(تعارف سورۃالذٰریٰت (51 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 61 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)
وقت نزول اور سیاق و سباق
گزشتہ سورت کی طرح یہ سورت بھی مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ نوڈلکے نے اس سورۃ کا نزول نبوت کے چوتھے سال میں بیان کیا ہے۔ سابقہ سورت میں دو قیامتوں کے برپا ہونے کا ذکر کیا گیا تھا۔ ایک وہ روحانی قیامت (انقلاب) جو قرآنی تعلیمات کے ذریعہ برپا ہونی تھی اور ایک قیامتِ کبری جو موت کے بعد برپا ہوگی اور پہلی قیامت (انقلاب) کو قیامت کبریٰ کے لیے بطور دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔
اس سورت کا آغاز اس بھاری پیشگوئی سے ہوا ہے کہ قرآنی تعلیمات کے تابع نیک لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوگی، ان بوجھل بادلوں کی طرح جو بڑے وسیع بنجر علاقے پر برسیں اور اس میں زندگی (روئیدگی) کی نئی لہر دوڑ جائے۔ چنانچہ یہ نیک لوگوں کا گروہ جو خود بھی ایک نئی روحانی زندگی پائیں گے ،قرآنی تعلیمات کو ان بادلوں کی طرح زمین کے کناروں تک پھیلا دیں گے اور اس راہ میں کسی تکلیف کو خاطر میں نہ لائیں گے۔ یہ پیشگوئی جو بظاہر ایک انہونی بات تھی، جب ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھارے گی تو قیامت کبریٰ کی تائید میں دلیلِ قاطع ثابت ہوگی۔
یہ سورت مزید بتاتی ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے جو اپنی قوم کو بتاتا ہے کہ قبر کے بعد بھی ایک نئی زندگی ملے گی اور ہر جان اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہوگی تو وہ اس سے تمسخر سے کام لیتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے اور ظلم و تعدی سے کام لیتے ہیں اور اس سورت میں قوم لوط کے حوالہ سے بتایا گیا ہےکہ ان کو ان کی بے اعتدالیوں اور غیر فطرتی حرکتوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے سزا ملی۔ مزیدبراں اس سورت میں فرعون کو ملنے والی عبرت ناک سزا اور قوم عاد، ثمود اور قوم نوح کو ملنے والی سزاؤں کا ذکر ہے۔اپنے اختتام پر یہ سورت انسان کی تخلیق کے اعلیٰ مقصد کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ اسے اپنی ذات میں خدائی صفات اپنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
(ابو سلطان)