• 28 جولائی, 2025

نوافل۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ

وَاذْکُرْ رَّبَّکَ کَثِیْرً ا وَّ سَبِّحْ بِا لْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ

(اٰل عمران:42)

ترجمہ: اور اپنے ربّ کو بہت کثرت سے یاد کرو اور تسبیح کر شام کو بھی اور صبح کو بھی۔

نیزہ بھر سورج نکل آنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا اس کے بعد جب دھوپ اچھی طرح نکل آئے اور گرمی کچھ بڑھ جائے تو چار رکعت یا آٹھ رکعت پڑھنا، بعض روایات سے ثابت ہے۔ پہلی دو رکعت کو صلوٰۃُ الاشراق اور اس کے بعد کی نماز کو صلوٰۃ الضحیٰ کہا گیا ہے۔ صلاۃُالاوَّابِیْن بھی اسی نماز کا نام ہے۔ بعض کے نزدیک مغرب کے بعد جو نوافل ادا کئے جاتے ہیں انہی نوافل کا دوسرا نام صلوٰۃُالاوَّبِیْن ہے۔ بہر حال یہ نفل نماز پڑھنے کا ثواب احادیث سے ثابت ہے۔

(فقہ احمدیہ، حصہ عبادات صفحہ214)

حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا طریق تھا کہ جن دنوں کوئی خاص مصروفیات نہ ہوتی آپ کبھی کبھی صبح کی نماز پڑھ کر مسجد میں ہی تشریف رکھتے اور جب سورج طلوع ہونے کے بعد اتنا بلند ہو جاتا جتنا کی مغرب سے پہلے عصر کی نماز کے آخری وقت بلد ہوتا ہے یعنی دو ڈھائی نیزہ کے برابر تو آپ چار رکعت نفل ادا فرماتے۔ پھر جب سورج اتنا بلند ہوجاتا جتنا پچھلے پہر ظہر کے آخری وقت میں ہوتا ہے جسے پنجابی میں ’’چھا ویلا‘‘ کہتے ہیں تو آپ مزید چار رکعت نفل ادا فرماتے …….. یہ نماز گاہے گاہے کی ہے اس کے لئے کوئی خاص پا بندی یا اہتمام ثابت نہیں۔

(سنن ترمذی،کتاب الصلا ۃ بَا بُ کَیْفَ کَانَ تَطَوُّعُ النَّبِیِّ ﷺ بِا لنَّھَارِ بحوالہ فقہ احمدیہ، حصہ عبادات صفحہ 214)

حضرت انس بن مالک ؓروایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مَنْ صَلَّی الْغَدَاۃَ فِی جَمَاعۃٍ: جس نے نمازِ فجر با جماعت پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ کَا نَتْ لَہُ کَأَ جْرِ حَجَّۃٍ وَ عَمْرَۃ: پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پورا، پورا، پورا، یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب۔

(سنن الترمذی، کتاب الجمعۃ عن رسول اللہ،باب ذکر من یحتسب من الجلوس)

حضرت عمرو بن عبسۃ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: فَاِذا صَلَّیْتَ صَلَاۃَ الصُّبْحِ: جب تم نماز فجر ادا کر لو تو کوئی اور نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سورج نکل جائے۔ کیونکہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو …….. اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے براپر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی نماز ہوتی ہے۔

(مسند احمد، اوّل مسندالکوفین، حدیث عمرو بن بسۃ)

آپ ﷺ فرماتے ہیں: لَا یُحَافِظُ عَلٰی صَلَاۃِ الضُّحٰی اِلَّا أَوَّابٌ: نماز چاشت کی حفاظت خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا ہی کر سکتا ہے۔

(الترغیب والترھیب،باب الالف)

آپ ﷺ نے نماز اوّا بین کا وقت یوں بیان فرمایا ہے: صَلَاۃُ الْأَوَّا بِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ: نماز چاشت کا وقت وہ ہے کہ جب اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔ (یعنی جب دھوپ تیز ہونا شروع ہو جائے)

(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصر ھا،باب صلاۃ الأَوَّبین)

آپ ﷺ فرماتے ہیں: مَنْ صَلَّ الضُّحَی ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بَنَی اللّٰہُ لَہُ قَصْرًا مِنْ ذَھَبٍ فِیْ الْجَنَّۃِ: جس نے چاشت کی نماز کی بارہ رکعات ادا کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کامحل تعمیر کرے گا۔

(سنن ترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الضحی)

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز (نماز تہجد) کسی درد یا کسی اور وجہ سے فوت ہو جاتی تو صَلَّی مِنْ النَّھَارِ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَرَکْعَۃً: آپ ﷺ دن میں بارہ رکعات پڑھ لیتے۔

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جامع صلاۃ اللیل)

حضرت اقدس مسیح موعود (علیہ السلام) فرماتے ہیں: پیغمبر خدا ﷺ سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں۔ تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آکر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبّد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازے پر پڑے رہنا عین سُنت ہے۔ وَاُذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَعَلَّکُم ْتُفْلِحُوْن

(فتویٰ حضرت مسیح موعودؑ صفحہ269)

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی اِبْرَھِیْمَ وَعَلَی آلِ اِبَرَھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبَرَھِیْمَ وَعَلَی آلِ اِبَرَھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ

(تحریر: ظہیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2021