صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے
قسط سوئم
حضرت ام سلمیٰ نے جواب دیا مدینے کا ۔پوچھا کوئی تمہارے ساتھ ہے۔جواب میں بولیں ’’خداتعالیٰ اور یہ بچہ۔‘‘ عثمان بن طلحہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، نے کہا ۔تم تنہا کبھی نہیں جا سکتیں۔ یہ کہہ کر اونٹ کی مہار (رسی) پکڑ لی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہا اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں ۔میں نے ایسا شریف انسان کبھی نہیں دیکھا۔ راستے میں جب کہیں ٹھہرنا ہوتا ۔تو اونٹ کو بٹھا کر خود عثمان کہیں دوردرخت کے نیچے چلا جاتا ۔اور روانگی کا وقت آتا تو کجاوہ اونٹ پر رکھ کر دور ہٹ جاتا۔اور کہتا کہ اب سوار ہو جائو غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتے ہوئے جب یہ لوگ قبا کے مقام پر پہنچے ۔ تو عثمان نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ کہ لو اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ وہ یہیں مقیم ہیں۔ اور عثمان نے واپس مکہ کا راستہ لیا۔ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا جب مدینہ پہنچیں اور لوگوں کے پوچھنے پر اپنے باپ کانام بتاتیں تو لوگ یقین ہی نہ کرتے کیونکہ انہیں یقین نہ آتا کہ اتنے معزز گھرانے کی بیٹی اکیلا سفر کر سکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے تو حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت ہجرت مدینہ کی۔ آپؓ لوگوں کی حیرت پر خاموش ہو جاتیں۔ جب حج کا زمانہ آیا اور ام سلمیٰ نے اپنے گھر والوں کو خط بھیجا تب لوگوں کو یقین آیا کہ یہ ابھی امیہ کی بیٹی ہیں کیونکہ ابھی امیہ مکہ کے معزز شخص تھے چنانچہ ام سلمیٰ کی عزت مدینے والوں کی نظروں میں اور بھی بڑھ گئی۔‘‘
(سیرت ام سلمیؓ صفحہ6,5) (ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ161)
امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں جس کا شجرۂ نسب حضرت ہارون علیہ السلام تک جاتا تھا اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا تھا۔جنگ خیبر کے دوران کچھ لوگ قید ہوئے جن میں ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہؐ! صفیہؓ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہیں، وہ آپؐ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت صفیہؓ پیش ہوئیں تو آپؐ نے ان کی تکریم کی اور فرمایا کہ تم اپنے دین پر رہنا چاہو تو تمہیں اس کا پورا اختیار ہے، تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ ہاں! اگر اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرو تو اس میں بہر حال تمہاری بھلائی ہے۔ صفیہؓ نے کہا میں آپؐ کو سچا سمجھتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا میں سچا ہوں مگر جو میں نے بتایا ہے اس کے پیش نظر فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ صفیہؓ نے اللہ، اس کے رسول اور اسلام کو اختیار کر لیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں آزاد کر دیا بلکہ انہیں یہ بھی اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپؐ کے عقد میں آسکتی ہیں اور اگر چاہتی ہیں تو اپنے خاندان والوں کے پاس بھی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آنے کو ترجیح دی۔ آپؐ نے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ بار بار اور مسلسل ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ کوئی نہ کوئی دوسری راہ حضرت صفیہؓ کے سامنے آتی رہی جس کی وجہ سے آپؓ کا رخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری طرف بھی مڑ سکتا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے آپؓ کی سمت وہی معین کئے رکھی جو اُس کی تقدیر کے تحت آپؓ کو خواب میں بتائی گئی تھی۔
(ماخوذازازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ213,214)
خاص حجاب کا اہتمام
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اپنے اقرباء اور اپنی آزادی پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو ترجیح دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آنا پسند فرمایا تو صحابہؓ اس انتظار میں تھے کہ اگر آپؐ حضرت صفیہؓ کو پردہ میں لے آئے تو پھر وہ امہات المؤمنین میں سے ہوں گی اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر کنیز کے طور پر ہوں گی کیونکہ اس زمانہ کے عرب رواج کے مطابق لونڈیوں کو اپنے مالکوں کے کام کاج اور سودا سلف وغیرہ لانے کی مجبوریوں سے گھر سے باہر بھی جانا پڑتا تھا ۔ان کا پردہ نسبتاً نرم اور ہلکا ہوتا تھا جبکہ شریف خاندانوں اور بالخصوص ازواج النبیؐ کا پردہ معیاری و مثالی اور ایک عمدہ نمونہ تھا ۔جس میں چہرہ کے پردہ کا خاص اہتمام بھی شامل تھا ۔ لونڈی کے پردہ کا شریف بیبیوں کے پردہ سے فرق کا اشارہ سورۃ احزاب کی آیت ذَالِکَ أَ دْنٰٓی اَنْ یُّعْرَ فْنَ فَلَا یُؤْ ذَ یْنَ (الاحزاب: 60) میں بھی موجود ہے ۔یعنی مومن عورتیں چادر کے گھونگھٹ کا پردہ اختیار کریں جو اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں کوئی ایذا نہ دی جا سکے ۔
حضرت ابن ِ عباس ؓ اس آیت کا یہ پس منظر بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں عرب عورتوں کا لباس بلا امتیاز آزاد عورت یا لونڈی ایک قسم کا ہوتا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو چادر لینے کا حکم دیا کہ وہ لونڈیوں جیسا لباس نہ رکھیں ۔اس پردہ کا مدینہ کے اوباش بھی لحاظ کیا کرتے تھے ….. گھونگھٹ والی چادر کا پردہ معزز خواتین کے لئے ایسا مخصوص ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانۂ خلافت میں کسی لونڈی کو اس پردہ کے اختیار کرنے کی اجازت نہ دیتے اور فرماتے تھے کہ گھونگھٹ والی چادر کا پردہ آزاد عورتوں کے لئے ہے تاکہ وہ کسی چھیڑ خانی اور ایذا رسانی سے بچ سکیں ۔یہاں تک کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کو ایسا پردہ کئے دیکھا تو اسے سختی سے اس سے روک کر فرمایا کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کرو۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ اسیرانِ جنگ میں سے تھیں، انہیں حرم میں شامل کرنے کے لئے کسی الگ اعلان ِ نکاح کی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر وہ (لونڈیوں) مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا جائز ہے یعنی نکاح کے لئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ’’چنانچہ صحابہ کرام ؓ قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ ؓ کو محض ایک لونڈی کے طور پر قبول فرمایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے پردہ کا خاص اہتمام نہیں کروائیں گے اور اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور اُمّ المؤمنین ہیں تو ان سے دیگر ازواج جیسا مثالی پردہ کروایا جائے گا ۔پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات جیسا ہی پردہ کروایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فعل اعلانِ نکاح و شادی سمجھا گیا اور صحابہ ؓ کی تشّفی ہو گئی ۔
(ماخوذ ازازواج النبی ؐ ،حضرت صفیہ ؓ ،صفحہ 187)
اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہ تھا شام کے وقت گزر رہے تھے کہ دو آدمی سامنے سے آ رہے ہیں اور آپ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ ان کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اور عورت ہے ان کی بیوی کا چہرہ ننگا کر دیا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ہے اگر منہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کا خطرہ کا کوئی احتمال نہیں ہوسکتا تھا۔
(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ 202)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’….. بخاری کی ایک اور حدیث حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ عسفان سے واپسی کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹنی پر حضرت صفیہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں ۔اونٹنی کے ٹھوکر کھانے کی وجہ سے دونوں گر پڑے اور ابو طلحہ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کے لئے لپکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا خیال کرو ۔ یعنی مجھے چھوڑو۔میرا احترام اور عزت اپنی جگہ مگر جہاں حادثے ہوں وہاں سب سے پہلے عورت کا خیال رکھنا چاہے۔اس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں صنفِ نازک کا کتنا خیال تھا ۔سب سے دنیا کی مقدس سب سے معزز ہستی خود وہ تھے اور تبھی خیال گزرتا ہے کہ اگر بچانا ہے تو سب سے پہلے آپؐ کو بچایا جائے لیکن وہ جو بے اختیار بچانے کے لئے آپؐ کی طرف دوڑا ہے اس کو کہا عورت کا خیال کرو عورت کا خیال کرواور حضرت ابو طلحہؓ نے خیال کیسے رکھا ؟ احادیث میں یہ آتا ہے کہ آپؓ نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا اور حضرت صفیہؓ پر چادر پھینکی اور جب ان کا جسم سنبھل گیا اور پردے میں آگیا تب ان کی مدد کی کہ وہ اٹھیں اور محفوظ جگہ پر پہنچیں۔‘‘
(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب 8 ستمبر 1995ء، صفحہ438۔439)
اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد اور قبیلہ ٔ قریش کی سید زادی تھیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی منشاکے تابع ہو نیوالی اس با برکت شادی کے موقع پر نہایت عمدہ اور خصوصی دعوتِ ولیمہ کا انتظام کیا۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینب ؓبنت جحش کی شادی کے موقع پر حضورؐ نے بہت لوگوں کو دعوت دے کر بلایا۔لوگ باری باری دس دس کی ٹولیوں کی صورت میں حضرت زینبؓ کے لئے تیار کئے گئے کمرہ میں آتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے ۔ آخر میں کچھ لوگ کھانا کھا کر وہیں بیٹھ رہے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے ۔اس موقع پر حضور ؐ کئی دفعہ اس کمرے کے پاس آکر اس انداز میں کھڑے ہوئے جیسے انسان مجلس برخواست کرنے کے لئے اٹھتا ہے ،لیکن بعض احباب پھر بھی بیٹھے رہے حتی کہ آنحضور ؐ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔ اس موقع پر سورۃ احزاب کی آیت حجاب اتری ۔جس میں دعوتوں وغیرہ کے موقع پر بعض دیگر احکام بھی ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو!نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے مگر اس طرح نہیں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لیکن (کھانا تیار ہونے پر) جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور وہاں (بیٹھے) باتوں میں نہ لگے رہو ۔ یہ (چیز) یقینا ًنبی کے لئے تکلیف دہ ہے مگر وہ تم سے (اس کے اظہارپر) شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہیں شرماتا۔ اور اگر تم اُن (ازواجِ نبی) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو ۔یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ (طرزِ عمل) ہے ۔اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھی اُس کی بیویوں (میں سے کسی) سے شادی کرو ۔یقیناً اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔
(الاحزاب: 54)(ماخوذ از: ازاوج النبیؐ، حضرت زینب ؓ بنت جحش، صفحہ 142۔143)
زینب بنت جحش ؓکی حیا کی انتہا
ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش پہلی خاتون ہیں جن کی قبر پر شامیانہ لگایا گیا اور ان کے جسد خاکی کے لیے تابوت بنایا گیا تاکہ نامحرموں کی نظروں سے جسم اطہر بچا رہے ۔۔۔
(ازدواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ 155,156)
امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق ؓکی خواہش تھی کہ قبر میں میت اتارنے کی سعادت حاصل کریں۔ لیکن امہات المؤمنین ؓکا ارشاد تھا کہ انھیں قبر کے سپرد وہی افرادکریں گے جو زندگی میں ان کے پاس آتے جاتے تھے یعنی جن سے شرعاًپردہ نہ تھا ۔چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ،محمد بن عبداللہ بن جحش ،عبداللہ بن احمد، محمد بن طلحہ بن عبداللہ نے حضرت زینب کو جنت البقیع میں قبر میں اتارا۔جب نعش قبر میں اتاری جانے لگی تو کپڑا تان کر پردہ کر لیا گیا۔
(زینب بنت جحشؓ صفحہ31,32 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ پاکستان)
حضرت سودہ ؓکی حیات مبارکہ کے واقعات
حضرت سودہ ؓچونکہ دراز قد تھیں اس لیے پہچانی جاتیں تھیں۔ ایک دفعہ جب باہر تشریف لے گئیں ۔تو حضرت عمر ؓنے آپؓ کو پہچان لیا اور کہا: سودا !ہم نے تم کو پہچان لیا۔ یہ جملہ حضرت سودہ ؓکو ناگوار گزرا ۔آپؓ نے نبی کریم ؐسے اس کی شکایت کی۔ اس واقعہ کے بعد پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
(بحوالہ سیرت حضرت سودہؓ صفحہ 14)(ماخوذ از: ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ90)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج کو فرمایا ’’میرے بعد گھر میں بیٹھنا‘‘ حضرت سودہ ؓ اور حضرت زینب بنت جحش نے اس قدر سختی سے اس پر عمل فرمایا کہ اس کے بعد کبھی حج کے لئے بھی نہیں گئیں ۔
(بحوالہ ازواج مطہرات و صحابیات کا اانسائیکلوپیڈیا صفحہ 91)
ایک بارام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ باقی ازواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے۔ چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پیامِ اجل (موت) آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رضی اللہ عنہا گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔
(ماخوذ :ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ 89,90 ۔درمنثور، پ 22 الاحزاب، تحت الآية 599/6 ,33)
ُامّ المومنین حضرت ماریہ قبطیہ ؓ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شاہان عرب وعجم کو اسلام کی دعوت دی تو قبطی قوم کے عظیم راہنما مقوقس والیٔ مصر کو بھی ایک خط لکھا۔ مقوقس نے حضورؐ کے خط کا بہت احترام کیا اور خیر سگالی کے طور پر خط کے جواب کے ساتھ قبطی قوم کی عالی نسل کی دو لڑکیاں بھی تحفتاً بھجوائیں۔ ایک ان میں سے حضرت ماریہؓ تھیں۔ جن کو آنحضرت ؐ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ماریہ کے بطن سے حضورؐ کے فرزند ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے جو کم سنی میں ہی وفات پاگئے۔ پھر چونکہ حضرت ماریہؓ کسی جنگ میں اسیر ہوکر نہیں آئی تھیں اس لئے ان کی آزاد حیثیت برقرار تھی اور وہ ملک یمین قرار نہیں پاسکتی تھیں۔یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہؓ سے شروع سے ہی پردہ کروایا۔ اور یہ امر مسلمہ فقہی مسئلہ ہے کہ پردہ صرف آزاد عورت ہی کرسکتی ہے۔
(ماخوذ از: ازواج النبیؐ صفحہ 206تا223)
حضرت اُمّ عمّارہؓ کا اصل نام نسیَبہ بنت کعب بن عمر تھا۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے نجّار خاندان سے تعلق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بھی اسی خاندان سے تھیں اور اسی وجہ سے آنحضورؐ اور تمام مسلمان اس خاندان کی بڑی قدر کرتے تھے۔حضرت اُمّ عمّارہ 584ء میں پیدا ہوئیں ۔ آپؓ یثرب کی وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں بیعتِ عقبیٰ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ کی پہلی شادی چچازاد حضرت زیدؓ بن عاصم سے ہوئی جن سے دو بیٹے حضرت عبداللہؓ اور حضرت حبیبؓ پیدا ہوئے۔ جنگ بدر میں حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کی شادی حضرت عربہ بن عمرؓ سے ہوئی جن سے دو بچے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔
حضرت اُمّ عمّارہؓ کو غزوۂ اُحد، غزوۂ خیبر، غزوۂ حنین اور جنگ یمامہ کے علاوہ صلح حدیبیہ، بیعتِ رضوان اور فتح مکّہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت کا شرف حاصل ہوا۔ غزوۂ اُحد سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو چند دیگر خواتین کےہمراہ لشکر کے ساتھ جاکر زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنے اور پانی پلانے کی اجازت عطا فرمائی۔ جب جنگ کے دوران مسلمانوں کے درّہ چھوڑ دینے کے نتیجہ میں کفّار کا بھرپور حملہ ہوا تو حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوگئے جن کا حُلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا۔ اس پر کفّار نے یہ خبر پھیلادی کہ رسول اکرمؐ مارے گئے ہیں ۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب آنحضورؐ کی حفاظت کے لئے صرف حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ باقی رہ گئے۔ ابنِ قمیئہ نے موقع سے فائدہ اٹھا کر آنحضورؐ کو ایک پتھر مارا جس سے آنحضورؐ کے خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئیں۔ ایسے میں حضرت اُمّ عمّارہؓ مشکیزہ اٹھائے زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھیں کہ اچانک آپؓ کی نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو سب کچھ وہیں چھوڑ کر آنحضورؐ کی طرف دوڑیں ۔ اسی اثناء میں عبداللہ بن قمیئہ نے آنحضورؐ پر تلوار سے وار کیا مگر حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ وار اپنے اوپر لیا جس سے کندھے پر بہت گہرا زخم آیا مگر اس کے باوجود آپؓ نے اُس پر جوابی حملہ کیا۔ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے بچ گیا۔ اس دوران آپؓ کے دونوں بیٹے بھی وہاں پہنچ گئے اور ابن قمیئہ بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ کے پاس تلوار تو تھی مگر کوئی ڈھال نہ تھی اس لئے آنحضورؐ پر ہونے والے ہر وار کو اپنی تلوار یا اپنے جسم پر لے لیتیں ۔ آنحضورؐ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں آنحضورؐ نے ایک مسلمان کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اوبھاگنے والے! اپنی ڈھال تو اُن کو دیتے جاؤ جو لڑ رہے ہیں ۔ اس پر وہ آدمی اپنی ڈھال وہیں پھینک کر بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ ڈھال اٹھالی اور لڑنے لگیں ۔ اسی دوران آپؓ کا بیٹا عبداللہ شدید زخمی ہوکر گرا اور اُس کا بہت سا خون بہہ نکلا۔ آپؓ نے اُس کی مرہم پٹی کی اور اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جب تک دَم میں دَم ہے تب تک دشمن سے لڑو۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں نے دوبارہ اکٹھا ہونا شروع کردیا اور خطرہ کچھ کم ہوا۔ تاہم اس خطرناک وقت میں حضرت اُمّ عمّارہؓ نے غیرمعمولی جرأت اور وفا کا نمونہ پیش کیا۔ اسی لئے جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اُمّ عمّارہ نے آج وہ کیا ہے جو اَور کسی نے نہیں۔‘‘ اس پر انہوں نے اس دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنّت میں بھی آپؐ کا قرب عطا فرمائے۔ آنحضورؐ نے اُسی وقت یہ دعا کی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے کہا کہ اب مجھے اس زندگی میں کوئی دُکھ باقی نہیں رہا۔
غزوۂ اُحد میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کو تیرہ زخم آئے جن میں سب سے گہرا کندھے کا زخم تھا جو بڑی دیر تک مندمل نہ ہوسکا۔ جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ اُس وقت تک گھر نہ تشریف لے گئے جب تک حضرت اُمّ عمّارہؓ کی مرہم پٹّی نہ ہوگئی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جتنا حوصلہ اُمّ عمّارہ میں ہے وہ اَور کس میں ہوگا!‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذّاب نے لشکر لے کر مدینہ پر چڑھائی کی تو راستہ میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کے بیٹے حضرت حبیبؓ اُس کو مل گئے۔ اُس نے اُن سے اپنی نبوّت تسلیم کرنے کو کہا مگر انہوں نے صاف انکار کیا اور اُس کے ہر سوال پر اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً الرَّسُوْلُ اللہ کہتے رہے۔ اس پر مسیلمہ نے انہیں بڑی بیدردی سے شہید کردیا۔ یہ اطلاع ملی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے قسم کھائی کہ یا تو وہ مسیلمہ کو مار دیں گی یا خود شہید ہوجائیں گی۔ آخر جنگ یمامہ میں جب آپؓ نے مسیلمہ کو دیکھا تو دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اُس کی طرف بڑھیں۔ زخم پر زخم کھاتے ہوئے اُس کے قریب پہنچ کر جب برچھی سے وار کرنے لگیں تو مسیلمہ دو ٹکڑے ہوکر زمین پر گر گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے دیکھا تو اُن کے بیٹے حضرت عبداللہؓ اور وحشی (جس نے اُحد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا مگر اب مسلمان ہوچکا تھا) وہاں کھڑے تھے اور اُن دونوں نے ہی مسیلمہ کو واصلِ جہنّم کیا تھا۔ ایک روز آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید میں مَردوں کا ذکر تو بہت ہوا ہے مگر عورتوں کا اتنا نہیں۔ اس موقع پر سورۃالاحزاب کی آیت 36 نازل ہوئی جس میں ایسے مردوں اور عورتوں کی تفصیل ہے جن کے لئے مغفرت اور اجرعظیم کا وعدہ ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت خالدؓ بن ولید بھی حضرت اُمّ عمّارہؓ کا حال دریافت کرنے آپؓ کے ہاں جایا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ تو آپؓ کو ’خاتونِ اُحد‘ کہہ کر یاد کرتے تھے۔ اُس دَور میں ایک دفعہ مال غنیمت میں بہت قیمتی ریشمی کپڑا آیا تو صحابہؓ نے کہا کہ اسے اپنی بہو صفیہؓ کو دے دیں ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں، یہ مَیں اُس کو دوں گا جو اس کی حقدار ہے، مَیں یہ عمّارہ کو دوں گا۔ پھر فرمایا کہ مَیں نے اُحد کے دن رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مَیں نے جب بھی اپنے دائیں یا بائیں دیکھا تو ہر طرف اُمّ عمارہؓ کو اپنے سامنے لڑتے ہوئے پایا۔ چنانچہ وہ کپڑا اُن کو بھجوادیا۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔
(بحوالہ تذکار صحابیات از علامہ نیاز فتح پوری ماخوذ از خدیجہ جرمنی‘‘ سیرت صحابیات نمبر1/2011)
حضرت خولہ ؓ
اسی طرح ایک اور مسلمان صحابیہ حضرت خولہ بہادری کی وجہ سے مشہور ہیں انہوں نےبھی پردے کے احکام کے اندر رہ کر بے شمار جنگیں لڑیں اور دشمن کے حملوں کو ناکام بنایا ۔
’’۔۔۔ ایک دفعہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو رومیوں کے ساتھ ایک معرکہ در پیش تھا جس میں رومیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اتنی کثیر تعداد تھی کہ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں نہ اکھڑ جائیں ۔وہاں مسلمانوں نے ایک نقاب پوش زرہ بکتر میں بند سوار کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پلٹ پلٹ کر دشمن کی فوج پر حملے کر رہا ہے اور جدھر جاتا ہے کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے صفیں چیر دیتا ہے اور پھر دوسری طرف سے صفیں چیرتا ہوا واپس نکل آتا ہے ۔ چنانچہ مسلمان لشکر نے آپس میں باتیں شروع کیں کہ یہ تو ہمارے سردار خالد بن ولید کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ سیف اللہ کے سوا، اللہ کی تلوار کے سوا کس کی شان ہے کہ اس شان کے حملے کرے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ خالد بن ولید خیمے سے باہر آرہے ہیں بڑا تعجب ہوا ۔انہوں نے کہا اے سپہ سالار! یہ کون ہے اگر آپ نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے بھی نہیں پتہ ۔میں تو پہلی دفعہ اس قسم کا جوان دیکھ رہا ہوں ۔چنانچہ اس حالت میں آخر وہ جوان واپس لوٹا جس کو وہ جوان سمجھ رہے تھے کہ خون سے لت پت تھا اور اس کا گھوڑا بھی دم توڑنے کو تیار تھا پسینے میں شرابور وہ اترا تو خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے کہا اے اسلام کے مجاہد !بتا تو کون ہے؟ ہماری نظریں ترس رہی ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنے چہرہ سے پردہ اتار ۔اس نے سنی ان سنی کر دی۔ نہ زرہ اتاری نہ پردہ اتارا۔خالد بن ولید حیران ہو گئے کہ اتنا بڑا مجاہد اور اطاعت کا یہ حال ہے۔ انہوں نے پھر تعجب سے کہا کہ اے جوان! ہم تو ترس رہے ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے چہرے سے پردہ اُتار۔ اس نے کہا اے آقا! میں نافرمان نہیں ہوں لیکن مجھے اللہ کا حکم یہ ہے کہ تونے پردہ نہیں اتارنا ۔میں عورت ہوں میرا نام خولہ ہے اور انہوں نے پردہ نہیں اتارا۔‘‘
(بحوالہ الاسلام ترجمہ فتوح الشام صفحہ 99 تا 101.) (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات ،خطاب 27 دسمبر 1982 ،صفحہ 16 تا 17)
حضرت اسماء
حضرت اسما ءؓ حضرت زبیر بن عوام کی بیوی تھیں۔ وہ بہت مفلس اور تنگدست تھے ۔ان کی ساری متاع ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی ۔۔۔’’ایک دن حضرت اسما ء ؓ کھجور کی گھٹلیوں کا گٹھا سر پر لادے چلی آرہیں تھیں ۔راستے میں رسول کریم ؐ اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ مل گئے ۔رحمت دو عالم ؐنے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماءؓ اس پر سوار ہو جائیں ۔اسما ء ؓاپنی شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں اور گھر اپنے شوہر زبیر ؓسے سارا قصہ بیان کیا۔انہوں نے کہا ۔’’سبحان اللہ سر پر بوجھ لادنے سے ہوئے شرم نہ آئی۔‘‘
(بحوالہ تاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ 169)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنے ایک خطا ب میں قرون اولیٰ کی ان دلیر اور با حیا خواتین مبارکہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
حضرت سمعیہؓ
۔۔۔ ابتدائے اسلام کی ایک عورت کا بھی میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں ۔آپ کو تو برقعے میں گرمی لگتی ہے ۔حضرت سمعیہ ؓکا یہ حال تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں تو اس جرم کی سزا میں اور ان کو ارتداد پر مجبور کرنے کے لئے پورا زرہ بکتر پہنا کر دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر کھڑا کر دیا جاتا تھا یہاں تو درجہ حرارت 120 تک پہنچتا ہے عرب میں صحرا میں 140 تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ان کے حواس مختل ہو جایا کرتے تھے ۔اس وقت ان سے پوچھا جاتا تھا ۔تو روایتوں میں آتا ہے کہ ان کو بات سمجھ نہیں آتی تھی اس قدر شدت گرمی اور تکلیف سے وہ پاگل ہوئی ہوتی تھیں ۔پھر ان کو ایذا ءدینے والے اوپر کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور تب وہ سمجھتی تھیں کہ کہتے ہیں کہ خدائے واحد کا انکار کردو ۔تو بات کرنے کی تو طاقت نہیں تھی سر ہلا دیا کرتی تھیں کہ یہ انکار نہیں ہو گا ۔ ایسی بھی پردہ پوش مستورات اسلام میں گزری ہیں ۔
حضرت اُم شعیب
پھر حضرت اُمّ شعیبؓ کا واقعہ آتا ہے ان کے ساتھ بھی دشمن یہی سلوک کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا جب انہیں تکلیف دی جا رہی تھی اور حالت یہ تھی کہ اس عورت کا بیٹا بھی یہ نظارہ کر رہا تھا اور اس کا خاوند بھی نظارہ کر رہا تھا اور کچھ پیش نہیں جاتی تھی ۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عمار صبر کرو ،اے اُم عمار صبر کرو اور اے اُم عمار کے خاوند تم بھی صبر کرو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب 27 دسمبر 1982، صفحہ 16 تا 17)
(باقی ان شاء اللہ آئندہ)
(مرسلہ: درثمین احمد جرمنی)