صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے
قسط چہارم
حضرت ام ابانؓ
حضرت اُمّ ابّانؓ عُتبہ بن ربیعہ کی خوبصورت اور بہادر بیٹی تھیں۔ کمسن ہونے کے باوجود فنون حرب سے خوب واقف تھیں اورتیر اندازی میں اس قدر کمال تھا کہ اُڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیا کرتی تھیں۔ عبادت گزار بھی بہت تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ خلافت میں اسلامی لشکر کے ساتھ خدمت کرنے کے ارادہ سے شام گئیں۔ اُس وقت آپ ؓکی شادی کو چند ہی روز گزرے تھے اور آپؓ کے شوہر ابّان بن سعید بھی مجاہدین میں شامل تھے۔ اسلامی لشکر حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں اجنادین کے مقام پر ٹھہرا۔ جب فوجیں صف آراء ہوئیں تو حضرت خالدؓ خواتین کے پاس آئے اور کہا:
اے دخترانِ عرب! تمہاری شجاعت، ہمت، جرأت اور استقلال مشہور ہے۔ تم نے فرمانبرداری کرکے خدا اور اس کے رسول کو راضی کرلیا ہے، مجھے تمہاری دلیری پر اعتماد ہے، اگر رومی تمہارے سامنے آجائیں تو اُن سے خوب دل کھول کر لڑو۔ اگر مسلمان پیچھے ہٹیں تو انہیں غیرت دلا کر لڑائی کی طرف لوٹاؤ۔ اُمّ ابّانؓ نے کہا کاش آپ ہمیں آگے بڑھ کر لڑنے کی اجازت دیدیتے۔
جنگ شروع ہوئی تو اتفاق سے ایک تیر ابّان بن سعید کو آکر لگا جو انہوں نے ہمت کرکے خود ہی کھینچ لیا اور زخم کو اپنے عمامہ سے باندھ دیا۔ لیکن تیر زہر میں بجھا ہوا تھا۔ زہر کا اثر سارے جسم میں پھیل گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ جب اُمّ ابّانؓ کو اپنے شوہر کی شہادت کا علم ہوا تو فرطِ رنج سے دوہری ہوگئیں۔ جب ابّانؓ کی تدفین ہوئی تو اُمّ ابّانؓ تربت پر آئیں، فاتحہ پڑھی اور کہا:
اے ابّان! پروردگار نے فرمایا ہے کہ شہید مرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور سنتے ہیں۔ تم بھی سن رہے ہو۔ سنو! میں نے تمہارے قاتل سے قصاص لینے کا عزم کرلیا ہے۔ میدان جنگ میں جارہی ہوں، دعا کرو کہ جلد تم سے آملوں۔
یہ کہہ کر وہ واپس آئیں، زرہ بکتر پہنی اور چہرہ اس طرح ڈھک لیا کہ صرف آنکھیں، ناک اور پیشانی کا کچھ حصہ نظر آتاتھا۔ پھر تلوار حمائل کی اور کمان ہاتھ میں لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں پہنچیں۔ جب ابّان بن سعید کو شہید کرنے والا توماؔ آپؓ کے سامنے آیا تو آپؓ کا چہرہ جوش و غصہ سے سرخ ہوگیا اور آپؓ نے اُس کی دائیں آنکھ میں ایسا کھینچ کر تیر مارا کہ وہ آہ و فریاد کرتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگا۔ اُمّ ابّانؓ نے یکے بعد دیگرے آٹھ دس عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور پھر مسلسل تیر چلاتی رہیں۔ آخر اسلامی لشکر سے پسپا ہوکر عیسائی بھاگ نکلے۔ اس کے بعد بھی اُمّ ابّانؓ کئی معرکوں میں شریک ہوئیں۔ نہایت سرفروشی اور بہادری سے لڑیں۔ لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔
(ماخوذ از الفضل ڈائجسٹ ،مزید حوالہ ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیاصفحہ574)
ام خلاد رضی اللہ عنہا
حیا کی اہمیت کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ غزوہ احد کے موقعے پر ایک خاتون صحابیہ جن کا نام اُم خلاد رضی اللہ عنہا تھا ، ان کے بیٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لئے گئےا ور شہید ہو گئے ۔ اللہ رب العزت کی شان کہ یہ اپنے بیٹے کی معلومات کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں ۔جس وقت یہ آئیں تو مکمل طور پر پردے کی حالت میں تھیں ۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا جوان بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ایک صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو فرمایا کہ دیکھو اتنی بڑی خبر کہ جوان بیٹا شہید ہو گیا ہے یہ خبر سن کر بھی یہ عورت اتنا کامل پردے کی حالت میں نکلی ۔تو اُم خلاد رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں ‘‘میرا بیٹا فوت ہوا ہے حیا فوت نہیں ہوئی ۔ ’’
(ابودائود، کتاب الجہاد، باب فضل قتال …حدیث نمبر 2488ص 397، ماخوذ از اصلاحی خطبات) (ماخوذ از:ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ494)
واقعی حیا کی یہ مثال بے نظیر ہے۔
جنتی خاتون
اسی طرح ایک واقعے سے علم ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو اپنی حیا کا اسقدر خیال ہوا کرتا تھا کہ بیماری کی حالت میں بھی انہیں اپنی سترپوشی کا احساس رہتا تھا۔ حضرت سیِّدنا عطا بن ابو رباح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ‘‘میں تمہیں جنَّتی عورت نہ دِکھاؤں؟ ‘‘میں نے عرض کی: کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ حبشی عورت (جنتی ہے)۔ اِس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مِرگی کے مَرض کی وجہ سے میرا ستر (پردہ) کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ عز وجل سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اِس نے عرض کی:میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بوقت مِرگی میرا پردہ نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمادی ۔
(ماخوذ از: گلدستہ، بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من یصرع من الریح، ص1433، حدیث5652)
حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا
آپؓ ایک باپردہ صحابیہ بھی تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ آپکے اخیافی بھائی تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ہجرت کے وقت اس قدر طویل سفر میں جس طرح شرم و حیا کی لاج رکھی اور پردے کا اِہتمام کیا وہ آپ ہی کا خاصہ تھا ۔مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا ایک شخص اپنے اونٹ پر سوار کہیں جا رہا تھا کہ وہ مکہ سے تھوڑی دور شرم حیا کی پیکر ایک با پردہ ،با حیا خاتون کو ویرانے میں پیدل سفر کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ اسے شک گزرا کہ یقیناً یہ با حیا خاتون انہی مسلمانوں میں سے ہو گی جنہیں اہلِ مکہ نے مدینہ جانے سے روک رکھا ہے ۔سوال کرنے پر اس خاتون نے بھی اس شخص کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا فرد ہونے کی وجہ سے اعتماد کیا اور بتا دیا کہ وہ مدینہ جا رہی ہے تو اس شخص کی شرافت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاشقہ کو یوں تنہا سفر کرنے دے۔چنانچہ اس نے اپنا سفر مؤخر کیا اور اپنا اونٹ اس با پردہ خاتون کو پیش کر کے مدینہ پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ۔اور شرم و حیا کی پیکر اس با پردہ خاتون نے بھی اسے غیبی امداد سمجھ کر قبول کر لیا ۔ایک ایسا خاموش سفر شروع ہوا جس پر آج بھی بلاشبہ رشک کیا جا سکتا ہے ۔عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا تن تنہا سفر کرنے والی اس با پردہ با ہمت خاتون خود اپنے سفر کی داستان کچھ یوں سناتی ہیں کہ دورانِ سفر اس شخص نے راستہ بھر مجھ سے کوئی کلام کیا ،نہ میں نے اُس سے کوئی بات کی ۔ جب آرام کا وقت ہوتا تو وہ اُونٹ کو بٹھا کر دور چلا جاتا اور میں کجاوے سے نکل کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے چلی جاتی ،پھر وہ اونٹ کو مجھ سے دُور کسی اور درخت کے نیچے باندھ دیتا اور خود بھی وہیں کہیں آرا م کر لیتا اور جب دوبارہ سفر کا وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اسے میرے پاس چھوڑ کر پھر خود دُور چلا جاتا ،میرے سوار ہونے کے بعد خاموشی سے آکر نکیل پکڑتا اور مدینہ کی طرف چل پڑتا۔ یوں دوران ِ سفر میں بھی نقاب میں رہی اور پردہ برقرار رکھنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی ، اللہ اس شخص کو اجرِ عظیم دے اس نے بہت اچھے کردار کا مظاہرہ کیا ۔
آخر جب میں مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے حضرت اُمِّ سلّمَہ ؓ کے گھر پر حاضر ہوئی ۔ میں اس وقت بھی نقاب میں تھی جس کی وجہ سے حضرت اُمِّ سلَّمہؓ مجھے نہ پہچان سکیں ،لہذا میں نے چہرے سے نقاب ہٹا کر انہیں اپنا تعارف کروایا اور جب بتایا کہ میں نے تنہا ہجرت کی ہے تو وہ حیران ہو گئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا واقعی!تن نے تنہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہجرت کی ہے ؟ میں نے اقرار کیا ، ابھی ہم باتیں ہی کر رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور تمام بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اھلاً و سہلاً کہہ کر مجھے خوش آمدید کہا اور میرے اس طرح اسلام کی خاطر ہجرت کرنے کی تعریف کی ۔
(ماخوذ از :گلدستہ صفۃ الصفوۃ ،ذکر المصطفیات من طبقات الصحابیات ،ام کلثوم بنت عقبۃ بن ابی معیط ،الجلد الاول 2۔39)
حضرت سیدہ اُمِّ حکیم بنتِ حارث رضی اللہ عنہا
اسی طرح ایک نومسلم صحابیہ کا ذکر ملتا ہے کہ کیسے قبول اسلام نے ان کی ایمانی حالت بدل دی اور وہ شوہر کی تلاش میں تنہا مگر باپردہ حالت میں نکل کھڑی ہوئیں اور بامراد لوٹیں ۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب دشمنِ اسلام ابو جہل کے بیٹے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت سیدہ اُمِّ حکیم بنتِ حارث رضی اللہ عنہا نے اِسلام قبول کیا تو بارگاہِ رسالت میں عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عِکرمہ (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)یمن کی طرف بھاگ گئے ہیں اور وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ آپ انہیں قتل کردیں گے، لہٰذا انہیں امان عطا فرما دیجئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئےحضرت عکرمہ کو امان دیدی۔ پھر حضرت سیدنا اُمِّ حکیم ؓ عکرمہ کی تلاش میں باپردہ نکل پڑیں اور آخر تِہَامَہ کے ساحل پر جاپہنچیں۔ ادھر عِکْرِمَہ بھی اسی ساحل پر پہنچ کر کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ڈگمگانے لگی، کشتی بان نے کہا: اِخلاص سے رب کو یاد کرو۔ عکرمہ بولے: میں کون سے الفاظ کہوں؟ اس نے کہا :لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰه کہو !تو بولے: اس کلمہ کی وجہ سے تو میں یہاں تک پہنچا ہوں ، لہٰذا تم مجھے یہیں اُتار دو۔ اتنے میں حضرت اُمّ حکیم ؓنے آپ کو دیکھ لیا اور ان سے کہنے لگیں: اے میرے چچا زاد! میں ایک ایسی عظیم ہستی کے پاس سے آرہی ہوں جو بہت زیادہ رحم دل اور احسان فرمانے والی ہے، وہ لوگوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا خود کو ہلاکت میں مت ڈالئے!آپ ؓ کے اِصرار پر عکرمہ رک گئے، پھر آپ ؓنے انہیں امان کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپسی کے لیے آمادہ کر لیا، اس کے بعد دونوں مکہ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْمًا لوٹ آئے اور یوں حضرت ا ُمِّ حکیم ؓ اپنے شوہر حضرت سیدنا عِکرمہ ؓ کے ساتھ باپردہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے امان کی یقین دہانی کے بعد اِسلام قبول کر لیا۔
(ماخوذ خوذ از:گلدستہ۔۔کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابة، عکرمه رضی الله عنه، المجلد السابع،۱۳ /٢٣٢، حدیث:٣٧٤١٦، مفهوماً)
ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کا اانسائیکلوپیڈیاصفحہ565)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
‘‘۔۔۔ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ ان کے نمونے کیا تھے؟ عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کیا نمونہ دکھایا کہ آپ نے ایک شخص کو یہ کہنے پر کہ فلاں جگہ میں رشتہ کر رہاہوں۔ آپؐ نے اسے فرمایا جاؤ اور اسے کہو کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے کہ رشتے سے پہلے میں آپ کی بیٹی کو دیکھ لوں۔ لڑکی کا باپ اس بات پر دروازے کے باہر آ کے بڑا ناراض ہوا کہ میں بالکل اپنی بیٹی کو تمہارے سامنے نہیں لاؤںگا۔ بیٹی یہ باتیں سن رہی تھی۔ گھر کے دروازے سے اپنا چہرہ باہر نکال کر کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور ان کا یہ حکم ہے تو میرا چہرہ دیکھ لو۔ مرد کا بھی تقویٰ دیکھیں کہ اس نے فوراً اپنی نظریں نیچی کر لیں کہ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا پاس اس قدر ہے، احترام ہے تو میں اس تقویٰ کی بنیاد پر ہی رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں اور اب مجھے چہرہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 39 صفحہ 141-140، خطبہ بیان فرمودہ 6 جون 1958ء)
‘‘اگر لڑکی کھلے منہ پھرتی تو اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور پھر لڑکی کے باپ سے کہنے کی کیا ضرورت تھی اس قسم کے بہت سے واقعات سے پتہ لگتا ہےکہ کھلے منہ عورتیں نہ پھرتی تھیں۔ہاں کام سے باہر نکلتیں تھیں جنگوں میںبھی شامل ہوتی تھیں۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ کے پاس آئیں شام کا وقت ہو گیا آپ انہیں گھر پہنچانے کے لیے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں دو آدمی ملے غالباً منافق ہوں گے ۔ آپؐ نے خیال کیا ان کے دل میں کوئی بدظنی پیدا نہ ہو آپؐ نے اپنی بیوی کے منہ سے پردہ ہٹا دیا ۔کہا یہ میری بیوی ہے جو میرے ساتھ ہے اگر کھلا رکھا جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح اپنی بیوی کا چہرہ دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی ۔’’
(ماخوذ از: بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ 201تا 202)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
‘‘ابو داؤد کتاب اللباس میں یہ روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر بھی لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔ اب یہ وہ باتیں ہیں جہاں تک میں نے اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اس زمانے کے معاشرے میں پڑھنے میں بھی نہیں ملتیں لیکن آج کے زمانے میں یہ ایک عام بات ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کی بالکل واضح خبریں اللہ تعالیٰ سے پائیں اور انہیں اس طرح وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ جیسا آج کل کی Societyکو دیکھ کر کوئی وہ باتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہا ہو ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گویا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب عورتیں مردوں جیسے لباس پہنیں گی اور مردوں جیسی ادائیں اختیار کریں گی اور اسی میں وہ اپنی برتری سمجھیں گی کہ ہم زیادہ جدید خیالات کی عورتیں ہیں ،ہمیں پرانے زمانے کی باتوں کی پرواہ نہیں رہی اور ان کی جدت پسندی مردوں میں بھی پائی جائے گی اور مرد عورتوں کی طرح پھریں گے اور یہ امر واقعہ ہے کہ بعض دفعہ دکانوں پر کوئی جا رہا ہو تو پیچھے سے دیکھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ مرد ہے کہ عورت ہے اور مڑیں تو پھر بھی کچھ دیر کے بعد پتہ لگتا ہے ۔۔۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لعنت بھیجی ہے اس لعنت کا مطلب یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اتنا نا پسند فرماتے تھے کہ اسلامی معاشرے سے اس کو دور رکھنا چاہتے تھے ۔ لعنت کوئی گالی کے طور پر نہیں ہے بلکہ لعنت کا مطلب ہے دور ہٹی ہوئی چیز کہ اے خدا اس بلا کو اس بیماری کو ہم سے دور رکھ لیکن مجھے افسوس ہے کہ بسا اوقات اگر بسا اوقات نہیں تو کبھی کبھار ضرور احمدی بچیوں میں بھی مجھے یہ رجحان نظر آتا ہے ۔’’
(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب 8ستمبر 1995ء، صفحہ439)
صحابیات كی زندگیاں واقعی ہمارے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا ہمارے لیے زندگی کو شریعت کے سنہرے اُصولوں کے مُطابِق گزارنے کی کوشش کرنے میں صحابیات کی زندگیوں سے ماخوذ اسباق انتہائی اہمیت کے حامِل ہیں جو امام محمد بن محمد غزالی ؒنے بیان فرمائے ہیں۔ وہ خلاصۃً درج ہیں:
٭… عورت کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے گھرکی چاردیواری میں گوشہ نشین رہے۔
٭… (بِلاضرورت) چھت پر بار بار نہ چڑھے۔
٭… اپنی گفتگو پر پڑوسیوں کو آگاہ نہ کرے۔ (یعنی اتنی آوازمیں گفتگو کرے کہ اس کی آواز چار دیواری سے باہرنہ جائے)
٭… بِلا ضرورت پڑوسیوں کے پاس آیا جایا نہ کرے۔
٭… جب اس کاشوہراس کی طرف دیکھے تواُسے خوش کرے۔
٭… شوہر کی غیرموجودگی میں اُس کی عزّت کی حفاظت کرے۔
٭… گھر سے نہ نکلے، (ضرورتاً) اگر کسی کام سے نکلنا پڑے تو باپردہ ہو کرنکلے۔
٭… اپنی غربت وغیرہ کوچھپائے بلکہ جو اسے جانتا ہو اس کے سامنے اپنی غربت کا اظہارنہ کرے۔
٭… اِصلاحِ نفس اور گھریلو معاملات کی درستی میں انتہائی کوشش کرے۔
٭… نماز، روزے کی پاپندی کرے۔
٭… اپنے عیوب پر نظر رکھے۔
٭… دِینی مُعامَلہ میں خوب غور و تفکر کرے۔
٭… خاموشی کی عادت بنائے۔
٭… نگاہیں نیچی رکھے۔
٭… اپنے دِل میں رب کا خوف پیدا کرے۔
٭… کثرت سےاللہ عزوجل کا ذکر کرے۔
٭… اپنے شوہر کی فرمانبردار رہے۔
٭… شوہر کو رزقِ حَلال کمانے کی ترغیب دلائے۔
٭… شوہر سے تحائف وغیرہ کی زِیادہ فرمائش نہ کرے۔
٭… شرم وحَیا کو لازِم پکڑے۔
٭… بدزبانی وفُحش کلامی نہ کرے۔
٭… صبرو شکر کا دامَن کبھی نہ چھوڑے۔
٭… اپنے نفس کے معاملے میں ایثارکرے۔
٭… اپنی حالت اور خوراک کے معاملے میں خود کو تسلی دے۔
٭… جب شوہر کا دوست گھر میں آنے کی اجازت چاہے اور شوہر گھر میں موجود نہ ہو تو اُسے گھرمیں آنے کی اجازت نہ دے اور اپنے نفس اور شوہر سے غیرت کرتے ہوئے اُس سے کثرتِ کلام نہ کرے۔
(مجموعه رسائلِ امام غزالی، رساله ادب فی الدین، آداب المرأة فی نفسھا، ص442)
حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم المعروف اماں جانؓ کے پردے کا معیار اور دیگر صحابیاتؓ کے مثالی نمونےحضرت شیح یقوب علی عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف‘‘ سیرت حضرت سیدہ نصر ت جہاں بیگمؓ ’’ میں لکھتے ہیں:
’’حضرت ام المومنین ؓشرعی پردہ کی سختی سے پابند ہیں ۔ آپ کبھی بےنقاب نہیں ہوتیں۔ چہرہ کو حتی الامکان چھپاتی ہیں۔ اگر کوئی خاص نقاب وغیرہ نہ ہو تو کم ازکم چہرہ کے آگےپنکھا رکھ لیتی ہیں یا کسی اور چیز کی اوٹ لے لیتی ہیں۔‘‘
(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصر ت جہاں بیگم ؓ مرتبہ شیح یقوب علی عرفانی، شیخ محمود احمد عرفانی صفحہ343)
لباس میں حیا اور پردے کا خیال
‘‘آپؓ کا لباس نہایت صاف، نفیس، سادہ اور پردے کے لحاظ سے بہت اچھا ہوتا ہے۔ یعنی نہ تو نئے فیشن کا نہ اس میں کوئی جدت۔ کوئی کپڑا ایسا باریک یا پتلا میں نے تو ان کم و بیش تیس سالوں میں نہیں دیکھا جس میں باقاعدہ پردے کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو ۔نہ کرتے کی آستینیں کبھی کم دیکھی ہیں۔ اچھی طرح لمبی آستینوں کی قمیض اور اگر ململ باریک ہو تو نیچے بنیان اوپر صدری ہوتی ہے۔’’
(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصر ت جہاں بیگم ؓ مرتبہ شیح یقوب علی عرفانی ،شیخ محمود احمد عرفانی صفحہ392)
پھر ذکر ملتا ہے۔۔۔ ‘‘حضرت اماں جان بہت خوش لباس تھیں ۔ خوبصورت رنگوں کے کپڑے پہنتی تھیں۔ لمبی قمیض، تنگ پاجامہ جس پر پٹی لگی ہوئی ہوتی تھی۔ بڑا ڈوپٹہ اوڑھتی تھیں جس پر چنٹ بھی ڈلی ہوتی تھی ۔۔۔ باہر جاتے ہوئے سفید رنگ کا ترکی کوٹ جس کی دو جیبیں بھی ہوتی تھیں اوپر گول ٹوپی والی ابری ہوتی تھی۔ چھتری لے کر چلتی تھیں ۔ اگر کوئی آدمی آجاتا تو چھتری کو نیچے کر کے پردہ کر لیتی تھیں۔’’
(بحوالہ خدیجہ رسالہ شمارہ 1/2013ء صفحہ 290)
خادمات کے پردے کا خیال
‘‘حضرت اماں جانؓ کے گھر میں بہت سی خادمات رہتی تھیں اور حضرت اماں جان ان کی مذہبی پابندی اور نیک کرداری کا ہر طرح خیال رکھا کرتی تھیں۔ حضرت ڈاکٹرمیرمحمد اسماعیلؓ ڈاکٹر ی پڑھ رہے تھے اور تعطیلات میں آتے تو ام المومنینؓ ان کے آنے سے بیشتر سب کو حکم دے دیتی تھیں کہ چھوٹی بڑی تمام مستورات ان سے پردہ کیا کریں۔ اس لئے کہ اب ان سے پردہ کا حکم ہے اور وہ ماشااللہ جوان ہو گئے ہیں۔’’
(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصر ت جہاں بیگم ؓ مرتبہ شیح یقوب علی عرفانی ،شیخ محمود احمد عرفانی صفحہ409)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ،حضرت امّ المؤمنین کو کس حدتک پردہ کرواتے تھے یا کیا طریق تھا۔ اس بارہ میں روایت ہے کہ ‘‘ حضرت ام المومنین کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا:
‘‘دراصل مَیں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاًجائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ؓکو لے جایا کرتے تھے ۔جنگوں میں حضرت عائشہؓ ساتھ ہوتی تھیں۔ پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلیدسے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں ۔حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہادیا ہے۔ اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں۔’’
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 557,558 ایڈیشن 2003)
حضرت ام المومنینؓ کا برقعہ بطور تحفہ دینا
ایک اور واقعہ ملتا ہے مولوی سید عبد الحلیم صاحب کنکی کی بیوی محترمہ مسرت النساء عرف روضہ بی بی سونگڑا (اڑیسہ) نے حضرت ام المومنین ؓ کی ایسی ہی عطاکا ذکر کیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ‘‘ 1938 میں مَیں پہلی بار قادیان گئی۔ اڑیسہ میں چونکہ برقعے کا رواج نہیں اس لئے میں مونگھیرکی ایک بہن سے ایک برقع مستعار لے کر آئی جو غلاف کی طرح سے تھا اور دامن کی طرف سے اوڑھا جاتا تھا اوراسی طرف سے نکالا جاتا تھا ۔مجھے اول تو برقعے کی عادت نہ تھی ،اور کچھ برقع غلاف کی طرح تھا۔ اسےپہن کر میں راستہ میں چل نہ سکتی تھی ۔ مائی کاکو صاحبہ مجھے مہمان خانے سے اس طرح لے گئیں جیسے کوئی اندھے کولے کر جاتا ہے۔اور اسی طرح لے جا کر مجھے اماں جان کے دربار میں کھڑا کر دیا ۔حاضرات مجلس نے قہقہہ مارا ۔برقعہ اتارا تو میری ساڑھی کا پلو اور بال سب الٹ گئے اور الجھ گئے۔حضرت اماں جان نے بعد جواب سلام و پرسش احوال پہلا سوال برقعہ کا کیا۔ میں نے حال سنایاتو آپ نے حکم دیا۔ ہمارا وہ برقعہ لاؤ۔برقعہ ہلکے زرد رنگ کا تھا اور مصری طرز کا تھا جس کے دو حصے تھے۔ ایک کوٹ کی طرح تھا۔ اور ایک سر پرچادر کی طرح فرمایا: اس کو پہن کر دیکھو ۔میں کھڑی ہوگئی اور پہن کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا اما ںجان اب تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ آپ ہنس پڑیں اور فرمایا ۔اس کو پہن کر قادیان میں آنا جانا کیا کرو ۔واپسی پر جب میں حاضر ہوئی تو برقعہ واپس دینے کو میں نے پوچھا۔فرمایا:تمہاری طرف تو استعمال نہیں ہوتا ۔تم لے کر کیا کرو گی ۔ میں نے عرض کیا اب جبکہ آپ نے عنایت کیا ہے تو ضرور استعمال کروں گی ۔اور اس عطا کے بعد میں اسے کیسے چھوڑ سکتی ہوں ۔مسکرا کر فرمایا اچھا لے جاؤ ۔غالباً یہ پہلا ہی برقعہ ہے جو صرف اور صرف مجھے حاصل ہوا۔’’
(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصر ت جہاں بیگم ؓ مرتبہ شیح یقوب علی عرفانی ،شیخ محمود احمد عرفانی صفحہ 292,293)
دخت کرامؓ کا مثالی پردہ
محترمہ امتہ الودودصاحبہ ربوہ صاحبہ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ ‘‘آپؓ پردہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابندی کرتی تھیں۔ آپؓ بیمار تھیں اور روزانہ ڈاکٹر آپؓ کو دیکھنے آتا تھا ۔لیکن حتی الامکان ڈاکٹروں سے پردہ کرتی تھیں۔ ایک دفعہ کسی نے عرض کی کہ ڈاکٹر تو آپ کوروزانہ دیکھنے آتا ہے۔ اور بیماری کی حالت میں اس نے آپ کودیکھا بھی ہے اس لیے اگر آپ ڈاکٹر سے پردہ نہ کریں تو کیا حرج ہے۔ فرمانے لگیں۔ اللہ کا حکم ہے عورت غیر مرد سے پردہ کرے اس لیے میں کیوں اللہ کے حکم کی نافرمانی کروں بیماری اور بے ہوشی کی حالت میں پردہ نہ کر سکنا تو ایک مجبوری ہے ۔چنانچہ آپ کا معمول تھا کہ جب ڈاکٹر آتا تو آپ اپنا چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اسی طرح آپ کے پاس جو لڑکیاں آپ کی خدمت کے لیے رہتی تھیں انہیں پردہ کرنے کی تلقین فرماتیں ۔ اور چھوٹے دوپٹے اوڑھنے سے منع کرتی تھی۔ فرماتیں کہ تم گھر میں بھی بڑی چادر اوڑھا کرو اس میں وقار ہے۔’’
(ماخوذ از: بحوالہ خدیجہ شمارہ سیرت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خواتین مبارکہ 1/2013صفحہ 172,173)
ڈاکٹر فہمیدہ منیر اپنے مضمون میں بیان کرتیں ہیں ‘‘حیا اور پاکیزگی کا بہت خیال تھا۔ بیماری میں جب بھی میں انہیں دیکھنے گئی ۔اشد مجبوری کی حالت کے علاوہ کبھی معائنہ کے لیے راضی نہ ہوتی تھیں۔ اور فرمایا کرتی تھیں۔ نرس کے طور پر صرف حلیم کو لایا کرو ۔نرس بدل کر ساتھ نہ لانا۔ شرم اور حجاب کی وجہ سے آخری دم تک لیڈی ڈاکٹر بھی بدلنے کے لئے تیار نہ ہو ئیں ۔’’
(بحوالہ خدیجہ شمارہ سیرت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خواتین مبارکہ صفحہ 378)
(مرسلہ: درثمین احمد جرمنی)