• 27 اپریل, 2024

مہمانوں کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت سید حبیب اللہ صاحب حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اطلاع دی تو حضورؑ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پرمیں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے۔ اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔

(ملفوظات جلد5صفحہ 163۔ بدر 14 مارچ 1907)

تو جیسا کہ میں نے پہلے کہاکہ مہمانوں کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ یہاں بھی یہی سبق ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمیں دیا ہے کہ باوجود تکلیف کے اور شدید تکلیف کے، مہمان کے لئے آپؑ گھر سے باہر تشریف لے آئے نہیں تو ایسی حالت نہیں تھی کہ ملتے۔ خود اظہار فرمایا، اس لئے ہمیشہ اس سنہری اصول کو یاد رکھنا چاہئے کہ گھر آئے مہمان سے ضرور مل لینا چاہئے۔ جیسا کہ پہلے میں نے کہا کسی قسم کی ٹال مٹول نہ ہو یا یہ کہ گھر آئے اور بے رخی سے مل کر گھر کا دروازہ بند کر لیں۔ کیونکہ یہاں کے بعض لوگوں کو اندازہ نہیں، پرانے رہنے والے ہیں کہ پاکستان وغیرہ ملکوں سے جو لوگ آتے ہیں کس طرح پیسہ پیسہ جوڑ کے کرایہ بناتے ہیں اور پھر صرف اس لئے کہ یہاں جلسہ اٹینڈ (attend) کریں گے کیونکہ اس جلسے کی ایک مرکزی حیثیت ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے بھی ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ آپ سب تو یہاں رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ بیت الفکر میں ایک دفعہ لیٹے ہوئے تھے ایک بیان کرنے والے نے بیان کیا اور کہتے ہیں کہ میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید ملا وامل نے دستک دی۔ میں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا۔ لیکن حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کے مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ جلد اول صفحہ 160)

تودیکھیں جہاں مریدی کا سوال ہے، اس روایت میں وہاں مرید کی خواہش کے مطابق پاؤں دبانے کی اجازت تو دے دی لیکن جہاں مہمان کے حق کا سوال ہے تو برداشت نہ کیا اور پہلے تیزی سے اٹھ کے خود دروازہ کھول دیا کہ آپ مہمان ہیں۔ آج کل کے پِیروں کی طرح یہ نہیں کہ تم پاؤں دبا رہے ہو اس لئے جاؤ دروازہ کھولو کیونکہ تمہارا مقام ہی یہی ہے۔ تو یہ نمونے ہیں، دیکھیں کس باریکی سے آپ نے ان کا خیال رکھا تاکہ یہ مثالیں جماعت کی ترقی کے لئے قائم ہو جائیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر پنڈی میں دکان کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا۔ تھا رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا تو کافی رات گزر گئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا او ر دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں حضور ؑ کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضورؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا کہ آپ کو دے آؤں آپ یہ دودھ پی لیں، آپ کو شاید دودھ کی عادت ہو گی۔ اس لئے دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں۔ سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ سبحان اللہ! کیا اخلاق ہیں۔ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پا رہا ہے اور تکلیف اٹھا رہا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ سوم بحوالہ سیرت طیّبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ، چار تقریریں صفحہ ۲۵۱، ۲۵۲)

تو دیکھیں مہمان نوازی کے نظارے، خدا کے مسیح کی مہمان نوازی کے۔ اس واقعہ کو تصور میں لائیں تو ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود رات بہت دیر گئے، ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑی ہوئی، اندھیرا بہت زیادہ تھا اور وہاں کے رستے بھی ایسے تھے، اور دوسرے ہاتھ میں دودھ کا گلاس مہمان کے لئے لے کے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مہمانوں کی ضرورت کے خیال کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مہمان نے آکے کہا کہ میرے پاس بستر نہیں ہے تو حضرت صاحب ؑ نے حافظ حامد علی صاحبؓ کو کہا کہ اس کو لحاف دے دیں حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا (اس کے حلیے سے لگ رہا ہو گا کہ لے جانے والا ہے) تو حضور نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ اس کے سر ہو گا۔ اور اگر بغیرلحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہو گا۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ جلد اوّل صفحہ 130مولفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ)

مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کامہینہ تھا۔ مکان نیا نیا بنا تھا۔ دوپہر کے وقت وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی۔ میں وہاں لیٹ گیا۔ تو حضورؑ ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپ نے بڑی محبت سے پوچھا کہ آپ کیوں اٹھے۔ میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور میں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکرا کے فرمایا کہ میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مصنفہ حضرت مولانا عبدا لکریم صاحب صفحہ 41)

حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں چند معزز مہمان آ کر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر مرتبہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑتا۔ تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی معزز آ جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ جگہ دے کے خود پیچھے ہٹ جاتے تھے حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر کہتے ہیں کہ اتنے میں کھانا آیا تو حضورؑ نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا :آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ یہ فرما کر حضورؑ مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک ہی پیالے میں کھانا کھایا۔ اور اس وقت میاں نظام دین پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود ؑ کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔

(سیرت طیّبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 188)

(خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021