25) ان دونوں کی عفت اور مردوں سے الگ تھلگ رہنا حیا کے باعث تھا اور حیا ہی مسلمان خاتون کا شعار ہوتا ہے نیز حیا اچھی تربیت کی علامت ہے۔

انہی آیات میں اچھے کردار کے ایک اور منظر کی جانب بھی اشارہ موجود ہے کہ جب چال اور انداز گفتگو میں بھی حیا اور اطمینان چھلک رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے واپس آنے والی لڑکی کی مدح سرائی فرمائی کہ وہ چلتے ہوئے حیا سے لبریز تھی۔ چنانچہ وہ نہ ہی اٹھلائی، بے پردگی بھی نہ کی اور نہ ہی نرم لہجے میں بات کی:

فَجَآءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا اور ان دونوں میں سے ایک شرم سے چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ نے ہماری بکریوں کو جو پانی پلایا ہے تو میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ آپ کو اس کا صلہ دے۔

(القصص:26)

اب خاکسار سورۃ النور کی آیات کی روشنی میں ’’غض بصر‘‘ کا مفہوم واضح کرنا چاہتی ہے جس سے علم ہوگا کہ یہ کس قدر اہم خلق ہے اور اسکا حیا سے براہ راست تعلق بنتا ہے ۔

غض بصر سے کیا مراد ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ غض بصر کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’۔۔۔ مردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے تو بہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے ۔۔۔ غضِّ بصر سے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیزکو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھاکر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جاناہے ۔۔۔ غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ءصفحہ نمبر9کالم2)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غَضِّ بصر کے حوالے سے خواتین کو بھی عمومی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غَضِ بصر کا، اس پر عمل کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہوں۔ کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنّث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو۔ ہوسکتاہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مَردوں سے باتیں کریں اور اس طرح اشاعتِ فحش کا موجب ہو۔

تو دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حد تک پابندی لگائی ہے۔ کجایہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یادیکھا جائے۔ بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہو تاکہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیداہو۔ تو اس حد تک سختی کا حکم ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ءصفحہ نمبر9کالم2)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے۔ بے محابانظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدّنی زندگی میں غضِ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی۔‘‘

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ102تا103۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ444)

(باقی آئندہ)

(از درثمین احمد ۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021