• 29 اپریل, 2024

وہم، وساوس اور ان کا علاج

س۔ وہم کیا ہے؟

ج۔ وہم ایک خیالی فعل کا نام ہے۔جس کی بنیاد محض تخیل، تصور، موہوم وفرضی باتوں پر ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا, وہم و توھم کا ایک ہی مادہ ہے۔جو کہ و،ھ،م،ہے۔ توھمات توھم کی جمع ہے۔ توھمات کا تعلق عموماً مذہبی اعتقادات کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں۔ اکثر وہم جو بعض امراض کا نتیجہ ہو سکتے ہیں، کو چھوڑ کر اوہام، توھمات کی طرف سفر کرتے ہیں۔ توھمات میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، مثلاً فال لینا، یا فال نکالنا، نیک شگون وبد شگون پر اعتقاد رکھنا جادو، کالا علم، بھوت پریت، تعویذ، گنڈے، ٹونے، و دیگر قیاسی وظنی اعمال وافعال سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ جو بڑھتے بڑھتے توھمات و بد رسومات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور اکثر رسومات بالآخر شرک میں تبدیل ہوجانے کا میلان رکھتی ہیں۔

س۔ وہم کے لغوی معنے کیا ہیں؟

ج۔شک و شبہ، ظن، گمان، وسوسہ، تخیل، تصور، واہمہ، قیاس، مفروضہ، اندازہ، مغالطہ، (بےبنیاد) ڈر، خوف، کھٹکا، لایعنی محسوسات وغیرہ

س۔ وہم کی مذہبی اعتبار سے کیا حیثیت ہے؟

ج۔ امراض کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے وہموں کو چھوڑکر دین فطرت یعنی اسلام میں وہم نا پسندیدہ ہے۔ دین فطرت یقین کا مؤید و حامی ہے اس لئے دین میں علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین، کے مدارج مقرر کئے ہیں۔

س۔ وہم کی علامات و اقسام کیا ہیں؟

ج۔وہم کی حالت میں انسان شکی مزاج ہو جاتا ہے۔ ہر بات اور ہر کام میں بے معنی شک، ڈر، خوف و کھٹکا سا لگا رہتا ہے۔ یاس ناامیدی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یقین کی صورت حال جاتی رہتی ہے۔ وہمی شخص ایک کام بار بار کرتا ہے۔ مثلاًً دروازہ بند کیا ہے توشک رہتا ہے کہ شاید نہیں کیا، اسے بار بار دہراتا ہے۔ محل خوف نہ بھی ہو تو فرضی چیزوں سے کھٹکا اور خوف لگا رہتا ہے۔ وہمی آدمی میں یقین کی خوبی کا فقدان یا کمی ہوجاتی ہے۔ فلاں مرض نہ ہو جائے یا شاید مجھے پہلے ہی نہ ہو چکا ہو۔ معالجین کی یقین دہانی کے باوجود کہ آپ بالکل فٹ ہیں۔ پھر بھی شک ہی رہتا ہے۔ وغیرہ، بعض وہم گہرے مخفی وباطنی خوف کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور یہ تحت الشعور بلکہ لاشعور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ (تاہم ایسے مزمن کیسز کا علاج بفضل خدا ہومیو پیتھی میں ممکن ہے۔ بلکہ بعض کیسز ہمارے تجربہ میں شفاء حاصل کر چکے ہیں۔) وہم کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ فلاں دشمن نے میرے اوپر تعویز جادو گنڈا وغیرہ کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں میری صحت،جان ومال کا نقصان ہوا ہے۔ یا مصائب آگئی ہیں۔ یا آئندہ آسکتی ہیں۔ نیک شگونی وبد شگونی فال لینا سب وہم کی اقسام اور وہم کو تقویت دینے والے باطل خیالات ہیں۔ اس طرح بعض مذاہب بالخصوص ہندو مذہب میں ایسے بہت سے توھمات داخل ہیں اور صدیوں سے باہمی میل جول رکھنے سے یہ باتیں مسلمانوں میں داخل ہو گئی ہیں بالخصوص جادو، بھوت پریت، کالا علم جن وآسیب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

س۔ کیا وہم بیماری ہے؟

ج۔ علم نفسیات کی رو سے وہم ایک بیماری ہے۔جو کہ قابل علاج ہے۔ مگر ساتھ وہم کے ازالہ کے لئے بعض ظاہری تدابیر واقدامات بھی ضروری ہوتے ہیں۔ جبکہ نرا ادویاتی علاج مفید کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ ورنہ مثل مشہور ہے کہ وہم کی دارو تو حکیم لقمان کے پاس بھی موجود نہیں، وہم کو بھلانے کی کوشش کیجائے اور سوچ کو مثبت رنگ دیا جائے اور منفی سوچ سے احتراز کیا جائے۔

س۔ کیا وہم سے جسم کے افعال متاثر ہوتے ہیں؟

ج۔ جی ہاں: ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ انسان کی منفی ومثبت سوچ کا اثر انسان کے ذہن وجسم کے افعال پر پڑتا ہے۔

س۔ کیا وہم کرنے والے کا وہم کرنے میں قصور ہوتا ہے؟

ج۔ بعض اوقات قصور ہوتا ہے اوربعض اوقات نہیں بھی ہوتا، اگر کوئی شخص خواہ مخواہ منفی سوچ کو آبیل مجھے مار، کا موقع دیتا ہے۔ تو اس میں اس کے عامل کا قصور ہوتا ہے۔مگر بسا اوقات بعض مخصوص حالات وواقعات اور ذہنی ونفسیاتی امراض میں اور عمر کے بعض حصوں میں وہم کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔جس وہ عموماً بے قصور ہوتا ہے۔تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وہم کے ازالہ کی کوشش سے وہم سے نجات میں خاصی مدد ضرور مل سکتی ہے۔

س۔ وہ کون سی امراض ہیں جن کے نتیجہ میں وہم بکثرت پیدا ہو جاتا ہے؟

ج۔ امراض معدہ وامعاء گیسٹرائی ٹس قبض ذہنی ونفسیاتی عوارض، اعصابی تناؤ دباؤ کھچاؤ، بےچینی، Anxiety قنوطیت، بڑھاپا، سن یاس،(Menopausal syndrome) شدید معاشی ومعاشرتی دشواریاں وغیرہ

س۔ وہ کونسے حالات ہیں جن میں وہم بکثرت پیدا ہو جاتا ہے؟

ج۔ جب انسان اکثر فارغ رہتا ہے تو اسے اکثر وقت سوچتے رہنے کا خاصا موقع مل جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی سوچ منفی ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر وہ منفی سوچ کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کا دماغ شیطانی خیالات کا کارخانہ بن جاتا ہےاور وہم بھی گویانا پسندیدہ عمل ہے۔ جیسا کہ انگریزی کا محاوہ ہے۔

THE MIND OF AN IDLE MAN IS A DEVILS WORKSHOP

س۔ جو وہم فراغت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اس کا کیا علاج ہے؟

ج۔ اس کا علاج ذہنی وجسمانی طو رپر خود کو مصروف رکھنا ہے۔ اور جسم کو تھکانا ہے۔ تاکہ منفی سمت میں توجہ نہ جائے۔ انسان کو منفی سوچنے کا موقع نہ ملے۔ اور وہ تھکاوٹ سے چورسو جائے۔ ورنہ محض نیند آور ادویات دینے سے اور بھی کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گویا حضرت لقمان ؑ کی اس نصیحت پر عمل کیا جائے َجو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی۔انہوں نے کہا کہ اے بیٹا ہمیشہ ریشم کے بستر پر سونا۔ بیٹے نے جواب دیا میں سمجھا نہیں، انہوں نے واضح کیا کہ عمر بھر سارا دن اس قدر جسمانی مشقت کرنا کہ اگر زمین پر بھی سو گئے تو ایسے لگے گا کہ گویا ریشم کے بستر پر سویا ہوں۔

س۔ چوری ہو جانے کی صورت میں نام نکالنا کیسا ہے؟

ج۔ یہ محض اٹکل پچو اورڈھکوسلا ہے۔ بعض ڈھکوسلے اتفاقاً صحیح بھی نکل آتے ہیں اور ڈھکوسلہ صحیح نکل آئے تو ضعیف لاعتقاد لوگ اس کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔ اور غیر عقلی خیالات و نظریات کو تقویت ملتی ہے۔ ہم نے بچپن سے نام نکالنے کا سن رکھا تھا۔ مگر کبھی بچشم خود دیکھنے کا عملی تجربہ نہ ہوا تھا۔ بلکہ ہمیشہ اس کا اشتیاق ہی رہا۔بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی ہماری چوری ہو گئی۔ ایک صاحب جو نام نکالنے میں دور دور تک شہرت ر کھتے تھے۔ چوری کی تلاش میں کم مگر نام نکالنے کے عمل کو دیکھنے کے شوق میں زیادہ نکل کھڑے ہوئے۔ نام نکالنے والے صاحب نے مٹی کے لوٹے کی ٹونٹی میں باری باری مشتبہ افراد کے نام ڈالے۔ اور ایک آدمی کو سامنے بٹھایا۔ ایک دفعہ لوٹا ایک مشتبہ کے نام پر گھوم گیا۔ دوسری دفعہ اس عمل کو دہرایا تو کسی اور کے نام پر تیسری مرتبہ یہ عمل کیا تو بالکل کسی اور نام پر گھوم گیا۔ خاکسار نے عامل سے عرض کیا کہ صاحب اگر آپ کی کلام برحق ہے تو لوٹے کو ہر مرتبہ ایک ہی نام پر گھومنا چاہئے تھا۔ یہ کیا مذاق ہے۔ وہ صاحب جس Trick سے لوٹا گھماتے تھے۔ میں غور سے دیکھتا رہا مجھے سمجھ آگئی کہ اس کام کی مداری تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب میں اس صاحب کے سامنے لوٹاپکڑ کر بیٹھا اور پہلے والے شخص کو اٹھا دیا اور میں نے کہا کہ صاحب میں دعوی سے کہتا ہوں کہ لوٹا اب نہیں گھومے گا بہرحال لوٹا نہ گھوما اور عامل صاحب انتہائی شرمندہ ہوئے۔ اگر کسی قاری نے لوٹا گھمانے کا طریق سمجھنا ہو تو ہم اسے یہ کرتب مفت میں سمجھا دیں گے۔ سنی سنائی باتوں پر اندھا اعتقاد کرنے کی بجائے انسان کو حقیقت پسندو روشن خیال ہونا چاہئے۔ اور کسی ایسی غیر عقلی و فرسودہ بات پر کبھی یقین نہ کرنا چاہئے۔ ہمارا مذہب حقائق اور عقل پر مبنی باتوں پر یقین کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔

اللّٰھم ارنی حقائق الاشیاء کماھی

اگر ہم ان باتوں پر عمل کر گزرتے تو لوٹا صاحب نے ایسے ایسے لوگوں پر چور ہونے کا الزام لگایا تھا جو سرے سے اس کام میں شامل نہ تھے۔ ان بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں کے نتائج ہمارے معاشرے میں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ ایسے لوٹے لوٹا گھماکر اور رقم لوٹ کراپنی راہ لیتے ہیں۔ مگر عوام میں بڑی دشمنیاں پیدا کرتے ہیں۔ معزز ناظرین کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست ہے کہ نام نکالنے جیسے معاملات میں حقیقت پسندی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور سنی سنائی باتوں پر کبھی یقین نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی زمانہ تھا جب علمی تاریکی کا دور تھا اس ودر میں ہوشیار لوگ شعبدہ بازیوں کے ذریعے سادہ لوح ان پڑھ لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنے کالے علم اور کلام کا نام دے کر لوگوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور معاشرے میں طرح طرح کی لڑائیاں اور جھگڑے برپا کر کے اپنی تجوریاں بھرا کرتے تھے۔

س۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ فلاں نے کچھ کر دیا ہے یعنی جادو، تعویز، گنڈے ٹونے وغیرہ اس میں حقیقت کیا ہے؟

ج۔ جب خدا تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم مومنین کو بھی خوف، بھوک، مالوں اور جانوں میں نقصان کے ذریعے آزماتے ہیں۔ یہ امتحانات ہوتے ہیں۔ جن میں مومنین پاس ہو کر دینی رتبے و ترقیات پاتے ہیں۔ یہ بات حق پر مبنی ہے مگر جادو، تعویز، ٹونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ محض توہمات اور شرک کی طرف لے جانے والے ردی اعتقادات ہیں جیسا کہ ہم سابقہ صفحات میں کہہ چکے ہیں کہ انسان کی منفی یا مثبت سوچ کا اثر اسکے بدنی و ذہنی اعمال پر پڑتا ہےاگر کوئی شخص ہمہ وقت یہ خیال جاگزیں کرتا رہے کہ وہ بیمار ہے، بیمار ہے، بیمار ہے، نہیں بچے گا تو اسکا اثر ذہن وبدن پر پڑے گا۔ اسی طرح اس مثال کے برعکس بھی سوچنے سے یعنی مثبت سوچ سے مثبت نتائج نکلتے ہیں۔

س۔ لوگ پیروں فقیروں اور روحانی عاملوں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟

ج۔ زندہ انسان کو زندگی میں گوناں گوں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ دکھ بیماری معاشی و معاشرتی پریشانی لڑائی جھگڑا، عداوت، بے اولادی، بے روزگاری وغیرہ، عوام الناس بجائے خود خدا تعالی کی طرف رجوع کرنے کے دعا فروشوں یعنی عاملوں، فقیروں، اور پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ ان کا ایک طریقہ واردات ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا حساب کرتے ہیں۔ (اور سارے حالات پہلے پوچھ لیتے ہیں کہ کون خیر خواہ اور کون بد خواہ ہے) پھر حساب کر کے کہتے ہیں کہ تمہیں کسی نے کچھ کیا ہے۔ یعنی جادو، تعویز، ٹونہ وغیرہ کیا ہے۔ پھر ایسے ہی ایک نام لے دیتے ہیں کہ فلاں نے کیا ہے۔ یہ تمام باتیں ہمیں ایک سابق پیر صاحب نے بتائیں جو یہ کام کرتے تھے۔بعد میں تائب ہو گئے۔

تعویز لکھنے کا طریقہ: پھٹکڑی کو پانی میں گا ڑھا حل کریں۔ اور بے رنگ قلم کے ساتھ سفید کاغذ پر کچھ معاندانہ اور نفرت آمیز باتیں لکھ کر دھوپ میں سکھا لیں یہ کاغذ صاف ہو گا یعنی لکھا ہو ا نظر نہ آئے گا مگر جب اسے چولھے یا آگ کے نزدیک کریں گے تو کالے حروف کی شکل اختیار کر لے گا اور صاف صاف پڑھا جائے گا۔

تعویذ نکالنے کا طریقہ: سائل یعنی جسکے گھر تعویز نکالنا مقصود ہو پیر صاحب اس کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور کہتے تھے فلاں کمرے کے فلاں کونے میں تعویز موجود ہیں۔ افراد خانہ کو وہ کونا کھودنے پر لگا دیتے اور کہتے تعویز ابھی گہرے ہیں اور کھودو اور خود ٹرک TRICK کے ذریعہ تعویز دفن کر دیتے۔

تعویز دفن کرنے کا طریقہ: تعویز مٹی میں دفن کرنے کے لئے پیر صاحب نے ایک خاص کھونڈی یا لوہے کی سوراخ دار چھڑی سپیشل آرڈر پر بنوائی ہوئی تھی جو وہ ہاتھ میں رکھتے تھے اس چھڑی میں سوراخ بنوایا ہوا تھا اور اس میں ایک تار ڈلوائی ہوئی تھی اس چھڑی کے نچلے سرے میں کاغذ پر لکھا ہو ا تعویز ٹھونس دیا جاتا تھا جبکہ چھڑی کا اوپر والا سرا یا دستہ پیر صاحب کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جب پیر صاحب سائل کے گھر میں گڑھا مکمل کروا لیتے تو اس چھڑی کو مٹی میں گاڑھ دیتے اور کہتے بس ابھی تھوڑا کام رہ گیا ہے ہم تعویز کے قریب ہیں، بار بار چھڑی کو مٹی میں ڈالتے اور دستے والی تار کو ہاتھ سے کھنچتے اور تعویز کو مٹی میں خود ملا دیتے اور ارشاد فرماتے کہ اب بہت احتیاط کا معاملہ ہے اس مٹی کو ذرا ذرا کر کے غور سے دیکھو اچانک ایک سفید کاغذ برآمد ہوتا اور گھر والے حیران و ششدر رہ جاتے پھر اسے آگ پر سینکا جاتا تو جو کچھ پیر صاحب نے لکھا ہوتا تھا نمودار ہو جاتا۔ بھائی کو بھائی سے اور قریبی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے لڑوا دیا جاتا اور ابدی عداوتیں قائم کر دی جاتی تھیں اور شیرینی کے طور پر گائیں بھینسیں اور مال مویشی وصول کئے جاتے تھے۔ اگر خدا نے اپنے فضل سے سائل کے حالات بدل دیئے تو پیر صاحب کی واہ واہ ہو جاتی ہے اور اگر نہیں تو پیر صاحب کہتے ہیں دعا فقیراں تے رحم اللہ یا کہہ دیا ابھی حساب سخت ہے۔ ذرا حوصلہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا وغیرہ۔ نئے سرے سے حساب کتاب اور کھال ادھیڑنے اور لڑانے کا سلسلہ نئے سرے سے شروع بعض پیر دوپٹہ دیکھ کر حساب کرتے ہیں یہ سب یاوہ گویاں جھوٹ اور مکر و فریب ہیں اور سادہ لوح لوگوں سے مال ہتھیانے کا طریقہ ہے۔

س: جن کیسے نکالے جاتے ہیں؟

ج: وہ بھی اسی طرح کا فراڈ ہے یہ لمبی داستان ہے کئی طرح کے جن سمجھے جاتے ہیں اور نکالنے کے طریقے بھی مختلف ہیں جسکو جن پڑے ہوں گویا اس کے اندر جن بولتا ہے جن والے مرد یا عورت کوکہا جاتا ہے کہ اسکے اندر جن بولتا ہے اور پیر صاحب جن سے مخاطب ہیں پھر اس مفعول (یعنی جن یا آسیب زدہ) کی خوب چھترول کی جاتی ہے یا اسکو دھونی دی جاتی ہے یا طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں یا ایسے ایسے افعال کیے جاتے ہیں جنکا بیان یہاں مناسب نہیں پھر مفعول ان اذیتوں کی برداشت نہ لا کر اپنے مکر و فریب کو چھوڑ دیتا ہے اور پیر صاحب کی بلے بلے ہو جاتی ہے اور پیر صاحبان منہ مانگی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔

س: کون لوگ وہم میں مبتلا ہونے کا زیادہ میلان رکھتے ہیں؟

ج: حد سے زیادہ حساس لوگ (Over Sensitive) وہم میں زیادہ گرفتار ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ حساس ہونا اپنی ذات میں برا نہیں بلکہ قا بل تعریف ہے۔ اس کے بالمقابل بے حسی بری چیز ہے۔ مگر ہر چیزکی ایک حد ہے اور حد سے بڑھنا باعث زیاں ہے۔ جسطرح بے حسی بری ہے اسی طرح بیش حساسیت بھی خطر ناک ہے پس ان دونوں کے بین بین رہنا ہی درست ہے۔ جو لوگ بیش حساسیت رکھتے ہیں ضرورت سے زیادہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں وہ اس وصف میں ترقی کرتے جاتے ہیں، وہ تدریجاً پہلے ایک وہم (ان جانے خوف) میں مبتلا ہوتے ہیں پھر دوسرے میں پھر تیسرے میں اور بالآخر وہموں کی ندی میں بہہ جاتے ہیں اسکے بالمقابل کم حساس لوگ وہم سے محفوظ رہتے ہیں۔

س: کیا وہم بعض لوگوں کو وراثتاً بھی ملتا ہے؟

ج۔ جی ہاں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو وہم وراثتاً بھی ملتا ہے یعنی بعض طبائع اور مزاجوں میں وہم کا میلان نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جسطرح بچے اپنے بڑوں کی طبائع عادات و مزاج کو دیکھتے ہیں وہ ان کی تقلید کرتے ہیں ورنہ وہم کوئی چھوت دار مرض نہیں ہے جو خون کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے۔ تاہم مزاجی اعتبارسے ایسا ضرور ہے مگر عادات تبدیل کر کے ان سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

س: کیا وہم فارغ رہنے والے کو زیادہ تنگ کرتا ہے؟

ج: جی ہاں جن لوگوں کے پاس ایک چیز کو بار بار سوچنے کا زیادہ کھلا وقت اور موقع ہوتا ہے وہم خود ان لوگوں کی تلاش میں رہتا ہے اور وہی لوگ اسکا من بھاتا کھاجا ہوتے ہیں۔ سخت مصروف جسمانی مشقت کرنے والے عموماً اس سے محفوظ رہتے ہیں اسلئے کہ وہ تھک کر چور رات کو سوتے ہیں ان کو سوچنے کا موقع ہی کب ملتا ہے۔

علم وآگہی: جب سے مختلف امراض سے متعلق جراثیم، وائرس اور ان کے حملوں سے چھو تدار امراض کے پھیلنے کے بارہ میں زیادہ علم و آگہی اور شعور عام لوگوں کو حاصل ہوا ہے انسان نے تب سے ان باتوں کے بارہ میں سوچنا اور ڈرنا شروع کر دیا ہے ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آگہی بری چیز ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک مناسب حد تک جراثیمی امراض سے محتاط رہنے کے طریقے اختیار کئے جائیں ورنہ بصورت دیگر انسان کی قوت ارادی و مدافعانہ نظام منفی طور پر متاثر ہو کر کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دیگر لوگوں کے مشاہدات بتاتے ہیں۔کہ بعض لوگوں نے وہم کو امرا کا نخرہ بھی قرار دیاہے کیونکہ جب تک وہ غریب تھے ان کو وہم نہیں ہوتا تھا مگر جب سے امیر ہوئے ان میں وہم کی نزاکت و نخرہ بھی آگیا۔ ایسے لوگ جو نفسیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں ایک لا شعوری باطنی خوف جو وہم کی ہی ایک قسم ہے کے باعث چھوت دار امراض میں مبتلا ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ اجتماعات سے گھبراتے ہیں، معانقہ (جو محبت بڑھانے اور کدورتیں دور کرنے کا ذریعہ ہے) تو درکنار مصافحہ کرنے سے کتراتے ہیں۔کلو جمیعاً کی شکل میں ایک دوسرے کے استعمال شدہ برتنوں سے دور بھاگتے ہیں۔

س: کیا وہم طبقہ امراء کی نزاکت و نخرہ ہے؟

ج: عموماً یہ کہا جاتا ہے مگر واللہ اعلم یہ بات کہاں تک درست ہے بعض امراء اپنی امتیازی شان و انفرادیت کے قیام کی خاطر شائد ایسا کرتے ہوں کیونکہ یہ بات دیکھنےمیں آئی ہے کہ جب تک کوئی شخص غریب تھا تب تک اس میں وہ نزاکت و نخرہ یا وہم نہ تھا مگر جب امارت و تمول میں قدم رکھا تو وہم کا مادہ ترقی کر گیا۔چونکہ عموماً امراء لوگ بعض خاص حالات کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی محتاط واقع ہوتے ہیں لہذا دیکھا دیکھی امراء کے زمرہ میں نئے داخل ہونے والے لوگ بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ احتیاط،ڈر، خوف وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

س: کس عمر میں اور کیوں طبیعت میں وہم کا مادہ ترقی کرتا ہے؟

ج: جوانی کی عمر میں طبیعت میں لا ابالی پن، لا پرواہی، بے حسی، نا عاقبت اندیشی مستقبل کے بارہ میں بے فکری ہوتی ہے مگر انسان جوں جوں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے اسکی طبیعت میں قوت متفکرہ ترقی کرتی جاتی ہے چنانچہ وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے مستقبل کے بارہ میں متفکر رہنا شروع کر دیتا ہے اسکی طبیعت کچھ زیادہ حساس واقع ہونے لگتی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارہ میں ضرورت سے زیادہ احتیاط وہم کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔

س: ڈپریشن کے لئے ہومیو پیتھی کا پیٹنٹ مرکب کیا ہے؟

ج: اس کے لئے Dr. Reckeweg Germany R 184 استعمال کرائی جاتی ہے جو ڈپریشن کے لئے ہمارے تجربہ میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اس کا نسخہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے کسی ہومیو سٹور سے لے کر تیار کریں یا براہ راست منگوا لیں۔ نسخہ: اگنیشیا، کالی فاس، زنکم میٹ۔ ہر ایک 30 طاقت میں 20ایم ایل ایک ہی شیشی میں مرکب کروا لیں اور 100 گرام خالی ہومیو گولیاں خرید کر اوپر اس قدر چھڑکیں کہ کس قدر گولیاں تر ہو جائیں۔ پانچ سات گولیاں صبح دوپہر استعمال کریں۔ نیند کی کمی اور بے چینی کیلئے استعمال کریں۔ R 14

(نذیر احمد مظہر (ڈاکٹر آلٹر نیٹو میڈیسن)، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2021