یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پنجابی زبان میں الہام ہے۔ اس کے متعلق آپ علیہ السلام خود فر ماتے ہیں :۔
میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا۔ میرے گلےمیں ہاتھ ڈال کر فر مایا :۔
’’جے تُوں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘
( تذکرہ طبع چہارم ص390)
اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود ؑ کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے ۔ اگر آپ میرے ہو جائیں گے تو پھر تمام دنیا تمہاری ہو گی۔ اس حوالہ سے ایک آ رٹیکل (اداریہ) خا کسار نے ’’خدا داری چہ غم داری‘‘ کے حوالہ سے بھی تحریر کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں جو انسان بھی اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کو اپنا بنا لیتا ہے تو نہ صرف فلاح پاتا ہے بلکہ اُسے ایسے ایسے انعامات و افضال سے نوازا جاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ جتنے انبیاء، اولیاء، قطب و ابدال اور مجددین گزرے ہیں ان کی سوانح حیات پر نظر دوڑائیں تو سب اللہ والے تھے اور اللہ اُن کا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا الہام سے اگر مذہبی تاریخ کے تناظر میں حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ زندگی کا احاطہ کریں تو جماعت احمدیہ کی 132 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خدا نے کبھی ،کسی موقع پر، کسی موڑ پر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ آپ ؑ قادیان میں اکیلے تھے۔ آپؑ کو اِنِّی مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ (تذکرہ صفحہ624) اِنِّی مَعَکَ یَٓا اِبْرَاہِیْم (تذکرہ صفحہ624) کے الہام کثرت سے ہوئے۔ اور اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ (تذکرہ صفحہ345) اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا اِنِّیْ مِنَ اللّٰہِ (تذکرہ صفحہ615) کے الہامات میں ان احادیث کی تر جمانی کی گئی ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا۔ نیز ’’سب جگ تیرا ہو‘‘ کی عملی تصویر ان الہامات سے عیاں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
۰ یہ زمین تیری اور تیرے مریدوں کی ہے ۔
(تذکرہ ص687)
۰ میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں
(تذکرہ ص630)
۰ اِنِّٓیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ
(تذکرہ ص638)
۰ اور پیغمبرﷺ نے فرمایا :۔ یہ باغ اسلام ہم تم کو دیتے ہیں
(تذکرہ ص653)
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معیت کے وعدے اس پیار و محبت کی وجہ سے کئے جو آپ ؑکو اپنے اللہ سے تھی۔ آج کروڑوں مخلصین آپؑ کے اور آپ ؑ کے خلفاء کے قدم چوم رہے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو بڑی بڑی پارلیمنٹس تک رسائی ہوتی ہے اور آ نحضور ﷺ کے حقیقی فرزند حضرت مسیح موعودؑ کی آواز دنیا تک پہنچی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا الہامات کو اگر مذہبی تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو اس بات سے انکار نہیں کہ اس الہام کے مخاطب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ہیں ہی۔ آپ کے ماننے والے، آپ کے پرستار بھی مخاطب ہیں۔ جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے اللہ کے ہو جانے کے عوض ساری دنیا آپؑ کے قدموں میں ڈال دی گئی۔ اور آپؑ کے ماننے والے جماعت احمدیہ کے افراد میں سے جو جو اللہ کا ہو گیا اورجس جس نے اپنے اللہ سے محبت و پیار اور عشق کی پینگیں بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ آج جماعت احمدیہ کے افراد کے نفوس و اموال میں برکات کا احاطہ کریں تو سید نا مسیح موعودؑ کے دَور میں تندور پر روٹی لگانے والا فرد جس نے چند روپے اشاعت اسلام اور اعلائے کلمتی اللہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو پیش کئے آپ ان کا نام تا ابد رہنے والی اپنی کتابوں میں محفوظ کر گئے آج ان کی نسل دنیا کے کونے کونے میں پھیلی اللہ تعالیٰ کے انعامات اور فضائل سےنہ صرف خود فائدہ اُٹھا رہی ہے بلکہ اپنی انکم اور جائیداد کا ایک بہت بڑا حصّہ جماعت کو بطور چندہ دے رہی ہے اور ان ہی فی اللہ کی مالی قربانیوں سے جماعت ایک مضبوط اور تناور درخت بن کر اُبھری ہے ۔ جس کو حوادث زمانہ، مخالفت کی آندھیاں نہ ہلا سکیں بلکہ شجرہ طیبہ کی طرح اس درخت کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی گئیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ جبکہ اس کے با لمقابل مخالفین کے لئے زمین تنگ ہوتی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة النمل آیت 63 میں فر مایا ہے کہ جو شخص مضطر ہو کر اللہ کو پکارے گا تو اللہ اُن کی بے قراری کی دعا قبول کرتا ہے۔ ان کی تکلیف دور کر دیتا ہے ۔ اور انہیں زمین کا وارث بناتا ہے۔
۰ ایک بدّو نے آ نحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے بدو سے پوچھا کہ تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے؟ بدّو نے جواب دیا کہ ’’صرف اللہ اور اُس کے رسولؐ کے ساتھ محبت‘‘ تب آنحضور ؐ نے فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَ حبَّ کہ تجھے اس کا ساتھ نصیب ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔
(بخاری کتاب الددسیباب علامۃ حُبِّ اللہ عزوجّل حدیث نمبر6168)
یہ حدیث آج کے زیر بحث عنوان کی تائید کر رہی ہے کہ اگر کسی کو اللہ سے محبت ہے تو محمدﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی۔ اور جس کو محمدؐ کی رفاقت نصیب ہو جائے تو سارا جگ مل گیا۔
۰ اسی طرح ایک اور حدیث میں بھی یہی مضمون ہے۔ آنحضورﷺ نے فر مایا۔ جس میں درج ذیل تین باتیں ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا۔ ان میں سے دو کا تعلق آج کے عنوان سے ہے۔
I. اللہ اور اُس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اسے زیادہ محبوب ہو۔
II. وہ صرف اللہ کی خاطر کسی سے محبت کرے
(بخاری کتاب۔ الایمان باب من کرۃان یعودَفی الکفر حدیث نمبر21)
۰ اسی تسلسل میں ایک بہت اہم حدیث کاتذکرہ کر کے نفس مضمون کو آگے بڑھاؤں گا۔ آنحضرت ﷺ نے فر مایا کہ ’’میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں دل میں یاد کروں گا۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ ایک بالشت بھر میری جانب آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاؤں گا، اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔
(ترمذی ابواب الدعوات باب فی حسن الظِنّ باللہ حدیث نمبر3603)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تو اپنے خدا کو مل چکے تھے اور خدا بھی اُن کا ہو چکا تھا۔ آپؑ اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی ایسا دیکھنا چاہتے تھے۔ آپؑ نے ایک جگہ اپنے متبعین کو مخاطب ہو کر فرمایا:۔ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو۔ ولی کے معانی دوست کے ہو تے ہیں یعنی اللہ کے ایسے دوست بنو کہ تم اس سے ایسی محبت کرنے والے ہو جو کسی اور نے نہ کی ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابع ؒ نے رمضان کے خطبات میں بارہا یہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنا در بار، در باریوں کے لئے کھولتے ہوئے یہ کہا کہ آپ کو در بار میں جو جو چیز پسند آئے اس پر ہاتھ رکھ کر مَل لو اور اُسے لے جاؤ۔ ایک بوڑھا شخص آ ہستہ آہستہ در بار میں بیٹھے بادشاہ کی طرف بڑھنے لگا اور بادشاہ کے قریب پہنچ کر اُسے ہاتھ لگا کر بولا ’’میں نے بادشاہ کو مَل لیا ہے‘‘ اور جس نے بادشاہ کو مَل لیا سب جگ اس کا ہو گیا۔ یہ تو دنیاوی بادشاہ تھا اور جو شخص اس دنیا کے بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالیٰ کو مَل لے اُس کا ہو جائے تو سب جگ اُس کا ہو جاتا ہے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے بھی تو اپنے خدا کو جوانی سے ہی مَل لیا تھا۔ جب آپ کے والد محترم نے ایک سکھ کے ذریعہ آپ کو پیغام بھجو اکر کہلا بھیجا کہ آج کل ایک ایسا بڑا افسر بر سر اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اسلئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں۔ آپ ؑ نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا کہ حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر ’’میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ43)
جب یہ پیغام اس سکھ کے ذریعہ آپؑ کے والد محترم کو ملا تو فرمایا:۔ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ ’’میں نوکر ہو چکا ہوں تو پھر ٹھیک ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
اور جب آپؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضٰی کی وفات کی وجہ سے آپ ؑکو فکر دامن گیر ہوئی تو اسلام کے خدا نے “
’’اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ‘‘ کی نوید سنائی
(تذکرہ ص20)
حضرت مرزا بشیر احمد ؓ فر ماتےہیں :۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فر مایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فر ماتے تھے کہ یہ الہام اس شان اور اس جلال کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی میخ کی طرح پیوست ہو کر بیٹھ گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتا ہے اور فر ماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ نا ممکن ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں ۔ بلکہ ایک جگہ اس خدائی کفالت کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فر ماتے ہیں کہ:۔
لُفاظَات المَوَ ا ئِد، کَا ن اُکُلیِ ۔۔۔۔ وَصرتُ الیَوْ مَ مِطْعامَ الْاھَالی
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5 صفحہ596)
’’یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دستر خوانوں سے بچے ہوئے
ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے ۔ مگر آج خدا کے فضل سے
میرے دستر خوان پر خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں۔‘‘
؎ سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بد خواہ! کرنا ہوش کر کے مجھ پر وار
؎ تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا
کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا
؎ تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا