یہ ایک فارسی زبان کی مشہور ضرب المثل ہے۔ جس کے معانی ہیں جب خدا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہے؟ اس مصرعہ کو ایک مشہور شاعر ابو المعالی میرزا عبدالقادر المعروف بیدل دہلوی نے اپنی درج ذیل ایک رباعی کے آخری حصہ میں بیان کیا ہے جو آہستہ آہستہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا۔
چِرَا خُوْد رَا اَسِيْرِغَمْ زِ فِکْرِ بِيْشْ کَمْ دَارِيْ
کِهْ نَگُذَارَدْ تُرَا مُحْتَاجْ اِيْزَدْ تَا کِهْ دَمْ دَارِيْ
مَشَوْ بِيْ دَسْت پَا اَزْ مُفْلِسِيْ و بِيْ کَسِي هَرْگِزْ
مَگَرْ نَشَنِيْدِهْ اِيْ بيدل خُدْا دَارِيْ چِيْ غَمْ دَارِيْ
ترجمہ:
جب تک تیرے دم میں دم ہے خدا تعالیٰ تجھے محتاج نہیں کرے گا۔پھر کیوں تو نے غم او ر پریشانی کی وجہ سے اپنی جان کو گھٹالیا ہے۔
مفلسی اور بے کسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بے دست وپا نہ بنا۔ اے بیدل! کیا تو نے نہیں سنا کہ جب خداتیراہے تو تجھے کیا غم ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ضرب المثل کو بھی استعمال فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے ۔جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا۔تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئےتھے۔پورے ہو گئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے۔اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔وہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺسے محبت کرتے۔اوراُن ہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ان لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میں بھی نہ کرتے تھے،جن کو کفار کہتے تھے۔جب تک اسلام اس حالت میں رہا وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا۔اس میں سِرّ یہ تھا۔
ع خدا داری چہ غم داری
مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیوں کی کلید بھی ایمان تھا۔صلاح الدین کے مقابلہ پر کس قدر ہجوم ہوا تھا۔لیکن آخر اس پر کوئی قابو نہ پا سکا۔اس کی نیت اسلام کی خدمت تھی۔غرض ایک مدت تک ایسا ہی رہا۔جب بادشاہوں نے فسق وفجور اختیار کیا ۔پھر اللہ تعالیٰ کا غضب ٹوٹ پڑا اور رفتہ رفتہ ایسا زوال آیا۔ جس کو اب تم دیکھ رہے ہو۔اب اس مرض کی جو تشخیص کی جاتی ہے۔ہم اس کے مخالف ہیں۔ہمارے نزدیک اس تشخیص پر جو علاج کیا جاوے گا۔وہ زیادہ خطر ناک اور مضر ثابت ہو گا۔جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا۔ ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا ۔یہ تندرست نہ ہوں گے۔عزت اور عروج اسی راہ سے آئے گا۔ جس راہ سے پہلے آیا۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ157-158 ایڈیشن 1984ء)
حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد آنحضورﷺ اہل طائف کو دعوت اسلام دینے کے لئے طائف تشریف لے گئے،ان کے انکار پر آپؐ نے ایک درخت تلے دو نفل ادا کئے اور عربی زبان میں ایک لمبی دُعا کی جو کتب احادیث میں سفر طائف کے دوران اللہ تعالیٰ سے آہ و زاری کے نام سے درج ہے۔ اس دُعا میں حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ
’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری اور ناتوانی، قلت حیلہ اور لوگوں میں رسوا ہونے کی تجھ سے شکایت کرتا ہوں۔ اے رحیم خدا! کیا تو مجھے ایسے دشمن کے سپرد کر دے گا جو مجھے تباہ کردے یا کسی ایسے قریبی کے سپرد کرے گا جو میرے معاملہ میں کلی اختیار دے دے۔اس کے بعد آنحضورﷺ نے یہ دعا کی۔
اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِیْ، غَیْرَ اَنَّ عَافِیَتَکَ اَوْسَعُ لِیْ
(کتاب الدعا للطبرانی باب الدعا عند الکرب والشدائد نمبر1036)
کہ خیر! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے بھی کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہاں تیری وسیع تر عافیت کا مَیں ضرور طلبگار ہوں۔
ایک مومن کا یہی عروج ہے کہ اگر خدا راضی ہے تو مومن کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
• آنحضورﷺ نے ہجرت کے سفر کے دوران جب غار ثور میں پناہ لی اور دشمنوں کی ایماء پر کھوجی آپؐ کا سراغ لگاتے غارثور کے دھانے پر آن پہنچے تو آپؐ کے ساتھی حضرت ابوبکرؓ گھبرا گئے تب آنحضورﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہ اے ابوبکرؓ! غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
آنحضورﷺ کی تمام زندگی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے آپؐ صرف اور صرف اللہ سے محبت کرتے تھے۔ آپؐ گھر میں اپنی بیگمات کے ساتھ محو گفتگو ہوتے جونہی اذان ہوجاتی تو آپ یوں اپنے اہل سے الگ ہوجاتے جیسے انہیں جانتے ہی نہ ہوں۔ یہ حضورؐ کی بیگمات کی گواہی ہے۔
• آپؐ حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک دُعا کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے اور اکثر دہراتے تھے، جو یوں ہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ
(ترمذی ابواب الدعوات عن رسول اللہ۔باب دعااللھم انی اسٔلک۔۔حدیث نمبر3490)
ترجمہ: اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُن لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچادے۔ اے میرے اللہ! تیری محبت مجھے اپنی جان، میرے اہل و عیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔
یہ دعا اتنی جامع دُعا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دُعا باقی تمام دعاؤں پر حاوی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ جس کو اپنے پروردگار کی محبت مل جائے تو اس کی تمام حاجتوں اور ضرورتوں کا وہ خود کفیل ہو جاتا ہے۔ اور حُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ میں ہر وہ بزرگ، نبی، ولی، خلیفہ اور خاندان میں ہر وہ پیارا وجود آجاتا ہے جو اللہ سے پیار و محبت کرتا ہے۔ اس دُعا سے آنحضور ﷺ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ جس کے متعلق کہا گیا کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (اٰل عمران:32) کہ اگر تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری (محمدؐ) کی پیروی کرو تب اللہ بھی تم سے پیار کرے گا۔
ایک بدو نے آنحضورﷺ کے پاس آکر قیامت کے متعلق دریافت فرمایا۔ آنحضورﷺ نے اس سے پوچھا کہ تم نے اس کے متعلق تیاری کیا کی ہے؟ بدو نے کہا کہ اُحِبُّ اللّٰہَ وَ رُسُوْلَہُ کہ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ فرمایا اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ اور ایک روایت میں اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ کے الفاظ آتے ہیں کہ تجھے ان کا ساتھ نصیب ہوگا جن سے تجھے محبت ہے۔
(بخاری کتاب الادب باب علامۃحب اللہ عزّوجلّ حدیث نمبر6171)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا ۔اور بے شمار احسان والا اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔‘‘
(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 363)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ مضمون سمجھایا کہ ’’پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں‘‘
(بدر 11 مئی 1905ء، بحوالہ تذکرہ 1905ء)
آنحضور ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بھی سنت رسولؐ کی پیروی میں اپنے پروردگار اللہ تعالیٰ سے لازوال اور مثالی محبت اور پیار رکھتے تھے۔ اسی محبت اور پیار کے عوض اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر غم سے الگ رکھا۔
آپؑ کو والد محترم کی وفات کی خبر سے جب معاملات زندگی کے متعلق فکر لاحق ہوئی تو اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ کے پیغام کے ساتھ نہ صرف آپؑ کو تسلی دی بلکہ آپ کے توسط سے تمام جماعت کو غم و ہم سے نجات کی خوشخبری دی۔
• اللہ تعالیٰ نے طاعون کے دوران آپؑ کو الہاماً تسلی دی۔ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ (کشتی نوح)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الہام پر اس حد تک یقین تھا کہ مورخہ 4مئی 1904ء کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے مینیجر و ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہوگئی اور درد سر اور بخار کے عوارض دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گزرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں۔جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اور فرمایا کہ میرے دار میں ہوکر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا۔ آپ نے نبض دیکھ کر اُن کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے۔ پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے جس سے بخار کا شبہ ہو۔ اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ اس کی کتابوں پر ہے۔
(البدرجلد3 نمبر18۔19۔ مؤرخہ 8۔16مئی 1904ء)
نیز فرمایا:
’’ان (طاعون کے) دنوں ایک دفعہ میری بغل میں ایک گلٹی نکل آئی۔ میں نے اِسے مخاطب ہوکر کہا کہ تو کون ہے؟ جو مجھےضرر دے سکے اور خدا کے وعدہ کو ٹال سکے؟ تھوڑے عرصہ میں وہ خود بخود ہی بیٹھ گئی۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’تمہارے لیے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے ۔اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لیے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ497)
پس ہم میں سے ہر ایک کا اپنے اللہ سے ایسا تعلق ہونا چاہیے کہ ہمیں یقین کامل ہوجائے کہ خدا ہمارا ہےپھر ہمیں کسی کا کیا غم ہے۔ جماعت احمدیہ کی مخالفتوں کے دنوں میں بھی ہمیں اپنے خالق پروردگار سے عشق کی حد تک پیار و محبت کی پینگیں بڑھانی چاہئیں جیسا کہ ہمارے پیارے امام گزشتہ 10-12 خطبات میں توجہ دلارہے ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے اس حد تک پیار کرنے والے ہوں کہ خدا ہمارا ہی ہوکر رہ جائے۔