• 29 اپریل, 2024

ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ (قسط اول)

ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ۔ امریکہ
قسط اول

ضروری نوٹ: جماعت احمدیہ امریکہ نے اپنے صد سالہ اظہار تشکر پر ’’النور‘‘ کا تاریخی نمبر جاری کیا ہے اس میں ایک طویل مضمون مکرم امتیاز احمد کا لکھا ہوا ہے۔ جو اسمعوا صوت السماء کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کےچار حصے ہیں ۔ حصہ اول میں قرآن و احادیث کا اکابرین کی آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں اور خلافت رابعہ سے قبل یہ پیشگوئیاں کیسے پوری ہوئیں پر مشتمل ہے۔ حصہ دوم میں خلافت رابعہ کے دور میں ایم ٹی اے کا قیام ، اِس کی برکات و فضائل کا ذکر ہے۔ حصہ سوئم میں ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ کا تفصیلی تعارف ہے۔ جبکہ حصہ چہارم الاسلام. آرگ پر مشتمل ہے۔ حصہ اول دوم کے حوالہ سے میٹریل اس کی برکات فضائل کا ذکر تو ہمارے لٹریچر میں اکثر شائع ہوتا رہتا ہے جبکہ ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ کا تفصیلی تعارف منظر عام پر آرہا ہے۔ یہ دراصل مکرم چوہدری منیر احمد ڈائریکٹر ایم ٹی اے انٹرنیشنل مسرور ٹیلی پورٹ امریکہ کا انٹر ویو ہے جو قارئین روزنامہ الفضل لندن آن لائن کے لئے ’’النور‘‘ کے شکریہ کے ساتھ پیش ہے۔

ڈائریکٹر ایم ٹی اے انٹرنیشنل، مسرور ٹیلی پورٹ, سلور سپرنگ میری لینڈ۔ امریکہ

یہ عجیب تصرفِ الہٰی ہے کہ کبھی اس کے فضلوں کا ایک لمحہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے اور کبھی صدیوں کے انعامات ایک لمحے میں سمٹ جاتے ہیں۔ ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کی ربع صدی گویا پلک جھپکتے گزر گئی مگر درحقیقت اس کا لمحہ لمحہ تائیداتِ ایزدی اور انعاماتِ خداوندی کی ایسی حسین اور طویل داستان چھوڑ گیا جس کے اظہار و بیان کی تاب کسی قلم و کتاب میں نہیں۔ خیر، کچھ ذکرِ یار سمندر پار بھی ہو جائے۔

سات سمندر پار ہواؤں کے دوش پر

اس سلسلے میں سب سے پہلے جو نام ابھرتا ہے وہ ایک خوش پوش، خوش شکل اور خوش مزاج عاجز سے حلیم اور متین طبیعت کے خادمِ سلسلہ کا نام ہے جنہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کر دی، اس تمنا و تصور سے بے نیاز ہو کر کہ وہ کس خدمت کے قابل سمجھے جائیں گے۔ کس بھٹی میں ڈال کر کندن بنائے جائیں گے۔ اور خدائے قدوس و قدیر نے بھی ان کے عجز اور خلوص کو اس طرح قبول فرمایا کہ تاریخِ احمدیت کے ایک عظیم سنگِ میل منصوبے ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کی تشکیل و تکمیل میں خلیفۂ وقت کے دست و بازو بننے کا اعزاز بخشا اور ربع صدی سے زائد عرصہ سے امریکہ اور کینیڈا میں اس کے انچارج اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات بجا لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

مبلغین کی صف میں مکرم چوہدری منیر احمد صاحب اس خوش نصیبی کے وارث بنے کہ حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم کے ہونہار شاگردوں میں ان کا بھی نام تھا اور سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور ہی میں آپ کی تقرری امریکہ میں ہو گئی۔ ۱۸؍ستمبر ۱۹۸۱ ءکو واشنگٹن ڈی سی پہنچے تو مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر و مبلغ انچارج امریکہ نے حضورؒ کی منظوری سے سینٹ لوئیس (St. Louis) مسوری سٹیٹ میں بھجوا دیا۔ وہاں ڈیڑھ سال کی خدمات کے بعد آپ کی تقرری واشنگٹن ڈی-سی میں ہو گئی جہاں آپ کو ایک سال خدمتِ دین کا موقع ملا۔ ازاں بعد آپ کا تبادلہ ملک کے مغربی ساحل (West Coast) پر لاس اینجلس (Los Angles) میں ہو گیا جہاں آپ کا قیام ۱۹۸۴ ءسے ۱۹۹۰ ء تک رہا۔ اس دوران میں چوہدری منیر صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اس بابرکت تحریک کا عملاً حصہ بنے جب آپؒ نے امریکہ میں پانچ مرکزی مساجد کی تحریک فرمائی۔ آپ کے دورِ قیام میں لاس اینجلس مسجد کی تعمیر اس تحریک کا پہلا ثمر تھا۔ ۱۹۹۰ء کے آخر میں آپ کی تقرری کینیڈا کے دارالحکومت آٹوا (Ottawa) میں ہو گئی۔ سیّدنا حضرت اقدسؒ کا ارشاد تھا کہ وہاں ایک خوبصورت مسجد اور مرکز بنایا جائے۔ حضورؒ کے کینیڈا حکومت کے مختلف اراکینِ پارلیمنٹ کے ساتھ گہرے دوستانہ روابط تھے اور آپؒ نے اس بارے میں ان سے وعدہ فرمایا ہؤا تھا۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں چوہدری منیر صاحب کو پارلیمنٹ ہِل (Parliament Hill) کے قریب ہی بیس پچیس منٹ کے فاصلے پر جماعت کے لیے سو ایکڑ زمین خریدنے کا موقع مل گیا۔ یہ پراپرٹی بعض اضافوں کے بعد اب 125 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہو چکی ہے۔ فالحمد للہ۔

’’میری نگاہ تو بہت بلند ہے‘‘

آٹوا میں ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۴ء تک کے قیام میں آپ کو ایک مضبوط مرکز قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ اس دوران میں مختلف آرا اور تجاویز کے پیشِ نظر یہ کوششیں شروع ہو گئیں کہ کسی طرح جماعت کا پیغام ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ ۱۹۹۲ ء کے اوائل میں ایک تجویز آئی کہ کینیڈا میں ایک ریڈیو اسٹیشن فروخت ہو رہا ہے جو ایک مخصوص (Fixed/Selected) فریکوئنسی پر ہے جس کی رسائی عام لوگوں تک نہیں۔ وہ اسے نہیں سن سکیں گے۔ یہ ہمارے کام آ سکتا تھا، مگر اس کے لیے ہمیں خاص قسم کے ریڈیو سیٹ خریدنے کی ضرورت تھی۔ اس ذریعے سے کم از کم خلیفۃ المسیح کا پیغام احبابِ جماعت تک پہنچایا جا سکتا تھا۔ جب یہ تجویز حضورؒ کی خدمت میں بھجوائی گئی تو آپؒ نے فرمایا:
’’یہ تو بہت چھوٹی سی چیز ہے جس پر آپ لوگ راضی ہو رہے ہیں۔ میری نگاہ تو بہت بلند ہے۔ اس لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ اس تجویز کو رد کر دیا گیا۔

سن ۱۹۹۲ میں سیّدنا حضرت امیر المؤمنینؒ کا پیغام موصول ہؤا کہ روسی مواصلاتی سیّارے (Russian Satellite) کے ذریعے حضورؒ کا خطبہ جمعہ مع تصویر براہِ راست نشر ہؤا کرے گا، اس کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ اس سے چھ ماہ قبل ٹیلیفون کے ذریعے یہ خطبات براہِ راست سنے جا رہے تھے۔ جب نئے انتظامات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ ایکسپریس ون یا ایکسپریس ٹو (Express 1 or Express 2) نامی رشین سیٹیلائٹ سی بینڈ (’’Band‘‘) پر سگنل دیتی ہے اور امریکہ اور کینیڈا میں اس کی نشریات دیکھنے کے لیے دس سے بارہ فٹ کی بہت بڑی جالی دار ڈش (Dish) کی ضرورت ہو گی۔

ان امور پر تحقیق کرنے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے مکرم نسیم مہدی صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا نے ’پیس ویلیج‘ کے چوہدری نصیر احمد صاحب کی ان معلومات کے حصول کے لیے ڈیوٹی لگائی کہ مطلوبہ ’’C-Band‘‘ سیٹلائٹ کے واسطے مناسب نرخوں پر ڈشوں کی فراہمی کا بندوبست کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اُس زمانے میں سیٹلائٹ سسٹم اتنا عام نہیں تھا اور جو اکا دکا کمپنیاں اس کاروبار میں ملوث تھیں وہ محدود سٹاک کی بنا پر گراں قیمتوں کا مطالبہ کرتی تھیں، اور ایک عام احمدی کے لیے ان کا حصول خاصا دشوار گزار تھا۔ چنانچہ چوہدری نصیر احمد صاحب نے اپنے مسجد ’بیت الاسلام‘ کی تعمیر کے رابطوں سے فائدہ اٹھا کر معلومات حاصل کیں کہ ملٹن اونٹاریو (Milton, Ont) میں ایک پنکھا ساز کمپنی ’ٹی کام کینیڈا (Tecom Canada)‘ چند دیگر کمپنیوں کے اشتراک سے ’الفا سٹار‘ اور ’ایکسپریس ویو‘ نامی ایک نیا سیٹلائٹ چینل شروع کرنے والی ہے۔ اور اس پنکھا ساز فیکٹری کی تیار کردہ ڈشیں بلا شرکتِ غیرے صرف اسی چینل کے لیے استعمال ہوں گی۔ کسی اور کو فروخت نہیں کی جائیں گی تاکہ ان کے مقابل پر کوئی اور چینل میدان میں نہ آنے پائے۔ چوہدری نصیر احمد صاحب نے کمپنی کے مالک کو اعتماد میں لے کر قائل کر لیا کہ ان کے بالمقابل کوئی نیا کمرشل چینل نہیں بنایا جا رہا بلکہ صرف اپنی جماعت کے افراد کے لیے مذہبی پروگرام پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ با ایں ہمہ ٹی کام کینیڈاوالے راضی ہو گئے اور میری لینڈ (امریکہ) میں 1994ء میں ارتھ اسٹیشن کی تنصیب تک جماعت کو سیٹلائٹ ڈشیں مہیا کرتے رہے۔ بعد ازاں یہی کمپنی لمبا عرصہ تک KU-Band کے ڈیجیٹل ریسیور کے لیے تین فٹ قطر کی ڈشیں امریکہ اور کینیڈا میں سپلائی کرتی رہی۔ کچھ عرصہ اس ڈش پر ہمارا سگنل نیویارک سے ربطِ بالائی (اپ لنک Uplink) کے ذریعے آئی-ڈی-بی کمپنی (I.D.B) کی وساطت سے ہر جمعہ کے روز شمالی امریکہ (North America) کی سیٹلائٹ ڈش پر نشر و ترسیل (Transmit) کرنے لگا۔ یہ نظام تھوڑی مدت ہی چلا تھا کہ اس کمپنی نے شرحِ معاوضہ (Rates) اس قدر بڑھا دیا کہ ایک گھنٹے کے ہزار ہا ڈالر ہمیں ادا کرنے پڑتے۔ امامِ وقتؒ کی ان تمام امور پر بڑی گہری نظر تھی۔ آپؒ جانتے تھے کہ اگر ہم مزید پروگراموں کے لیے وقت بڑھانا چاہیں تو یہ اخراجات ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے۔ چنانچہ حضورؒ نے فرمایا کہ کینیڈا میں اپنا ارضی مستقر (Earth Station) قائم کیا جائے۔ جس میں بحرِ اوقیانوس کے پار (Trans-Atlantic) رشین سیٹیلائٹ کے ذریعے سگنل لیں اور اس کو اپنے ارضی مستقر (Earth Station) کے توسط ٹیلی کاسٹ ( Telecast) کریں۔

کینیڈا میں ’’ارضی مستقر‘‘(Earth Station)

سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے اس پر کام کرنا شروع کر دیا مگر اس میدان میں کلیۃً نا تجربہ کاری کی بنا پر ارضی مستقر (Earth Station) کے بارے میں جو معلومات درکار تھیں ان کا حصول ایک دشوار گزار مرحلہ تھا۔ آلات کی خریداری، تنصیب اور نگہداشت ان اناڑی احباب کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مگر آقاؒ کے حکم پر جب ایک کام کا بیڑا اٹھا لیا گیا تو پھر خدا تعالیٰ کی درگاہ سے غائبانہ تائید و نصرت کے سامان بھی پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اس سلسلے میں جب معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ کینیڈا میں صرف دو کمپنیاں اس صنعت کو چلانے پر مامور ہیں اور حکومتِ وقت کی جانب سے صرف انہی کو یہ استحقاق اور اختیار حاصل ہے کہ متعلقہ سروس مہیا کریں۔ ان میں ’’ٹیلی گلوب کینیڈا‘‘ (Teleglobe Canada) کمپنی برِّ اعظم امریکہ میں آنے والے نشریاتی رابطوں کی نگران تھی اور تمام سگنلز کی فراہمی اسی کی صوابدید پر تھی۔ اس کے بالمقابل ’’ٹیلی سیٹ کینیڈا‘‘ (Telesat Canada) اس بات پر مامور تھی کہ ان موصول شدہ سگنلز کو اپنی گاہک کمپنیوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فراہم کرے۔ چنانچہ اسی تقسیمِ کار کے مطابق ’’ٹیلی سیٹ کینیڈا‘‘ (Telesat Canada) سے رجوع کر کے ایک خاکہ تیار کیا گیا اور ارضی مستقر (Earth Station) کی تنصیب، ربطِ بالائی (اپ لنک Uplink) اور ربطِ نشیبی (ڈاؤن لنک Downlink)، عملِ تصویر کشی (Video Processing) اور عملِ تغیر و تبدل (Conversion) کی تفصیلات طے کی گئیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ یورپ سے پال (Pal) سسٹم میں آنے والے سگنلز کو نارتھ امریکہ کی ضروریات کے مطابق این-ٹی-ایس-سی (N.T.S.C) میں تبدیل کیا جا سکے۔ اور اس بات کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ نشریات کا دورانیہ ایک کی بجائے تین گھنٹے روزانہ ہو سکے۔

ناقابلِ برداشت حد تک ریٹ بڑھا کر ایم-ٹی-اے کی نشریات کو سبوتاژ کرنے کی ممکنہ تخریبی کارروائیوں کے پیشِ نظر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سختی سے ہدایت فرمائی ہوئی تھی کہ اس منصوبے کو انتہائی خفیہ رکھا جائے۔ یہاں تک کہ کینیڈا کی طرح امریکہ کی ایک ٹیم کو بھی انہی لائنوں پر کام کرنے کی ہدایت تھی مگر دونوں ٹیمیں اس امر سے قطعی طور پر لا علم تھیں۔ کچھ عرصہ بعد حضورؒ کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ اب اس پراجیکٹ پر صرف کینیڈا میں کام ہو گا ۔ چنانچہ جب بات مزید آگے بڑھی تو ’’ٹیلی سیٹ‘‘ والوں نے اس معاہدے کی پیشکش کی کہ وہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی اجازت دیں گے۔ اس کی تنصیب، عمل درآمد اور چلانے کا کام ہم خود کریں گے۔ ربطِ بالائی (اپ لنک Uplink) اور ربطِ نشیبی (ڈاؤن لنک Downlink) بھی ہماری ذمہ داری ہو گی اور ہم انہیں ہر ماہ حقِّ ملکیت کا معاوضہ (رائلٹی Royalty) ادا کریں گے۔ یہ بات کچھ زیادہ موزوں اور قابلِ عمل دکھائی نہیں دیتی تھی تاہم حضورؒ نے فرمایا کہ فی الحال اسی پر اکتفا کیا جائے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ جو بھی بہتر صورت پیدا فرمائے اس کو اختیار کر لیا جائے گا۔ جب مکرم چوہدری منیر صاحب نے ان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے آخری میٹنگ طے کر لی تو اسی رات ’’ٹیلی سیٹ‘‘ والوں کا فون آیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم آپ کے ساتھ یہ معاہدہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا:
’’مجھے خدشہ تھا کہ کوئی خفیہ ہاتھ ہیں جو ہمارے خلاف کام کر رہے ہیں اور اس منصوبے میں روک ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ اسی میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بہتری کے سامان رکھے ہیں۔ اب آپ ’’ٹیلی سیٹ کینیڈا‘‘ (Telesat Canada) سے الگ ہو کر ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانے کا اپنا کام جاری رکھیں۔ اور کوئی حرج نہیں اگر بارڈر کے اُس پار امریکہ میں یہ کام کر لیا جائے۔ آپ کینیڈا سے والنٹئیرز بھجوا کر ارتھ اسٹیشن کو چلاتے رہیں۔‘‘

’’ارتھ اسٹیشن‘‘ امریکہ لے جانے کی ہدایات

1994ء کے اوائل میں سیّدنا حضرت امیر المؤمنینؒ کی ہدایت پر اس منصوبے کو امریکہ لے جانے کے انتظامات شروع ہو گئے۔ جون کے مہینے تک تمام ڈیزائن تیار کر لیا گیا۔ اور مجوزہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے اخراجات اور لاگت کے لیے نرخ اور بھاؤ (کوٹیشن Quotation) کی وصولی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ قیاسِ اغلب یہی تھا کہ یہ سب کچھ کینیڈا میں بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے۔ بس بارڈر کے پاس ہی کوئی جگہ لے کر ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگا لیا جائے گا۔ حضورؒ کا ارشاد موصول ہوا:
’’منیر کو کہیں ابھی یہ سارا منصوبہ لے کر امریکہ چلا جائے اور وہاں چار پانچ ایکڑ جگہ خرید کر اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دے اور اس کی مدد کے لیے کینیڈا سے رضاکار (Volunteers) بھیجتے رہیں۔ امید ہے امریکہ میں اس کی اجازت مل جائے گی۔‘‘

مکرم چوہدری منیر احمد صاحب جو اُس وقت آٹوا میں مقیم مربّیِ سلسلہ تھے، بتاتے ہیں:
’’دن کے گیارہ بجے مجھے امیر صاحب کینیڈا مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب کا پیغام ملا تو مَیں نے اسی وقت تیاری شروع کر دی اور ایک خادم کو بھی ساتھ لینے کی اجازت چاہی۔ اسی دن چار بجے کے قریب نائب امیر مکرم خلیفہ عبد العزیز صاحب کا فون آیا کہ حضورؒ نے خود فون کر کے دریافت فرمایا ہے کہ کیا منیر امریکہ چلا گیا ہے؟ عرض کیا کہ تیاری کر رہا ہوں، صبح نکلنے کا پروگرام ہے۔ خلیفہ صاحب نے کہا کہ حضورؒ کا ارشاد ہے آج ہی جائیں۔ چنانچہ مَیں نے اسی وقت سارا سامان اور منصوبے کے کاغذات وین میں ڈالے اور ایک نوجوان عزیزم مکرم فرحان بشارت صاحب کو فون کیا:
’حضور کے ارشاد پر ہمیں امریکہ جانا ہے۔ کیا آپ ساتھ دے سکتے ہیں؟ اس کام میں ایک ہفتہ، پندرہ دن یا ایک مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔‘

اطاعتِ امام اور خدمتِ دین کے لیے قربانی

’’یہ نوجوان مانٹریال کے صدر جماعت مکرم پروفیسر بشارت احمد صاحب کے صاحبزادے اور ایک بہت دیندار خاندان کے مخلص خادم ہیں۔ اُن دنوں آٹوا یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ مکرم فرحان بشارت صاحب نے ابتداً ہچکچاہٹ اور معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے یونیورسٹی کے فائنل امتحان ہونے والے ہیں، اس لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔

’’مَیں ابھی کسی اور پروگرام پر سوچ ہی رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں فرحان صاحب کا فون آیا کہ انہوں نے اپنے والدین سے بات کی ہے جنہوں نے کہا ہے کہ ’بیٹا! جس کام کا خلیفۃ المسیح نے ارشاد فرمایا ہے وہ کوئی بہت ہی اہم کام ہے۔ تم اپنے پروفیسر سے بات کر کے امتحان بعد میں دے دینا۔‘ چنانچہ وہ اپنے پروفیسر کو ساری صورتِ حال بتا کر ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔

اسی دوران میں مکرم نسیم مہدی صاحب کا فون آیا کہ آپ کب جارہے ہیں۔ عرض کیاکہ بس نکلنے والا ہوں۔ کہنے لگے کہ آج کل نئے سیلولر فون مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ کسی الیکٹرانک سٹور پر رک کر ایک فون خرید لیں تا کہ رابطہ میں آسانی ہو۔

ہم سیل فون خرید کر امریکی بارڈر کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک فرحان صاحب کہنے لگےکہ ’اوہو! میرے پاس تو پاسپورٹ ہی نہیں۔ مَیں سمجھا تھا کہ وہ میرے بیگ میں ہو گا لیکن وہ تو مانٹریال گھر میں رہ گیا ہے۔‘

چنانچہ ہم بارڈر کی بجائے ان کے گھر مانٹریال کی طرف چل پڑے جہاں ان کے والدین نے ہمارے لیے کھانا تیار کر رکھا تھا۔ فرحان صاحب نے وہاں سے پاسپورٹ لیا اور ہم بڑی تیزی کے ساتھ مانٹریال بارڈر کراس کر کے مغرب سے تھوڑی دیر پہلے امریکہ پہنچ گئے۔ فالحمد للہ۔ اس طرح باوجود بعض مشکلات پیش آنے کے حضورؒ کے حکم کی تعمیل ہو گئی کہ اسی روز امریکہ پہنچا جائے۔‘‘

یہ دونوں مجاہدین تعمیلِ ارشاد میں امریکہ پہنچ تو گئے لیکن انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کدھر جانا ہے؟ اور کیا کرنا ہے؟ سارا علاقہ نیا تھا اور کوئی جان پہچان اور معلومات کے حصول کا ذریعہ دستیاب نہ تھا۔ رات ایک موٹل میں ٹھہر گئے۔ اُن دنوں آج کی طرح انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی لہٰذا ٹیلیفون ڈائریکٹری سے املاک کی خرید و فروخت (Real Estate) کے ایجنٹ تلاش کرنے شروع کر دیے کہ کوئی ایسی جگہ خریدی جائے جہاں ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔ انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ اس سلسلے میں کن کن قانونی مراحل میں سے گزرنا پڑے گا۔ فی الحال یہی ایک امر سامنے تھا کہ کوئی موزوں جگہ مل جائے۔ رات اسی تگ و دو میں صرف ہوئی۔ صبح اٹھے تو حضورؒ کا پیغام ملا کہ نیویارک جا کر معلومات حاصل کریں کہ عارضی اقدامات کے تحت کوئی کمپنی ہمارا ہفتہ وار ایک گھنٹے کا خطبہ جمعہ ٹیلی کاسٹ کرنے کی حامی بھر لے۔ کیونکہ آئی-ڈی-بی (I.D.B) نے نرخ بہت بڑھا دئیے تھے۔ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے مکمل ہونے میں ابھی وقت درکار تھا اس لیے کوئی دوسرا عبوری انتظام ناگزیر ہو گیا تھا۔

’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کا رخ واشنگٹن ڈی سی کی سمت

یہ دونوں دوست فوری طور نیویارک کے لیے عازمِ سفر ہوئے اور دورانِ سفر میں سیل فون کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف کمپنیوں کو فون کرتے رہے۔ ایک کمپنی ’’واٹر فرنٹ کمیونیکیشن‘‘ (Waterfront Communication) سے رابطہ قائم ہو گیا اور اسی سہ پہر اس کے وائس پریذیڈنٹ سے ملاقات طے پا گئی۔ جونہی یہ لوگ ملاقات کے لیے کولمبیا سکوائر پہنچے تو انہیں مکرم نسیم مہدی صاحب کا فون موصول ہوا کہ حضورؓ کا ارشاد آیا ہے کہ پہلے جو کینیڈا کے بارڈر پر ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانے کا خیال تھا اسے ترک کر دیں اور واشنگٹن ڈی سی جا کر جس جگہ ’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ کی تعمیر ہو رہی ہے اس کے احاطے میں اس منصوبے پر عمل درآمد کریں۔ کیونکہ خلیفۃ المسیحؒ کا منشا یہی ہے کہ جب اس سال اکتوبر میں مسجد کا افتتاح ہو تو ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ بھی اپنا کام شروع کر دے۔ اس استفسار پر کہ آج کی میٹنگ کے متعلق کیا حکم ہے تو ارشاد ہواکہ اسے ضرور دیکھ لیں۔ وقتی طور پر عبوری انتظامات کے لیے اس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ چنانچہ اس میٹنگ میں ’’کوٹیشن‘‘ بھجوانے کا وعدہ لے کر فون پر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کو واشنگٹن ڈی سی آنے کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا:
’’مجھے حضورؒ کا ارشاد مل چکا ہے۔ آپ واشنگٹن آ کر رات مسجد فضل میں آرام کریں اور صبح دس بجے میری رہائش گاہ پر آ کر مل لیں۔‘‘

اس ملاقات سے پہلے مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے کافی حد تک ’’ہوم ورک‘‘ اور تیاری مکمل کر چھوڑی تھی۔ بہت ابتدا میں جب انہیں اس مشن کی باگ ڈور سونپی گئی تو انہوں نے آٹوا میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کی مختلف کمپنیوں سے رابطہ قائم کیا اور ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے ڈیزائن، ڈرائنگ اور نرخ کے لیے آٹوا کے صدر جماعت مکرم اشرف سیال صاحب کے ساتھ مل کر دواڑھائی سو کے قریب کمپنیوں کو خطوط بھجوائے۔ ان کے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے تک پانچ کمپنیوں نے تفصیلی طور پر جواب دیا۔ ان میں سے ’’اپلائیڈ ٹیلی کمیونیکیشنز‘‘ (Applied Telecommunications) نامی فورٹ ورتھ (ٹیکسَس) کی ایک کمپنی تھی۔ ابتداً یہی خیال تھا کہ یہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کینیڈا کے بارڈر کے پاس لگایا جائے گا۔ بعد ازاں جب انہیں بتایا گیا کہ اب ہمارا ارادہ واشنگٹن ڈی-سی کے نواح میں اپنی مسجد کے احاطے میں ارتھ اسٹیشن لگانے کا ہے تو انہوں نے وہاں آ کر جائزہ لینے اور اپنی پیشکش دینے کا وعدہ کر لیا۔

مورخہ 7؍جون 1994ء کی رات کو یہ دو افراد کا مختصر قافلہ مسجد فضل واشنگٹن ڈی سی میں مکرم مولانا ظفر سرور صاحب مبلغ سلسلہ کے ہاں قیام پذیر ہوا اور اگلے روز محترم امیر صاحب کی ملاقات سے پہلے پہلے علیٰ الصبح انہوں نے دو بہت اہم کام کیے۔ ایک تو امریکہ میں ریگولیٹری اتھارٹی (FCC) جس نے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانے کی اجازت دینی تھی، کے دفتر جا کر معلومات حاصل کیں کہ ہم ایک غیر منافع بخش مذہبی ادارہ (Nonprofit Religious Organization) ہیں اور اپنی سلور سپرنگ (میری لینڈ) مسجد میں ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگا کر اپنے پروگراموں کی ٹرانسمیشن کرنا چاہتے ہیں۔ کاؤنٹر پر موجود افسر نے یہ بات بڑی توجہ اور ہمدردی سے سنی اور کہا کہ کوئی بھی لگا سکتا ہے، ہمارے درخواست فارم کو فیس کے ساتھ جمع کروا دیں۔ ہم ساٹھ دن کے اندر اندر اس پر فیصلہ کر دیں گے۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ زبانی تو بتا رہے ہیں ہمیں کوئی تحریری ثبوت یا ضمانت بھی چاہیے تو انہوں نے اپنے بزنس کارڈ کی پشت پر دستخط کر کے تاریخ ڈال دی کہ جب آپ لوگ آئیں گے تو یہی بات ہو گی۔

یہاں سے مکرم ظفر احمد سرور صاحب مربّی سلسلہ سمیت یہ تینوں حضرات مسجد سے متعلقہ کاؤنٹی (منٹگمری کاؤنٹی) کے زوننگ آفس میں گئے۔ وہاں جس افسر سے بات ہوئی اسے احمدیہ مسجد کی تعمیر کا علم تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا مسجد کے احاطے میں ’’اپ لنک‘‘ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگایا جا سکتا ہے تو اس نے بتایا کہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی اجازت اور لائیسنس تو ایف-سی-سی (FCC) والوں کا کام ہے۔ جہاں تک زوننگ کا تعلق ہے کسی بھی مذہبی ادارے کو اپنے احاطے میں ”ارتھ اسٹیشن“ لگانے کی اجازت ہے۔ جب اسے ایف-سی-سی (FCC) افسر کا اجازت دینے والا کارڈ دکھایا گیا تو اس نے بھی اپنے بزنس کارڈ پر دستخط کر کے دے دئیے کہ بوقتِ ضرورت اس سے رابطہ قائم کر لیا جائے۔

مبلغ ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ (Technocrat) بن گئے

ان سارے مراحل کے مکمل ہو نے پر مکرم چوہدری منیر احمد صاحب مع اپنے ساتھیوں کے طے شدہ وقت کے مطابق پوٹامک (Potamac) میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئے تو آپ نے ازراہِ شفقت و تفنّن مکرم چوہدری صاحب سے فرمایا:
’’آپ کو ہم نے مبلغ کے طور پر بھیجا تھا۔ یہ سب کچھ کہاں سے سیکھ لیا ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؒ کی شفقت اور دعائیں ہیں۔ ورنہ مجھ میں تو کوئی اہلیت نہیں تھی۔‘‘ اس پر حضرت میاں صاحب مرحوم فرمانے لگے:
’’چند ماہ قبل جب حضورؒ کا ارشاد آیا تھا تو امریکہ کے صاحبِ علم اور صاحبِ رائے افراد کی ایک کمیٹی بنا دی گئی تھی جس نے یہی رپورٹ دی تھی کہ یہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانا بہت مشکل کام ہے اس کے لیے علمی و عملی استعداد (Know-How) اور تجربے کی ضرورت ہے جس کا ہمارے پاس فقدان ہے۔ ہمیں اس کے لیے باہر سے ماہرین اور مشیر اُجرت پر رکھنے پڑیں گے۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک کوئی خبر نہیں ملی۔ اب جب پرائیویٹ سیکریٹری صاحب سے آپ کی آمد کی اطلاع ملی ہے تو مَیں نے کمیٹی کے ممبرز کو کہہ دیا ہے کہ آج شام کو آپ سے مل کر بات کر لیں کہ آپ کس طرح ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانا چاہتے ہیں۔‘‘

بعد ازاں حضرت میاں صاحب کے استفسار پر کہ وہ منصوبہ ہے کیا؟ مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے ڈائننگ روم کی میز پر اس ڈیزائن کی تمام ڈرائنگ کے کاغذات پھیلا دئیے۔ محترم امیر صاحب نے کھڑے ہو کر سارے ڈاکومنٹس دیکھے اور فرمایا:
’’آپ لوگوں نے تو بہت سارا کام کیا ہوا ہے۔ شاید کمیٹی والوں کو اتنا علم نہ ہو۔تاہم آپ ان سے مل لیں۔ اور پراپرٹی کا سروے کر لیں۔ جو بھی مناسب جگہ چنیں وہ آپ کو مہیا کر دی جائے گی۔ بہرحال رابطہ اور نگرانی آپ کو ہی کرنی ہو گی۔‘‘

…… اس مرحلے کی کامیابی کے بعد اگلے روز ’’مسجدبیت الرحمٰن‘‘ کی جگہ کے معائنہ کے ساتھ ساتھ ٹیکساس کی کمپنی ’’اپلائیڈٹیلی کمیونیکیشن‘‘ (Applied Telecommunication) سے رابطہ قائم کیا گیا کہ ایف-سی-سی (FCC) کی اجازت اور زوننگ کے مراحل اصولی طور پر طے ہو گئے ہیں اس لیے وہ یہاں آ کر سروے کے بعد اپنی پیشکش دے سکتے ہیں۔ کمپنی کا پریذیڈنٹ باب ایبی (Bob Eby) اگلے ہی روز بذریعہ ہوائی جہاز واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر دوپہر کے وقت سیدھا مسجد کی جگہ پر آ گیا۔ محترم امیر صاحب نے ارشاد فرمایا تھا کہ مسجد کے احاطے میں جو سو سالہ پرانا مکان ہے اس کا بھی جائزہ لے لیں۔ اس طرح براہِ راست برِگز چے نی روڈ (Briggs Chaney Road) سے اس اسٹیشن میں داخلے کی بھی بہتر صورت نکل آئے گی۔ اور فرمایا کہ یہ مکان ہم دوسرے مبلغ کے لیے تیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اگر حضرت صاحب کے مقاصد کے لیے استعمال ہو سکے تو بہت بہتر ہے۔ اس طرح حضرت میاں صاحب مرحوم نے پراجیکٹ کے ہر مرحلہ پر مدد اور رہنمائی فرما کر نہایت شفقت اور مہربانی کا سلوک فرمایا۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔ فالحمد للہ۔

احاطہ مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ میں سروے

باب ایبی (Bob Eby) کی آمد پر سارے احاطے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے کر سروے کیا گیا۔ مسجد کا سارا احاطہ اگرچہ کافی کھلا تھا مگر جگہ کی بلندی اور ایک کونے میں ہونے کی وجہ سے یہی مکان سب سے زیادہ موزوں دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ یہی فیصلہ ہؤا کہ اسی جگہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگایا جائے، اس منصوبے کے مطابق کہ ساز و سامان اور مشینری مکان کے اندر ہو اور دونوں ربطِ بالائی (اپ لنک Uplink) اور ربطِ نشیبی (ڈاؤن لنک Downlink) ڈشیں باہر نصب کی جائیں۔ لندن سے سگنل لینے کی خاطر ’’اپ لنک‘‘ کے لیے ۷.۲ میٹر ڈش درکار تھی۔ اس وقت ہر قسم کی ٹرانسمیشن تغیّر پذیر (Analog) سسٹم میں تھی۔ ابھی اصبعی/عددی (Digital) نظام بہت عام نہیں تھا۔ سگنل وصول کرنے کے لیے اس وقت جو سگنل مہیا تھا وہ بمشکل واشنگٹن ڈی سی کوسٹ کو چھوتا (Touch) تھا۔ اس کے لیے ایک علیحدہ 7.1 میٹر کی جالی دار ڈش لگانے کی ضرورت تھی۔ اس ابتدائی منصوبہ بندی کے دوران ہی میں یہ صورتحال سامنے آئی کہ اگر ’’سی بینڈ‘‘ (C Band) کی بجائے ’’کے یو بینڈ‘‘ (Ku Band) ہو تو لوگوں کو ایم ٹی اے (MTA) کا سگنل وصول کرنے میں آسانی ہو گی، اور بہت بڑے بڑے ڈش نہیں لگانے پڑیں گے۔ ابتداً چونکہ عارضی انتظام ’’سی بینڈ‘‘ (C Band) پر تھا اور بہت سارے احبابِ جماعت دس سے بارہ فٹ کے بڑے بڑے ڈش انٹینا لگوا چکے تھے اس لیے جب نئے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب کے ساتھ نیا بینڈ بدلا گیا تو اس کے لیے چھوٹے ڈش انٹینا درکار تھے۔ حضور انورؒ کو جب یہ صورتحال بتائی گئی تو آپ نے فرمایا:
’’میری بھی یہی رائے ہے کہ ’’C‘‘ کی بجائے ’’Ku‘‘ بینڈ استعمال کریں تا کہ لوگوں کو چھوٹے ڈش انٹینا کی ضرورت پیش آئے۔ معلوم ہوتا ہے آپ لوگوں نے میرا ذہن پڑھ لیا ہے۔ مَیں اس بارے میں ہدایت بھجوا چکا ہوں۔‘‘
مرکز سے بعد ازاں حضورِ انور کی یہ ہدایت ہمیں پہنچ گئی۔ بینڈ کی اس تبدیلی کے ساتھ سگنل بھجوانے کے لیے زیادہ طاقتور انٹینا کی ضرورت تھی جو ۳۶ میگا ہرٹز (MHz) کے 7.2 میٹر ڈش انٹینا کے ساتھ پوری کی جا سکتی تھی۔

…… گیارہ جون ۱۹۹۴ ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ساری تفصیلات بتانے کے بعد چوہدری منیر احمد صاحب اور فرحان بشارت صاحب اجازت لے کر واپس کینیڈا کی طرف روانہ ہو گئے۔ جون کے وسط میں سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الرابعؒ کینیڈا کے دورے پر تشریف لا رہے تھے۔ ہدایت یہی تھی کہ ٹورانٹو میں حضورؒ کو اس پراجیکٹ کی تفصیل پیش کر دی جائے۔ چنانچہ اسی روز یہ دونوں حضرات آٹوا پہنچے اور فرحان کو وہاں چھوڑنے کے بعد چوہدری صاحب سارے منصوبے کے ساتھ ٹورانٹو پہنچ گئے اور بذریعہ فیکس ’’اپلائیڈ ٹیلی کمیونیکیشنز‘‘ (Applied Telecommunications) سے معاہدے کی تفصیلات اور ’’کوٹیشن‘‘ منگوا لی گئیں۔ حضورؒ کی آمد پر جب یہ ساری تفصیلات پیش کی گئیں تو آپؒ نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’اب اس میں دیر نہ کریں، وقت کم ہے۔ اور اس کے لائیسنس ملنے اور تنصیب میں جو وقت لگے گا وہ کسی قسم کی تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’اگر مر گئے تو منصوبہ کون مکمل کرے گا؟‘‘

خدا تعالیٰ کا کرنا یہ ہؤا کہ وسط جون 1994 کے انہی دنوں میں ایک روز رات کے وقت چوہدری منیر احمد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ ٹورانٹو ہسپتال ایمرجنسی میں پہنچ گئے۔ حضورؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو آپؒ نے فرمایا:
’’آپ کو کچھ نہیں ہوتا۔ فکر نہ کریں، آپ کو یہ کام مکمل کرنا ہے۔‘‘

چند دن بعد باب ایبی (Bob Eby) سارے منصوبے کے کاغذات لے کر ٹورانٹو پہنچ گیا۔ جب اسے چوہدری صاحب کی علالت کی اطلاع ملی تو سخت پریشان ہوا۔ اسے بہت فکر لاحق تھی کہ اتنے بڑے منصوبے پر ان کے دستخط ہیں۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ ہسپتال پہنچ کر جب ڈاکٹروں اور نرسوں نے اسے بتایا کہ منیر کی حالت بہت تشویشناک (Critical) ہے اور جلد صحت مند ہونے یا بچنے کی امید کم ہے، تو چوہدری صاحب سے کہنے لگا کہ اگر آپ مر گئے تو اس پراجیکٹ کا کیا بنے گا۔ فرحان تو اپنے کالج جا چکا ہے۔ چوہدری منیر صاحب نے مسکراتے ہوئے بڑے حوصلے اور تحمل سے کہا:
’’تم فکر نہ کرو۔ ہمارے امام خلیفۃ المسیح نے کہہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے ساری جماعت ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ حضور کے ارشاد کے مطابق ان شاء اللہ مَیں ہی لگاؤں گا۔ اس لیے تم ہسپتال میں میری یہ حالت دیکھ کر فکر مند نہ ہوکیونکہ میرے خلیفہ نے میرے لیے دعا کر دی ہے۔ یہ منصوبہ ضرور پایۂ ِتکمیل کو پہنچے گا۔‘‘

باب اس بات پر بڑا حیران تھا کہ ہمیں دعا کی قبولیت پر کس قدر اعتماد ہے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ ہمارا کیا تعلق ہے؟ بعد ازاں وہ مدتوں کانفرنسز میں اور اپنے حلقۂ احباب میں اپنے اس حیرت انگیز تجربے کو امامِ جماعت کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کے طور پر بتاتا رہا۔ بہر کیف حضورؒ کی اجازت کے ساتھ، امیر صاحب کی ہدایت پر چوہدری منیر صاحب نے وہیں ہسپتال میں معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ اور یہ طے پایا کہ سارے آلات اور مشینری آرڈر کرنے کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں دوبارہ ملاقات ہو گی۔ حضورؒ کے ٹورانٹو سے رخصت ہونے پر چوہدری منیر احمد صاحب بھی آٹوا واپس آ گئے جہاں جولائی کے وسط میں انہیں دوبارہ دل کی تکلیف شروع ہو گئی۔ اس دوران میں ’’اپلائیڈ ٹیلی کمیونیکیشنز‘‘ (Applied Telecommunications) والے سب ساز و سامان لے کر مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کے احاطے میں پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ چوہدری صاحب ہسپتال ہی سے فون پر رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ اس دفعہ پھر فرحان بشارت صاحب نے اپنے بے پناہ خلوص اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی کی پڑھائی چھوڑ کر واشنگٹن ڈی سی میں اس پراجیکٹ کی نگرانی کے لیے پہنچ گئے۔ وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے فون پر ہدایات لیتے اور اس کام کو آگے بڑھاتے رہے۔ (اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے، آمین)۔ چوہدری صاحب بھی ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی واشنگٹن ڈی سی میں مقامِ تنصیب پر پہنچ گئے۔ اور یوں ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ لگانے کا کام تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔

کرشمۂ خداوندی— شدید ترین معاند اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرشتۂ رحمت ثابت ہؤا

ستمبر ۱۹۹۴ء کے آخر تک تمام مشینری تیار تھی۔ اور 7.2 میٹر والے ڈش انٹینا کے لیے اس پرانے گھر کے ملحقہ احاطے میں بنیادیں کھودی گئیں اور ڈیزائن اور ڈرائنگ کی مطلوبہ ضروریات (Requirements) کے مطابق فاؤنڈیشن تیار کرنے کا کام مکمل ہو گیا۔ جب کاؤنٹی کا انسپکٹر معائنہ کے لیے آیا تو اس نے اس سارے کام کو منظور کرنے کی بجائے مسترد کر دیا۔ اس کے اس فیصلے کو کاؤنٹی کی بالا اتھارٹی کے پاس چیلنج کیا گیا تو انہوں نے ایک افریقن امریکن انسپکٹر کو معائنے کے لیے بھیج دیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی سخت اور اکھڑ مزاج ہے۔ اس نے آتے ہی نہایت سخت رویے کے ساتھ اس فاؤنڈیشن کی جانچ پڑتال شروع کر دی۔ یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اگر کاؤنٹی والے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کا انٹینا لگانے کی اجازت نہ دیتے یا تاخیر کرتے تو ٹرانسمیشن حضور کی آمد تک شروع نہیں ہو سکتی تھی، گویا سارا منصوبہ ہی دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ یہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ بعض مخالف عناصر کے زیرِ اثر اس پراجیکٹ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔

جب یہ نیا انسپکٹر موقع پر آیا تو مسجد ”بیت الرحمٰن“ قریباً مکمل ہو چکی تھی اور اکتوبر کا پہلا ہفتہ شروع ہو چکا تھا۔ دن بہت کم رہ گئے تھے۔ حضورؒ کی آمد سے پہلے پہلے تمام تنصیبات مکمل ہو کر ٹرانسمیشن شروع ہو جانی چاہیے تھی۔ سخت مخالفانہ رویّے کے ساتھ معائنہ کرتے ہوئے اچانک اس انسپکٹر نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے۔ جب اسے بتایا گیا کہ اس کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے تو کہنے لگا:

’’احمدیہ احمدیہ! I know Ahmadiyya‘‘

جب اس سے پوچھا گیا کہ تم کیسے جانتے ہو تو کہنے لگا: ’’مَیں افریقہ سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے والدین مخلص احمدی ہیں۔ مَیں احمدیہ سکول میں پڑھا ہؤا ہوں اور مَیں بھی کبھی احمدی تھا۔‘‘ پھر ہنس کر کہنے لگا: ’’شاید اب بھی دل سے احمدی ہی ہوں، لیکن لمبا عرصہ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے میرا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رہا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہاں پر بھی احمدی موجود ہیں۔‘‘ ساتھ ہی کہنے لگا:
’’مَیں یہاں انسپکشن کرنے آیا ہوں۔ کاؤنٹی والے آپ کے منصوبے کو روکنا چاہتے ہیں مگر اب میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔ دیکھیں! آج جمعہ ہے۔ مَیں منظوری کے اس نوٹ کے ساتھ آپ لوگوں کو اجازت دیتا ہوں۔ ویک اینڈ پر نہیں آؤں گا۔ ان دو ، تین دنوں میں آپ کنکریٹ ڈال کر فاؤنڈیشن مکمل کر دیں اور اس کام کی تصویریں بنا کر محفوظ کر لیں۔ مَیں پیر کے روز آ کر اس منظوری کو فائنل کر دوں گا۔ اس طرح کاؤنٹی کے جو لوگ آپ کا منصوبہ روکنا چاہتے ہیں اُن کے عزائم ناکام ہو جائیں گے۔‘‘

سبحان اللہ! اس طرح خدا تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ مخالفت کرنے والوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انہیں اپنے ہی ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ایک سخت اور مخالفانہ عزائم لے کر آنے والے شخص کو ربِّ قدیر نے ہمارے لیے فرشتۂ رحمت بنا کر ایک غیر معمولی تائیدی اعجاز کا نشان بنا دیا۔ اور یوں امامِ وقت کا یہ ارشاد بھی کمال سچائی سے پورا ہوا کہ: ’’اللہ ہمارے ساتھ، ہمارے ساتھ ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

پیر کی صبح وہ انسپکٹر دوبارہ آیا اور بُنیادوں میں سریا، سیمنٹ اور اس کی مضبوطی کے دوسرے میٹیریل کی تصویریں دیکھ کر کہنے لگا کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ تو گیا تھا کہ یہاں سارا کام قواعد و ضوابط کے مطابق ہو رہا ہے۔ لیکن ان تصویروں کے ذریعے اس ثبوت کو محفوظ کرنا ضروری تھا۔ اب کاؤنٹی والے کوئی روک نہیں ڈال سکتے؛ کیونکہ اصل چیز بنیاد تھی۔ ڈش کی منظوری ’’ایف-سی-سی‘‘ (FCC) کا کام ہے۔ ساتھ ہی کہنے لگا:
’’اب آپ لوگ بھی مجھ پر ایک مہربانی کریں۔ جب خلیفہ صاحب آئیں تو میری ان سے ملاقات کرا دیں اور ان کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانے کا موقع دیں۔ میرے والدین پچھلے بیس سال سے مجھے کوستے رہتے ہیں کہ مَیں جماعت سے کیوں تعلق نہیں رکھتا۔ اب مجھے موقع ملا ہے کہ خلیفہ سے برکت لوں اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوا کر والدین کو بھیجوں۔‘‘

اس واقعے کی خبر جب سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو دی گئی تو آپؒ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس طرح غیب سے سامان پیدا فرماتا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً یہ خوشخبری دی گئی تھی: ’ینصرک رجال نوحی الیہم من السماء‘ اور یہ اس کی زندہ مثال ہے کہ غیب سے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا شخص بھیج دیا جو باوجود اس کے کہ مخالفانہ ذہن لے کر آیا تھا، جب موقع پر پہنچا تو خدا تعالیٰ نے اس کی کایا پلٹ دی اور وہ ایک فرشتہ ثابت ہوا۔‘‘

ڈش انٹینا کی بنیادوں میں بڑی احتیاط سے ایسا مسالا اور مواد ڈالا گیا تھا جس کے نتیجے میں کنکریٹ جلد خشک ہو کر مضبوطی پکڑ لے اور ڈش کا بوجھ سہارنے کے قابل ہو جائے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں جب بڑے بڑے ڈبوں سے نکال کر ڈش کو نصب کیا جانے لگا تو وہ اپنی غیر معمولی جسامت کی بنا پر ارد گرد کے ہمسائیوں اور راہ گیروں کی توجہ مبذول کرانے کا باعث بن گئی۔ بعض لوگ استفسار کی بنا پر آ کر پوچھ لیتے تو ان کی تسلی کرا دی جاتی اور بعض کاؤنٹی آفس میں شکایت کرتے تو انہیں یہی جواب ملتا کہ مسجد والوں کو ڈش انٹینا لگانے کی اجازت ہے اور قانونی طور پر اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔

اجازت و تعمیر کے لیے معجزانہ تائید و نصرت کے سامان

’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب کا کام قریباً مکمل ہو چکا تھا مگر ابھی تک ’’ایف-سی-سی‘‘ (FCC) کی طرف سے لائیسنس کے اجرا اور منظوری کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ جس کی وجہ سے بہت فکر مندی تھی۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مغربی کینیڈا کے دورے پر تھے۔ آپؒ کو ۷ اکتوبر ۱۹۹۴ کا خطبہ وَین کُووَر سے ارشاد فرمانا تھا اور اگلے جمعہ کو مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ (میری لینڈ) اور ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ سے خطبے کا پروگرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ اسی روز ’’ایف-سی-سی‘‘ (FCC) کی طرف سے درخواست کی منظوری اور ریڈیو اسٹیشن کے اجرا کے لائیسنس کی اطلاع مل گئی۔ حضورؒ اس وقت خطبہ جمعہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے کہ پرائیویٹ سیکریٹری صاحب نے اطلاع دی۔ آپؒ نے کھڑے ہو کر فرمایا:
’’الحمدللہ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے ایک جمعہ پہلے یہ خوشخبری دے دی ہے۔ اب مَیں تسلی سے ہوں کہ ان شاء اللہ جب اگلے ہفتے واشنگٹن میں خطبہ جمعہ دوں گا تو ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ تیار ہو چکا ہو گا۔ اور اپنے ارتھ اسٹیشن سے ہم خطبہ اور مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کا افتتاح نشر کریں گے۔ اِن شَاءَ اللہ۔‘‘

وینکوور میں خطبہ دینے کے بعد حضورؒ غالباً کیلگیری کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔ اس خوشی کی خبر سے آپؒ کے چہرے پر شکر و حمد اور مسرت کے آثار نمایاں تھے۔ رستے میں ایک جگہ آپؒ کا پیغام ملا کہ قافلہ رک جائے۔ حضورؒ اپنی گاڑی سے اترے اور ٹیلیفون بوتھ کے پاس چلے گئے۔ اور مکرم نسیم مہدی صاحب کو کہا کہ یہاں سے صاحبزادہ میاں مظفر احمد صاحب کو فون ملائیں۔ فون ملنے پر حضورؒ نے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے لائیسنس ملنے پر امیر صاحب امریکہ کو مبارکباد دی اور فرمایا:
’’کینیڈا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ کم از کم ایک ہزار ڈش انٹینا کینیڈا میں لگائے جائیں گے۔ اس لیے امریکہ کی جماعت بھی اگر دو ہزار نہیں تو کم از کم ایک ہزار انٹینا ضرور لگائیں۔‘‘ اس پر حضرت ایم ایم احمد صاحب نے عرض کی کہ حضور، ان شاءاللہ ہم ضرور حضور کے ارشاد کے مطابق ڈشیں لگائیں گے۔

سیّدنا حضرت امام جماعت اسی ہفتے امریکہ پہنچ گئے اور جمعہ سے ایک دن پہلے تیسرے پہر مسجد بیت الرحمٰن کا معائنہ کرنے کے بعد ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ تشریف لائے۔ اس وقت ’’اپلائیڈٹیلی کمیونیکیشنز‘‘ (Applied Telecommunications) کے انجنیئرز، باب ایبی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ حضورؒ نے ان سے کچھ معلومات طلب کیں اور بعض ہدایات سے بھی نوازا اور پھر چوہدری منیر احمد صاحب سے فرمایا:
’’مَیں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے اور اس کو مکمل کر کے چلائیں گے بھی۔‘‘ نیز فرمایا: ’’یہ جو عارضی احاطہ بندی کی گئی ہے، یہ کافی نہیں ہے۔ یہاں پر خار دار تاروں کی اونچی باڑ لگوائیں اور اس کی حفاظت کا پوری طرح انتظام کریں۔‘‘

(باقی اِن شاء اللہ آئندہ بروز ہفتہ)

(امتیاز احمد راجیکی۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2021