روایات از صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور اپنے مخلصین سے آپ کے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان میں بعض مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ (روایات از حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ ولد میاں نادر علی صاحب ۔ حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحبؓ۔)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ روایات پیش کروں گا۔ پہلے بھی چند مرتبہ یہ روایات پیش کر چکا ہوں اور کوشش یہی ہے کہ یہ دوبارہ دہرائی نہ جائیں اور نئے صحابہ کی روایات سامنے آئیں۔ جو رجسٹر روایات صحابہ کا ہے اُس میں سے مَیں نے لی ہیں، تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ اُس زمانے میں صحابہ نے، اُن لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی، کس طرح آپ کو دیکھا؟ آپ پہ اُن کے تاثرات کیا تھے؟ مختلف رنگ میں ہر ایک کی روایات ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان روایات کا ایک سلسلہ اپنے خطبات اور خطابات میں شروع کیا تھا۔ میری کوشش تو یہی ہے کہ نہ وہ دوبارہ سامنے آئیں اور نہ جو مَیں بیان کر چکا ہوں وہ آئیں بلکہ نئے صحابہ کے نئے واقعات سامنے آتے رہیں۔ یہ روایات ہمیں جہاں صحابہ کے اخلاص و وفا کے نمونوں اور اُن کے احمدیت میں شامل ہونے کے واقعات کا پتہ دیتی ہیں وہاں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور اپنے مخلصین سے آپ کے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان میں بعض مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا اُن لوگوں کی یہ روایات مَیں پیش کرتا ہوں جو آپ کی پاک جماعت کا حصہ بنے۔ جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جماعت نے اخلاص و وفا میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔
پہلی روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ ولد میاں نادر علی صاحب کی ہے، جن کا بیعت کا سن اور زیارت کا سن 1900ء ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے 1899ء میں بذریعہ خط کے بیعت کی اور اس سے پہلے بھی تین چار سال میرے والد صاحب نے بیعت کے لئے بھیجا تھا مگر مَیں بسبب بعض وجوہ کے واپس گھر چلا گیا اور بیعت نہیں کی۔ اس کے بعد سید بہاول شاہ صاحب جو ہمارے دلی دوست اور استاد بھی ہیں، اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور اُنہوں نے مجھے حضور کی کتابیں سنانی شروع کیں۔ جتنی اُس وقت تک حضور کی کتب تصنیف ہو چکی تھیں، قریباً قریباً ساری مجھ کو سنائیں۔ اُنہی دنوں میں مَیں نے رؤیا دیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، مَیں حضور سے دریافت کرتا ہوں کہ حضور! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعویٰ مسیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے کیا وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں سچے ہیں۔ (خواب میں ہی کہتے ہیں کہ) مَیں نے کہا حضور !قسم کھا کر بتاؤ۔ آپؐ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایاکہ مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں۔ مَیں امین ہوں اور زمینوں اور آسمانوں میں مَیں امین ہوں۔ اس کے بعد کہتے ہیں اُسی رات کی صبح کو مَیں نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں بیعت کا خط لکھا۔ اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام بھی لکھ دیا۔ اُس کے بعد 1900ء میں قادیان حاضر ہو کر حضور کے ہاتھوں پر بیعت کی۔
(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر4 روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب صفحہ نمبر120 غیر مطبوعہ)
حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحبؓ۔ ان کی بیعت کا سن 1896ء ہے۔ کہتے ہیں کہ میری عمر قریباً 14سال کی تھی، جب مَیں نے اپنے والد صاحب حضرت مولوی نیک عالم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اور برادرم مولوی غریب اللہ صاحب سکنہ موضع کلری، کے ساتھ تحریری بیعت کی۔ اور 1898ء میں شروع دسمبر سے سالانہ جلسہ تک مَیں حضور کی خدمت میں حاضر رہا۔ (جلسہ سالانہ پہ گئے لیکن دسمبر کے شروع میں چلے گئے۔) پھر یہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تشریف آوری جہلم بمقدمہ کرم دین بھیں پر حضور جری اللہ کی خدمت میں حاضر رہا۔ (اُس وقت بھی حضور کے ساتھ تھے) اور 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آخری زیارت قریباً ڈیڑھ ہفتہ تک کی۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت جری اللہ کی پہلی زیارت میں پنجگانہ نمازوں میں راقم حضور علیہ السلام کے ایک نمبر بائیں یا دو نمبر بائیں صفِ اول میں رہتا تھا (یعنی دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے تھے)۔ اُن دنوں حضور انور پانچوں نمازوں کے بعد اپنے عاشقین خدام میں آدھ گھنٹہ یا کچھ اِس سے کم و بیش عرصہ تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ اور اپنی قیمتی نصائح سے اپنے خدام کو مستفیض فرمایا کرتے تھے۔ اور اکثر طور پر مغرب کا کھانا مسجد میں ہی تناول فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً نمازِ صبح اور مغرب کے بعد عشاء تک اپنے عاشقوں اور فدائیوں کو روزانہ وعظ و تعلیم سے استفادہ فرمایا کرتے تھے۔ ان ایام میں خاکسار کو روزانہ حضور علیہ السلام کے پاؤں اور ہاتھ دبانے کا اکثر موقع ملا کرتا تھا۔ لیکن چونکہ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اس لئے حضور علیہ السلام کے ادب و شرم اور نبیّانہ رعب کی وجہ سے خاکسار نے نہ تو کوئی بات حضور کی خدمت میں عرض کی اور نہ کبھی راقم کو کوئی بات کرنے کی جرأت ہوئی۔ حضور علیہ السلام کی تمام گفتگو نہایت ہمدردانہ اور نہایت مشفقانہ اور مربیانہ تھی۔ لیکن خدادادنبیانہ رعب کی وجہ سے اس ناچیز کو کبھی کچھ عرض کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہ میرا اپنا ہی قصور تھا کہ مَیں نے کبھی کوئی التماس نہ کی اور ساری فرحت اور خوشی حضور کے کلمات طیبات کے بادب اور ہمہ تن گوش بن کر سننے میں ہی محسوس کرتا تھا۔ ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سردار فضل حق صاحب مرحوم احمدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سابق سندر سنگھ دفعدار) کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی زیارت کرنی ہے تووہ سردار صاحب کو دیکھ لے۔ انہوں نے دنیا کی دولت کو لات مار کر اسلام کی روکھی روٹیاں قبول کی ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میر منشی مرزا جلال الدین صاحب احمدی مرحوم میرے حقیقی پھوپھا تھے اور حضور نے کتاب انجامِ آتھم میں مندرجہ فہرست میں صحابہ 313 میں موصوف کا نام سب سے اوّل پر رکھا ہے۔ ان ہی کے فیضِ صحبت سے اور سید غلام شاہ صاحب مرحوم احمدی سکنہ نورنگ تحصیل کھاریاں اور مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرحوم احمدی جہلم کے فیضِ صحبت سے احمدیت کی نعمت راقم اور اُس کے والد کو ملی ہے۔ سید صاحب موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مولوی صاحب موصوف میرے والد ماجد مرحوم کے استاد بھی تھے۔ مرزا محمد اشرف صاحب پنشنر مہاجر سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان میرے حقیقی پھوپھی زاد تھے۔ انہی ایام میں حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کی خدمت میں کسی صاحب نے عرض کی۔ حضور انور مطبع خانہ میں کبھی کبھی تشریف لایا کریں۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ آپ مجھے معاف رکھیں مَیں وہاں نہیں آسکتا۔ کیونکہ وہاں حقہ رکھا ہوا ہوتا ہے اور مَیں حقہ کو دیکھ کر سر سے پاؤں تک شرم میں پنہاں ہو جاتا ہوں۔ لیکن مَیں حقہ پینے والوں کو دل سے برا نہیں جانتا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ بیعت کے واسطے میرے پاس آتے ہیں، اُن کی داڑھی اُسترے سے منڈھی ہوئی ہوتی ہے، اُن کے منہ سے شراب کی بُو آتی ہے اُن کو بھی دل سے برا نہیں جانتا۔ کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اگر وہ میرے پاس رہیں گے یا کثرت سے میرے پاس آئیں گے تو خداوند کریم اُن کو ضرور متقی اور پاک صاف کر دیں گے۔
(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر4 روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب صفحہ نمبر121تا123 غیر مطبوعہ)
(خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2011ء)