• 29 اپریل, 2024

’’یہ میر امؤقر اخبار الفضل ہے‘‘

جو چیز کسی انسان کو پیاری ہو یا اس سے محبت ہو تو اس کی کوئی حرکت ، ادا بُری لگے تو فوراً اس کی نشاندہی کرتا ہے تا وہ غلط بات درست ہو کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو۔ یہی کیفیت احباب جماعت کے لئے اپنے پیارے مؤقر اخبار روزنامہ الفضل آ ن لائن لندن کے لئے ہے۔ دنیا بھر سے ہزاروں قارئین کرام کو اگر ذرا سی بھی غلطی اس اخبار میں نظر آئے تو فوراً وہ اصلاح چاہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک مضمون چار قسطوں میں شائع ہوا جس کا عنوان ہر قسط میں قدرے الفاظ کی تبدیلی سے مختلف تھا۔ جس کی طرف افریقہ سے ہمارے ایک معتبر قاری مکرم نعیم احمد باجوہ مبلغ برکینا فاسونے توجہ دلائی ۔ خاکسار نے جزاکم اللہ کے ساتھ انہیں میسج میں لکھا کہ بہت غور سے دیکھتے ہیں؟ تو ان مربی صاحب کا فوراً میسج آیا۔ ’’میرا مؤقر اخبار الفضل ہے‘‘ اسی طرح کسی اور قاری کی طرف سے غلطی کی نشاندہی پر خاکسار نے اسے لکھا۔ ’’بہت غور سے پڑھتے ہیں؟‘‘ تو اس قاری نے بھی یہی جواب دیا کہ ’’میرا ذاتی اخبار ہے‘‘ قارئین کے ان دونوں پیغامات میں الفضل سے ان کا پیار جھلکتا ہے ۔ بہت سے قاری اخبار کے متعلق تعریفی کلمات لکھتے ہیں جن میں بعض کو اخبار کا حصّہ بنایا جاتا ہے۔ بعض قاری اپنا اظہار خیال لکھنے کی خواہش کے باوجود لکھ نہیں پاتے۔

دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں قارئین اپنے پیارے اخبار کا روزانہ مطالعہ کرتے ہیں ۔ ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر قارئین کی تعداداس کے علاوہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے پھوپھا مکرم ملک منیر احمد اعوان مرحوم اخبار الفضل کے کاتب تھے۔اور وہ گھر میں ایک چٹائی پر چوکڑی مار کر کتابت کیا کرتے تھے۔ میری عمراسوقت 8،7 برس کی ہو گی ۔ ہم تمام کزنز ان کے ارد گرد بیٹھ جایا کرتے ، ان سے باتیں کرتے اور ان سے کہانیاں سنا کرتے تھے ۔ اور ذرا بڑے ہوئے تو امی ابا کو اخبار الفضل سے پیار کرتے اور بہت شغف اورگہرائی سے پڑھتے دیکھا۔ ابا جان مرحوم اخبار کو الف سے یاء تک مکمل طور پر پڑھا کرتے۔ بلکہ ایک وقت اخبار کی پیشانی پر سیریل نمبر لگا کرتے تھے جن کا تسلسل اخبار کی تعطیلات کے باوجود قائم رہتا تھا اور اباجان اخبار پر تاریخ کم دیکھتے اور سیریل نمبر پر دھیان زیادہ رہتا تا تسلسل میں کوئی اخبار پڑھنے سے رہ نہ جائے اور پھر اخبار کے تمام شماروںکو اسی سیریل نمبر کے حساب سے محفوظ رکھتے جاتے۔

قریباً یہی کیفیت محلہ یا اپنے جاننے والے احمدی گھروں کی ہوتی۔ اکثر گھروں میں فجر کی نماز کے وقت بچے اور بڑے نہ سوتے اور اخبار الفضل کا انتظار رہتا ۔ جونہی دروازے سے ذرا سی آواز آتی تو اخبار الفضل کو اٹھانے کے لئے ہر کوئی لپکتا تا پہلے پکڑ کر اسے دیکھے۔ اس کی ایک وجہ احباب جماعت کی اپنے آقا خلیفۃ ا لمسیح سے محبت اور لگاؤ بھی تھا کیونکہ ایک وقت میں اخبار کی پیشانی پر خلیفۃ المسیح کی صحت کی خبر اور مصروفیات شائع ہوتی تھیں۔ دوست سب سے پہلے حضور کی صحت کا پڑھ کر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لاتے۔ ان دنوں رشتہ داروں کے گھروں یا پڑوسیوں کے گھروں میں آنے جانے کا بھی رواج عام تھا۔ ہم ویسے بھی بچے تھے۔ آس پاس کے گھروں میں آنا جانا رہتا تو جب بھی کسی کے گھر جانے کا اتفاق ہوتا اس گھر میں کسی نہ کسی فرد کو اخبار الفضل پڑھتے ہوئے دیکھا یا چارپائی پر تکیہ کے ساتھ پڑا نظر آتا۔ ان دنوں صحن میں چارپائیاں بچھا کر بیٹھنے کا رواج تھا بلکہ رشتہ ازدواجی میں منسلک ہونے کے بعد سسرالیوں میں بھی الفضل کو سینے سے لگا دیکھا ۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ ڈائیننگ ٹیبل تو ہوتے نہیں تھےچنگیر کے ارد گرد بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ ہماری مائیں صبح ناشتہ دیتے وقت کسی ایک بچے سے کہا کرتی کہ قرآنی آیت ، حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کا رشاد پڑھ کر سناؤ گویا فیملی کلاسز میں الفضل پڑھا اور سنا جاتا تھا۔ پھر بڑے ہوئے جب مربی بنے تو الفضل مواخات کا نظام مختلف مقامات پر پایا بلکہ ہم نے بھی اپنے خطبات ، تقاریر اور دروس میں اس نظام کو متعارف کروایا کہ ایسے احمدی دوست جو اخبار کسی وجہ سے خریدنہیں سکتے تھےتو چند دنوں بعد اخبار رکھنے والے دوست اپنے ایسے جماعتی بھائی کو اخبار الفضل دیتے اور وہ تین چار دن کے الفضل ایک ہی نشست میں پڑھ جاتے بلکہ بسا اوقات وہ خود ہی ایسے دوست کے گھروں سے اخبار لے آتے اور الفضل پڑھنے کا چسکہ پورا کر تے۔ اور تین چار دن پرانے اخبار بھی پرانے نہ لگتے، یوں لگتا کہ یہ آج کا اخبار الفضل ہےسیرالیون مغربی افریقہ میں قیام کے دورا ن ہمیں کئی دن کے اخبار اکٹھے ملا کرتے تھے وہ دن عید کا دن ہوتا اور تمام پاکستانی اردو سپیکنگ کو علم ہوتا کہ آج اخبار الفضل آئے ہیں تو وہ مشن ہاؤس میں اکٹھے ہو کر گھنٹوں بیٹھ کر پڑھتے یا اپنے گھروں کو لے جاتے۔ بلکہ اخبار بدل بھائی بھی بنتے ہم نے آنکھوں سے دیکھا۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ چھ شماروں میں سے دو شمارے ایک دوست لے گئے دو دوسرے دوست اور دو تیسرے دوست لوگ لے گئے اور ان کا قیام ایک ہی کمپاؤنڈ میں ہونے کی وجہ سے وہ آپس میں اخبار کے شماروں کا تبادلہ کر لیتے اور یوں وہ الفضل بدل بھائی بھی بن جاتے۔

ان دنوں فونز یا الیکٹرانک رابطے تو ہوتے نہ تھے۔ اخبار الفضل ہی احباب کے درمیان رابطے کا مضبوط ذریعہ ہوتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ بہت دور دور سے عزیز و اقارب اور اغیار کے خطوط آتے جس میں درج ہوتا کہ اخبار الفضل سے آپ کی غمی اور خوشی کی یہ خبر پڑھی۔ جس کے ذریعہ مبارکباد یا عیادت و تعزیت ہوتی۔ بلکہ یہ عجیب اتفاق اور خوشی تب ہوتی ہے جب پرانے اخبار میں شائع ہونے والی خوشی کی خبروں کی کٹنگ دوست احباب کی طرف سے بذریعہ سوشل میڈیا ملتی ہے۔ جیسے حال ہی میں دو ماہ قبل مکرم کولمبس خاں نے جرمنی سے اخبار الفضل میں شائع کردہ خاکسار کی پیدائش کی خبر بھجوائی تھی۔ توپڑھ کر بہت خوشی ہو ئی۔ کسی کی طرف سے کوئی پرانا مضمون ملتا ہے اور کسی کی طرف سے کچھ اور۔ گویا آج بھی پرانے الفضل کو لوگ تازہ اخبار سمجھ کر پڑھتے ہیں۔

یہ ہے اخبار الفضل سے پیار اور محبت جو دنیا بھر کے لاکھوں احمدیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک میں نظر آتی ہے۔ یہ اخبار ہر احمدی کا اپنا پیارا اخبار ہے ۔ دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں میں جو باتیں مشترک ہیں ان میں ایک جماعت احمدیہ کے ترجمان اخبار الفضل سے پیار اور محبت ہے جو اب نئی شان و شوکت کے ساتھ آن لائن لندن سے امام وقت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالی ٰ بنصرہِ العزیز کی رہنمائی میں بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اور قا ر ئین اسے سوشل میڈیا کے ذریعے مواخات کے نظام کو جاری رکھے ہوئے آپس میں شیئر کرتے ہیں۔

کسی وقت میں یہ اخبار ایشیا میں اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات میں سب سے پرانا چھپنے والا اخبار تھا جو بعض جبری پابندیوں کے علاوہ 100 سال سے زائد عرصہ سے جاری تھا۔اور اب ایشیا براعظم کی حدود کو چیرتےہوئے دنیا کے پانچ براعظموں میں بڑی آن بان اور شان و شوکت کے ساتھ روزانہ ہی اسلام اور احمدیت کا پیغام لے کر حاضر ہوتاہے۔ جوروزانہ ہی تربیتی آیۃ کریمہ، حدیث، ارشاد حضرت مسیح موعودؑ، امام وقت کی آواز دربارِ خلافت سے جاری ارشادات کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ کے خطبات، خلاصہ جات خطبات و خطابات سے مرصع ہوتا ہے۔

مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جب سے الفضل آن لائن جاری ہوا ہے میں نے اپنے بچوں سے کہہ چھوڑا ہے کہ سارا اخبار پڑھ لیں تو اچھا ہے۔ ورنہ قرآن، حدیث، ارشاد حضرت مسیح موعودؑ اور ارشاد خلیفۃ المسیح تو آپ پر لازم ہے بلکہ نگرانی بھی کرتا ہوں۔

آنحضور ﷺ کی سیرت و شمائل ، خلفائے راشدین اور صحابہؓ رسول کی سیرت اور تاریخ اسلام کے علاوہ قرآن کریم کی تفسیر، سورتوں کا تعارف تبرکات از حضرت مرزا بشیر احمدؓ، حضرت میر محمد اسحاق ؓ، تربیتی مضامین و مکالمات، چرند پرند اور نیچر کی عجب کہانیاں اور داستانوں کے علاوہ ہفتہ میں دو با ر تربیتی مضامین پر ایڈیٹر کے قلم سے نکلے ہوئے رشحات بطور اداریہ سے یہ تاریخی اخبار مزّین ہوتا ہے۔ نیز قا رئین الفضل کی آراء اور دعاؤں کے اعلانات بھی اخبار کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتے ہیں۔اور مرحومین کا تذکرہ بھی اخبار میں حسن پیدا کرتا رہتا ہے۔

امید ہے قارئین کرام اس سلسلہ میں اپنے اخوت کے نظام کو بڑھائیں گے اور اپنے ایسے عزیز اور دوست احباب ا وراپنے رفقاء کوروزانہ اخبار بھجوا کر مواخات میں شامل کریں گے۔ یہاں تک کہ ہر احمدی کی طرف سے یہ آوازیں آ رہی ہوں کہ ’’یہ میرا پیارا مؤقر اخبار الفضل ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اس پیارے اخبار کو دن دونی رات چونی ترقیات سے نوازتا چلا جائے اور اس روحانی مائدہ اور روحانی نہر سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ کرتا جائے ۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2021