حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور یہی ایک تعلیم ہے جو بڑے واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں جبر نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبّر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ کیا اُس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ: 257) یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں۔ کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو۔ ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزر گئی اور دین اسلام کے مٹادینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الٰہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے‘‘۔ (اگر جبر میں ہو تو دل سے سچائی نہیں دکھائی جا سکتی، وفا کا تعلق نہیں ظاہر کیا جا سکتا) فرمایا ’’لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں‘‘۔
(مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 11-12)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں‘‘۔ یعنی تین قسم کی لڑائیاں ہیں جب اسلام میں سختی ہوئی یا سختی کرنے کی اجازت ہے۔ ’’دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خودمختیاری۔‘‘ (اگر تم پر کوئی حملہ کرے تو اس وقت اپنی حفاظت اور دفاع کرنے کے لئے ہتھیار اٹھایا جا سکتا ہے)۔ ’’بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون‘‘۔ (اس وقت جب کسی کو سزا دینی ہو اور دوسروں نے حملہ کیا ہے خون بہایا ہے تو بہرحال سزا کے طور پر چاہے وہ جنگ ہے یا عام حالات ہیں اس وقت ہتھیار استعمال کیا گیا ہے یا سزا دی گئی ہے یا قتل کیا گیا ہے) اور نمبر تین ’’بطور آزادی قائم کرنے کے۔ یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے‘‘۔
(مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ12)
اب وہ دشمن لوگ جو اس بات پر قتل کرتے تھے کہ تم مسلمان کیوں ہو گئے؟ تم نے مذہب بدل لیا اس لئے مسلمان ہونے کی وجہ سے تمہیں قتل کرتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اس لئے ان کے خلاف بھی تلوار اٹھائی جا سکتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ان تین وجوہات کے علاوہ کوئی وجہ نہیں جہاں تلوار اٹھائی جائے یا سختی کی جائے۔ فرمایا کہ
’’قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔ اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصدنہ تھا۔‘‘
(ستارہ قیصرہ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ120-121)
فرمایا: ’’جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں‘‘۔ (اس کا اعتراف نہیں کرتے) ’’اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے‘‘۔ (جانور ہیں)۔
(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ167 حاشیہ)
پس قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا یہ اعلان معترضین کے اعتراض کے ردّ کے لئے کافی ہے اور جو عقلمند ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو غلط طریق پر بدنام کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں حتی ٰکہ عیسائی پادری نے بھی یہ کہا کہ اسلام کی یہ پرامن تعلیم جو ہے اس کا بہت زیادہ پرچار کرو۔ اور جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا پرچار کرو تو اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہو رہی ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ جب ان کو پتا لگتا ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی آپ علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ ’’دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو‘‘۔ دین کی خوبیوں کو پیش کرو اور وہ تبھی پیش ہو سکتی ہیں جب خود علم ہو۔ اپنے علم کو بڑھاؤ۔ اور دوسرا فرمایا ’’اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو‘‘۔ اپنے نیک نمونے قائم کرو تاکہ ہمیں دیکھ کے لوگ ہماری طرف آئیں۔ پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور پھر اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں اور یہی علم اور عمل ہے جس سے اس زمانے میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتے ہوئے قرآن کریم اور اسلام کی حفاظت کے کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو قرآن کریم کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔
قرآن کریم نے ایک جگہ اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا (القصص: 58) اور وہ کہتے ہیں کہ اگرہم اس ہدایت کی جو تجھ پر اتری ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ ظلم اور جبر کی تعلیم ہے بلکہ قبول نہ کرنے والے اسلام کی تعلیم پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم تیری تعلیم پر عمل کریں جو امن والی تعلیم ہے جو سلامتی والی تعلیم ہے تو ارد گرد کی قومیں ہمیں تباہ کر دیں۔ پس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے۔ امن اور سلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے۔ امن اور محبت کا پیغام دینے کی تعلیم ہے۔ اگر بعض مسلمان گروہ عمل نہیں کرتے تو ان کی بدقسمتی ہے۔ قرآن بیشک اصل الفاظ میں ان کے پاس موجود ہے لیکن عمل نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی اور قرآن کریم کے احکامات کی جو حفاظت کرنی تھی یا کرنی چاہئے وہ یہ لوگ نہیں کر رہے۔ اس کی حفاظت تو مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت نے ہی کرنی ہے۔ دنیا کو ہم نے اپنے علم اور عمل سے بتانا ہے کہ دنیا کو اپنی سلامتی اور امن کا خطرہ اسلام سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو اسلام کے خلاف ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں بھی فرمایا ہے جو میں نے پڑھا کہ یہ لوگ جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں وہ جھوٹ اور بہتان سے کام لیتے ہیں۔ اور ان کا یہ جھوٹ اور بہتان اصل میں دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ لوگ اپنے مفادات کے لئے، دنیا میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے لئے فساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک کے فساد میں بھی بعض بڑے ممالک کا حصہ ہے۔ اور اب تو مختلف مغربی میڈیا پر خود ان کے اپنے لوگ ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ شدت پسند تنظیمیں ہماری حکومتوں کی پیداوار ہیں جو ہم نے عراق کی جنگ کے بعد یا شام کے حالات کے بعد پیدا کی ہیں۔ اس بات سے میں مسلمانوں اور ان لوگوں کو جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کا اور اسلام کی غلط تعلیم کے اظہار کا مظاہرہ کر رہے ہیں بری الذمہ نہیں کرتا لیکن اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہرحال حصہ ہے۔ انصاف سے کام نہ لینے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کسی بڑی طاقت کی طرف سے ایک بیان آ گیا اور دنیا نے تسلیم کر لیا بلکہ ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ پہنچنا یا اپنے خیالات پہنچانا اب آسان ہو گیا ہے۔ ابھی بھی ایک طرف تو شدت پسند لوگوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، ان پر بم گرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف ان کو اسلحہ پہنچانے والوں اور غلط ذریعہ سے مال پہنچانے والوں یا مالی ٹرانزیکشن (Transaction) کرنے والوں کی طرف سے ان لوگوں نے باوجود علم ہونے کے کہ کس طرح یہ سب کچھ ہو رہا ہے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ پس دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے والے صرف یہ مسلمان گروہ ہی نہیں ہیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ظلم و فساد کر رہے ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہیں جو اپنے مفادات کو اولیت دیتی ہیں اور دنیا کا امن ان کے نزدیک ضمنی اور ثانوی چیز ہے۔
(خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2015ء)