حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر والدین کا وجود ہے، یہ ایسا وجود ہے کہ انسان تمام عمر بھی ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ سلوک کریں، تمہارے سے سختی کریں، نرمی کریں، تم نے ہر حال میں ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرنا ہے۔ تم نے ان کی کسی بری لگنے والی بات پر بھی اُف تک نہیں کہنی۔ صبر سے ہر چیز کو برداشت کرنا ہے۔ ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار کا معاملہ رکھنا ہے کیونکہ تمہارے بچپن میں ان کی جو تمہارے لئے قربانیاں ہیں تم ان کا احسان نہیں اتا ر سکتے۔ اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی۔
حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مٹی میں ملے اس کی ناک، مٹی میں ملے اس کی ناک۔ یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے۔ یعنی ایسا شخص قابل مذمت ہے، بڑا بدبخت اور بدقسمت ہے۔ لوگوں نے عرض کی کونسا شخص؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
(مسلم کتاب البر و الصلۃ باب رغم انف من ادرک ابویہ)
ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ جس نے رمضان پایا اور اپنے گناہ نہ بخشوائے اور والدین کو پایا اور اپنی بخشش کے سامان نہ کروائے۔
(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب قول رسول الہ رغم انف رجل)
آپؐ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر پوچھنے والے نے پوچھا، سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیسری دفعہ پوچھا آپؐ نے فرمایا تیری ماں اور چوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا تیرا باپ۔
(بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)
تو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ماں باپ کے احسانوں کا ایک انسان بدلہ نہیں اتار سکتا لیکن دعا اور حسن سلوک ضروری ہے۔ اس سے کچھ حد تک آدمی اپنے فرائض کو ادا کر سکتا ہے اور اسی سے بخشش ہے۔
اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں تو پھرہر طرف سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ماں باپ کی طرف سے بھی شکائتیں ہوتی ہیں۔ بعض لوگ خود تو ماں باپ کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں جوبڑی اچھی بات ہے، کرنی چاہئے۔ لیکن اپنے بچوں کو اس طرح ان کی ماں کی خدمت کی طرف توجہ نہیں دلا رہے ہوتے جس کی وجہ سے پھر آئندہ نسل بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے۔ تو آپ بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں۔ اور بعض دفعہ جب ایک انسان بچوں کے سامنے اپنی بیوی سے بدسلوکی کر رہا ہو گا، اس کی بے عزتی کر رہا ہو گا تو عزت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لئے ماؤں کی عزت قائم کروانے کے لئے اور بچوں کی تربیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی بیویوں کی، اپنے بچوں کی ماؤں کی عزت کریں۔ اب میں بعض قرآنی دعائیں جن میں مخالفین کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی گئی ہے پیش کرتا ہوں۔ یہ دعائیں ہو سکتا ہے بعضوں کو یاد بھی ہوں لیکن بعض کو یادنہیں ہوں گی۔ لیکن جب مَیں یہ دعائیں پڑھوں تو آپ لوگ میرے ساتھ پڑھتے جائیں یا آمین کہتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مخالفین کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ہم پر ڈالے، ثبات قدم عطا فرمائے۔ بعض جگہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو احمدیوں کے لئے برداشت سے باہر ہوتے ہیں تو کبھی کسی احمدی کے لئے کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ جہاں وہ ٹھوکر کھانے والا ہو۔ ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک ان برکتوں کا وارث بنتا رہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہیں۔ ایک دعا ہے رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ (المؤمنون:27) اے میرے رب میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ پھر رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (التحریم:12) اے میرے رب میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔ یہ وہ دعا ہے جو فرعون کی بیوی نے کی تھی۔ احمدیوں کے لئے تو بعض ملکوں میں بڑے شدید حالات ہیں۔ کئی فرعون کھڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دعا ہے رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ (الاعراف:90) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (سورۃ القمر:11) مَیں یقیناً بہت مغلوب ہوں میری مدد کر۔ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الشعراء:119) پس میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما، مجھے اور میرے ساتھ ایمان والوں کو نجات عطا فرما۔
فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (المائدہ:26) ہمارے درمیان اور فاسق قوم کے درمیان فرق کر دے۔ اس دعا کو بھی آجکل بہت پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور مسلمان ملکوں میں جماعت کے لئے راستے کھولے تاکہ ان کو صحیح طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچایا جا سکے اور اس راستے میں جو روکیں ہیں، جو سختیاں ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں نے احمدیوں پر روا رکھی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے۔
رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران:54) اے ہمارے رب ہم اس پر ایمان لے آئے جو تونے اتارا اور ہم نے رسول کی پیروی کی۔ پس ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اس پر قائم رہیں۔ رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ (المؤمنون:99,98) اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور (اس بات سے) میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے لے کر اب تک ہمیشہ شیطانوں نے وسوسے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم امت میں جن لوگوں کے پاس منبر تھا، جو لوگ بظاہر نام نہاد دین کے علمبردار سمجھے جاتے تھے ان لوگوں نے امت کو ورغلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے وسوسے ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کے وسوسوں سے جو شیطانوں کا رول ادا کر رہے ہیں ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے۔
(خطبہ جمعہ 13؍ اکتوبر 2006ء)