• 27 اپریل, 2024

ایئر بیگ (Air Bag) کی دلچسپ تاریخ

ائیر بیگ ایسا سیفٹی فیچر جو ہم اپنی گاڑی کے لیے بہت ضروری خیال کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ کبھی بھی اس کے استعمال کی نوبت نہ آئے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی گاڑی کسی چیز سے ٹکرائے اور ائیر بیگ پھول جائیں۔ گاڑی میں ایئر بیگز کا ہونا یقینا تحفظ کا احساس دلاتا ہے۔ ائیر بیگ اپنی موجودہ حالت میں پہنچے سے پہلے بہت سے تجربات سے گزرے ہیں۔ کئی ایجادات کی طرح ایئر بیگ کا خیال بھی بڑا دلچسپ اور حادثاتی ہے۔ 1952 میں ایک امریکن انڈسٹریئل انجینئر ’’ان ہیڈرک‘‘ اپنی اہلیہ اور سات سالہ بیٹی کے ساتھ 1948 ماڈل کریسلر کار میں جا رہے تھے۔ نیوپورٹ سے تین میل آگے انہوں نے ایک ہرن کو روڈ کراس کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کی توجہ ہرن پر تھی جس کی وجہ سے روڈ پر پڑی چٹان انہیں دور سے نظر نہ آئی۔ ہیڈرک نے پوری طاقت سے بریک لگائی جس کے نتیجے میں گاڑی روڈ سے اتر کے کھائی میں جا گری۔جیسے ہی گاڑی ٹکرائی ہیڈرک اور ان کی اہلیہ نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے اپنے بازؤں سے اس کے آگے ڈھال بنائی۔ خوش قسمتی سے وہ سب محفوظ رہے، لیکن ہیڈرک مسلسل اس حادثے کے بارے میں سوچتا رہا کہ اس طرح اچانک رکنے کی صورت میں گاڑی میں حفاظت کے لیے کوئی حفاظتی شیلڈ ضرور ہونی چاہیے۔ اس نے ’’safety cushion assembly for automotive’ vehicles‘ کے نام سے مختلف قسم کے اسکیچ بنانے شروع کیے اور ایک حمتی ڈیزائن کو 1952 میں رجسٹر کروا نے کی درخواست دے دی۔ ہیڈرک کے بنائے ہوئے ڈیزائن میں کمپریسڈ ہوا سے بھرا ٹینک تہ کیے ہوئے بیگ کے ساتھ منسلک تھا جنہیں ڈرائیور کے لیے اسٹیرنگ ویل میں اور فرنٹ پسنجر کے لیے گلوو کمپارٹمنٹ میں اور ڈیش بورڈ کے درمیان میں دیا گیا تھا۔پچھلے مسافروں کے لیے اگلی دونوں نشست کی پشت پر ایئر بیگ بنائے گئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک سینسر لگایا تھا جو رفتار میں اچانک کمی کو محسوس کرکے خودکار طریقے سے کمپریسڈہوا کے ٹینک کا والو کھول دیتا،ایئر بیگ پسنجرز کے سامنے ہواسے بھر جاتے۔ہیڈرک کو پیٹنٹ حاصل کرنے میں ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔بدقسمتی سے اس کے پاس اپنی اس ایجاد پر مزید کام کرنے کے لیے سرمائیہ ہی نہیں تھا۔چنانچہ ہیڈرک نے بڑی کار کمپنیوں کو اپنے ڈیزائن دکھائے لیکن بد قسمتی سے ان کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل نہیں ملا۔ اسی دوران جرمنی کے ایک موجد والٹر لنڈرر نے ہیڈرک کے امیریکن پیٹنٹ حاصل کرنے کے فقط تین ماہ بعد ہی بالکل اسی طرح کے ڈیزائن کا پیٹنٹ حاصل کر لیا۔ والٹر کے ڈیزائن میں فرق صرف یہ تھا کہ اس میں ایئر بیگ گاڑی کے بمپر سے کوئی چیز ٹکرانے سے کھلتے تھے، نیز ڈرائیور انہیں بوقت ضرور ت خود بھی کھول سکتا تھا۔ 1960 کے عشرے میں اس پر مسلسل تحقیق اور تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ لنڈرر کے بنائے ڈیزائن میں ائیر بیگ اتنی جلدی نہیں کھلتے جتنا حفاظت کے لیے ضروری ہے۔چنانچہ لنڈرر کا ڈیزائن بھی عملاً ناکارہ قرار دے دیا گیا۔ 1950 کے عشرے میں دوبڑی کار ساز کمپنیوں فورڈ اور جنرل موٹرز نے اس سسٹم پر تجربات کیے اورنتیجہ نکالا کہ ٹکر ہونے کے 40 ملی سیکنڈ یا اس سے کم وقت میں اگر کوئی سینسر ٹکراؤ کو سینس کرکے ایئر بیگ نہیں کھولتا تو اس سسٹم کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔لنڈرر اور ہیڈرک دونوں کے ڈیئزائن اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

1967 میں ایک میکینکل انجینئر ایلن بریڈ نے تیز سینسر کے ساتھ ائیر بیگز کا نیا سسٹم متعارف کروایا جسے دنیا کا پہلا الیکٹرو مکینیکل آٹو موٹوایئر بیگ سسٹم مانا جاتا ہے۔ایلن بریڈ نے اپنے اس پیٹنٹ کے جملہ حقوق صرف پانچ ڈالر کے عوض فروخت کر دیے تھے۔اسی سال مرسڈیز نے اپنی گاڑیوں کے لیے ایئر بیگ بنانا شروع کر دیے۔ ابتداء میں فورڈ اور جنرل موٹرز نے گاڑیوں میں ایئر بیگ لگانے کی مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہر بار یہ سسٹم کارآمد طریقے سے کام نہیں کرے گا۔بحرحال اس پر کام ہوتا رہا اور ضروری اصلاحات کی جاتی رہیں۔1973 میں جنرل موٹر نے پہلی بار اپنی گاڑی میں ایئر بیگ دیے۔انہوں نے اپنے بنائے ہوئے اس سسٹم کو air cushion restraint system کا نام دیا۔1981 میں جرمنی نے اپنی ہائی اینڈ سیلون گاڑیوں میں دوبارہ ائیر بیگ متعارف کروائے جو ٹکراؤ کی صورت میں ایک سینسر کی مدد سے اکھٹے کام کرتے تھے۔ 1988 میں کریسلر وہ پہلی امریکی کار ساز کمپنی بنی جس نے ڈرائیور کے لیے ائیر بیگ اپنی تمام گاڑیوں میں لگائے۔ 1990 میں فورڈ نے بھی اپنی گاڑیوں میں ائیر بیگ بطور standerd equipment کے لگاناشروع کئے۔1992 میں گرینڈ شیروک جیب پہلی SUV تھی جس میں ائیر بیگ لگائے گئے۔ڈاج پہلا پک اپ ٹرک تھا جس میں ائیر بیگ تھے۔1999 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق یہ اعداد و شمار سامنے آئے کہ ٹریفک حادثات میں 4600 قیمتی جانیں ایئر بیگز کی بدولت بچائی گئیں۔90 کے عشرے میں یورپئن مین اسٹریم گاڑیاں ائیر بیگ نہیں دیتی تھیں۔ 1991 تک صرف بی ایم ڈبلیو، والوو، ہونڈا اور مرسڈیز کے ٹاپ ماڈل میں ہی ائیر بیگ دیے جاتے تھے لیکن ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے باقی کار ساز کمپنیوں نے بھی ایئر بیگ دینا شروع کر دیے۔پہلے صرف فرنٹ پسنجر کے لیے ہی گاڑیوں میں ایئر بیگ لگائے جاتے تھے لیکن 2000 سے پچھلے پسنجرز اور دروازوں کے اوپر دائیں بائیں حفاظت کی خاطر بھی ایئر بیگ لگائے جانے لگے۔2009 میں مرسڈیز نے پسلیوں کے تحفظ کے لیے سیٹ بیلٹ میں بھی تجرباتی طور پر ایئر بیگ متعارف کروائے۔Volvo V40 میں پہلی بار پیدل چلنے والوں کی حفاظت کے لیے گاڑی کے باہر بھی ایئر بیگ لگائے گئے۔آجکل موٹرسائیکل میں بھی ایئر بیگ دیے جاتے ہیں لیکن پہلی بار بائیک میں ائیر بیگ ستر کی دہائی میں یوکے ٹرانسپورٹ ریسرچ لبارٹری نے تجربہ کیے۔پہلا مکمل موٹر سائیکل ایئر بیگ سسٹم ہونڈا نے گولڈ ونگ موٹر سائیکل میں لگایا۔

مرور زمانہ ایئر بیگ سسٹم بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔جدید نظام میں سیٹ بیلٹ اور ائیر بیگ مل کر کام کرتے ہیں۔ایسے برق رفتار سینسر ہیں جو گاڑی چلنے کے دوران مسلسل رفتار پر نظر رکھتے ہیں اور ٹکر ہونے کے صرف 20 ملی سیکنڈز کے اندر ائیر بیگ کھل جاتے ہیں۔اور سیٹ بیلٹ کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے۔

دنیا بھر میں کار ساز کمپنیوں نے اپنی گاڑیوں میں ایئر بیگ Standard کر دیے ہیں لیکن پاکستان جیسے ممالک میں کافی عرصہ تک گاڑی میں ائیر بیگ ہونا ضرورت نہیں لگژری سمجھا جاتا ہے۔تین ملین روپے مالیت کی گاڑی میں بھی مقامی و ملٹی نیشنل کار ساز کمپنیاں ائیر بیگ نہیں دیتیں تھیں۔سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے مسلسل تنقید اور مطالبہ کے باعث اب یہ چلن بدل رہا ہے اور 1.5 ملین مالیت تک کی نئی گاڑیوں میں ائیر بیگ آنا شروع ہو گئے ہیں۔

(ترجمہ و تلخیص مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021