• 31 اکتوبر, 2024

فضائی تاریخ کی مہنگی ترین تلاش

ملائیشیا ایئر کی فلائٹ 370 MA اپنے طے شدہ معمول کے مطابق 8 مارچ 2014 کو کوالالمپور ملائیشیاء سے 12:35 am پر روانہ ہو کر 6:30 am بیجنگ (چائنا) میں لینڈ کرنا تھی۔ لیکن یہ فلائٹ بیجنگ نہیں پہنچی۔ آج جب اس کو چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ہمیں طیارے کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ تمام تر حاصل شدہ معلومات اور ریکارڈ کے مطابق فلائٹ 370 کا سانحہ ایوی ایشن تاریخ کا پر اسرار ترین واقعہ ہے۔اکیسویں صدی میں جہاں انسان کو اپنی جدید ایجادات کی بدولت ہر طرح کی سہولیات حاصل ہیں یہ امر قابل افسوس ہے کہ مسافروں سے بھرا ایک جہاز یوں غائب ہو کہ اس کا سراغ تک نہ مل سکے۔

ابتدائی معلومات

فلائٹ 370 روزانہ کی بنیاد پر کوالالمپور سے بیجنگ تک چلنے والی دو پروازوں میں سے ایک تھی۔یہ رات بارہ بجے کولالمپور سے روانہ ہو کر صبح ساڑھے چھ بجے بیجنگ میں اترتی تھی۔ پرواز کا کل دورانیہ پانچ گھنٹے چونتیس منٹ تھا۔8 مارچ 2014 کو اڑان بھرنے سے قبل جہاز میں ساڑھے سات گھنٹوں کی پرواز کے لیے ایندھن موجود تھا جو کوالالمپور سے بیجنگ پرواز کے لیے درکار ایندھن سے کافی زیادہ تھا۔

جہاز گیارہ سال پرانا تھا اور ماضی میں کسی حادثہ کا شکار نہیں ہوا تھا۔ جہاز میں بارہ عملے کے ارکان موجود تھے جو تمام ملائیشین شہری تھے۔

جہاز کو ترپن (53) سالہ پائلٹ ظہیر احمد شاہ اڑا رہے تھے جہنوں نے 1981 میں ملائیشیا ایئر لائن کو جوائن کیا تھا۔ ظہیر احمد شاہ اٹھارہ ہزار گھنٹے سے زائد جہاز اڑانے کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ فارق عبدالحمید بطور معاون پائلٹ کے تھے۔اس کمپنی کے ساتھ وہ سات سال سے کام کر رہے تھے اور 2700 گھنٹوں سے زیادہ جہاز اڑانے کا تجربہ رکھتے تھے۔ان دونوں کے علاوہ جہاز پر کل 227 افراد سوار تھے۔ان میں 153 چینی 50 ملائیشین 7 انڈونیشین 6 آسٹریلین 5 انڈین 4 فرانسیسی 3 امریکی 2 کنیڈین 2 ایرانی 2 نیوزی لینڈر 2 یوکرینی ایک ڈچ ایک روسی اورایک تائیوانی تھا۔ فلائٹ 370 نے 12:42 am پرکوالالمپور سے اڑان بھری جسے جلد ہی ایئر ٹریفک کنٹرول نے 18000 فٹ کی بلندی پر جانے کی کلیرئنس دے دی۔ حاصل شدہ آڈیو ریکارڈ کے مطابق فرسٹ آفیسر جہاز کے اڑان بھرنے کے بعد سے ائیر ٹریفک کنٹرول سے مسلسل رابطے میں تھے۔ جہاز سے آخری رابطہ ایک بج کر انیس منٹ پر ہوا۔ جب کوالالمپور کے ریڈار سے جہاز میں کال کر کے کہا گیا

“Malaysian 370 row contact Ho Chi Minh 120 decimal 9 good night.”

اس کے جواب میں کیپٹن شاہ نے کہا

“good night Malaysian 370 row”

اس وقت جہاز گلف آف تھائی لینڈ کے اوپر اپنے مقررہ ہوائی راستے پر پرواز کر رہا تھا۔ آخری رابطہ کے محض تین منٹ گزرنے کے بعد فلائٹ 370 اچانک کوالالمپور اور ہوچی من سٹی کے ریڈار سے بیک وقت غائب ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جہاز پر موجود ٹرانسپونڈر کام نہیں کر رہے تھے۔ موسم بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس لیے اس بات کا امکان تھا کہ جہاز کے اندر سے ہی کسی نے جہاز کے ٹرانسپونڈرز کو خود بند کر دیا ہو۔ اس کے باوجود ملٹری ریڈار جہاز کو ٹریک کر رہے تھے۔ ان کے ڈیٹا کے مطابق جہاز اپنے مقررہ راستے سے اچانک تھوڑا دائیں جانب مڑالیکن جلد ہی بائیں طرف مڑ گیا اوراسی طرف اڑتے ہوئے ملایا پینسولاکے اوپر سے گزرا (جیسا کہ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے) 1:52 am پر فلائٹ 370 پنانگ آئی لینڈ پر سے گزری جہاں سے اس نے پھر دائیں جانب مڑتے ہوئے ملاکا کی طرف رخ کیا۔ فلائٹ 370 کی آخری لوکیشن بحرہند پر 2:22 am پر دیکھی گئی۔یہاں تک ملائیشیاء کے ملٹری ریڈار کی حد تھی۔ملٹری ریڈار سے غائب ہونے کے باوجود جہاز ابھی بھی سیٹلائیٹ سے رابطہ میں تھا۔ سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق اس پوائنٹ سے جہازایک بار پھر بائیں جانب مڑا اورتقریبا پانچ گھنٹے سے زائد اسی جانب اڑتا رہا۔اس تمام دورانیہ میں جہاز کا سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم ہر گھنٹہ بعد سیٹلائٹ کمپنی Inmarsat کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر تا رہا۔ 2:39 am پرکاٹ پٹ میں پھر ایک بار کال کی گئی۔ گھنٹی بجتی رہی مگر کسی نے بھی جہاز کے اندر سے اس فون کال کا جواب نہیں دیا۔ اس کے چار گھنٹوں بعد 7:13 am پر پھر ایک کال کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ 7:24 am پر فلائٹ 370 کو اپنے لینڈ کرنے کے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ اوپر گزر چکا تھا۔ حکومت ملائیشیا نے فلائٹ 370 کی گمشدگی کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا اور اس کی تلاش کے لیے آپریشن شروع ہو چکے تھے ۔ سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق 8:19 am تک فلائٹ 370 محوپرواز تھی۔سیٹلائٹ کمپنی Inmarsat کے مطابق جہاز سے 8:19 am پر لاگ آن ریکوئسٹ بھیجی گئی۔ اور ایسا تب ہی ہوتا ہے جب جہاز کا سافٹ ویئر ری اسٹارٹ ہو یا کسی وجہ سے جہاز میں Power failure ہوجائے تو دوبارہ آن لائن ہونے پر لاگ ان ریکوئسٹ آتی ہے۔ اس پوائنٹ تک جہاز کو اڑتے ہوئے سات گھنٹے اڑتیس منٹ ہو چکے تھے۔ اس وقت بہت زیادہ امکان تھا کہ جہاز کا ایندھن ختم ہو گیا ہوگا۔Inmarsat کی جانب سے نو بج کر پندرہ منٹ پر ایک بار پھر جہازکو ststus request بھیجی گئی لیکن اس کا کوئی جواب فلائٹ 370 کی جانب سے موصول نہیں ہوا۔ ان تمام معلومات کی بناء پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جہاز 8:19 سے 9:15 کے درمیان بحرالہند میں ایندھن ختم ہونے پرسمندر میں گر گیا ہے۔ لیکن حتمی جگہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تمام ڈیٹا کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگایا گیا کہ فلائٹ 370 آسٹریلیا کے مغرب میں کریش ہوئی ہے جو ہزاروں میل پر مشتمل سمندر میں وسیع علاقہ ہے۔

ہنگامی بنیادوں پرایشیاء کے جنوب مشرقی سمندر میں جہاز کی تلاش کا کام شروع کیا گیا تھا جسے بعد میں بحرہند کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ اٹھارہ مارچ سے اٹھائیس اپریل تک 19 بحری جہازوں اور ملٹری کے ہوائی جہازوں نے 345 مشن جہاز کی تلاش کے لیے بھیجے جنہوں نے سمندر میں 4.6 ملین مربع کلومیڑ کا علاقہ چھان مارا۔ یہ رقبہ پورے بھارت سے بھی بڑا ہے لیکن ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ آسٹریلیا کے مغربی سمندر کی تہ میں sonar search (آواز کی لہروں کا استعمال) سے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔ جہاز گم ہونے کے ایک سال بعد جولائی 2015 میں Reunion کے ساحل پر جہاز کے پر کا flapper ملا۔ یہ علاقہ تلاش والے علاقہ سے 4000 کلومیڑ دور مغرب کی جانب ہے۔ اس کی جانچ سے واضح ہو گیا کہ یہ فلائٹ 370 کا ہی ہے۔ اس کی مزید جانچ سے یہ بات سامنے آئی کہ جس وقت جہاز کریش ہوا اس وقت flapper کھلے ہوئے نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ جہاز منہ کے بل سمندر میں گرا۔ اس کے بعد جہاز کا کچھ اور ملبہ مشرقی افریقہ کے ساحلوں سے بھی ملا۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود جب کوئی بھی کوشش بارآور نہ ہوئی تو 17 جنوری 2017 میں جہاز کے گم ہونے کے تین سال بعد تلاش کا کام بند کر دیا گیا۔

سرچ آپریشن میں زیادہ تر ملائیشیا کی حکومت نے حصہ لیا. اس کے علاوہ آسٹریلیا اور چین نے بھی معاونت کی۔ یہ تلاش فضائی تاریخ کی مہنگی ترین تلاش ثابت ہوئی جس پر 155 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔

تمام تر تحقیقات سے کسی بھی قسم کی ہائی جیکنگ کے ثبوت نہیں ملے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ جہاز کو کسی نامعلوم جزیرہ پر اتار لیا گیا ہو لیکن اس کے شواہد بھی نہیں ملے۔ پھر ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ زمین پر موجود سائبر کرائم میں ملوث ہیکروں نے جہاز کے سسٹم کو ہیک کر کے جہاز پر کنٹرول حاصل کر لیا ہو لیکن جہاز ساز کمپنی بوئنگ نے اس مفروضہ کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح پراسرار گمشدگی کے بعد کئی سازشی نظریات نے بھی جنم لیا جن کے مطابق جہاز کو ایلین نے ہائی جیک کر لیا یاکسی بلیک ہول نے جہاز کو نگل لیا ہے لیکن جہاز کے معتدد پرزے ملنے کے بعد یہ سازشی نظریات بھی دم توڑ گئے۔

جہاز کے تمام مسافروں اور عملے کے اراکین کے لواحقین سے تفتیش کی گئی۔ اس سلسلے میں حکومت ملائیشیا نے 170 انٹرویو کیے۔ لیکن کسی پر معمولی سا شبہ بھی نہ ہوا۔ پولیس نے دونوں پائلٹس کے گھروں کو سیل کیا اوران کے بینک اکاؤنٹس چیک کیے لیکن انہیں ایسا کچھ بھی نہ ملا جس کی بنیاد پر ان پر شبہ کیا جائے۔ جب جہاز نے بحرالہند کی جانب رخ کیا اور مسلسل پانچ گھنٹے اسی سمت میں پرواز کی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی تحقیقاتی ادارے نے خیال ظاہر کیا کہ کسی نے جہاز کے اندر سے عمداً آٹوپائلٹ سسٹم کو reprogram کر دیا۔ یہ وہی وقت تھا جب جہاز پہلی بار ریڈار سے غائب ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کسی نے جہاز کے transponder عمداً بند کر دیے تھے جن کی وجہ سے جہاز ریڈار سے غائب ہوا۔لیکن ان تمام مفروضات میں کسی کو بھی شواہد کے ساتھ ثابت نہ کیا جا سکا۔آسٹریلین سیفٹی بیورو نے تمام تحقیق سے نتیجہ اخذکیا کہ کسی وجہ سے جہاز کا کیبن decompress ہوگیا اور آکسیجن کی کمی کے باعث تمام مسافر بے ہوش ہوگئے۔ اس خیال کو اس لیے بھی تقویت ملتی ہے کہ جہاز سے بار بار رابطہ کرنے پر فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود کسی نے جواب نہیں دیا۔ نیز جہاز کے ٹوٹے ہوئے فلیپر سے پتہ چلتا ہے کہ جہاز کو کریش لینڈنگ یا گلائیڈ کرانے کی کوشش نہیں کی گئی اور جہاز مسلسل پانچ گھنٹے آٹوپائلٹ پر اڑنے کے بعد بالآخر ایندھن ختم ہونے کے پر سمندر میں گرگیا۔ جہاز کیوں decompress ہوا،جہاز میں power interruption کیوں ہوا، اگر جہاز میں آگ لگی تھی اور پائلٹ نے ایمرجنسی لینڈنگ کے لیے جہاز کو واپس موڑا تھا تو دو تین بار انہوں نے سمت کیوں بدلی اور مسلسل پانچ گھنٹے بحرالہند کے اوپر کیوں پرواز کرتے رہے۔ بار بار فون کی گھنٹی بجنے کے باجود جہاز میں سے کسی نے فون کال کا جواب کیوں نہیں دیا. یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کا جواب آج تک کوئی نہیں دے پایا۔

(ترجمہ و تلخیص: مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2021