• 29 اپریل, 2024

رحمۃً للعالمینؐ کے پیروکار؟

رحمۃً للعالمینؐ کے پیروکار؟
میری ڈائری کا ایک ورق بروز جمعۃ المبارک 20نومبر 2020ء

بی بی سی اردو نیوز (BBC Urdu News) پر یہ افسوسناک خبر پڑھی کہ ’’ضلع ننکانہ کے علاقے مڑھ بلوچاں میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی گھرانے پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک شخص جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے 31برس کے طاہر احمد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ زخمی ہونے والوں میں ڈاکٹر طاہر کے والد طارق سمیت دیگر دو احمدی بھی شامل ہیں جن کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر سے باہر نکل رہے تھے‘‘ (مخالفانہ حالات اور اب کرونا وباء کی وجہ سے بھی افراد جماعت احمدیہ گھروں میں (بھی) نمازوں کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ ناقل)

قبل ازیں 2017ء میں بھی اسی علاقہ، ننکانہ صاحب میں مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے کزن مکرم ملک سلیم لطیف صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ رواں سال اگست اور نومبر میں بھی علیٰ الترتیب دو احمدیوں مکرم معراج احمد صاحب اور مکرم محبوب احمد صاحب کو پشاور میں شہید کیا جا چکا ہے۔ گویا احمدیوں کو محض اختلاف فکر و نظر کی وجہ سے مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک نہایت تکلیف دہ سلسلہ ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بلکہ خوفناک بات یہ ہے کہ ایسا کرنے اور کروانے والے اس حقیقت سے بالکل بے خبر نظر آتے ہیں کہ وہ ایسا کر کے نہ صرف حدود اللہ کو پامال کرتے ہیں بلکہ اس میں بڑی ڈھٹائی اور شوخی سے قدم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے ہوئے حد سے بڑھتے ہیں۔ اور یقیناً اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جب کوئی شخص یا قوم یوں زبردستی اللہ تعالیٰ کی کرسی پر بیٹھتی ہے تو نتیجہ معلوم شد۔ قرآن شریف ایسے واقعات اور ایسے لوگوں اور قوموں کے عبرتناک انجام سے بھرا پڑا ہے۔ مگر جب ہوش پر جوش کا اور نفس کا غلبہ رہے تو کون عبرت پکڑتا ہے؟؟ خدا کی پناہ!

؂اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے؟

دُعا ہے اللہ تعالیٰ مکرم ڈاکٹر طاہر احمد صاحب شہید، جو دَرحقیقت زندہ ہے، کی رُوح پر اپنی بے انتہا رحمتیں نازل فرمائے۔ اس کے والد سمیت دوسرے زخمیوں کو شفائے کاملہ اور صبر جمیل سے بھی نوازے۔ آمین ثم آمین۔

یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ آجکل حکومت پنجاب کی جانب سے صوبہ، ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر ’’ہفتہ شان رحمۃً للعالمینﷺ‘‘ (16تا 22نومبر) منایا جا رہا ہے۔ اور یہ اندوہناک سانحہ بھی اس شان رحمت والے جاری ہفتہ کے پانچویں اور جمعۃ المبارک کے روز عین اس وقت پیش آیاجب لوگ نماز پڑھ کر فارغ ہوئےتھے۔ گویا یہ ہماری ’’ریاست مدینہ‘‘ ہے اور یہ ’’رحمۃً للعالمینؐ‘‘ سے ہماری محبت کا عالم ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ کے امتیوں کے ایسےہی احوال شب و روز کے ذکر سے یاد آیا کہ ابھی کچھ ہی پہلے 12ربیع الاول کی مناسبت سے ملتان میں تین سو کلو سوجی، تین سو کلو گھی، تین سو کلو چینی، تیس کلو بیسن، دس دس کلو کشمش، بادام کاجو، چار کلو کھوپرا اور چار کلو چھوارے ڈال کر حلوہ تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ خبر کے مطابق حلوہ کی تیاری کے دوران ہی حلوہ لینے والوں (یعنی ’’عاشقانِ رسولؐ‘‘) کی ایک بڑی تعداد اس تاریخی دیگ کے ارد گرد جمع ہو گئی تھی ۔آہ صد آہ!

؂رہ گئی رسم اذاں، رُوح بلالی نہ رہی

آخر میں ہی سہی مگر اس وقت اور اس مقام پر یہاں مجھے دادا جان مکرم مولانا ظفر احمد ظفر مرحوم کی بھی ایک پُرانی نظم یاد آ گئی جو روزنامہ الفضل 26دسمبر 1952ء کے جلسہ سالانہ نمبر صفحہ16 پر شائع ہوئی۔ اب میں اس پر کیا تبصرہ کروں؟

مشکل ہے

سنے گا کوئی ہمارا پیام مشکل ہے
کہ ترک عیش و فنا کا مقام مشکل ہے
ہے جبر غیر پہ اسلام کی اگر تعلیم
وہ ہو جہان میں مقبول عام مشکل ہے
وہ ملک جس میں کہ آزادئ ضمیر نہ ہو
کرے گا اس کا کوئی احترام مشکل ہے
وہ ملک جس میں بہت سے ہوں مولوی اس کا
خلل پذیر نہ ہو انتظام مشکل ہے
پکڑنا سانپ کو گردن سے سہل ہے لیکن
خلاف مرضئ واعظ کلام مشکل ہے
وہ مولوی جسے آتا نہ ہو وضو کرنا
بنے وہ سارے جہاں کا امام مشکل ہے
تجھے ہے یاد بھی اے سر زمین پاکستاں
کہ لوگ کہتے تھے تیرا قیام مشکل ہے
خدائے پاک کے بندوں پہ ہو ستم جس میں
وہ سر زمین رہے نیک نام مشکل ہے
ملی رہی اگر احرار کو یہ حرّیت
تو حرّیت کا زمیں پر قیام مشکل ہے
خدا پہ رکھ کے نظر تُو کئے جا کام ظؔفر
نہ شکوہ سنج کبھی ہو کہ کام مشکل ہے

(از طارق بلوچ ۔کیل۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2021